شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جب کہ ناشکری کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔(تفسیر صراط الجنان)ناشکری بہت بری عادت ہے اور اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں کئی وعیدیں آئی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کئی نقصان بھی ہیں انسان کے پاس اگر ایک چیز ہو تو دو کی خواہش کرتا ہے ،دو ہوں تو تین کی خواہش کرتا ہے، غریب ہو تو امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے اور امیر ہو تو مزید امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے یہاں تک کہ انسان  اپنے رب کی موجودہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کی نعمتوں کی ناشکری میں مصروف رہتا ہے

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی ناشکر ی کی جاتی ہے تو وہ اسی کو عذاب بنادیتاہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہہ الکریم نے ارشاد فرمایا:بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے اور شکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے، پس اللہ کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اسی وقت تک نہیں رکتی، جب تک کہ بندہ اس کی ناشکر نہیں کرتا۔(شکر کے فضائل ص 11)

حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامان پیدا کر تا ہے، اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔ (التحریر والتنویر ج 1، ص 516)

ربِّ کریم کی ان بے شمار نعمتوں کے باوجود انسان میں ناشکری کا پہلو پایا جاتا ہے، ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں کبھی انسان اعضا کی ناشکری کرتا ہے کبھی کسی کے مال واسباب کو دیکھ کر ناشکری میں مبتلا ہوجاتا ہے اورکبھی کسی کا منصب و اقتدار اسے ناشکری میں مبتلا کردیتا ہے نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے۔(تفسیر رازی ج 19، ص 67)

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔اور موسیٰ نے فرمایا: (اے لوگو!) اگر تم اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب ناشکرے ہوجاؤتو بیشک اللہ بے پرواہ ،خوبیوں والا ہے۔(ترجمہ کنزالعرفان سورةابراھیم آیت نمبر 7۔8)

ناشکری سے متعلق اَحادیث

(1)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث: 9119)

(2)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث: 60)

(3)حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم: 93)

(4) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو لوگوں کا شکر ادا نھیں کرتا وہ اللّٰه کا شکر بھی ادا نھیں کرتا۔(سنن ترمزی الحدیث 1961، ج 3) ایک اہم بات یہ کہ ہمیں نعمتوں میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھنا چاہیے اور عبادت میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھنا چاہیے، یہ ذہن ہوگا تو اللہ نے چاہا تو ناشکری سے بچے رہیں گے

اگر بلند مرتبے والے کو دیکھے گا تو احساس کمتری اور حسد میں مبتلاہوجائے گا اور گر کم مرتبے والے کو دیکھے گاتو اسے اللہ عزوجل کی نعمتوں کی قدر اور اس کا شکر بجالانے کا ذہن ملے گا اس کے متعلق حضور نبی کریم روِف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (امور دنیا) میں اپنے سے کم مرتبہ والے کو دیکھا کرو کیونکہ یہی زیادہ مناسب ہے تاکہ جو اللہ عزوجل کی نعمت تم پر ہے اسے حقیر نہ سمجھنے لگو۔

اللہ پاک ہم سب کو ناشکری سے بچائے کیونکہ ناشکری سے نعمت کے چھن جانے کا خوف ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔


نا شکری اور شکر دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ، اگر شکر گزاری اللہ کی نعمتوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے تو ناشکری اللہ کے غضب اور اس کے دردناک عذاب کو واجب کرنے والی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:{لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}’’ اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘[ ابراہیم: ۷]

ناشکری کے چند اسباب :۱۔ اپنے سے مالداروں کی طرف دیکھنا: جب انسان دنیادی نعمتوں سے متعلق اپنے سے آسودہ حال اور مالداروں کو دیکھتا ہے تو ناشکرا بن جاتا ہے اور جب اپنے سے غریبوں اور بد حال و مفلس لوگوں کو دیکھتا ہے تو اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَي مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَي مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ‘‘ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا :’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اسے چاہئے کہ ایسے شخص کی طرف دیکھ لے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے کم درجے کا ہے‘‘[ صحیح بخاری:۶۴۹۰]

۲۔ صرف دنیا کو مقصد زندگی سمجھ لینا : جو لوگ فکر آخرت سے بالکل غافل ہوکر دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں ایسے لوگ بھی بڑے ناشکرے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے بارے میں فرماتا ہے:{وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًي لَهُمْ }’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا فائدہ اٹھاتے اور کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے‘‘[ محمد : ۱۲]

مذکورہ آیت کریمہ کی شرح کرتے ہوئے علامہ سمرقندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کا فر دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دنیا کی جو نعمتیں ملی ہیں انہی میں زندگی گزارتے ہیں اور چوپایوں کی طرح کھاتے ہیں کھانے پینے اور جماع کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی بھی مقصد نہیں ہوتا ، اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے‘‘ [بحر العلوم للسمرقندی ]

۳۔ نعمتوں پر اترانا : جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نعمتیں مجھے ملی ہیں سب میری کوششوں کا نتیجہ ہیں اس میں اللہ کا کوئی احسان نہیں ایسے لوگ کبھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ایسے لوگ قارون صفت ہیں جس قارون کو اللہ نے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسادیا ۔

۴۔بخیلی اوکنجوسی کرنا : بخیلی اور کنجوسی بھی ناشکری کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ بخیل اور کنجوس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو وہ بہت جلد ختم ہوجائے گا پھر وآپس نہیں ملے گا اس لئے بخیل اور کنجوس لوگ ہمیشہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخیلی اور فضول خرچی دونوں سے منع فرمایا ہے ۔فرمان الٰہی ہے :{وَالَّذِینَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا}’’ اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں‘‘[الفرقان : ۶۷]

۵۔شیطان اور نفس کی پیروی کرنا: نفس اور شیطان کی پیروی بھی انسان کو نا شکری پر ابھارتی ہے کیونکہ نفس بہت حریص ہوتا ہے اور شیطان اللہ کا سب سے بڑا ناشکرا ہے اور اس کا مقصد انسانوں کو رب کا ناشکرا بنانا ہی ہے ،نفس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے : {وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}’’جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیاتو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں ‘‘ [الحشر :۹]

شیاطین کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے : {وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا}’’اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے‘


الله پاک نے بے شمار نعمتیں ریت کے ذروں سے زیادہ اور دنیا بھر کے پانی کے قطرات سے بڑھ کر عطا فرمائی ہیں جو کہ ہر لمحے طوفانی بارشوں سے تیز تر برس حج رہی ہیں جن کو شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے خود رب العزت نے قرآنِ کریم میں اس کا بیان فرمایا ہے ترجمہ کنزالایمان: اگر اللہ  کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے(پ 14 سورہ نحل 18)

پھر جو شرف و فضیلت انسان کو حاصل ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بندہ کسی بھی صورت میں اپنے خالق و مالک کی بےشمار نعمتوں سے لاتعلق نہیں ہو سکتا لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنے مولا کا شکر ادا کرتا رہے ناشکری نہ کرے کیونکہ ناشکری ایک بری صفت ہے کہ اس کی وجہ سے نعمتیں چھن جاتی ہیں ناشکری سے رب العزت ناراض ہوتا ہے اور عذاب کا حقدار بنتا ہے قرآنِ کریم میں بھی ناشکری کی مذمت بیان ہوئی ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان ہوئی ہے آئیے چند احادیث کریمہ ملاحظہ کرتے ہیں

(1) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا :’’ کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ،ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا ، تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان تینوں کا امتحان لے چنانچہ ان تینوں کے پاس ایک فرشتہ بھیجا،فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں ۔نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیراتو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔

فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم پسند کرتے ہو؟اس نے جواب میں اونٹ یا گائے کہا اسحاق بن عبد اللہ کو اس میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ یا گائے کی خواہش ظاہر کی اور دوسرے نے گائے کی ، چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی ،اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟اس نے کہا کہ عمدہ بال ، اور موجودہ عیب میرا ختم ہوجائے ۔کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرااور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے سر میں عمدہ بال آگئے ۔فرشتے نے کہاتمہیں سب سے زیادہ کون سا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ گائے ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دے دی ، اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا ۔ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کیا چیزپسند ہے ؟اس نے کہا اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرمادے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کی ( آنکھوں) پر ہاتھ پھیرااور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے وآپس لوٹا دی ،پھر پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کس طرح کا مال پسند ہے ، اس نے کہا کہ بکریاں فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری دے دی ، پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گائے بیل سے گنجے کی وادی بھر گئی ، اور بکریوں سے اندھے کی وادی بھر گئی ۔

پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین اور فقیر آدمی ہوں میرے سفر کے تمام سامان اور اسباب ختم ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر ، جس نے تمہیں اچھا رنگ ، اچھا چمڑا اور اچھا مال عطا کیا ہے ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر پورا کرسکوں ، اس نے فرشتے سے کہا میرے ذمہ اور بہت سے حقوق ہیں ۔فرشتے نے کہا غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے ؟تم ایک فقیر اور قلاش انسان تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چیزیں عطا کیں ؟ اس نے کہا یہ ساری دولت تو میرے بآپ دادا سے چلی آرہی ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت پر لوٹادے ۔

فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی،اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا ہی جواب دیا ، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے ۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اپنی اسی پہلی صورت میں ، اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں ، سفر کے تمام سامان ختم ہوچکے ہیں ،اور اللہ کے سوا کسی اورسے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں ، میں تم سے اس ذات کاواسطہ دے کر ، جس نے تمہیں تمہاری بینائی وآپس دے دی، ایک بکر ی مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں ، اندھے نے جواب دیا کہا کہ واقعی میں اندھا تھا ، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی ، اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ،اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دے دیا تو جتنا بھی تمہاراجی چاہے لے جائو میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا، فرشتے نے کہا تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ، یہ تو صرف امتحان تھا،اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے ،اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے ۔ صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ حَدِيثُ أَبْرَصَ، وَأَعْمَى، وَأَقْرَعَ فِي بَنِي اسرائیل) حدیث نمبر 3464

(2)حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / 516 الحدیث: 9119)

(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1/ 484، الحدیث: 60)

اللہ تعالیٰ ہمیں ناشکری جیسی مذموم صفت سے محفوظ رکھے اور ہر وقت اپنا شکر ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین


آج ہمارے معاشرے میں بہت سے گناہ عام ہو چکے ہیں اس میں ایک نا شکری بھی شامل ہے جس کی وجہ سے انسان خسارے میں پڑتا جا رہا ہے اس گناہ کی مزمت ہم احادیث  کی روشنی میں سنتے ہیں :

(1) : ابن ماجہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ آپڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔‘‘ (2) یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر وآپس نہیں آتا ۔حوالہ نمبر :سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ،باب النہی عن إلقاء الطعام، الحدیث:3353 ،ج 4،ص 49)

(2) ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی، کہ لوگوں نے عرض کی، یارسول اﷲ ! ہم نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو دیکھا کہ کسی چیز کے لینے کا قصد فرماتے ہیں پھر پیچھے ہٹتے دیکھا، فرمایا: ’’میں نے جنت کو دیکھا اور اس سے ایک خوشہ لینا چاہا اورا گر لے لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تم اس سے کھاتے اور دوزخ کو دیکھا اور آج کے مثل کوئی خوفناک منظر کبھی نہ دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اکثر دوزخی عورتیں ہیں ، عرض کی، کیوں یارسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ؟ فرمایا: کہ کفر کرتی ہیں ، عرض کی گئی، اﷲ (عزوجل) کے ساتھ کفر کرتی ہیں ؟ فرمایا: ’’شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کا کفران کرتی ہیں ، اگر تُو اس کے ساتھ عمر بھر احسان کرے پھر کوئی بات بھی (خلاف مزاج) دیکھے، کہے گی، میں نے کبھی کوئی بھلائی تم سے دیکھی ہی نہیں ۔(حوالہ نمبر: ردالمحتار ‘‘ ، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، مطلب : المختار أن الذبیح إسماعیل، ج 3 ، ص،74)

(3)حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5'4/399_400)

(4)حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ پاک ان پر نعمت ذیادہ کرنے پر قادر ہےتو جب وہ نا شکری کریں تو وہ عذاب دینے پر قادر ہےتو وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے(حوالہ نمبر :رسال ابن ابی دنیا،کتاب الشکرلله عزوجل،1/484،الحدیث60)

(5)حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹)

اللّه پاک سے دعا ہے الله پاک سب مسلمانوں کو اس گناہ سے محفوظ فرمائے اللہ پاک ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اللہ  کریم کے انعاموں اور انسانوں کے احسانوں کی ناشکری کی منحوس اور بڑھی عادت میں بہت زیادہ تعداد میں مرد وعورت گرفتار ہیں بلکہ عورتیں تو نوؤیں فیصد اس بلا میں مبتلا ہیں۔ ذرا سا کسی گھرانے کو یا کسی عورت کے کپڑے یا زیورات کو اپنے سے زیادہ خوشحال اور اچھا دیکھ لیا تو اللہ پاک عزوجل کی ناشکری کرنے لگتی ہیں اور کہنے لگتی ہیں نعوذ باللہ من ذلک خدا نے ہمیں نہ معلوم کس جرم کی سزا میں مفلس اور غریب بنادیا ہے ایسا کرنے کی بجائے ہمیں ہر حال میں خوشی ہو یا غمی دونوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے (ناشکری جیسی مہلک بیماری سے بچنے کیلئے پنجتن پاک کی نسبت سے ناشکری کی مذمت پر پانچ احادیث ملاحظہ فرمائیں )

حدیث نمبر 1:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے.(لئن شكرتم لاذيدنكم) یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:(وه‍والذي يقبل التوبه عن عباده) یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے(در منشور ،ابراھیم، تحت الايهه 7٫5٫9)

حدیث نمبر 2۔حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور وہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے (شعب الایمان ، الثان والستون من شعب الایمان ۔۔۔۔الخ فصل فی المکافاتہ بالصنا ئع 516/6 الحدیث 9119)

حدیث شریف:حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے(رسائل ابن ابی دنیا ، کتاب الشکر اللہ 1484/ الحدیث:2)

حدیث شریف: سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی (اله‍م اعني علي ذكرك ؤشكرك ؤحسن عبادتك) یعنی اے اللہ عزوجل تو اپنے ذکر اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما ۔(ابوداؤد ، کتاب الوتر ، باب فی الاستغفار 123/2 الحدیث 1522)

حدیث شریف:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے جہنم دکھائی گئی تو دیکھا کہ اس میں اکثر ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے شوہروں کی ناشکری کی اور ان کے احسانات کو فراموش کر دیا تھا اور تم ان میں سے کسی پر احسان کرو پھر تم سے کوئی بات خلاف مزاج دیکھ لے تو کہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی بھی تم سے کوئی خیر اور بھلائی نہیں دیکھی ۔(بخاری شریف:9/1 حدیث 1.29 بحوالہ بکھرے موتی جلد چہارم صفحہ 49)

اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر و شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری سے محفوظ فرمائے آمین یارب العالمین


اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے  {وَ مَنْ یَّشْكُرْ: اور جو شکر اداکرے۔} یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تووہ اپنی ذات کے بھلے کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اوربندے کو ثواب ملتا ہے اور جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو اس کاوبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے اور اس کے شکر سے بے پرواہ ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور اَفعال میں حمد کے لائق ہے اگرچہ کوئی ا س کی تعریف نہ کرے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: 12، 7 / 75، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: 12، ص917، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: 12، ص31، ملتقطاً)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں بیان کردہ آیت کریمہ کے جز کی تفسیر سے پتا چلتا کہ اگر کوئی اللہ عزوجل کا شکر ادا نہیں کرتا تو اس کا وبال اسی کے اوپر ہو گا تو پیارے اسلامی بھائیوں ناشکری کی مذمت احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے تو اب آپ کی بارگاہ میں احادیث بیان کی جاتی ہیں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں نا شکری جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

(1). حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6/516، الحدیث9119)

(2)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 484، الحدیث: 60)

(3)حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نعمتوں کے زوال سے بچو کیونکہ جو زائل ہو جائے وہ پھر سے نہیں ملتا اور مزید فرماتے ہیں کہ جو تمہیں یہاں سے وہاں سے نعمتیں ملنے لگی تو نہ شکرے بن کر ان کے تسلسل کو دور نہ کرو۔( دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص 515)

(4)…سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، 2 / 123، الحدیث: 1522) اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔


اللہ  پاک نے انسان کو پیدا فرمایا کر انسان کے رہنے سہنے کے لیے لا تعداد نعمتیں پیدا فرمائی اور اتنی نعمتیں پیدا فرمائی کہ انسان ان کا شکر ادا کرنا تو دور ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا اگر ہم اپنے دائیں ،بائیں ،اوپر، نیچے الغرض جہاں بھی دیکھیں ہمیں اللہ پاک ہی کی نعمتیں نظر آتی ہیں لیکن کیا ہم ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں کہیں ناشکری تو نہیں کرتے کیونکہ ناشکری کی مذمت قرانی ایات اور آحادیث میں مذکور ہیں۔

آئیے ہم ناشکری کی مذمت احادیث کی روشنی میں پڑھتے ہیں۔

1: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے.(شعب الایمان،الثانی والستون من شعب الایمان ۔۔۔۔الخ فصل فی المکافاۃ بالمنعٔ ،514الحدیث9119)

3: کس کو نعمت زیادہ ملے گی: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا لَأِنْ شَكَرْتُمْ لَازِيْدَنَّكُمْ. یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا ۔جسے سے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے ،وَهُوَاَلَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَةُ عَنْ عِبَادِهِ .یعنی ۔اور وہی ہے جو اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے. (درمنثور، البراہیم،تحت الایۃ:8،۔5/.9)

3: عذاب کا حقدار:حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالی ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب اپنا شکری کریں تو اللہ تعالی ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور جب ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔(رسائل ابن ابی دنیا،کتاب الشکر اللہ عزوجل 1/.282،الحدیث:60)

4: صحابی رسول کی دعا:امن ابی داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی اَلَّلهُمَّ اَعِنِّيْ عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرَكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكْ.یعنی اے الله عزوجل تو اپنے ذکر اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔(ابو داؤد ،کتاب الوتر ،باب فی الاستغفار ،2/.123،الحدیث1522)

5: لوگوں کا شکر ادا کرنا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَايَشْكُرُ الّٰلهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ. ترجمہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔(سنن ابی داؤد4/.335،حدیث4811)

پیارے اسلامی بھائیوں اس حدیث پاک میں فرمایا گیا جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا اس لیے اگر کوئی اپنے محسن کی ناشکری کرے تو اسے مضموم سمجھا جاتا ہے اسی لئے دنیا میں جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو ہر مذہب و ملت اور علاقہ قوم والا اپنی تہذیب اور روایات کے مطابق مختلف الفاظ و اعمال کی صورت میں دوسرے کا شکریہ ادا کرتا ہے اور لوگوں کے احسانات پر ان کا شکریہ ادا کرنا شریعت کو پسند ہے جیسے کہ مذکور احادیث پاک۔

خلاصہ کلام۔ یہ ہے کہ ہمارے حقیقی خالق و مالک رب ذوالجلال کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ہم مسلمانوں پر لازم ہے اگر ہم شکر ادا کرتے ہیں تو رب کریم کی خوشنودی اور جنت مل جائے گی لیکن اگر ہم ناشکری کریں گے تو ہمیں ناشکری کے سبب عذاب نار کا حقدار ہوگے اور ذلیل و رسوا زمانہ ہوں گے۔

اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنائے اور ناشکری جیسے بڑے گناہ سے محفوظ فرمائے ۔امین


پچھلے دنوں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے نگران حاجی محمد عمران عطاری دینی کاموں کے سلسلے میں پنجاب پاکستان کا دورہ کیا جہاں آپ نے ایس پی انویسٹیگیشن گجرات مہر ریاض ناز اور ایس ڈی پی او لالہ موسی چوہدری محمد اکرم آرائیں سے ملاقات کی ۔

ملاقات میں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے نگران حاجی محمد عمران عطاری نے دعوت اسلامی کے مختلف شعبہ جات کے ذریعےدنیا بھر میں ہونے والے دینی اور فلاحی کاموں سے آگاہ کیا ۔(پورٹ:محمد مدثر عطاری شعبہ رابطہ برائے شخصیات اراکین صوبہ پنجاب)


شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں دعوت اسلامی کے تحت 11مئی 2024ء بروز ہفتہ  پاکستان کے شہر لیہ میں مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں ڈسٹرکٹ نگران، ڈویژن اور ڈسٹرکٹ معاونت ذمہ دار اور ڈویژن فنانس ذمہ دار،سمیت مقامی مجلس کے ذمہ دار نے شرکت کی۔

مدنی مشورے میں نگران شعبہ غلام الیاس عطاری نے ہر ہر یوسی میں مدنی قاعدہ کورس کروانے کا ہدف اور فیضان صحابیات کی تعمیر کے حوالے سے حاضرین کی رہنمائی کی ۔


الحمد للہ دعوت اسلامی مختلف شعبہ جات میں دین متین کی خدمت سر انجام دے رہی ہے جہاں دیگر شعبہ جات ہیں ان میں سے ایک سوشل میڈیا بھی ہے عوام کا سوشل میڈیا کی طرف بڑھتے ہوئے رجہان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس شعبے میں مزید کام میں بہتری لانے کے لیے فیضان مدینہ فیصل آباد میں نگران پاکستان مشاورت نے فیضان ابو عطار سوشل میڈیاا سٹوڈیو کا افتتاح کیا ۔

اس سلسلے میں 11مئی2024ءبروز ہفتہ فیضان ابو عطار سوشل میڈیاا سٹوڈیو کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں سوشل میڈیا میں کام کرنے والے اسلامی بھائی اور دیگر شعبہ جات کے نگران اسلامی بھائیوں نے بھی شرکت کی۔ نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے حاضرین کو قیمتی مدنی پھولوں سے بھی نوازا اور مختلف امور پر تربیت کرتے ہوئے اسلامی بھائیوں کو ایپریسیشن سرٹیفکیٹ بھی دیے گے۔

یاد رہے :اس سٹوڈیو میں نگران پاکستان پاکستان مشاورت کے بیانات سمیت دیگر کانٹینٹس کی ریکارڈنگ ہو گی اور اس کے علاوہ پروگرامز کی ریکاڑڈنگ بھی ہو گی ۔(رپورٹ: عبدالخالق عطاری ،کانٹینٹ:شعیب احمد عطاری)


پچھلے دنوں مرکزی جامعۃ المدینہ جہلم کے دورةالحدیث شریف کے طلبہ کرام کے ساتھ تربیتی سیشن ہواجس میں رکن شوریٰ حاجی اسد عطاری مدنی نےطلبہ کرام  کے درمیان بزرگان دین کا احادیث طیبہ پڑھنے کے حوالے سے ادب و احترام کے متعلق کلام فرماتے ہوئے مجلس جامعۃ المدینہ کے تحت ہونے والے دینی و فلاحی کاموں کے حوالے سے رہنمائی کی جبکہ دینی کتب پڑھنے اور امیر اہلسنت کی تحریرات پڑھنے کے حوالے سے ذہن دیا۔(پورٹ: انس عطاری معاون رکن شوری حاجی اسد عطاری،کانٹینٹ:شعیب احمد عطاری)


11مئی2024ء کو دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں بانیِ دعوتِ اسلامی، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے عاشقانِ رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے علم و حکمت بھرے جوابات ارشاد فرمائے۔

مدنی مذاکرے کے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:

سوال: اجتماع وغیرہ میں باادب بیٹھنے سے کیامرادہے ؟

جواب: ایسے اندازمیں نہ بیٹھیں کہ اپنے یا کسی کے سننے میں خلل آئے ۔باتیں کرنے ،اشارے کرنے وغیرہ سے اجتناب کریں ،یہاں ہاتھ باندھ کر بیٹھنا مرادنہیں ہے ۔موقعہ کے مطابق ایسی پوزیشن میں بیٹھیں کہ جس میں دین سیکھنے میں زیادہ آسانی ہو۔غیرمہذب اندازمیں نہ بیٹھیں ۔

سوال:میاں بیوی میں محبت کیسے پیداہو ؟

جواب:میاں بیوں میں محبت تو ایک دوسرے کی عزت کرنے سے ہی پیداہوگی ،شوہر اگرکہے کہ بیوی ہی میری عزت کرے تو ایسانہیں ہے حدیث پاک میں تو یہاں تک ہے : أكرِمُوا أولادَكُم و أحْسِنوا آدابَهُم یعنی اپنی اولادکی عزت کرو اورانہیں اچھےآداب سیکھاؤ ۔(سنن ابن ماجہ، 2/ 1211، رقم: 3671 ) ماں باپ ،بہن بھائیوں کے جس طرح حقوق ہیں ،اس طرح بیوی کے حقوق بھی ہیں ،بیوی بندے کی زندگی کا ساتھی ہوتی ہے ،اس کے حقوق کا خیال رکھنا اوراس کی دل جوئی بھی ضروری ہے ،اس کی دل آزاری گناہ اورجہنم میں لے جانے والاکام ہے۔ میاں بیوی دونوں کودیکھیں توسسرال میں بیوی زیادہ شفقتوں کی مستحق نظرآتی ہے ۔ہمارے ہاں بیوی اپناخاندان ،ماں باپ اوربھائی بہنیں چھوڑکر سسرال کے ہاں آتی ہے ۔اس کے لیے یہاں کا ماحول اجنبی ہوتاہے ،ماں کی جگہ ساس اورباپ کی جگہ سسروغیرہ۔فطری طوپر جب بندہ اجنبیوں میں آتاہے تو وحشت ہوتی ہے ،اَب اسے شفقت واپنائیت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ اگراس پر رعب ڈال کر دبا دینے کی سوچ ہوتوخرابی ہوتی ہے اور گھرٹوٹ جاتے ہیں ۔وہ شوہرخوش نصیب ہے جسے اپنی بیوی سے واقعی محبت ہو ،بیوی کے لیے شوہرکی خدمت کی بہت تاکیدہے ۔

سوال: والدین بچے کی عزت کس طرح کریں ؟

جواب: حدیث پاک میں اپنی اولادکی عزت کرنے اوراچھے آداب سکھانے کا حکم ہے ۔ظاہرہے جب ہم بچے کی عزت کریں گے تو بچہ بھی ہماری عزت کرے گا ،آپ اس کی عزت کریں تو اسے عزت کرنا آئے گا ،عزت کس طرح کی جاتی ہے وہ سیکھے گا ۔ آپ بچوں کو تُو کہیں گے تو وہ بھی آپ کو تُو بولے گا۔آپ میں ادب زیادہ ہے ،آپس میں اسے رائج کرنا چاہئے ۔

سوال: نوحہ کیا ہے،اس کا شرعی حکم کیاہے ؟

جواب: کسی کی وفات پر جھوٹی تعریفیں کرکے رونا نوحہ کہلاتاہے جو کہ گناہ ہے ۔ صدرُالشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: نوحہ یعنی میّت کے اوصاف مبالغہ کے ساتھ بیان کرکے آواز سے رونا جس کو بَین کہتے ہیں بِالاجماع حرام ہے ۔(بہارِ شریعت،1/854)

سوال:کیا ذیقعدہ شریف میں نفلی روزے رکھنے کی فضیلت ہے ؟

جواب: جی ہاں! حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اللہ پاک کے پیارے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے ماہ حرام میں 3دن جمعرات ،جمعہ اور ہفتہ کے دن روزے رکھے اسکے لئے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔ ( معجم الاوسط طبرانی ،1/ 485،حدیث1786) یہاں ماہ حرام سے یہی 4 مہینے ذیقعدہ ،ذوالحجہ،محرم شریف اور رجب شریف مراد ہیں ۔ (رسالہ کفن کی واپسی صفحہ 12،13)

سوال:جبل احد اور دنیا کا پہلا پہاڑ کہاں واقع ہیں ؟

جواب:جبل احدشریف مدینہ شہر میں واقع ہےاوردنیا کا پہلاپہاڑ جبل قیس ہے اوریہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے ۔

سوال: اِس ہفتے کارِسالہ جہنَّم کیا ہے؟ پڑھنے یاسُننے والوں کوامیراہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے کیا دُعا دی ؟

جواب: یاربَّ المصطفٰے! جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ جہنَّم کیا ہے؟ پڑھ یا سُن لے اُسے جھنَّم کے عذاب سے بچا اور اُس کو ماں باپ سمیت جنَّت الفردوس میں بےحساب داخلہ عطا فرما ۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔