محمد تنویر عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ
گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
حضرت
انسان سکون کے لئے دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبے ہوئے دن رات کوشاں
ہے ۔ دوست احباب دنیاوی تعلقات کی مضبوطی کو بحال رکھنے کے لئے خالق کائنات عزوجل
کی نافرمانیوں کی فہرست بڑھتی ہی جا رہی ہےجبکہ اللہ پاک ان
نافرمانیوں کے باوجود بندوں کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے ۔حالانکہ بندے کو تو چاہیے تھا کہ رب العالمین کی
عطا کردہ نعمتوں پر شکر کے سجدے کرتا اور اپنے ضمیر کو بیدار کرتے ہوئے خالق
کائنات عزوجل کی عطاؤں پر سجدوں کی کثرت کرتا جاتا ۔مگر ہاۓ افسوس ! جیسے جیسے خالق کائنات عزوجل کی
عطائیں بڑھتی گئی میں شکر حقیقی کرنے کی
بجائے خطاؤں کو بڑھا تا گیا
آئیے قارئین
کرام ! چند احادیث مبارکہ سے ناشکری کی مذمت پڑھتے ہیں اور اپنے دل و دماغ کو شکر کی لگام ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
من لم یشکر القلیل لم یشکر الکثیر ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، مسند الکوفیین، حدیث
النعمان بن بشیر، الحدیث: 18477، ج6،
ص394۔ جس نے تھوڑے احسان کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا بھی شکر نہیں کیا۔ شکریہ
کسی چیز کا بدلہ دے کر یا تعریف یا دعا کر کے ادا کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ترمذی شریف
کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ، (رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکا فرمانِ عالیشان ہے :''جسے کوئی چیز
عطا کی گئی اگر وہ استطاعت رکھے تو اس کا بدلہ دے، اگر استطاعت نہ ہو تو اس کی تعریف
کر دے کیونکہ جس نے تعریف کی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے اسے چھپایا اس نے ناشکری
کی۔'' (جامع الترمذی،ابواب البر والصلۃ،باب
ماجاء فی المتشبع۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: 2034،ص 1855)
حضرتِ سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃُ
الِّلْعٰلمین، شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین، مَحبوبِ ربُّ
العلمین، جنابِ صادق و امين صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا،''
اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے ابن آدم !جب تو میرا ذکر کرتا ہے تو میرا شکر کرتاہے
اور جب مجھے بھول جا تا ہے تو میری ناشکری کرتا ہے۔ '' (طبرانی اوسط ،من اسمہ محمد
، رقم 7265 ج 5،ص 261)
جنتی
عمل حضرتِ سَیِّدُناعبداللہ بِنْ عَمْرو رضی اللہ عنہ مَا فرماتے ہیں کہ آقائے دو جہاں
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگا ہ میں ایک شخص نے حاضر
ہوکر عرض کیا:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! جنتی عمل کون سا ہے ؟ آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:سچ بولنا ،بندہ جب سچ بولتا
ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب محفوظ ہوجاتا ہے
تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر اس شخص نے عرض کی:یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! جہنم میں لے جانے والا عمل کونسا ہے ؟ فرمایا:جھوٹ
بولنا، جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتاہے اور جب گناہ کرتاہے توناشکری کرتا ہے
اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتاہے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ
بن عمرو بن العاص، 2/589، حدیث:6652)
احادیث
مذکورہ سے ایک صاحبِ عقل کو ناشکری کی
مذمت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔ انسان ہر جگہ پریشان ہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو نعمتیں موجود ہیں ان پر شکر کی مقدار کو
بڑھانے کے بجائے ناشکری کرتے ہیں ہوۓ اپنی بے جا خواہشات کی تمنا میں مارا مارا پھرتا
ہے۔ ناشکرا انسان یہ سمجھ بیٹھا کج دولت کی
فراوانی میں سکون و اطمینان ہے ۔
اے ناشکری پر
قائم انسان! اگر تو دنیا کے امیر ترین
لوگوں کی فہرست کو بھی چھان مارے تجھے ایک بات مشترک مکے گی کہ مال کی کثرت
کہ باوجود وہ اس موجودہ پر شکر کرنے کی بجاۓ مزید
خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے رب کے
ہاں سجدہ ریز ہونے کے لئے بھی وقت نہ
رہا ۔ ہاۓ افسوس
اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ وہ اپنے نیک شاکر بندوں کے صدقے ہم ناشکروں کو شکر حقیقی
کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
سید زاہد علی (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار
لاہور، پاکستان)
اللہ جلّ شانہ
کی لاتعداد نعمتیں عالم دنیا کے ہر ہر ذر
ے پر بارش کے قطروں سے زیادہ ، دنیا بھر کے سمندروں میں موجود پانی کے قطروں سے زیادہ
، اس عالم میں موجود ریت کے ذروں سے بڑھ کر ہر لمحہ ہر گھڑی بغیر کسی رکاوٹ کے برس
رہی ہیں۔قرآن عظیم میں ہے!وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ
وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ: ترجمہ ۔اور بیشک ہم نے تمہیں زمین میں جماؤ دیا
اور تمہارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔ الاعراف (10)
یہاں سے خدائے
متعال نے اپنی عظیم نعمتوں کو یاد دلایا ہے یقیناً اللہ پاک کی
لامتناہی(بے شمار) نعمتیں ہم پر ہر وقت چھما چھم برس رہی ہیں جن کا شکر ادا کرنا
ابن آدم پر لازم ہو جاتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ’’ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانہ دیا
اور تمہارے لئے اس میں زندگی گزارنے کے اسباب بنائے اور اپنے فضل سے تمہیں راحتیں مہیا کیں ، غذا، پانی، بجلی، ہوا، سورج کی روشنی یہاں تک کہ بدنِ انسانی کا
ہر ہر عضو سب اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن اس کے باوجود
لوگوں میں ناشکری کی نحوست غالب ہے۔ لوگوں کی کم ہی تعداد شکر ادا کرتی ہے اور جو
شکر کرتے ہیں وہ بھی کما حقہ ادا نہیں کرتے۔یقیناً نعمتوں کی بے قدری اور ناشکری
اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب بھی ہے، اور اسکی نحوست سے نعمتں چھن جاتی ہیں۔
ام المؤمنین
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نور کے پیکر ، تمام نبیوں
کے سرور، دو جہاں کے تاجور ، سلطانِ بحر و بر صلی اللہ تعَالٰی عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسَلَّم میرے پاس تشریف لائے اور روٹی کا ایک ٹکڑا گرا ہوا دیکھا، تو اسے (اٹھا
کر ) پونچھا اور ارشاد فرمایا: اے عائشہ اللہ عزوجل کی نعمتوں کا احترام کیا کرو۔
اس لئے کہ جب یہ کسی اہل خانہ سے روٹھ کر چلی جاتی ہیں تو دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں
۔شعب الايمان للبيهقي، باب في تعديد نعم الله الحديث: 4557، ج 4، ص 132۔
شکر کرنے سے
نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے چنانچہ حضرت سیدنا عطارد قرشی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی
ہے کہ حضور نبی مکرم نور مجسم صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم
نے ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل اپنے بندے کو شکر کی توفیق عطا فرماتا ہے تو پھر اسے
نعمت کی زیادتی سے محروم نہیں فرماتا۔ (شعب الايمان للبيهقي، باب في تعديد نعم
الله الحديث : 4526، ج 4، ص 124۔)
کیونکہ اس کا
فرمانِ عالیشان ہے:لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ۔ترجمہ کنز الایمان: اگر احسان مانو گے تو میں
تمہیں اور رَحْمَةُ اللهِ الْقَوِی فرماتے
ہیں: بیشک الله عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ
پہنچاتا رہتا ہے اورجب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لئے عذاب
بنا دیتا ہے۔(الدر المنثور، پ 2 البقرة، تحت الآية 152، ج 1، ص 369۔)
گناہوں
کو چھوڑ دینا بھی شکر ہےحضرت سید
نا مخلد بن حسین ازدی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:شکر کے بارے میں ایک قول یہ
ہے کہ بندہ گناہوں کو چھوڑ دے ۔(الدر المنثور، ب 2 البقرة، تحت الآية 152، ج 1، ص
371۔)
اللہ
عَزَّ وَجَلَّ کی محبت پانے کا ایک ذریعہ حضرت سیدنا ابوسلیمان واسطی علَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ الْكَافِی فرماتے ہیں:الله
عزوجل کی نعمتوں کو یاد کرنے سے دل میں اس کی محبت پیدا ہوتی ہے ۔(تاريخ مدينة
دمشق لابن عساكر، الرقم 4133 عبد العزيز، ج 36، ص 334۔)
ہمیں ہر وقت
اللہ پاک کی نعمتوں کو یاد کرنا چاہیے اور ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے رہنا
چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں شکر کرنے والوں میں شامل فرمائے۔ آمین
محمد نعمان جمیل (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
نا شکری کے
بارے میں حکم خداوندی: فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ
وَ لَا تَكْفُرُوْنِ(152)ترجمہ:
کنزالایمانتو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری
ناشکری نہ کرو۔
تفسیر: صراط الجنان: جب کفرکا لفظ شکر کے مقابلے میں آئے تو اس
کا معنی نا شکری اور جب اسلام یا ایمان کے مقابل ہو تو اس کا معنی بے ایمانی ہوتا
ہے۔ یہاں آیت میں کفرسے مراد ناشکری ہے۔
شکر
کی تعریف : شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و
نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کہ میرا
شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان
لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا تو یہ شکر ادا کرنا ہے۔ (احیاء
علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، الشطر الثانی، بیان طریق کشف الغطاء ۔۔۔ الخ، 4 /
105)
شکر
کے فضائل اور ناشکری کی مذمت: قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل
بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’لَىٕنْ
شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم:
7)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں
تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
احادیث
کی روشنی میں شکر کے فضائل: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل
فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ تو یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک
اسے نعمت دینے سے بہتر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، 4/ 250،
الحدیث: 3805)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کی
عمر دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔(فردوس الاخبار، باب الالف،
جماع الفصول منہ فی معانی شتی۔۔۔ الخ، 1/ 148، الحدیث: 954)
حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا
اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع
کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے
آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا
اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ
دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا
ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر
فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم: 93)خدا تعالیٰ
ہمیں اپنا شاکر بنائے ۔۔آمین یارب العالمین
محمد انس
رضا عطّاری ( جامعۃ المدینہ گلزار حبیب
سبزہ زار لاہور، پاکستان)
اللہ عزوجل
نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جن کا شمار کرنا ناممکن ہے اگر
ہم اپنے آس پاس جہاں کہیں بھی دیکھیں تو ہمیں ہر طرف اللہ عزوجل کی نعمتیں نظر آئیں
گی، دینِ اسلام ،ایمان ، ہمارےا عضا ء، والدین ، وقت ، دن و رات وغیرہ الغرض اللہ
عزوجل کی اتنی نعمتیں ہیں کہ کوئی بھی قلم انہیں لکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا گویا
کہ ہم اپنے رب کی نعمتوں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، اب
ہم یہ غورکریں کہ ہم اپنے رب کی کتنی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور کتنی
نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟ تو یقینا ً ہمیں یہ یاد بھی نہیں ہوگا کہ ہم نے کتنی
اور کس طرح اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکری کی ہے۔ناشکری کے متعلق
چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے !
حضرت سیدنا
امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بے شک اللہ عزوجل جب تک چاہتا
ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو نوازتا ہے اور جب اس کی ناشکری کی جائے تو وہ اسی نعمت کو
ان کے لئے عذاب بنادیتا ہے۔ہمیں ناشکری نہیں کرنی چاہیے، ہر حال میں شکر ہی ادا
کرنا چاہیے کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ترجمہ کنزالایمان۔ اگر احسان مانو گے
تو میں تمہیں اور دوں گا۔(پ 13، ابراہیم ،آیت7)
اور حضرت علی
کرم اللہ تعالیٰ وجہہہ الکریم نے ارشاد فرمایا:بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے
اور شکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے، پس اللہ کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی
اسی وقت تک نہیں رکتی، جب تک کہ بندہ اس کی ناشکر نہیں کرتا۔(شکر کے فضائل ص (11)
حضرت شیخ ابن
عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے
زوال کا سامان پیدا کر تا ہے، اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے
باندھ کر رکھتا ہے۔ (التحریر والتنویر ج ۱، ص
۵۱۲)
نعمتوں کے
بدلے ناشکری کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب
کا باعث ہے۔(تفسیر رازی ج19، ص 67)
عبدالحنان (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ گلزار
حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
اللہ پاک کی
بے شمار نعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذرے پر
دنیا میں موجود پانی کے قطروں سے بھی زیادہ ہر لمحہ ہر گھڑی برس رہی ہیں کوئی بھی
ان نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتا بلکے کوئی شمار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اللہ پاک قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ
لَا تُحْصُوْهَاؕ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ترجمہ کنز العرفان: اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو
انہیں شمار نہیں کرسکو گے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہ پاک کی اتنی نعمتیں
ہونے کے باوجود انسان پھر بھی کتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ پاک کی ناشکری اور
نافرمانی کرتا ہے۔ حالانکے شکر اعلیٰ درجے کی عبادت ہے اور بقاء نعمت کا ذریعہ ہے۔
قارئین کرام آئیے چند احادیث کریمہ ناشکری کی مذمت پر مطالعہ کرتے ہیں۔
1۔
ناشکری باعثِ عذاب ہے: حضرت سیدنا
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بیشک الله پاک جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تو
وہ اس نعمت کو ان کے لئے عذاب بنا دیتا ہے۔(الدر المنثور، پ2 البقرہ، تحت آیت 152،
ج1، ص369)
2۔
ناشکری سے نعمت عذاب بن جاتی ہے:حضرت
سیدنا امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے
فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب الله پاک کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو
ان سے شکر کا مطالبہ فرماتا ہے۔ اگر وہ اس کا شکر کریں تو اللہ پاک انہیں زیادہ دینے
پر قادر ہے اور اگر ناشکری کریں تو انہیں عذاب دینے پر بھی قادر ہے۔ وہ اپنی نعمت کو ان پر عذاب سے بدل دیتا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی، باب تعدید نعم
اللہ ج4، ص127، الحدیث 4536)
3۔
نعمتوں کو بیان نہ کرنا ناشکری ہے:حضرت
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا
نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ
تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔
(شعب الایمان،
الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ج6، ص516، الحدیث:
9119)
4۔جہنم
کے ایک طبق کا کھلنا:حضرت کعب رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت
کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے
تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے
اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام
فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو
اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک
طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں) عذاب دے گا یا
اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، ج3، ص555، الحدیث93)
5۔
صابر و شاکر ہونے سے محرومی:حضرت
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: دو باتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں اللہ تعالیٰ اسے
صابر و شاکر لکھتا ہے اور جس میں یہ دونوں خصلتیں نہ ہوں اسے اللہ تعالیٰ صابر و
شاکر نہیں لکھے گا (وہ دو خصلتیں یہ ہیں) جو شخص دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے اور دنیاوی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ
اسے اس پر فضیلت دی، اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو صابر و شاکر لکھتا ہے۔ اور جو آدمی
دینی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دنیاوی امور میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس پر افسوس کرے جو اسے نہیں ملا، اللہ تعالیٰ
اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا۔(سنن ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب58،
ج4 ص665، الحدیث2512)
قارئین کرام
آپ نے چند ناشکری کی مذمت پر احادیث کریمہ کا مطالعہ کیا ان احادیث کے مطالعہ سے
ہمیں معلوم ہوا کہ نعمتوں کے بدلے ناشکری کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے اور سخت عذاب
کا باعث ہے اور نعمت کے زوال کا بھی سبب ہے۔
ہمیں چاہئے کہ
ہم ہر لمحہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے رہا کریں چاہے وہ لمحہ خوشی کا ہو یا غم کا
ہمیشہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے رہیں
اللہ پاک حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور اپنے شکر گزار بندوں میں سے چن لے آمین
زین العابدین
( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
الله تعالٰی کی
رضا پانے حصولِ جنت اور دنیا اور آخرت کی سرخروہ کامیابی کیلئے ہر طرح کے گناہ سے
بچنا ضروری ہے پھر بعض گناہوں کا تعلق ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے جیسے قتل ، غیبت و
چغلی اور بعض گناہ باطنی ہیں جیسے تجسس ونا شکری ۔ ناشکری کی قرآن و حدیث میں بہت
مذمت کی گئی ہے جیسے کہ درج ذیل میں5 احاديث هيں۔
(1)عذاب الہی
کا سبب :حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ جب اللہ
تعالٰی کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جب
وہ شکر کریں تو اللہ تعالٰی ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے۔ جب وہ ناشکری کریں
تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا
ہے۔ (رسائل ا بن ابی دنیا، کتاب الشكر الله عز وجل ج 1 من 484 حدیث 60)
(2)نعمتوں
سے محرومی کا سبب :حضرت نعمان بن
بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو
تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور
جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اللہ تعالٰی کی
نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا نا شکری ہے۔ ( شعب الايمان
الثاني والستون من شعب الايمان. الخ فصل في المكافاة بالصنائع ج 6 ص516حدیث9119)
(3)جہنم
میں داخل ہونے کا سبب :حدیث پاک میں
ہے ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
جہنم میں لے جانے والا عمل کونسا ہے فرمایا جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو
گناہ کرتا ہے۔ اور جب گناہ کرتا ہے تو نا شکری کرتا ہے جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم
میں داخل ہو جاتا ہے۔ (مسند امام احمد مسند المکثرین و غیر هم ج 3 ص 571 حدیث
6800)
(4)جہنم
میں عورتوں کی کثرت کا سبب :رسول
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے فرمایا اے عور تو صدقہ کیا کرو کیونکہ میں
نے اکثر تم کو جہنمی دیکھا ہے خواتین نے عرض کی: یارسول الله صلی الله علیہ وسلم
کس سبب سے؟ فرمایا : اس لیے کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ (بخاری ج 1 ص 123حدیث304)
(5)نعمتوں
کو بیان نہ کرنا :حضرت جابر رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے کوئی عطیہ دیا
جائے اگر ہو سکے تو اس کا بدلہ دے دے اور جو کچھ نہ پائے وہ اس کی تعریف کر دے کہ
جس نے تعریف کر دی اس نے شکریہ ادا کیا جس نے چھپایا اس نے ناشکری کی اور جو ایسی
چیز سے ٹیپ ٹآپ کرے جو اسے نہ دی گئی وہ فریب کے کپڑے بننے والے کی طرح ہے ۔ (کتاب مراة المناجیح شرح
مشکوۃ المصابیح جلد 4 حدیث نمبر 3023)
اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اور شکر کرنے کی توفیق
عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے۔( آمین
بجاہ النبین صلی اللہ علیہ وسلم)
صبیح اسد
جوہری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ شاہ
عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! زمانے بھر کا دستور ہے کہ جس کا کھانا اسے کہ گیت گانا ۔ اے عاشقان
رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کریم نے
ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں اتنی بے شمار کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی بھی ان نعمتوں کو شمار کرنے اور ان کا شکر ادا کرنے میں لگا دیں
تب بھی یہ نعمتیں شمار نہ کر سکیں گے نہ ہی ان کا شکر ادا کر سکیں گے ۔ اللہ کریم
کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہم پر لازم ہے اور دنیا میں جو بھی ہم سے حسن سلوک کرے
ہم پر احسان کرے ہمیں اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے ۔
شکر
اور ناشکری کی تعریف: شکر کا مطلب
ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی
جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا
شکر کیسے ادا کروں کہ میرا شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا
تو یہ شکر ادا کرنا ہے۔اس کے برعکس کسی کی نعمت و احسان پر دل قول اور فعل سے اس کی تعظیم نہ کرنا
ناشکری ہے۔آئے اپنے موضوع کی طرف مزید بڑھتے ہیں ۔
پنجتن
پاک کی نسبت سے ناشکری کی مذمت پر پانچ
احادیث مبارکہ :-
1) حضرت
کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر
انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ
سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا
ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ
نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس
نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے
لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں
) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول،
3/ 555، رقم: 93 )
2) … حضرت
نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا
اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے.(شعب الایمان، الثانی
والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث:
9119)
3) حضرت
حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں: ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ
فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے
اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی
نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے.(رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزوجل ، 1
/ 484، الحدیث: 60)
4) ابن ماجہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، (کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس
کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز
(یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی)۔‘‘ یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں
آتا۔ ’’ (سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ،باب النہی عن إلقاء الطعام، الحدیث: 3353 ،ج 4 ،ص 49)
5) امیرُالمؤمنین
حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کرم اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں
کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں
وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔(دین
و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)
اے عاشقان
رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی ہر نعمت اپنی جگہ مگر ہمیں اللہ کریم کا سب
سے زیادہ اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا نہ صرف
اشرف المخلوقات بلکہ مسلمان بنایا نہ صرف مسلمان بلکہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے ہمیں صحیح العقیدہ سنی بنایا ۔لہذا ہم پر
لازم ہے کہ ہمیں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں ۔
اور ہمیں چاہیے
کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ بھلائی کرے تو اس کا بھی دل و جان سے شکر ادا کریں کیوں کہ
جو قومیں اپنے محسنین کا شکر ادا کیا کرتی ہیں وہ کامیاب و
شاداب ہوا کرتی ہیں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر گزار بننے کی
توفیق عطا فرمائے (آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم )
محمد عاقب عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ بے پرواہ
خوبوں والا ہے . حضرت موسی علیہ السلام نے
اپنی قوم سے فرمایا ہے بنی اسرائیل
، یاد کرو جب تمہارے رب اعلان فرما دیا کہ اگر تم اپنی نجات اوردشمن کی ہلاکت کی
نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں
اور زیادہ نعمتیں عطاء کروں گا اور اگر تم کفرو -معصیت کے ذریعے میری نعمت کی
ناشکری کروگے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ روح البيان ابراهيم تحت الآية (5)جلد
(4) آیت (399 - 400)
ناشکری کے سبب
بندے کے درجات میں کمی ہوتی ہے اور ناشکری کی وجہ سے تحت میں ملنے والے فوائد سے
محرومی ہو جاتی ہے. ناشکری نعمتوں کے زوال کا سبب ہے. نا شکری اللہ کے عذاب کو
بلانا ہے اور نا شکری کے متعلق حضور علیہ السلام
کے کثیر فرامین
ہیں جن میں سے چند مندرج ذیل ہیں .
(1) ناشکری کے سبب نعمت بھی عذاب۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ مجھے یہ حدیث
پہنچی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطاء فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا
کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب وہ شکر کر دیں تو اللہ تعالی ان کی نعمت زیادہ کرنے پر
قادر ہے۔ اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالی ان کو عذاب دینے پر قادرہے. اور وہ
ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔رسائل ابن ابی دنیا کتاب الشكر الله الحدیث
(80)
(2)
تھوڑی نعمتوں پر شکر ادا نہ کرنا گویا زیادہ نعمتوں پر شکر نہ کرنا. حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور اقدس علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ
نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی
کا بھی شکر ادا نہیں کرتا ۔ اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں
بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔شعب الايمان الثانی والستون من شعب الایمان الخ فصل في
المكافاة بالضائع الحديث (19)
(3)
ناشکری کی وجہ سے درجات میں کمی اور دنیا میں نعمتوں میں کمی .حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں . الله تعالی
دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالی کے لیے شکر ادا کرے
اور اس نعمت کی وجہ سے اللہ تعالی کے لیے تواضح کرے تو اللہ تعالی اسے دنیا میں اس
نعمت سے نفع دیتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے۔ اور
جس پر اللہ تعالی نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکریہ ادا نہ کیا اور نہ
اللہ تعالی کے لیے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالٰی دنیا میں اس نعمت کا نفع روک لیتا
ہے . اور اس کے لیےجہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے۔ پھر اگر اللہ تعالی چاہے گا تو
اسے (آخرت میں) عذاب دے گا یا اس سے درگزر فرمائے گا ۔ رسائل ابن الى الدنيا
التواضع والخمول (555/3 رقم 93)
(4)
: شکریہ ادا نہ کرنا .حضرت جابر رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا جسے کوئی عطیہ دیا جائے
اگر ہو سکے تو اس کا بدلہ دے دے اور جو کچھ نہ پائے وہ اس کی تعریف کر دے کہ جس نے
تعریف کر دی اس نے شکریہ ادا کیا. اورجس نے چھپایا اس نے ناشکری کی اور جو ایسی چیز
سے ٹیپ ٹآپ کرے۔ جو اسے نہ دی گئی وہ فریب کے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔ مراة
المناصبح جلد (4) حدیث (3032)
(5)
ناشکری کے سبب دوزخ میں جانا . روایت
ہے ابھی سعید خدری سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام بقر عید یا عید الفطر میں
عید گاہ تشریف لے گئے عورتوں کی جماعت پر گزرے تو فرمایا کہ اے بیبیوا خوب خیرات
کرو کیونکہ مجھے دیکھا گیا ہے کہ تم زیادہ دوزخ والی ہو انہوں نے عرض کی : حضور یہ
کیوں ؟ فرمایا تم لعن طعن زیادہ کرتی تو خاوند کی ناشکری ھو تم سےبڑھ کر کوئی کم
عقل دین پر کم عاقل عقلمند آدمی کی مٹ کاٹ دینے والی میں نے نہیں دیکھی عورتوں نے
عرض کی حضور ہمارے دین و عقل میں کمی کیونکر ہے فرمایا یہ نہیں ہے کہ عورت کی گواھی
مرد کی گواھی سے کم ہے۔ عرض کیا ھاں فرمایا یہ عورت کےعقل کی کمی ہے، فرمایا کیا یہ
درست نہیں کہ عورت حیض میں روزہ نماز ادا نہیں کر سکتی عرض کیا ھاں فرمایا یہ اس
کے دین کی کمی ہے.مراة المناجيح جلد (1) حدیث (19)
ظہور احمد
عُمرانی (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
ناشکری کا
مطلب ہے کسی کی محنت یا معاونت کی قدر نہ کرنا یا اس پر شکریہ ادا نہ کرنا یہ ایک
منفی اور نآپسندیدہ خصوصیت ہے جو انسان کی اخلاقیت کو متاثر کرتی ہےاس کی بجائےہمیشہ
لوگوں کی مدد اورمحنت کا قدر کرنا چاہیےاس سے بڑھ کر اگر ہم اپنے مالکِ کریم عزوجل کی نعمتوں کا شکر ادا نا کرے تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی
وہ نعمتیں جو اَن گنت ہیں بے شمار ہیں
ان میں کثیر نعمتیں ایسی ہیں جو بن مانگے عطاء
ہوئی۔ایک طرف ظاہری نعمتیں ہیں تو دوسری طرف باطنی نعمتوں کا ایک طویل سلسلہ ہےگویا
بندہ اس کی نعمتوں کے سمندر میں ہر وقت غوطہ زن رہتا ہے۔اوپر نگاہ اٹھائے تو اسی کی
نعمتوں کے دلکش نظارے ہیں نیچھے دیکھے تو اسی کی نعمتوں کے جال بچھے ہیں دائیں دیکھے
تو اسی کے نعمتیں بائیں دیکھے تو اسی کی نعمتیں آگے و پیچھے مڑ کر نظر کرے تو اسی کی نعمتیں ہی نعمتیں اور
اگر اِن نعمتوں پر ناشکری کی جائے تو وہ عذاب و آفت ہے چنانچہ حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں
“بےشک اللہ جب
تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب
اسکی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی کو ان کے لئے عذاب بنا دیتا ہے”اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے ترجمۃ کنزالایمان: اگر
احسان مانوگے تو میں تمہیں اور دوں گا۔حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمۃ
فرماتے ہیں :نعمتوں کا یاد کرنا بھی شکر ہے (شعب الایمان للبھقی، حدیث4422، ج4،
ص102)
ناشکری کے
بارے میں احادیث کی روشنی میں چند مثالیں شامل ہیں جو انسانوں کو شکر کی اہمیت کی
طرف ابھارتی ہیں ہیں
اُمُّ
الْمومِنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ
اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ ُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے مکانِ عالیشان میں
تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا فرمایا، اے عائشہ (رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی
عَنْہا ) اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے
لوٹ کر نہیں آئی(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ،باب النھی عن القاء الطعام،الحدیث3353،ج4،ص49)
یعنی اگر
ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رِزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا امیرُالمؤمنین
حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:نعمتوں
کے زوال سے بچو کہ جو زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی مزیدفرماتےہیں:جب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں
ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو(دین و دنیا کی انوکھی
باتیں،ص515)
حضرت سیِّدُنامُغِیْرہ
بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس
کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے
تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی
زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)
حضرت نعمان بن
بشیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبئ مکرم نورِمجسم رسول اکرم شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : نعمت
کا چرچا کرنااس کا شکر ہے اور چرچا نہ کرنا نا شکری ہے۔جو قلیل پر شکر نہیں کرتا
وہ کثیر پر شکر نہیں کرسکتا جو لوگوں کا
شکریہ نہیں کر سکتا وہ اللہ عزوجل کا شکرادا نہیں کرسکتا (مسلمانوں کی) جماعت میں
برکت ہے اور ان سے علیحدہ رہنا سبب عذاب ہے ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث18476،ج6،ص394)
اللہ پاک ہمیں اپنی نعمتوں پہ شکر بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
(
ناشکری یہ شکر کی ضد ہے ہر وہ چیز جسکا شکر ادا کرسکتے ہیں اسکا شکرادا نا کرنا
ناشکری ہے ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں ناشکری کی بہت بری صورتیں یہ ہیں اللہ تعالی
کی دی ہوئ نعمتوں کاشکر ادانا کرنا اللہ پاک نےہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے
مثلا آنکھ کان ناک بلکہ انسان کا
اپنا ساراجسم ہی نعمت ہی نعمت ہے
اگر انسان ان کا غلط استعمال کرے تو یہ اللہ پاک کی بہت بڑی ناشکری ہے مثلا ہمیں
آنکھ عطا فرمائی ہمیں چاہیے کہ اس سے ہمیشہ اچھا ہی دیکھیں نا کہ فلمیں ڈرامے اور
بد نگاہی وغیرہ اور دیگر اعضاء مثلا کان
سے گانے باجے سن کر انسان ناشکری کرتا ہے زبان سے فحش کلام و گالیاں دے کر ناشکری
کا ارتکاب کرتا ہے
ناشکری کی ایک
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کے احسان کوہی بھول جاتاہے تم نے مجھ پر
کون سے احسانات کئے ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ترجمہ کنزالایمان ۔بےشک آدمی
پنے رب کا بڑا نا شکرا ہے (پارہ 30 العدیت4)
آئیے اب احادیث
شریفہ میں ناشکری کی مذمت بیان کی گئی ہے اس کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں
نعمت
کا عذاب بن جانا ۔1)۔جیساکہ حضرت
حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ پاک جب کسی قوم کو
نعمت عطا فرماتا ھے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ھے، جب وہ شُکر
کریں تو اللہ پاک ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ھے اور جب وہ ناشکری کریں تو
اللہ پاک ان کو عذاب دینےپر قادر ھے اوروہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا
ھے۔(رسائل ابن ابی دنیا،کتاب الشکرللہ،1/ 484، الحدیث: 40)
جب بندےکو اس
کا پروردگار عزوجل دنیا میں عزت و عظمت دےمنصب و عہدہ دے راحت و چین و سکون دے
جسمانی نعمتیں عطا کرے مال و دولت سےنوازے،ظاھری و باطنی نعمتوں سے نوازے غرض کہ
طرح طرح کی نعمتوں کا سلسلہ چلتا رھے تو ان سب نعمتوں کی شُکر گزاری کا بھی گاھے
بگاھے سلسلہ چلاتا رھے عاجزی اختیارکرےاور اگرناشکری کرے گا تو نعمتیں دینے والے
ربّ عزوجل کو وآپس لینے میں کچھ دیر نہیں لگتی، کہیں یہ نعمتیں اس کے لئے وبالِ
جان ھی نہ بن کر رہ جائے ناشُکری کی بِنا پر عذاب میں نہ مبتلا کردے۔
نعمتوں
کو بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔2)۔۔۔حدیثِ
پاک میں ھےکہ حضرت سیدنانعمان بن بشیررضی
اللہ عنہ سے روایت ھے، حضورِ اقدس صلیﷲ علیه وآلہ وسلّم نے فرمایا" جو تھوڑی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو
لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتاوہ اللہ پاک کابھی شکر ادا نہیں کرتا اور
اللہ پاک کی نعمتوں کو بیان کرنا شُکرھے اور انہیں بیان نہ کرناناشکری
ھے۔(شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔الخ، فصل فی المکافأۃ
بالصنائع، 4/ 514، الحدیث: 9119)
اکثر
عورتیں جہنم میں : ۔3)۔سرکارِمدینہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار عید کے روز عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے خواتین کی
طرف سے گزرے تو فرمایا: ''اے عورَتو! صَدَقہ کیا کروکیونکہ میں نے اکثر تم کو
جہنَّمی دیکھا ھے ''خواتین نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اس کی وجہ؟فرمایا:''اس لئےکہ تم لعنت بہت کرتی ھو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ھو۔(صحیح البخاری
ج1ص123 حدیث303)بحوالہ سُنّتِ نکاح تذکرہ امیرِاھلسُنّت قسط نمبر3صفحہ نمبر83ناشر
مکتبۃ المدینہ کراچی۔
انسان فطری
طور یہ نہیں چاھتا کہ اس کے مال میں کمی ھو اس معاملےمیں انسان چاھتا ھے کہ بس اور
مال آئے اور مال آئے کمی نہ ھو اور اگر انسان چاھتا ھے کہ اس کی نعمتیں کم نہ ھوں
تو ناشُکری سے بچتا رھے جیسا کہ
4)مسلمانوں کے
چوتھے خلیفه حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجہَہُ
الْکَرِیم نے فرمایا:
نعمتوں کے
زوال سے بچو کہ جو زائل ھو جائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزید فرماتے ہیں: جب تمہیں یہاں
وہاں سے نعمتیں ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔ (دین
و دنیا کی انوکھی باتیں،ص515)
5)حضرت سیِّدُنامُغِیرہ
بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:جو تجھے نعمت عطا کرے تُو اس
کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ ادا کرے
تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے نعمت کبھی
زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)
اللہ تعالیٰ
ہمیں ناشکری جیسی قلبی بیماری سے شفاء یابی نصیب فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم
داؤدسلیمان
رضا عطّاری ( مدرس جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
قرآن و احادیث
میں جس طرح ایسے اعمال و افعال کا ذکر ہے جو منجیات ( نجات دینے والے اعمال) ہیں
اسی طرح مہلکات (ہلاکت والے اعمال) کا بھی جگہ جگہ ذکر ہے۔انہیں میں سے ایک مہلک
باطنی بیماری نا شکری بھی ہے۔
ناشکری کی
مذمت احادیث کی روشنی میں پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
حضرت سیدنا علی
المرتضیٰ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے فرمایا: نعمتوں کے زوال سے بچو کہ جو
زائل ہوجائے وہ پھر سے نہیں ملتی۔مزید فرماتے ہیںجب تمہیں یہاں وہاں سے نعمتیں
ملنے لگیں تو ناشکرے بن کر ان کے تسلسل کو خود سے دُور نہ کرو۔ (دین و دنیا کی
انوکھی باتیں،ص515)
حضرت سیدہ
عائشہ صدیقہ رضی اللّہ تعالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلَّم اپنے مکانِ عالیشان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر
پونچھا پھر کھا لیا فرمایا، عائشہ (رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہا ) اچھی چیز کا
احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے لوٹ کر نہیں آئی۔(سنن
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ،باب النھی عن القاء الطعام،الحدیث3353،ج4،ص49) یعنی اگر
ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رِزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا۔
رسول اﷲصلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا۔
یہ سن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلّم! اس کی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں۔ تو آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ عورتوں میں دو بُری خصلتوں کی وجہ سے۔
ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت زیادہ لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں چنانچہ تم عمر بھر ان عورتوں کے ساتھ اچھے
سے اچھا سلوک کرتے رہو۔ لیکن اگر کبھی ایک ذرا سی کمی تمہاری طرف سے دیکھ لیں گی
تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔(صحیح البخاری،
کتاب الایمان ۔۲۱۔باب کفران العشیروکفر دون
کفر، رقم ۲۹، ج۱،ص۲۳ وایضافی کتاب النکاح۸۹،باب کفران العشیر وھو الزوج الخ، رقم ۵۱۹۱، ج۳،ص۴۶۳)
حضرت سیدُنا
مُغِیْرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں جو تجھے نعمت عطا کرے
تُو اس کا شکر ادا کر اور جو تیرا شکریہ
ادا کرے تُو اُسے نعمت سے نواز کیونکہ ناشکری سے نعمت باقی نہیں رہتی اور شکر سے
نعمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،ص514)
ناشکری
کے نقصانات ملاحظہ فرمائیں : ناشکری
باعثِ ہلاکت ہے،ناشکری اللہ کو ناپسند ہے،ناشکری ایک بڑا گناہ ہے،ناشکری نعمتوں میں
رکاوٹ ہے،ناشکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے،ناشکری اللہ کو ناراض کرنے والا عمل ہے،ناشکری
نعمتوں کے زوال کا ذریعہ ہے،ناشکری گھریلو ناچاقی کا سبب ہے،ناشکری سے رزق میں کمی
آتی ہے،ناشکری کرنے والا کبھی خوش نہیں رہتا،ناشکری کرنے والا ہر دل عزیز نہیں
ہوتا،میں صابر و شاکر رہوں کاش ہر دم،تو ناشکری سے مجھے بچا یا الہی۔
اللہ تعالیٰ
ہمیں اپنے فضل سے شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین محمد المصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
محمد جنید
اسلم (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم
مارکیٹ لاہور، پاکستان)
اللہ تعالٰی
قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :( لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ:) اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا کہ
اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر
ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت
کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیت: [5، 4] [399_400]
شکر
کی فضیلت اور ناشکری کی مذمت:اللہ
تعالٰی سے دعا ہے کہ مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے (1)… حضرت عبد
اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر
کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ
شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ
کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے((’’وَ هُوَ الَّذِیْ
یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘)) یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔
(در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5،7 /9)
(2)… حضرت
نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا
اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی
والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث:9119)
(3)…حضرت
حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ
جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب
وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے
اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی
نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ،
1 / 484، الحدیث: 60)
(4)…سنن ابو
داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی
عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ((’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ
عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘)) یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، 2
/ 123، الحدیث: 1522)
کچھ نا شکری کے نقصانات :
1" نا
شکری نعمتوں کے زوال کا ذریعہ ہے
2" نا
شکری اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے
3" نا
شکری باعث ہلاکت ہے
4" نا
شکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے
5" نا
شکری نعمتوں میں رکاوٹ ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ رکھے اور ہمیں چاہیے
کہ ہمیں اللہ تعالی کی نعمتوں کا زیادہ سے زیادہ شکر کرنا چاہئے اللہ تعالٰی سے
دعا کہ اللہ تعالٰی ہمیں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین