ڈویژن فیصل آباد، پنجاب میں دعوتِ اسلامی کے شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں کے تحت 3 مئی 2025ء کو ذمہ داران کا مدنی مشورہ ہوا جس میں صوبائی، ڈویژن اور سٹی ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی شرکت ہوئی۔

صوبائی ذمہ دار اقبال عطاری نے شعبے کے متعلق ذمہ داران سے گفتگو کرتے ہوئے مدرسۃالمدینہ بالغات، گلی گلی مدرسۃالمدینہ، محارم اسلامی بھائیوں کے سیکھنے سکھانے کے حلقے اور فیضانِ صحابیات وزٹ کے اہداف پر تبادلۂ خیال کیا۔(رپورٹ: محمد علی شعبہ معاونت برائےا سلامی بہنیں صوبہ پنجاب آفس ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اسلام میں بہت ساری  چیزوں کے بارے میں حقوق بیان فرمائے گئے ہیں جن میں نماز روزے حج زکوٰۃ وغیرہ کے حقوق بھی شامل ہیں اور کتابوں کے حقوق بھی بیان فرمائے گئے ہیں تاکہ مسلمان ان پر عمل کرکے دنیا اور آ خرت میں کامیابی حاصل کر یں اور علم دین حاصل کرنے کے لیے کتابوں کا ادب بھی ضروری ہے ۔

حقوق نمبر 1 : کتابوں پر کوئی چیز نہ رکھنا : کتاب پر کوئی دوسری چیز نہ رکھی جائے حتّٰی کہ قلم دوات حتّٰی کہ وہ صندوق جس میں کتاب ہو اس پر کوئی چیز نہ رکھی جائے۔ (بہار شریعت حصہ 2 صفحہ نمبر 331)

حقوق نمبر 2 : کتابوں کو بےوضو نہ چھوئے : امام برہان الدین زرنوجی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: علم کی تعظیم میں سے کتاب کی تعظیم کرنا طالب علم کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ کتاب کو باوضو ہو کر چھوئے۔ (کتابوں کے عاشق صفحہ نمبر 29 )

حقوق نمبر 3: کتابوں کو بکھرے ہوئے نہ رکھیں: امام بدر الدین محمد بن جماعہ فرماتے ہیں: ہم کسی کتاب کا مطالعہ کریں یالکھیں تو اسے زمین پر بکھرے ہوئے نہ چھوڑیں بلکہ کسی چیز پر رکھیں تاکہ ترتیب خراب نہ ہو اور زمین پر نہ رکھی جائے کہ کہیں بوسیدہ نہ ہو جائے۔ (کتابوں کے عاشق صفحہ نمبر 28)

حقوق نمبر 4: کتابوں کی طرف پاؤں نہ پھیلائے جائیں: کتاب کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی طرف پاؤں نہ پھیلائے جائیں اور نہ کتاب کے اوپر سیاہی وغیرہ رکھی جائے۔ (کتابوں کے عاشق صفحہ نمبر 30)

حقوق نمبر5: کتابوں کو بے ترتیب نہ رکھیں: کتابیں رکھنے میں ادب کا لحاظ رکھیں جیسے سب کے اوپر قران پاک پھر احادیث پھر تفاسیر پھر شروح حدیث پھر اصول دین پھر اصول فقہ پھر فقہ تو پھر نحو اور صرف پھر علم عروض کے متعلق کتابیں رکھی جائیں گی اگر ایک فن کی دو کتابیں ہوں تو اسےاوپر رکھا جائے گا جس میں قرآن واحادیث مبارک زیادہ ہو ں اور اگر اس میں بھی برابر ہو تو مصنف کی جلالت علمی کو فوقیت دی جائے گی اور اگر مصنفین بھی برابر ہو تو اب اس کتاب کو ترجیح دے جسے علماء زیادہ پڑھتے ہیں۔ (کتابوں کے عاشق صفحہ نمبر 29 )

نوٹ: اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


کتاب اور علم بہترین میراث ہیں کہ یہ وہ وراثت ہے جس میں تفریق نہیں اور وہ خزانہ ہے جس پر زکوۃ واجب نہیں ، کوئی حاسد حیلہ سازی کر کے چھین نہیں سکتا، کوئی چور چرا نہیں سکتا اور کوئی پڑوسی دعوی نہیں کر سکتا اور نہ کوئی جھگڑا کر کے اپنا حق جتا سکتا ہے۔ (عشاق الكتب، ص 56)

اسی اہمیت کے کےپیش نظر کتاب و سنت میں کتاب کے حقوق بیان کیے ہے چنانچہ آپ بھی کتاب کے پانچ حقوق پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔

تعظیم کرنا:کتاب کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے جیسے کہ راہ علم میں ہے:تعظیم علم میں کتاب کی تعظیم کرنا بھی شامل ہے۔ لہذا طالب علم کو چاہیے کہ کبھی بھی بغیر طہارت کے کتاب کو ہاتھ نہ لگائے۔(تعليم المتعلم طريق التعلم مترجم صفحہ 33مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

2: کتاب پر کوئی چیز نہ رکھنا: امام فخر الاسلام حضرت سیدنا قاضی خان عَلَیہ رَحْمَۃ الرَّحمن فرمایا کرتے تھے کہ کتابوں پر دوات وغیرہ رکھتے وقت اگر تحقیر علم کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے مگر اولی یہ ہے کہ اس سے بچا جائے ۔(تعليم المتعلم طريق التعلم مترجم صفحہ 33مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

وضو کرنا:شمس الائمہ حضرت سیدنا امام سرخسی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ تعالی علیہ کا پیٹ خراب ہو گیا۔ آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ پس اس رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو 17 با روضو کرنا پڑا کیونکہ آپ بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے۔ (تعليم المتعلم طريق التعلم مترجم صفحہ 33مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

4:کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرنا: طالب علم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے۔ (تعليم المتعلم طريق التعلم مترجم صفحہ 33مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

5:ترتیب قائم رکھنا : کتابوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کو ترتیب سے رکھنا یعنی سب سے اوپر قران پاک اس سے نیچے قران پاک کی تفسیر پھر حدیث پھر اصول حدیث پھر فقہ اور پھر اس کے بعد دیگر اسلامی کتب رکھی جائیں۔

اللہ پاک ہمیں کتابوں کے حقوق ادا کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔


کتابیں نوری علم ہیں اورہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ وہ ہماری سوچ کو وسعت دیتی ہیں، ہماری معلومات میں اضافہ کرتی ہیں، اور ہمیں نئی دُنیاؤں سے روشناس کرتی ہیں ، اس بنا پر ہم کتابوں کی حقوق مد نظر رکھیں گے تو ہمیں ان سے فیض حاصل ہو گا کتابوں کے بارے میں بہت سے علماء و مشائخ اقوال بیان ہیں ان میں سے کچھ اقوال آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

بغیر وضو کے ہاتھ نہ لگانا : حضرت شیخ شمس الائمہ حلوانی علیہ الرحمہ کا قول آپ فرماتے ہیں کہ میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کے سبب حاصل کیا وہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی بغیر وضو کے کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا ( راہِ علم،صفحہ 33 (بتغیر) ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

شمس الائمہ حضرت سیدنا امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ : کہ ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃ اللهِ تعالی علیہ کا پیٹ خراب ہو گیا۔ آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ پس اس رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو 17 بار وضو کرنا پڑا کیونکہ آپ بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے۔( راہِ علم، صفحہ 34(بتغیر)،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

دوات نہ رکھنا : امام اجل فخر الاسلام حضرت سیدنا قاضی خان عَلَیہ رَحْمَۃً الرحمن کا فرمان ہے کہ کتابوں پر دوات وغیرہ رکھتے وقت اگر تحقیر علم کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے مگر اولی یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔ ( راہِ علم،( بتغیر) صفحہ 33،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

کتاب کا حق : طالب علم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے۔ کتب تفاسیر کو تعظیماً تمام کتب کے اوپر رکھے اور کتاب کے اوپر کوئی دوسری چیز ہر گز نہ رکھی جائے ۔ ( راہِ علم،( بتغیر) صفحہ 33،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی

کتاب پر کوئی چیز رکھنا : محدثِ اعظم پاکستان مولانا سرداراحمد قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کے شاگرد نے ایک مرتبہ بخاری شریف پرگلاب رکھا تو آپ نے فرمایا:پھول اگرچہ بڑی نازک چیز ہے،بہرحال بخاری شریف سے افضل نہیں۔ (فیضان محدث اعظم پاکستان،صفحہ 20،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

کتاب کے چند آداب : باوضو اور قبلہ رو ہو کر کتاب کو پڑھنا۔ خوشبودار اور صاف ستھرا ماحول ہو ۔ کتاب کے اوپر کوئی چیز نہ رکھنا۔ کتاب کی طرف پاؤں نہ پھیلانا۔ کتاب کو اونچی جگہ پر رکھنا ۔ کتابوں کو ترتیب کے ساتھ رکھنا اس طرح کہ سب سے اوپر تفسیر ، پھرحدیث، پھر فقہ اور پھر دیگر کتابیں رکھی جائیں۔

اللہ پاک ہمیں کتابوں کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہمارے درمیان ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے زندگی کے متعلق ہر شعبے کے حقوق و احکام سے آگاہ فرمایا ۔ فرمان حافظ ملت رحمتہ اللہ علیہ : (دینی) کتاب ہاتھ میں لٹکا کر چلنے کی بجائے جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہوگی ۔ (شان حافظ ملت ، ص: 6)( مکتبہ المدینہ، رسالہ بزرگان دین کے 40 اقوال )

ہمیں کتابوں کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔ آئیے کتابوں کے حقوق ملاحظہ فرماتے ہیں۔

(1) وضو کے ساتھ چھونا : امام برھان الدین زرنوجی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : علم کی تعظیم میں سے کتاب کی تعظیم کرنا ہے۔ طالب علم کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ کتاب کو باوضو ہو کر چھوئے ۔ (کتابوں کے عاشق ، ص : 29 )

(2) ادب سے پکارنا : محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد چشتی قادری فرماتے ہیں : قرآن وحدیث اور کتب دینی کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہاں پڑی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہاں رکھی ہیں ۔ ( بزرگانِ دین کے 40 اقوال ،ص : 35 ، مکتبہ المدینہ)

(3) کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرنا : طالب علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے ۔ ( تعلیم المتعلم طريق التعلم مترجم، ص : 33)

(4) زمین پر بکھرا ہوا نہ چھوڑنا : امام بدر دین محمد بن جماعہ فرماتے ہیں ۔ جب کسی کتاب کا مطالعہ کریں یا لکھیں تو اسے زمین پر بکھرا ہوا نہ چھوڑیں بلکہ کسی چیز پر رکھیں ۔ تاکہ ترتیب خراب نہ ہو ۔ زمین پر نہ رکھی جائے کہ کہیں بوسیدہ نہ ہو جائے کتابیں رکھنے میں ادب کا لحاظ رکھیں کہ علوم اور مصنف کے شرف فضیلت کے اعتبار سے ترتیب بنائی جائے۔( کتابوں کے عاشق ، ص : 28)

(5) دوات نہ رکھنا : شیخ الاسلام حضرت سید نا امام برھان الدین علیہ رحمۃ المبین اپنے مشائخ میں کسی بزرگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے حکایت بیان کرتے تھے کہ ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے۔ شیخ نے انہیں فارسی میں فرمایا : " بر نیابی " : یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (تعلیم المتعلم طريق التعلم مترجم ، ص : 34 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز تربیت بہت ہی نرالا ہے۔کبھی آپ وعید سنا کر تربیت فرماتے تو کبھی خوشخبری سنا کر دل کو چین بخشتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ ایسی ملتی ہیں جن میں آپ نے لفظ ابغض یعنی نا پسندیدہ چیزوں کے متعلق بتلایا آئیے ان احادیث میں سے چند کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1) انصار صحابہ کرام سے محبت کی فضیلت: عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبيّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّهُ قَالَ فِی الْاَنْصَارِ : لَا يُحِبُّهُمْ اِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ اِلاَّ مُنَافِقٌ مَنْ اَحَبَّهُمْ اَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ اَبْغَضَهُمْ اَبْغَضَهُ اللهُ ترجمہ : حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے مَروی ہے کہ حسن اَخلاق کے پیکر ، محبوبِ رَبِّ اکبر ﷺنے انصار کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’ ان سے مؤمن ہی محبت رکھے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا اور جو اِن سے محبت کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محبت فرماتا ہے اور جو ان سے بغض رکھے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے ناپسند فرماتا ہے ۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:4 ,صفحہ247 ،حدیث نمبر:380)

(2) محبوب الٰہی محبوب جبریل: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ : اِذَا اَحَبَّ اللَّهُ تَعَالٰی الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ : اِنَّ اللَّهَ تَعَالٰی يُحِبُّ فُلاَنًا فَاَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ فَيُنَادِى فِى أَهْلِ السَّمَاءِ : اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَاَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ اَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِى الْاَرْضِ. وَفِيْ رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : اِنَّ اللَّهَ تَعَالٰی اِذَا اَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيْلَ فَقَالَ : اِنِّي اُحِبُّ فُلَانًا فَاَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ : اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبُّوْهُ فَيُحِبُّهُ اَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْاَرْضِ وَاِذَا اَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَيَقُولُ: اِنِّي اُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضْهُ فَيُبْغِضُهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي أَهْلِ السَّمَاءِ اِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضُوهُ فَيُبْغِضُہُ اَھْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ تُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْاَرْضِ

ترجمہ:- حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریل کو ندا دیتا ہے کہ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ جبریل بھی اس سے محبت کرتے ہیں پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں شخص سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو ، پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں پھر زمین میں اسے مقبول بنادیا جاتا ہے ۔‘‘مسلم شريف کی روايت میں ہے :حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ دو عالم کے مالک ومختار ، مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ”اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کو بلاکر فرماتا ہے کہ بے شک میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو ۔ چنانچہ جبریل امین بھی اس سے محبت کرتے ہیں پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں شخص سے محبت فرماتا ہے لہذا تم بھی اس سے محبت کرو ‘‘پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر زمین میں اسے مقبول بنادیا جاتا ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے کو ناپسند فرماتا ہے تو جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلاکر فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص کو ناپسند کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اسے ناپسند کرو ۔ چنانچہ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بھی اسے ناپسند کرتے ہیں پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں شخص کو ناپسند فرماتا ہے لہٰذا تم لوگ بھی اسے ناپسند کرو ۔ ‘‘ پھر آسمان والے بھی اس سے ناپسند کرتے ہیں پھر زمین میں بھی اس کے لیے ناپسندیدگی رکھ دی جاتی ہے ۔ ‘‘ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین,جلد:4 , صفحہ 283,حدیث نمبر:387)

(3) بروز قیامت قرب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ اَنَّ رَسُولَ الله صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ: اِنَّ مِنْ اَحَبِّكُمْ اِليَّ ،وَاَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ، اَحَاسِنَكُم اَخْلاَقًا، وَاِنَّ اَبْغَضَكُمْ اِلَيَّ وَاَبْعَدَكُمْ مِنِّي يَوْمَ القِيَامَةِ، اَلثَّرْثَارُوْنَ وَالمُتَشَدِّقُونَ وَالمُتَفَيْهِقُوْنَ، قَالُوْا: يَارَسُولَ اللهِ، قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُوْنَ وَالمُتَشَدِّقُونَ، فَمَا الْمُتَفَيْهِقُوْنَ؟ قَالَ:اَلْمُتَكَبِّرُونَ

ترجمہ:- حضرتِ سَیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سےمروی ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کے اَخلاق سب سے اچھے ہیں اور تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ ہوں گےجو زیادہ بولنے والے،زبان درازی کرنے والے اور بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے ہوں گے۔صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کیا :یا رسولَ اللّٰہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زیادہ بولنے والے اور زبان درازی کرنے والے کو تو ہم نے جان لیا لیکن یہ بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے کون لوگ ہیں؟ اِرشاد فرمایا:’’تکبر کرنے والے۔‘‘ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین,جلد:5 ،صفحہ 528,حدیث نمبر:631)

(4) اللہ پاک کے نزدیک نا پسندیدہ شخص : عَن عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ : اِنَّ اَبْغَضَ الرِّجَالِ اِلَی اللّٰہِ الَٔالَدُّ الْخَصمُ ترجمہ: بیشک اللہ عزوجلَّ کے نزدیک بندوں میں سے نا پسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہے ۔

(5) نا پسندیدہ حلال کون سا؟ وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللهِ الطَّلَاقُ ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" ناپسندیدہ ترین حلال الله کے نزدیک طلاق ہے ۔(مشكوة المصابيح ، كتاب النكاح ، باب الخلع و الطلاق ، الفصل الثانى ، جلد 5 ،حدیث نمبر 3139 ،صفحہ نمبر 136 ، مطبوعہ: مکتبہ اسلامیہ )

اللہ عزوجل ہمیں ان احادیث پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے اور جن کاموں کو اللہ عزوجل کے ناپسندیدہ کام کہا ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سی احادیث مبارکہ میں لفظ ابغض کے ذریعے سمجھایا ہے ۔آئیے ان احادیث میں سے چند احادیث کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

(1)وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :أَبْغَضُ النَّاسِ إِلٰى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبٍ دَمَ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقِّ لِيُهْرِيقَ دَمَهُ. رَوَاهُ البُخَارِيُّ روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے: الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں حرم میں بے دینی کرنے والا ،اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی، مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔ (بخاری، مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:134 پہلی فصل باب قرآن وسنت مضبوطی سے پکڑنا صفحہ نمبر27)

(2)عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبيّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّهُ قَالَ فِی الْاَنْصَارِ : لَا يُحِبُّهُمْ اِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ اِلاَّ مُنَافِقٌ مَنْ اَحَبَّهُمْ اَحَبَّهُ اللهُ وَمَنْ اَبْغَضَهُمْ اَبْغَضَهُ اللهُ حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ حسن اَخلاق کے پیکر ، محبوبِ رَبِّ اکبرﷺ نے انصارکے بارے میں ارشادفرمایا : ان سے مؤمن ہی محبت رکھے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا اور جو اِن سے محبت کرےاللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے اور جو ان سے بغض رکھےاللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے ناپسند فرماتاہے۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:4 , حدیث نمبر:380 اللہ کیلے محبت کرنے کا بیان صفحہ نمبر 247 مکتبۃ المدینہ)

(3)عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهٗ تُصِيبُ أُمَّتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ مِنْ سُلْطَانِهِمْ شَدَائِدُ لَا يَنْجُو مِنْهُ إِلَّا رَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللّٰهِ فَجَاهَدَ عَلَيْهِ بِلِسَانِهٖ وَيَدِهٖ وَقَلْبِهٖ فَذٰلِكَ الَّذِي سَبَقَتْ لَهُ السَّوَابِقُ وَرَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللّٰهِ فَصَدَّقَ بِهٖ وَرَجُلٌ عَرَفَ دِينَ اللّٰهِ فَسَكَتَ عَلَيْهِ فَإِنْ رَأٰى مَنْ يَعْمَلُ الْخَيْرَ أَحَبَّهٗ عَلَيْهِ وَإِنْ رَأٰى مَنْ يَعْمَلُ بِبَاطِلٍ أَبْغَضَهٗ عَلَيْهِ فَذٰلِكَ يَنْجُو عَلٰى إِبْطَانِهٖ كلِّهٖ

روایت ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری زمانہ میں میری امت کو اپنے حکمرانوں سے سخت تکلیفیں پہنچیں گی ان سے نجات نہیں پائے گا مگر وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس پر اپنی زبان،ہاتھ اور دل کے ساتھ جہاد کیا یہ وہ شخص ہے جو پوری طرح سبقت لے گیا دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی تصدیق کی،تیسرا وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس پر خاموش رہا اگر کسی کو نیکی کرتے دیکھا تو اس سے محبت کرنے لگا اور اگر کسی کو غلط کام کرتے دیکھا تو اس سے ناخوش رہا یہ سب اپنی اندرونی حالت کے باعث نجات پاجائیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 ، حدیث نمبر:4921 تیسری فصل باب نیک باتوں کا حکم دینا ہے صفحہ نمبر452)

(4)وَعَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الخُشَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَسَاوِيْكُمْ أَخْلَاقًا اَلثَّرْثَارُوْنَ اَلْمُتَشَدِّقُوْنَ اَلْمُتَفَيْهِقُوْنَ روایت ہے ابو ثعلبہ خشنی سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے مجھے سب سے پیارا اور قیامت کے دن مجھ سے بہت قریب تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے اور تم میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ سے بہت دور برے اخلاق والے ہیں جو زیادہ بولنے و الے منہ پھٹ فراخ گو متکبر ۔ (مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر:4585 دوسری فصل باب واعظ وشعر کا بیان صفحہ نمبر424)

(5)وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللّٰهِ الأَلَدُّ الْخَصِمُ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ روایت ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ اﷲ کی بارگاہ میں بہت ناپسندیدہ شخص زیادہ سخت جھگڑالو ہے (مسلم،بخاری، (مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر۔3586 پہلی فصل باب فیصلوں اور گمراہیوں کا بیان صفحہ نمبر 337)


اللہ پاک کا ہم مسلمانوں پر یقینا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں محبوب ﷺ کا امتی بنایا،اور نبی کریم ﷺ کو اپنی امت سے بہت زیادہ محبت ہے،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ہر معاملہ میں حضور ﷺ نے اپنی امتیوں کی رہنمائی فرمائی ہے،چاہے وہ دنیا کا معاملہ ہو یا پھر دین کا۔جیسا کہ رسول ﷺ کا کلمہ ‘‘أبْغَضَ یا اُبْغضَ’’ سے تربیت فرمانا۔اس اندازکی کثیر احادیث پاک موجود ہیں۔

آیئے اسی تربیت کو حاصل کرنے کی نیت سے چند احادث پاک پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

(1) ناپسندیدہ شخص: اللہ پاک کو جو سب سے زیدہ ناپسندیدہ شخص ہے اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اَبْغَضَ الرِّجَالِ اِلَی اللہِ اَلالَدُّ الْخَصِمٌ یعنی بیشک اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند شخص جھگڑا لو ہے۔ (بخاری،کتاب المظالم،باب قول اللہ:وھوالد الخصم، ج1، ص:677، حدیث: 2457)

اس حدیث پاک میں سرکارﷺ نے لفظ ‘‘ابغض یعنی سب زیادہ ناپسندیدہ ’’ استعمال فرماکر اپنے امتیوں کی تربیت فرمائی ۔ عربی میں معنی کی زیادتی کے لیے یہ وزن‘‘اَفْعَلُ’’ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر حضورﷺ نے لفظ ‘‘ابغض’’ استعمال فرماکر لوگوں کو یہ تاکید فرمادی کہ اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو جھگڑا لو ہے تاکہ لوگ جھگڑا کرنے سے باز رہیں۔

(2) ناپسندیدہ قاری: اللہ پاک کو جو سب سے زیادہ ناپسند قاری ہے اس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ مِنْ اَبْغَضِ الْقُرَّآءِ اِلَی اللہِ تَعَالیٰ الَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْاَمْرَآءَ یعنی بیشک اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند قاری وہ ہیں جو امیروں کی ملاقتیں کرتے ہیں۔(مراۃ المناجیح،کتاب العلم،الفصل الثالث،ج:1،ص 212،حدیث:256،حسن پبلیشرز)

اس حدیث رسولﷺ میں وہ بے دین علماء جو دولت لے کر امیروں کی بدکاریوں کو، ان کے ظلم کرنے کو جائز ثابت کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ قاری اللہ پاک کو سب سے زیادہ ناپسند ہیں۔ حضورﷺ کا ‘‘ابغض’’ کے ساتھ تربیت فرمانا اس لیے تاکہ قاری جب میرا یہ فرمان سنے تو وہ اللہ پاک کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اس کام سے باز آجائے۔ لہٰذا ہمیں صرف وہ کام کرنے چاہيے جس میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی رضا ہو۔

(3) نبی پاکﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ شخص:نبی پاکﷺ کو جو زیادہ محبوب اور جو زیادہ ناپسندیدہ ہے ان کا اظہار کرتے ہوئے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ، وَ اَقْرَبِکُمْ مَنِّي مَجْلِسًا یَوْمَ القِیَامَۃِ، اَحَاسِنَکُمْ اَخْلَاقًا، واِنَّ اَبْغَضَکُمْ اِلَیَّ وَاَبْعَدَکُمْ مِنِّی یَوْمَ القِیَامَۃِ، اَلثَّرْثَارُوْنَ وَ المُتَشَدِّقُوْنَ وَ المُتَفَیْھِقُوْنَ، قَالُوا:یارسولَ اللہِ،قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُوْنَ وَ المُتَشَدِّقُوْنَ، فَمَا الْمُتَفَیْھِقُوْنَ ؟قَالَ: اَلْمُتَکَبِّرُوْنَ یعنی تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کے اَخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں اور تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ ہوں گے جو زیادہ بولنے والے،زبان درازی کرنے والے اور بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے ہوں گے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ زیادہ بولنے والے اور زبان درازی کرنے والے کو تو ہم نے جان لیا لیکن بڑھا چڑھا کر باتیں کرنے والے کون ہیں؟اِرشاد فرمایا:‘‘تکبر کرنے والے۔ ( ریاض الصالحین،کتاب الاخلاص،باب حسن الخلق،ج:1،ص:390،حدیث:634،شبیر برادرز)

اس حدیث پاک میں حضورﷺ نے‘‘احب’’ سے اپنے پسندیدہ شخص اور‘‘ابغض’’ سے ناپسندیدہ شخص کا اظہار فرمایا تاکہ میرے امتی اور مجھ سے محبت کرنے والے ان کاموں سے باز آجائیں جو مجھے پسند نہیں اور وہ کام کریں جو مجھے پسند ہیں۔

مذکورہ حدیث پاک سے ایک اصول یہ سیکھنے کو ملا کہ اِیمان والے ایمان کی وجہ سے محبوب ہیں مگر ان کی اچھائی و بُرائی کی صفت کی وجہ سے لوگ برے اور مبغوض ہوجاتے ہیں،یعنی جس میں جتنی برائیاں زیادہ وہ اتنا زیادہ ناپسندیدہ اور جس کی اچھائیاں جتنی زیادہ ہونگی وہ اتنا زیادہ محبوب ہوگا، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اچھائی کریں اور برائی سے بچیں ۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حضورﷺ کی سچی محبت اور حضورﷺ کے فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ۔

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے جس نے آپ ﷺ کو انسان کی تربیت کے لیے مبعوث فرمایا اور ہمیں آقاﷺ کا امتی بنایا ، آپ نے تمام لوگوں کی رہنمائی فرمائی اور ناپسندیدہ چیزوں کی پہچان بتائی ، ناپسندیدہ چیزوں کے لیے عام طور پر لفظ ابغض استعمال کیا جاتا ہے۔

(1) برے اخلاق کی وجہ سخت ناپسندیدہ ہونا: وَعَن أبي ثَعلبةَ الخُشنيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مني مساويكم أَخْلَاقًا الثرثارون المتشدقون المتفيقهون ترجمہ: ابوثعلبہ خشنی رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک (دنیا میں) تم میں سے مجھے زیادہ پسند و محبوب اور روزِ قیامت میرے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو تم میں سے زیادہ بااخلاق ہو گا، اور تم میں سے (دنیا میں) مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور روزِ قیامت مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہو گا جو تم میں سے بد اخلاق، بہت باتیں کرنے والے، زبان دراز اور گلا پھاڑ کر باتیں کرنے والے ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: آداب کا بیان، باب: بیان و شعر کا بیان، حدیث نمبر: 4797، جلد:3۔ صفحہ:1352)

(2) جھگڑا کرنے والا ناپسندیدہ: وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الخَصِمُ ترجمہ: عائشہ رضى الله عنها بیان کرتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ سخت جھگڑالو شخص اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ شخص ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: امارت و قضاء کا بیان، باب: فیصلوں اور گواہیوں کا بیان، حدیث نمبر: 3762، جلد :2۔ صفحہ:1111)

(3) حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ: وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ الطلاقُ ترجمہ: ابن عمر رضى الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’ حلال چیزوں میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: نکاح کا بیان، باب: خلع اور طلاق کا بیان، حدیث نمبر: 3280، جلد:2۔ صفحہ: 978)

(4) سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ مَسَاجِدُهَا وَأَبْغَضُ الْبِلَاد إِلَى الله أسواقها ترجمہ: ابوہریرہ رضى الله عنه بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔‘‘ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: نماز کا بیان ، باب: مساجد اور نماز پڑھنے کے مقامات کا بیان، حدیث نمبر: 696، جلد:1۔ صفحہ: 220)

(5) سخت ناپسندیدہ قسم کے لوگ: وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى الله ثَلَاثَة ملحد فِي الْحرم وميتغ فِي الْإِسْلَام سنة الْجَاهِلِيَّة ومطلب دم امرىء بِغَيْر حق ليهريق دَمه ترجمہ: ابن عباس رضى الله عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تین قسم کے لوگ اللہ کو سخت ناپسندیدہ ہیں، حرم میں ظلم و ناانصافی کرنے والا، اسلام میں، جاہلیت کا طریقہ تلاش کرنے والا اور بڑی جدوجہد کے بعد کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: ایمان کا بیان، باب: کتاب و سنت کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کا بیان، حدیث نمبر: 142، جلد :1 صفحہ: 51)

(6)سرکش اور خبیث شخص سخت ناپسندیدہ ہے : عن أبي سعيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، بايع الناس وفيهم رجل ذو جثمان، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: يا عبد الله أرزئت في نفسك شيئا قط؟ قال: لا، قال: ففي ولدك؟ قال: لا، قال: ففي أهلك؟ قال: لا، قال: يا عبد الله إن أبغض عباد الله إلى الله العفريت النفريت، الذي لم يرزأ في نفسه ولا أهله وماله ولا ولده ترجمہ: حضرت ابوسعید رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں سے بیعت لے رہے تھے کہ ان میں ایک شخص لحیم شحیم جسم والا تھا، آپ نے فرمایا: بندہ خدا تجھے بدن میں کبھی کوئی تکلیف بھی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: نہیں ، فرمایا: اولاد کے بارے میں؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: گھر والوں کے متعلق؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اے اللہ کے بندے! اللہ تعالیٰ کا سب سے ناپسندیدہ بندہ وہ ہے جو خبیث و سرکش ہو جسے مال، بدن، اولاد اور اہل میں کوئی مصیبت نہ پہنچی ہو۔ (کنزالعمال، کتاب: کتاب البر، باب: مصائب پر اجر وثواب ملتا رہتا ہے، حدیث نمبر: 8668، جلد:3۔ صفحہ:756 )

یہ صحیح اور مستند احادیث ہمیں سکھاتی ہیں کہ کن چیزوں سے بچنا ضروری ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہ سکیں۔

یہ تعلیمات ہماری عملی زندگی کے لیے نہایت اہم ہیں، کیونکہ جو چیز اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے، ہمیں بھی اس سے بچنا چاہیے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایمان اور کفر کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے قرآن مجید میں مختلف مثالیں بیان کی گئی ہیں جو انسان کی ہدایت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ مثالیں فطرت، زندگی اور اعمال کے اثرات کو سمجھانے کے لیے بہترین تشبیہوں پر مشتمل ہیں، جو ایمان کی روشنی اور کفر کی تاریکی کے حقائق کو آشکار کرتی ہیں۔ ان مثالوں سے انسان کو غور و فکر اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

ایمان کی تعریف : ایمان کا مطلب ہے دل سے اللہ کی وحدانیت کو ماننا، زبان سے اس کا اقرار کرنا، اور اعمال کے ذریعے اس پر عمل پیرا ہونا۔ ایمان کا مرکز اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، کتابیں، انبیاء، قیامت کا دن، اور تقدیر پر یقین رکھنا ہے۔

کفر کی تعریف: کفر کا مطلب ہے اللہ کا انکار یا اس کی نعمتوں کی ناشکری کرنا، اور وہ چیزیں نہ ماننا جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم تک پہنچائیں۔

ایمان روشنی اور ہدایت کا راستہ ہے، جبکہ کفر گمراہی اور اندھیروں کی علامت ہے۔

ایمان کی قرآنی مثالیں:

(1) روشنی اور اندھیرا: اللہ تعالیٰ نے ایمان کو روشنی اور ہدایت سے تشبیہ دی ہے: اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ترجمہ کنزالایمان: اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے ۔(البقرة: 257)

(2) بارش اور زمین کی زرخیزی: ایمان کو ایسی زمین سے تشبیہ دی گئی ہے جو بارش کے پانی سے سرسبز ہوجاتی ہے: وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ترجمہ کنز العرفان:اور وہ (پانی) جو لوگوں کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے ۔(پ13 ، الرعد : 17)

(3) پختہ جڑوں والا درخت: ایمان کو ایسے مضبوط درخت سے تشبیہ دی گئی جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہوں اور شاخیں آسمان تک ہوں:

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴) ترجمہ کنزالایمان: کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں۔ (ابراھیم: 24)

کفر کی قرآنی مثالیں:

(1) سراب: کفر کو سراب سے تشبیہ دی گئی جو دور سے پانی نظر آتا ہے لیکن قریب پہنچ کر کچھ نہیں ہوتا:

وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ ترجمہ کنز العرفان :اورکافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو۔(پ18 ، النور: 39)

(3) کھوکھلا درخت: کفر کو ایسے درخت سے تشبیہ دی گئی جو زمین سے اکھڑا ہوا اور غیر مستحکم ہو: وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶) ترجمہ کنز العرفان: اور گندی بات کی مثال اس گندے درخت کی طرح ہے جوزمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو ۔ ( پ13 ، ابراہیم: 26)

یہ مثالیں ایمان کی خوبصورتی اور اس کے اثرات کو واضح کرتی ہیں، جبکہ کفر کی کمزوری اور بے ثباتی کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔ ان مثالوں پر غور و فکر انسان کے دل کو حق کی طرف مائل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں نیکی والے کام کرنی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین 

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان اور کفر کے درمیان واضح فرق بیان کیا ہے اور ان دونوں کی مثالیں دے کر انسان کو حق و باطل کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان اور کفر کی بعض نمایاں مثالیں درج ذیل ہیں:

ایمان کی قرآنی مثالیں

(1) روشنی اور اندھیرے کی مثال : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۬ؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـٴُـھُمُ الطَّاغُوْتُۙ- یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِؕ

ترجمہ کنزالایمان: اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیریوں کی طرف نکالتے ہیں۔(البقرة: 257)

یہ آیت ایمان کو روشنی اور کفر کو اندھیروں سے تشبیہ دیتی ہے۔ ایمان والا شخص ہدایت کے نور میں زندگی بسر کرتا ہے، جبکہ کافر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔

(2) پاکیزہ درخت کی مثال: ایمان کی ایک اور مثال اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی: اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴) ترجمہ کنزالایمان: کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں۔ (ابراھیم: 24)

ایمان مضبوط درخت کی طرح ہوتا ہے جو نفع بخش ہوتا ہے، اس کی جڑیں دل میں پیوست ہوتی ہیں، اور اعمال کی شاخیں بلند ہوتی ہیں۔

(3) بارش اور زمین کی مثال: ایمان کو بارش اور اس کے اثرات سے بھی تشبیہ دی گئی ہے: اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا ترجمہ کنزالایمان: اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنے اپنے لائق بہہ نکلے تو پانی کی رَوْ(دھار) اس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی۔ (الرعد: 13)

بارش ایمان کی علامت ہے، جو دلوں کو سیراب کرتی ہے، لیکن جس دل میں کفر ہو، وہ اس پانی کو قبول نہیں کرتا۔

کفر کی قرآنی مثالیں

(1) سراب کی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا ترجمہ کنزالایمان: اور جو کافر ہوئے اُن کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اُس کے پاس آیا تو اُسے کچھ نہ پایا ۔(النور: 39)

یہ مثال بتاتی ہے کہ کافر دنیا میں جو بھی اعمال کرتا ہے، وہ آخرت میں بے فائدہ ہوں گے۔

(2) چٹان پر مٹی کی مثال: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے۔ (البقرة: 171)

کافر ہدایت کو سنتے ہیں، مگر ان کے دل اسے قبول نہیں کرتے۔

(3) اندھیروں میں شخص کی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ ترجمہ کنزالایمان: یا جیسے اندھیریاں کسی کُنڈے کے دریا میں اس کے اوپر موج مو ج کے اوپر اَور موج اس کے اوپر بادل اندھیرے ہیں ایک پر ایک جب اپنا ہاتھ نکالے تو سوجھائی دیتا معلوم نہ ہو۔ (النور: 40)

یہ مثال بیان کرتی ہے کہ کافر گمراہی میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی۔

ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں ، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ایمان و کفر کو بیان کیا گیا ہے اور امت کی رہنمائی کے لیے مختلف امثلہ بھی ذکر کی گئی ہیں تاکہ عقل والے اس میں غوروفکر کرکے نصیحت حاصل کریں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) کفر وجہالت کی مثال: اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۲)

ترجمہ کنزالایمان: اور کیا وہ کہ مُردہ تھا تو ہم نے اُسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں۔ (الانعام: 122)

وضاحت:

اس آیتِ کریمہ میں کفر اور جہالت کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ مومن اور کافر کا حال یہ ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اُس مردہ کی طرح ہے جس نے زندگی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی طرف راہ پاتا ہے اور کافر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور اُن سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں ہی مبتلا رہے۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافر کے لئے عام ہیں ۔(تفسیر صراط الجنان)

(2) کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال اوران کا اُخروی حال: اَفَمَنْ یَّمْشِیْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖۤ اَهْدٰۤى اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ترجمہ کنز الایمان:تو کیا وہ جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے سیدھی راہ پر۔(سورۃ الملک آیت 22)

وضاحت: اس مثال کا مقصود یہ ہے کہ کافر گمراہی کے میدان میں  اس طرح حیران و سرگرداں  جاتا ہے کہ نہ اسے منزل معلوم اور نہ وہ راستہ پہچانے اور مؤمن آنکھیں  کھولے راہِ حق دیکھتا اورپہچانتا چلتا ہے۔یہ تو کافر اور مؤمن کی دُنْیَوی مثال ہے جبکہ آخرت میں کفار کو واقعی منہ کے بل اٹھایا اور چہروں  کے بل جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔(تفسیر صراط الجنان)

(3) کافر و مومن برابر نہیں: مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: دونوں فریق کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا ان دونوں کا حال ایک سا ہے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔(سورۃ الھود آیت 24)

وضاحت: اس آیت میں دونوں فریقوں یعنی کافر اور مومن کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ ان کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔ کافر اس کی مثل ہے جو نہ دیکھے نہ سنے اور یہ ناقص ہے، جبکہ مومن اس کی مثل ہے جو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے اوروہ کامل ہے اور حق و باطل میں امتیاز رکھتا ہے، اس لئے ہر گز ان دونوں کی حالت برابر نہیں۔(تفسیر صراط الجنان)

اللہ پاک ہمیں ایمان کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے کفر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین