محمد معین
عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ شاہ
عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے میٹھے
اور پیارے پیارے اسلامی بھائیوں شکر ادا کرنے کے بے ہد فضائل و برکات ہیں ہمیں ہر
وقت اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اللہ کے بندوں کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے۔میرے
میٹھے اور پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اس دور میں ناشکری عام ہو گئ ہے اب دیکھا گیا
ہے کہ لوگ دوسرے لوگوں کا تو دور اللہ کا
شکر ادا نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس نا
شکری اور گناہ پہ گناہ کیے جا رہیں ہیں۔
پیارے اسلامی
بھائیوں ناشکری کی مذمت احادیث میں بے شمار جگہ پر بیان کی گئ ہے چنانچہ ہم آپ کے
سامنے چند احادیث بیان کرنے کی سعادت
حاصل کرتے ہیں۔
(1)-حضرت
نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے; حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا; ’’جو
تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا
اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے”۔ (شعب الایمان، الثانی
والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث:9119)
(2)-حضرت
کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر
انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ
سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا
ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ
نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس
نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے
لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں
) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول،
3 / 555، رقم: 93)
(3)-حضرت
حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ “اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ
فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے
اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی
نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے”۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ،
1 / 484، الحدیث: 60)
(4)-سرکارِمدینہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار عید کے روز عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے خواتین کی
طرف سے گزرے تو فرمایا: ''اے عورَتو! صَدَقہ کیا کروکیونکہ میں نے اکثر تم کو
جہنَّمی دیکھا ھے ''خواتین نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اس کی وجہ؟فرمایا:''اس لئےکہ تم لعنت بہت کرتی ھو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ھو”۔(صحیح البخاری ج۱ /ص123 /حدیث304)بحوالہ سُنّتِ نکاح تذکرہ امیرِاھلسُنّت
قسط نمبر3صفحہ نمبر83ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی۔
(5)-حضرت سیِّدُنامُغِیرہ
بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس
کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے
تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی
زائل نہیں ہوتی۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور اپنے لوگوں کا بھی شکر کرنے
والا بناۓاور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ رکھے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالی کی نعمتوں
کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں ۔(آمین ثم
آمین)
حافظ مبین
ضمیر عطّاری ( جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے پیارے
اور محترم اسلامی بھائیوں نا شکری کی مذمّت کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث میں
بہت سخت وعیدیں آئی ہیں تو میں آپ کو احادیث کی روشنی میں اس کی وعیدیں سناتا ہوں
میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں بسا اوقات ہم نا شکری کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں
پتہ نہیں ہوتا تو میں آپ کو اس کی مختلف صورتیں بتاتا ہوں جیسا کہ تمام اعضاء کو
اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں میں استعمال کریں اگر ان اعضاء سے نا
فرمانی والے کام کریں تو یہ نا شکری کہلائے گی ، اسی طرح مال اسباب میں نا شکری کی
صورت : جیسے
کسی کے مال و دولت دیکھ کر یہ سوچنا کہ اس کے پاس اتنا مال و دولت ہے اور میں دو
وقت کی بمشکل روٹی کماتا ہو یا یہ کہنا کہ فلاں کے پاس عالیشان عمارت ہے اور میرے
پاس دو کمرے اور وہ بھی ٹوٹے پھوٹے ہیں اسطرح دل میں گناہ کی نیت کرنا یہ بھی نا
شکری کہلائے گی اسطرح لوگوں کے پاس اتنی جائیداد ہوتی ہے اگر حالات کے متعلق پوچھا
جائے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ نے کچھ نہیں دیا تو یہ بھی نا شکری کہلائے گی تو میرے
پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں اب نا شکری کی مذمّت احادیث کی روشنی بیان کرتے ہیں
حدیث
نمبر 1حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی
نعمتوں کا شکر بیان کرنا شکر ہے اور نعمتوں کو بیان نہ کرنا نا شکری ہیں اور جو کم
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔حوالہ (
شعب الایمان رقم الحدیث 4419 مسند احمد جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 278)
وضاحت: میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کہ جو شخص کم نعمتوں کا
شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا شکر ادا بھی نہیں کر سکتا اس حدیث پاک سے
معلوم ہوا کہ اگر ہمیں کوئی چھوٹی سی بھی نعمت ملے تواس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے
کیونکہ جب ہم چھوٹی نعمتوں کا شکر ادا کریں گے تو ہمیں اللہ پاک بڑی نعمتوں سے
نوازے گا
حدیث
نمبر 2 :حضرت انس بن مالک رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ جس شخص نے دین
میں اپنے سے بلند مرتبہ شخص کو دیکھا اور دنیا میں اپنے سے کم مرتبے والے شخص کو دیکھا
تو اللہ تعالیٰ اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے اور جس نے دنیا میں اپنے سے بلند مرتبے والے شخص کو دیکھا اور دین میں اپنے سے کم مرتبے والے کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو صابر و شاکر نہیں لکھتاحوالہ(شعب
الایمان رقم الحدیث 4575 )اور یہ حدیث تبیان القرآن کی جلد نمبر 6 اور صفحہ نمبر 150 پر موجود ہے۔ وضاحت:
حدیث
نمبر 3:حضرت سیدنا ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
جب کسی شخص کے ساتھ بھلائی کرو تو
دوسرا اس کا شکریہ ادا کرے اور اگر شکریہ
ادا نہ کرے تو بھلائی کرنے والا دوسرے شخص کے خلاف دعا کر دے تو وہ بد دعا قبول ہو
جاتی ہے حوالہ حدیث نمبر 3 : (کتاب کا نام۔ دین دنیا کی انوکھی باتیں جلد نمبر 1
صحفہ نمبر 517 اور فضلہ الشکر ما ذکرہ من کفر صنیعتہ 1 /70/ حدیث نمبر 103)
وضاحت : میرے
پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے ہمارے
ساتھ اچھا سلوک کیا ہیں تو ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اپنے رب تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ حدیث نمبر 4: حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی کہ اللہ تعالیٰ جب
کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو اس سے شکر کا سوال کیا جاتا ہے اگر وہ شکر کریں
تو وہ ان کی نعمت کو زیادہ کر دیں گا اور اگر نا شکری کرے تو وہ ان کو عذاب دینے
پر قادر ہے اور ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے حوالہ ( رسائل ابن ابی دنیا
جلد نمبر 3 جز 2 رقم الحدیث 60 )۔ وضاحت:میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کہ ہم اگر ایک نعمت
کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اور زیادہ دیں گا دیکھو شکر ادا کرنے میں
بھی ہمارا ہے فائدہ ہے کیونکہ اگر ہم ایک کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں
اور زیادہ دیں گا تو ہمیں چاہیے کہ ہم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں آمین
ثم آمین
محمد اسامہ عطاری (درجۂ خامسہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ناشکری اللہ
عزوجل کو نآپسند یدہ ہے اور اللہ عزوجل کی ناراضگی کا سبب ہے۔ناشکری بہت بری عادت
ہے اور ایک بڑا گناہ ہے۔جس طرح شکر گزاری پر نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح
ناشکری پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب اور سزا بھی دی جاتی ہے۔اس کے بارے میں
قرآن و حدیث میں کئی وعیدیں آئی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کئی نقصان بھی ہیں احادیث
مبارکہ کی روشنی میں ناشکری کی مذمت بیان کرنے کی کوشش کروں گا پڑھیے اور علم و
عمل میں اضافہ کیجئے۔
1) لوگوں کی ناشکری:روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو لوگوں کا شکریہ ادا نہ کرے وہ اللّٰه کا شکریہ
بھی ادا نہ کرے گا ۱؎ (احمد،ترمذی)۔ حدیث کی
شرح: سبحان اللّٰه! کتنا عالی مقام ہے،بندوں کا ناشکرا رب کا بھی
ناشکرا یقینًا ہوتا ہے،بندہ کا شکریہ ہر طرح کا چاہیے دلی زبانی،عملی یوں ہی رب کا
شکریہ بھی ہر قسم کا کرے،بندوں میں ماں بآپ کا شکریہ اور ہے،استاد کا شکریہ کچھ
اور شیخ بادشاہ کا شکریہ کچھ
اور۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:3025)
2)تھوڑی
نعمتوں کا ناشکر:حضرت نعمان بن بشیر
رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا
اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی
والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع،6/516 الحدیث: 9119)
3)
ناشکری کا انجام:حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،
مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب
کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ
شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے
اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی
نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ،
1 / 484، الحدیث: 60)
4)
ناشکر کے لیے جہنم کا طبق: حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ
تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر
ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے
دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند
فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا
اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع
اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ
چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی
الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم: 93)
5)
نا شکری سے رزق کا چلے جانا:ابن
ماجہ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس
کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز
(یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘ (2) یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی
قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔( ’’ سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ،باب النہی عن إلقاء الطعام، الحدیث: 3353 ،ج4 ،ص49)
6)ناشکری
نے ہلاک کر ڈالا:حضرت سید نا ابو
حازم عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ الاكرم فرماتے ہیں: الله عَزَّ وَ جَلَّ کا مجھ سے
دنیا کو روک لینا مجھے دنیا عطا کرنے سے زیادہ بڑی نعمت ہے کیونکہ میں نے ایک ایسی
قوم دیکھی جسے اللہ عزوجل نے نعمتیں عطا فرمائیں تو وہ (ناشکری کی وجہ سے ) ہلاک
ہو گئی(حلية الأولياء ، الرقم 240سلمة بن دينار الحديث : 3925، ج 3، ص270)
اللہ تعالیٰ ہمیں شکر ادا کرنے اور ناشکری سے بچنے کی
توفیق عطاء فرمائے۔اٰمین بجاہ خاتم النبین.
عبد الرحیم
عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ہر دور میں
اللہ تعالیٰ اجتماعی اور انفرادی طور پر مسلمانوں کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا
ہے، مصائب و آلام سے نجات دے کر راحت و آرام عطا کرتا ہے۔ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کی
ناشکری کرتے، یادِ خدا سے غفلت کو
اپنا شعار بنا لیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے برے اعمال کی کثرت کی وجہ سے خود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نا اہل ثابت
کر دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمتیں وآپس لے لیتا
ہے۔ عالمی سطح پر عظیم سلطنت رکھنے کے بعد مسلمانوں کا زوال، عزت کے بعد ذلت،
فتوحات کے بعد موجودہ شکست وغیرہ اس چیز کی واضح مثالیں موجود ہیں۔چنانچہ قرآن میں
بھی ناشکری کی مذمت کی گئی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :لَبِنْ
شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد(پ،13۔س،ابراھیم۔آیت:7) ترجمه کنز العرفان: اگر
تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو
گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں بھی ناشکری کی مذمّت بیان کی گئی
ہے
(1)
نعمت کو بیان نہ کرنا حضرت نعمان
بن بشیر رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے۔حضورِ اقدس صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ”جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا
نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں
کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان
کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان،الثاني والستون من
شعب الايمان --- الخ، فصل في المكافأة بالصنائع، 6/ 516، الحدیث: 9119)
(2)نعمت
کا عذاب بن جانا حضرت حسن رَضِيَ
اللهُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی
قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے ، جب وہ شکر
کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں
تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا
ہے۔( رسائل ابن ابی دنیا،کتاب الشكر الله عز وجل، 1/ 484، الحدیث: 69)
(3)
نعمتوں کا احترام کیا کروابن ماجہ
نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم مکان میں تشریف لائے ، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر
پونچھا پھر کھا لیا اور فرمایا: ”عائشہ ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی
روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی ۔ یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی
قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔(سنن ابن ماجه ، كتاب الأطعمة، باب
النهي عن إلقاء الطعام، الحديث:3353۔ج4۔ص49)
(4)ایک
نعمت ساری نیکیاں لے جائے گی حضرت
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ سرکار والا تبار ، ہم بے
کسوں کے مددگار ، باذن پروردگار دو عالم کے مالک و مختار عَزَّوَجَلَّ وصلى الله
تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن
نعمتیں نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ لائی جائیں گی تو اللہ تعالیٰ اپنی ایک
نعمت سے ارشاد فرمائے گا :” اس کی نیکیوں میں سے اپنا حق لے لے تو وہ اس کے لئے کوئی
نیکی باقی نہیں چھوڑے گی۔(الفردوس بماثور الخطاب، الحديث : 8763، ج 5، ص 462)
(5)خدا
عَزَّ وَجَلَّ کا پیارا بندہ اور نا پسندیدہ بندہ:حضرت سید نا بکر بن عبد الله رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنه
مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جس کو خیر سے نوازا جائے اور اس پر اس کا اثر دکھائی دے
تو اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا پیارا اور اس کی نعمت کا چرچا کرنے والا کہا جاتا ہے
اور جس کو خیر عطا کی جائے لیکن اس پر اس کا اثر دکھائی نہ دے تو اسے الله عَزَّ
وَ جَل کا ناپسندیدہ اور اس کی نعمتوں کا دشمن کہا جاتا ہے۔(حلية الأولياء ، الرقم
٢٤٠ سلمة بن دينار الحديث : 3925، ج 3،ص27 )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ناشکری سے بچاتے ہووے اپنا مطیع و فرمانبردار اور شکر گزار بندہ بنائے آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیوں جہاں احادیث کریمہ میں شکر کے فضائل آے ہیں وہاں ناشکری کی مذمت پر
احادیث کریمہ آئی ہیں آئیے اب ہم ناشکری کی مذمت پر احادیث کریمہ پڑھتے ہیں
1- حضرت سیدنا
امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ " جب اللہ
پاک کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر کا مطالبہ فرماتا ہے _اگر وہ اس
کا شکر کریں تو اللہ پاک انہیں زیادہ دینے پر قادر ہے اور اگر ناشکری کریں تو انہیں
عذاب دینے پر بھی قادر ہے _وہ اپنی نعمت کو ان پر عذاب سے بدل دیتا ہے(شعب الإيمان
للبيھقی، باب فی تعدید نعم اللہ، الحدیث :4536ج4،ص 127.)
2- حضرت سیدنا
عبد اللہ بن عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ جب اللہ پاک کی کسی نعمت کو دیکھتے تو یہ
دعا پڑھنے سے پہلے اس سے نگاہ کو نہ پھیرتے :اے اللہ پاک میں تیری نعمت کو ناشکری
سے بدلنے یا اس کی معرفت کے بعد اس کا انکار کرنے یا اس کو بھلا کر اس کی تعریف نہ
کرنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں _،،(شعب الإيمان للبيھقی، باب فی تعدید نعم اللہ،
الحدیث :4545،ج4، ص129.
3- حضرت سیدنا
کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک دنیا میں جس بندے کو اپنی کوئی نعمت عطا فرمائے، پھر وہ اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کرےاور اس کے سبب
اللہ پاک کیلئے تواضع کرے تو اللہ پاک دنیا میں اس کو اس نعمت کا نفع عطا فرمائے
گا اور اس کی وجہ سے آخرت میں اس کا درجہ بلند فرمائے گا اور اللہ پاک دنیا میں کسی
بندے کو نعمت عطا کرے لیکن وہ نہ تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرے اور نہ ہی اس کے
سبب اللہ پاک کیلئے تواضع کرے تو اللہ پاک دنیا میں اسے نہ صرف اس کے نفع سے محروم
کردے گا بلکہ اس کیلیے آک کا ایک طبقہ (درجہ) کھول دے گا اگر چاہے گا تو اسے عذاب
میں مبتلا فرمائے گا اور چاہے گا تو معاف فرمادے گا ۔ (شکر کے فضائل ص 103)
4 -امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے فرمایا نعمتوں
کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجاے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزید فرماتے ہیں:جب تمہیں یہاں
وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دور نہ کرو۔(دین
ودنیا کی انوکھی باتیں، ص515)
5- ام
المؤمنين حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، تاجدار مدینہ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم اپنے مکان عالیشان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا
ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھا لیا فرمایا، عائشہ (رضی اللہ عنہا) اچھی چیز
کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہےلوٹ کر نہیں آئی ۔(سنن
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ، باب النھی عن القاء الطعام، الحديث 3353،ج2،ص29) یعنی اگر
ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا ۔
6- حضرت سیدنا
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تو اس کا شکر ادا کر
اور جو تیرا شکریہ ادا کرے تو اسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں
رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی ۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص512)
7_رسول اللہ
صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا۔یہ
سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!
اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں۔تو نبی پاک علیہ السلام نے
فرمایا عورتوں میں دو بری خصلتوں کی وجہ سے ۔ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت زیادہ
لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں
چنانچہ تم عمر بھر ان عورتوں کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کرتے رہو ۔لیکن اگر کبھی ایک
ذرا سی کمی تمھاری طرف سے دیکھ لیں گی تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم سے بھلائی
دیکھی ہی نہیں ۔(صحیح البخاری، کتاب الایمان ۔21-باب کفران العشیرو کفر دون کفر،
رقم 29،ج١،ص 23وایضا فی کتاب النکاح 89،باب کفران العشیرو وھو الزوج الخ، رقم
5191،ج3)
8- سرور کونین
صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک بار عید کے روز عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے خواتین
کی طرف سے گزرے تو فرمایا :"اے عورتوں !صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے اکثر تم
کو جہنمی دیکھا ہے"خواتین نے عرض کی.: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
اس کی وجہ؟ فرمایا.:"اس لیے کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔(صحیح البخاری ج1 ص123حدیث303 ) بحوالہ سنت نکاح
تذکرہ امیر اھلسنت قسط نمبر3 صفحہ نمبر83ناشر مکتبہ المدینہ کراچی۔
پیارے اسلامی
بھائیوں ناشکری باعث ہلاکت ہے........ ناشکری
بے برکتی کا سبب ہے...... ناشکری نعمتوں میں رکاوٹ ہے...... ناشکری کرنے والا اللہ
والا نہیں ہوسکتا.......... ناشکری رب کی نافرمانی ہے........ ناشکری نعمت کو ختم
کرنے کا سبب ہے........... ناشکری کرنے سے رب ناراض ہوتا ہے ۔
اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو ناشکری سے بچائے اور اللہ پاک ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنائے
شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ دعوت اسلامی کے تحت شعبہ ذمہ دار صوبہ پنجاب محمد فہیم عطاری نے11مئی2024ء کو کنٹونمنٹ بورڈ ٹاؤن لاہور میں واقع شہید اوراق مقدسہ کےا سٹور کا وزٹ کیا جہاں مبلغ دعوت اسلامی نے شعبہ ذمہ داران کی
کارکردگی کو سراہا اور اپنے شعبے کے اہداف پورے کرنے کا ذہن دیا۔
شعبہ ذمہ دار صوبہ پنجاب محمد فہیم عطاری نے شعبہ ذمہ داران اور لاہور ڈویژن ذمہ داران سمیت دیگر عاشقان رسول سے ملاقات کی اور شعبے کے مدنی کاموں کو بڑھانے
کے حوالے سے کلام کیا جس پر شعبہ ذمہ داران اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں
واپس جا کر دیگر مدنی کاموں کے ساتھ اپنے
شعبے کے مدنی کاموں کو بڑھانے کی نیتیں کیں۔(پورٹ:محمد ناصر عطاری شعبہ ذمہ دار
ڈسٹرکٹ شیخوپورہ،کانٹینٹ:شعیب احمدعطاری)
فیصل آباد ڈویژن کی تحصیل کمالیہ میں اجتماعی
قربانی اور قربانی کی کھالوں کے گودام کے حوالے سے مشورہ
11مئی بروز ہفتہ فیصل آباد ڈویژن کی تحصیل کمالیہ میں ذمہ داران دعوت اسلامی کے ساتھ اجتماعی قربانی اور قربانی کی کھالوں کے
گودام کے حوالے سے مشورہ ہوا جس میں
مدرستہ المدینہ اور جامعۃ المدینہ کے ناظمین کرام نے شرکت کی ۔
مشورے میں نگران ڈویژن مشاورت حاجی محمد سلیم
عطاری نےحاضرین کی اجتماعی قربانی کے
مقامات اور قربانی کی کھالوں کو جمع کرنے اور گوادم کے متعلقہ تربیت فرماتے ہوئے ذمہ
داران کو 12 دینی کاموں میں عملی طورپر
شرکت کرنے کا ذہن دیا جبکہ ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی سمت فکس کی اور اہداف
طے کیےجس پر ناظمین صاحبان نے اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔
اس
موقع پر نگران ٹوبہ ڈسٹرکٹ مشاورت اور نگران تحصیل مشاورت کمالیہ سمیت مختلف ذمہ داران نے بھی شرکت کی۔(محمد عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و
مدنی مذاکرہ)کانٹینٹ:شعیب احمد عطاری)
فیصل آباد ڈویژن کی تحصیل سمندری میں اجتماعی
قربانی اور قربانی کی کھالوں کے گودام کے حوالے سے مشورہ
11مئی 2024ءبروز ہفتہ فیصل آباد ڈویژن کی تحصیل سمندری میں اجتماعی
قربانی اور قربانی کی کھالوں کے گودام کے حوالے سے مشورہ ہوا جس میں مدرستہ المدینہ
اور جامعۃ المدینہ کے ناظمین کرام سمیت دیگر عاشقان رسول نے شرکت کی ۔
نگران ڈویژن مشاورت حاجی محمد سلیم عطاری نے
اجتماعی قربانی کے مقامات اور قربانی کی کھالوں کو جمع کرنے اور گوادم کے متعلقہ
تربیت فرماتے ہوئے ذمہ داران کو 12 دینی
کاموں میں عملی طورپر شرکت کرنے کا ذہن دیا۔جبکہ ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی
سمت فکس کی اور اہداف طے کیےجس پر ناظمین صاحبان نے اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔
اس موقع پر نگران فیصل آباد ڈسٹرکٹ مشاورت محمد
نعیم عطاری ،نگران تحصیل مشاورت اور مختلف ذمہ داران نے بھی شرکت
کی۔(محمد عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و
مدنی مذاکرہ)کانٹینٹ:شعیب احمد عطاری)
ملیر ماڈل ٹاؤن میں واقع ڈسٹرکٹ ملیر کورٹ میں مکتبۃالمدینہ
کے بک فیسٹیول
مورخہ 13 مئی بروز پیر کراچی سٹی کے ڈسٹرکٹ کورنگی کی یو سی 2 ملیر
ماڈل ٹاؤن میں واقع ڈسٹرکٹ ملیر کورٹ میں مکتبۃالمدینہ کے بک فیسٹیول کا آغاز ہوا۔
نگران شعبہ رابطہ برائے وکلاء پاکستان حاجی عبدالواحد عطاری اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن
جج ملیر عبدالرزاق میمن نے بک فیسٹیول کا افتتاح کیا۔
ملیر بار کے صدر ناصر رضا رند، جنرل سیکریٹری
شیر خان راہوجو سمیت دیگر عہدیداران نیز شعبہ رابطہ برائے وکلاء کراچی سٹی ذمہ
دار، ڈسٹرکٹ کورنگی، ڈسٹرکٹ ملیر 1 اور ڈسٹرکٹ ملیر 2 کے ڈسٹرکٹ ذمہ داران بھی اس
موقع پر موجود تھے۔ وکلاکی بڑی تعداد نے بک فیسٹیول کا وزٹ کیا۔ ذمہ داران نے بک
فیسٹیول کا وزٹ کرنے والے وکلا کو بک فیسٹیول میں موجود کتب اور فیضانِ قرآن
ڈیجیٹل پین کا تعارف پیش کیا۔ اس موقع پر رابطہ برائے وکلاڈسٹرکٹ کورنگی کے رکن
پیر شفیق الرحمن ایڈووکیٹ نے ڈسٹرکٹ جج ملیر عبدالرزاق میمن کو فیضانِ قرآن ڈیجیٹل
پین کا تحفہ پیش کیا۔(رپورٹ: محمد
صہیب یوسف عطاری ایڈووکیٹ معاون شعبہ رابطہ برائے وکلاء کراچی سٹی)
فیضان مدینہ کراچی میں شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں کا تربیتی اجتماع
شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں کے تحت
12مئی2024ء بروز اتوارعالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں تربیتی اجتماع جس میں ڈسٹرکٹ معاونت ذمہ
دار ن اور ٹاؤن معاونت ذمہ دارن نے شرکت
کی ۔
تربیتی اجتماع میں محمد عرفان عطاری اور رکن شوریٰ ابو ماجد حاجی شاہد عطاری مدنی
نے شعبے کی بریفنگ دی اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر کام کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے اسلامی بہنوں کی طرف سے آنے والے مسائل اور انکے
حل پر کوشش کرنے کا ذہن دیاجبکہ اسلامی بہنوں کے مراکز اور شعبہ جات سمیت دیگر دینی کاموں پر کلام کیا ۔(رپورٹ:محمد ذیشان رضا عطاری اسسٹنٹ کراچی سٹی
شعبہ ذمہ دار،کانٹینٹ:شعیب احمد عطاری)
ناشکری ایک ایسا
مضموم فعل ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول ناراض ہوتا ہے فطری طور پر نہیں چاہتا کہ اس کا مال کم ہو
بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا مال بڑھ جائے اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کا مال بڑھ جائے
تو اس کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے لہذا اللہ پاک قران پاک میں ارشاد فرماتا
ہے ( لئن شکرتم لازیدنکم
)۔ اگر میرا شکر ادا کرو گے تو میں اور زیادہ
عطا کروں گا پاک کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اللہ پاک اس سے زیادہ دیتا ہے.
اس سے معلوم
ہوا اللہ کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ نعمتوں کو بڑھا دیتا ہے لہذا انسان کو
اللہ تعالی کی تھوڑی سی تھوڑی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے جیساکہ
حدیث
: 1 ایک حدیث میں حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی
اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو
تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں
کرتا وہ اللہ پاک کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ پاک کی نعمتوں کو بیان کرنا
بھی شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ ( شعب الایمان الثانی والستون من ششعب لایمان الخ فصل فی ا لمکافات باصناہع
حدیث 51 ص 9119 )
اس سے معلوم
ہوا کہ دنیا میں اگر کوئی ہماری مدد کرے تو ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ
جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا اور ہمیں ہروقت اللہ پاک کی نعمتوں کو بیان کرتے
رہنا چاہیے اور جب ہمیں کوئی نعمت ملے تو ہمیں اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا
چاہتے کہ کہیں وہ نعمت ہم سے زائل نا ہو جائے جیسا کہ ایک حدیث میں
حدیث
: 2 حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
نعمتوں کے زوال سے بچو کیونکہ جو زائل ہو جائے وہ پھر سے نہیں ملتا اور مزید
فرماتے ہیں کہ جو تمہیں یہاں سے وہاں سے نعمتیں ملنے لگی تو نہ شکرے بن کر ان کے
تسلسل کو دور نہ کرو ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص 515 ) اس سے معلوم ہوا کہ جب
ہمیں یہاں وہاں سے نعمتیں ملنے لگی جائیں تو ہمیں نا شکرا نہیں بننا چاہیے
اے پیارے اور
محترم اسلامی بھائیو اللہ پاک نے آپ کو جو نعمتیں مال کی صورت میں دی ان کو ضرورت
مند رشتہ دار و عزیز و اقارب دوست احباب دین کی راہ میں دیتے رہیں ناشکری نہ کریں
آپ کی نعمتیں بڑھتی رہیں گی اور اگر جو نعمت کی ناشکری کی تو پہلی بھی وبال جان
بن جائیں گے جیسا کہ
حدیث
: 3 اور حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے
شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالی ان کی نعمت کو زیادہ
کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالی ان کو عذاب دینے پر قادر ہے
اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے( رسائل ابن ابی دنیا کتاب شکر اللہ
عزوجل ص 484 حدیث 60 )
اس سے پتا چلا
کہ اگر نعمت ملنے پر ہم نا شکری کرتے ہیں تو وہ نعمت ہمارے لیے عذاب بن سکتی ہے
لہذٰا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر کوئی ہمارا شکریہ ادا کرے تو ہمیں اسے نعمت سے
نوازنا چاہیے جیسا کہ
حدیث
:4 حضرت سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی
عنہ فرماتے ہیں جو تجھے نعمت عطا کرے تو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا
کرے تو اسے نعمت سے نواز کیوں کہ ناشکری سے
نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی ۔ ( دین دنیا کی انوکھی باتیں )
پتا چلا کہ ہمیں
شکریہ ادا کرنے والوں کو نعمت سے نوازنا چاہیے اور نعمت سے نواز نے والوں کا شکر
ادا کرنا چاہیے اور عورتوں کو بھی چاہیے
کہ وہ اپنے خاوند کا شکریہ ادا کیا کریں جیسا کہ
حدیث
،5 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عورتوں کے گروہ تم صدقہ
دو اور اپنے رب سے بخشش کی دعا کرو تو ایک عورت نے پوچھا یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیسے تو آپ نے
فرمایا کیونکہ تم زیادہ لعن تعن کرتی ہو اور اپنے خاوند کی نا شکری کرتی ہو۔ ( صحیح مسلم حدیث
نمبر 149 ) اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو آ پنے خاوند کی نا شکری نہیں کرنی چاہیے
اللہ تعالی ہم
سب کو اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم امین
ابو شہیر تنویر احمد عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اَلَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا: {جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل
دیا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے کفار کے برے احوال کا ذکر فرمایا ہے
۔(تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: 28، 7/ 94) 1)بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جن لوگوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا ان سے مراد کفارِ مکہ ہیں اور وہ نعمت جس کی انہوں نے شکر گزاری نہ کی وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہ ُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔ (بخاری،
کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، 3 / 11، الحدیث: 3977)
2)آیت
کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو عالَم کے سردار، محمدمصطفٰی صَلَّی
اللہ ُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وجود سے کفارِ قریش کو نوازا اور
ان کی زیارت سرآپا کرامت کی سعادت سے مشرف کیا، ا س لئے ان پرلازم تھا کہ وہ اس
نعمت ِجلیلہ کا شکر بجا لاتے اور ان کی پیروی کرکے مزید کرم کے حق دار ہوتے لیکن
اس کی بجائے انہوں نے ناشکری کی اور نبی
اکرم صَلَّی اللہ ُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار کیا اور اپنی قوم کو جو دین میں ان کے موافق تھے
ہلاکت کے گھر میں پہنچا دیا۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: 28، 3 / 84)
وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَاور جو اس کے بعد ناشکری کرے۔} یعنی جو اس وعدے کے بعد نعمت کی ناشکری کرے گا تو وہی
فاسق ہیں کیونکہ انہوں نے اہم ترین نعمت کی
ناشکری کی اور اسے حقیر سمجھنے پر دلیر ہوئے۔
3)مفسرین
فرماتے ہیں کہ اس نعمت کی سب سے پہلی جو
ناشکری ہوئی وہ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کرنا ہے۔( مدارک، النور، تحت
الآیۃ: 55، ص788)
{لَىٕنْ
شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ:
{اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔}
4)حضرت موسیٰ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ
اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر
ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت
کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5، 4/ 399-400)
5) حضرت نعمان
بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا
اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی
والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث:
9119)
6)حضرت
حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ
جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب
وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے
اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی
نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ،
1 / 484، الحدیث:60)
7)ابن ماجہ نے
ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس
کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز
(یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘
(2) یعنی
اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔
شکر
کرنے کے بارے میں ترغیب ان آیتوں
سے معلوم ہوا کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی
بنائے۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ بندہ
جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا
مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول
ہوتا ہے ،اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ
مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت یہاں تک غالب ہو جائے کہ دل کا نعمتوں کی
طرف میلان باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقوں کا
ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: 7، 3 /
76)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔