آج کا کام کل پر مت چھوڑئیے،  ورنہ اس کا نقصان آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا، کہتے ہیں" گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں"

سبق آموز حکایت:

لہذا آج کا کام آج ہی کرنا ہوگا، کیونکہ کل کل کا ہی کام کرنا ہے، جیسا کہ ایک طالب علم سارا سال اپنی پڑھائی پر توجّہ دینے کی بجائے کہتا ہے کہ آج نہیں سبق یاد کرنا، میں کل کرلوں گا، پھر جب کل آتی ہے، تب بھی وہ یہی جملہ کہتا ہے کہ آج نہیں کل کر لوں گا، یوں آہستہ آہستہ سال مکمل ہو جاتا ہے اور امتحانات سر پر آ جاتے ہیں، اب حال یہ ہے کہ طالبعلم اپنی پڑھائی پر توجّہ نہ دے سکنے پر بہت پچھتاتا ہے اور سوائے رسوائی کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ، آخر وہ یہی کہتا ہے کہ" کاش! میں نے روزانہ کا کام، روز کیا ہوتا، روز انہ کا سبق روز یاد کیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی، یوں وہ سراسر نقصان اٹھاتا ہے اور پھر کامیابی کی منزل طے نہیں کر پاتا۔" اس لئے ہمیں چاہئے کہ آج کا کام آج ہی کریں، کل پر مت چھوڑیں، وقت کی قدر کیجئے، وقت بہت ہی قیمتی اور انمول تحفہ ہے۔ آج عمل کا موقع ہے:

امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے ایک مرتبہ کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے لوگوں! بیشک تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ کہیں تم لمبی لمبی امیدیں نہ باندھ بیٹھو اور خواہشات کی پیروی میں نہ لگ جاؤ، یاد رکھو! لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور خبردار! نفسانی خواہشات کی پیروی راہِ حق سے بھٹکا دیتی ہے، خبردار! دنیا عنقریب پیٹھ پھیرنے والی اور آخرت جلد آنے والی ہے، آج عمل کا دن ہے، حساب کا نہیں، کل حساب کا دن ہوگا، عمل کا نہیں۔

کوچ ہاں اے بےخبر ہونے کو ہے

کب تلک غفلت سحر ہونے کو ہے

باندھ لے تو شہ سفر ہونے کو ہے

ختم ہر فردِ بشر ہونے کو ہے

( موت کا تصور، ص38)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، 1۔جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، 2۔صحت کو بیماری سے پہلے، 3۔مالداری کو تنگدستی سے پہلے، 4۔فرصت کو مشغولیت سے پہلے، 5۔زندگی کو موت سے پہلے۔(چھٹیاں کیسے گزاریں، صفحہ نمبر 4)

وقت کی قدر کیجئے:

وقت کی قدر کرتے ہوئے آج کا کام اگر آج ہی کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے، آج وقت ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم آج ہی نیکیوں پر استقامت حاصل کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، پتہ نہیں ہمیں کل کا وقت بھی مل پائے گا یا نہیں۔

بعض لوگ نماز میں سستی کرتے ہیں کہ آج نہیں، کل سے نماز شروع کروں گا، بعض بے باک لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تو میری عمر ہی کیا ہے؟، جب بوڑھا ہوں گا تو نمازیں پڑھوں گا، نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھوں گا، دیگر عبادات بھی بجا لاؤں گا، لیکن یہ زندگی تو صرف اتنی سی ہے کہ سانس کی مالا ٹوٹ گئی تو بس، اب کچھ کرنے کی ہمت نہ رہی، موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، آج تو کئیں بچے پیدا ہوتے ہی وفات پا جاتے ہیں، تو اے نادانو! ذرا سوچئے کہ آپ کس طرح یہ جملہ کہتے ہیں کہ جب بوڑھا ہو جاؤں گا تو ہی نماز پڑھوں گا، عبادتیں کروں گا، ایسا بالکل بھی نہیں کہنا چاہئے، توبہ کیجئے، اپنی نمازیں قضا نہ کریں کہ بلاوجہ نماز قضا کرنے والوں کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے۔

آج کا کام کل پر چھوڑنے کا ایک سبب:

"لمبی امیدیں بھی ہیں، کیونکہ لمبی امید ہوتی ہے تو اس لئے وہ کہتا ہے کہ کل کرلوں گا، کس کو کیا پتہ؟ کل آئے گی بھی یا نہیں، لہذا! ایسا نہ کیجئے، لمبی امیدیں نہ لگائیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امید کہتے کس کو ہیں۔

امید کسے کہتے ہیں"

دراز ی عمر کی آرزو اُمید ہے اور کسی چیز سے سیر نہ ہونا، ہمیشہ زیادتی کی خوا ہش رہنا حرص ہے، یہ دونوں چیزیں اگر تو دنیا کے لئے ہیں، تو بری ہیں اور اگر آخرت کے لئے ہیں، تو اچھی۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 7، صفحہ 75)


انمول ہیرے:

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کے مطبوعہ 26 صفحات پر مشتمل رسالے"انمول ہیرے" صفحہ 2 پر شیخِ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:"ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے ساتھ کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا، باغ میں سے کوئی شخص سنگریزے پھینک رہا تھا، ایک سنگریزہ خود اس کو آ کر لگا، اس نے خدّام کو دوڑایا کہ جاکر سنگریزے پھینکنے والے کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ، چنانچہ خدّام نے ایک گنوار کو حاضر کر دیا، بادشاہ نے کہا" یہ سنگریزے تم نے کہاں سے حاصل کئے؟ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا" میں ویرانے میں سیر کر رہا تھا کہ میری نظر ان خوبصورت سنگریزوں پر پڑی، میں نے ان کو جھولی میں بھر لیا، اس کے بعد پھرتا پھراتا اس باغ میں آ نکلا اور پھل توڑنے کے لئے ان کو استعمال کیا، بادشاہ بولا"یہ پتھر کے سنگریزے دراصل انمول ہیرے تھے، جنہیں تم نادانی کے سبب ضائع کر چکے"، اس پر وہ شخص افسوس کرنے لگا، مگر اب اس کا افسوس کرنا بیکار تھا کہ وہ انمول ہیرے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔

یہ حکایت ہمیں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کی قدردانی کا سبق دے رہی ہے کہ گزرتے وقت کا ہر لمحہ ایک قیمتی ہیرا ہے، اگر یوں ہی بیکار ضائع کر دیا تو سوائے حسرت و ندامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا، وقت کی قدر کیا ہے؟آئیے اس کو قرآن کریم کی مشہور و معروف سورہ عصر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

اِرشاد ہوتا ہے، ترجمۂ کنزالایمان:" اس زمانۂ محبوب کی قسم! بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے، مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔"(پ30،العصر: 1-3) سورۂ عصر ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی زندگی اور وقت کی اہمیت کو سمجھیں۔

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی

قدرت نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی

آج کا کام کل پر مت ڈالئے، معلوم نہیں زندگی کا سورج کس وقت غروب ہو جائے، کیوں کہ جب بھی کسی نیک کام کاکہا جاتا ہے، تو عام طور پر یہی جواب ملتا ہے" کل سے کروں گا"، مشہور مقولہ ہے:"tomorrow never come do your work today"یعنی کل کبھی نہیں آئے گی، آج ہی اپنا کام کر لو، یہ بات سبھی جانتے ہیں، مگر افسوس پھر بھی یہ "کل" ہمارے اور نیک اعمال کے درمیان حائل ہے، ہمیں اپنی زندگی سے اسی کل کے سلسلے کو ختم کرکے "جو کرنا ہے آج اور ابھی کرنا ہے" کو اپنا مقصد بنانا ہوگا، آج کا کام کل پر مت چھوڑئیے، کل کوئی دوسرا کام ہوگا اور کل کل میں آج کا کام بھی نہ ہو پائے گا، لہذا کل کی بجائے آج اور آج کی بجائے ابھی کا ذہن بنانا ہوگا، کیونکہ دل کے خیالات بدلتے رہتے ہیں۔

حضرت سیّدنا امام بیہقی علیہ رحمۃ اللہ القوی شعب الایمان میں نقل کرتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:"روزانہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت "دن"یہ اعلان کرتا ہے، اگر آج کوئی اچھا کام کرنا ہے تو کر لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں گا۔"

اللہ عزوجل ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

 بے ادبی ایسی نحوست ہے جس کے سبب انسان صرف خود کو خراب نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات سارے عالم میں آگ لگاتا ہے بنی اسرائیل کوآسمان سے کھانا آتا حضرت موسی علیہ السلام کی قوم میں سے چند بے ادبوں نے کہا لہسن اور میسور کیوں نہیں آتے؟ آسمان سے غذا آنا بند ہوگئی پھر جب سیدنا موسی علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام نے سفارش کی تو اللہ پاک نے مال غنیمت بھیجا پھر انہوں نے بعد کے لئے بچا کر رکھ لیا حالانکہ انکو منع کیا گیا تھا سیدنا موسی کلیم اللہ نے کہا یہ ختم نہیں ہو گا صبر اور شکر کے ساتھ کھاؤ بد گمانی اور لالچ سے نا شکری ہوتی ہے لیکن وہ باز نہ آئے ان لالچیوں کی ناشکری کی وجہ سے رحمت کا دروازہ بند ہو گیا من و سلویٰ آنا بند ہوگیا۔

بے ادبی اعمال کی بربادی کا سبب:

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔ ( الحجرات : 02 )

تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔

کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلاہوگا۔ (آداب مرشد کامل، ص 25)

محفوظ خدا رکھنا سدا بے ادبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

ادب پہلا قرینہ محبت کے قرینوں میں:

حدیث پاک میں ہے کہ اصحابِ کہف اللہ والوں سے محبت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کتے کو انسانی شکل میں جنت میں داخل فرمائے گا اب دیکھیں اللہ والوں سے محبت کرے، اگر نجس جانور وہ تو جنت میں داخل ہوجائے اور بلعم بن باعورا جس نے نبی کی بے ادبی کی حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی شان میں گستاخی کی ، انسان ہونے کے باوجود فرمایا کہ بے ادبی کی وجہ سے یہ جہنم میں کتے کی شکل میں جائے گا۔(الملفوظ (کامل )حصہ سوم ، صفحہ 457)

بے ادبی کا وبال :

شیطان نے لاکھوں سال اللہ پاک کی عبادت کی ایک قول کے مطابق چھ لاکھ سال عبادت کی اور وہ صرف ایک بے ادبی کی وجہ سے چھ لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا اور وہ بے ادبی حضرت آدم علیہ السّلام کی تعظیم نہ کرنا تھا ۔

( ادب کی اہمیت از مفتی امین صاحب ص26 مطبوعہ جمیعت اشاعت اہلسنت)

بے ادبی کی نحوست مولانا روم کی نظر میں:

اسلامی تعلیمات بالخصوص قرآن و احادیث مقدسہ میں تہذیب نفس اور کردار سازی میں ادب کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یہی وجہ ہے کہ صوفیاء بھی ادب کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔مولانا رومی اپنے آثار میں مختلف حکایات کے ذریعہ ادب کی اہمیت بیان کرتے ہیں اور بے ادبی کی نحوست اور برائی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

از خدا جوئیم توفیق ادب

بے ادب محروم ماند از فضلِ رب

ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں اور بے ادب ہمیشہ خدا کے فضل سے محروم رہتا ہے

(مثنوی مولوی، دفتر دوم)

ہم اللہ پاک سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں اور بے آدمی کی نحوست سے پناہ مانگتے ہیں۔


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے ۔

انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہونا چاہیے اس بنا پر انسان سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر اپنے خالق کی صفات پیدا کرلے اور اپنے قول و فعل سے ان کا اظہار بھی کرے ، مثلا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ عادل ہے اس لیے عدل کرے، اللہ در گزر کرتا ہے، انسا ن کو بھی چاہیےکہ وہ ایک دوسرے کی خطاؤں اور غلطیوں سے در گزر کرے، رحم کرنا اللہ تعالیٰ کی سب سے غالب صفت ہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس حدیث میں خاص طور پر رحمت پر زور دیا گیا ہے رحم کے حق دار ہمیشہ زیادہ چھوٹے ہوا کرتے ہیں اور بالعموم بڑے عزت و تکریم کے حق دار ہوا کرتے ہیں، اور بالعموم بڑے عزت و تکریم کے حقدار ہوتے ہیں اس لئے ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔

یعنی وہ میرے سایہ شفقت سے محروم رہے گا۔

بچوں کو مناسب تعلیم و تربیت سے محروم رکھنا، انہیں شفقت سے محروم رکھنا ہےاس لیے اگر ہم حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وعید سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بچوں کی مناسب تعلیم اور ضروری تربیت کا فر ض پورا کریں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے سے بڑوں کا ادب کریں اور اپنے سے چھوٹوں پر شفقت کریں۔

ادب آپ کو کسی بھی معاشرے میں مقام و مرتبہ دلا سکتاہے، بے ادبی کی وجہ سے بنے ہوئے کام بھی بگڑ جاتے ہیں، ادب معاشرہ میں سب سے اہم چیز ہے، ادب سے ہم کسی بھی چیز کو حاصل کرسکتے ہیں، لیکن بے ادبی کی وجہ سے ہم کوئی بھی چیز نہیں حاصل کرسکتے ہیں، وقت ایک لازوال دولت ہے جس کا ہمیں ادب کر نا چاہیے وقت جو ہے وہ کبھی کسی کا انتطار نہیں کرتا وقت ہی کی قدر کی وجہ سے قومیں زیادہ آباد ہوئیں اورترقی کی ، وقت کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے قومیں زیادہ خراب ہوئیں، اور ان کانام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا، وقت کی قدر اہمیت کسی کو بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے، وقت کی قدر کے بغیر انسان اپنی اہمیت کو بیان نہیں کرسکتا ہے، ہمیں ہر چیز کا ادب کرنا چاہیے کہ جو چیز جہاں پر ہے وہاں رکھنی چاہیے مثل مشہور ہے کہ با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب ہوتا ہے۔

جو شخص دوسروں کی عزت نہیں کرتا اس کی کبھی عزت نہیں ہوتی ہے، ادب کی وجہ سے انسان بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے، ادب ہی کی بدولت انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے، بے ادبی کی نحوست کی وجہ سے انسان پستی کی طرف چلا جاتا ہے، جو قومیں ادب کونظر انداز کردیتیں ہیں ان کا معاشرے میں کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ہے، بے ادبی کی نحوست کی وجہ سے انسان اس دنیا میں بھی اور د وسرے جہان میں بھی برباد ہوتا ہے، بے ادبی کی نحوست انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہے، بے ادبی کی نحوست کی وجہ سے ہی مختلف قوموں کا نام و نشان ہی اس دنیا سے مٹ گیا۔

روایت ہے کہ جب جنگ تبوک کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ تبوک کے موقع پر سفر میں قوم ثمود کے کھنڈرات دیکھے تو آپ نے فرمایا کہ خبردار کوئی شخص اس گاؤں میں داخل نہ ہو اور نہ ہی کوئی شخص ا س گاؤں کے کنویں کا پانی پئے اور تم لوگ اس عذاب کی جگہ سے خوفِ الہی عزوجل میں ڈوب کر روتے ہوئے اور منہ ڈھانپے ہوئے جلد سے جلد گزر جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی عذاب اُتر پڑے۔

کتابیں اور کاپیاں جو کہ علم کا ذریعہ ہیں ہمیں ا ن کا ادب کرنا چاہیئے ، کتابوں اور کاپیوں کو ان کی جگہ پر ہی رکھنا چاہیے دینی کتابوں کا بھی ادب کرنا چاہیے، انسان کو اپنے استاد کا ادب احترام کرنا چاہیے ادب ہی کی بدولت انسان زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے، ادب اور بے ادب میں فرق ہوتا ہے، جو انسان ادب کرتا ہے اس کی ہر جگہ پر عزت ہوتی ہے بے ادبی انسان کے نیک اعمال کو کھا جاتی ہے، طالبِ علم کو اپنے اساتذہ کے پیچھے چلنا چاہیے ۔

دنیا کے تمام عالم اقوام میں ان ہی قوموں نے ترقی کی ہے جنہوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا او ر اپنے سے بڑے کا ادب کیا، ہر انسان کو چاہیے کہ وقت کے مطابق کام کرے، ہر انسان اپنے ماحول بنانے کی کوشش کرے، اپنے اہل خانہ کو اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا ذہن دینا بھی ایک مسلمان کی اہم ذمہ داری ہے ، عموماً گھر کے مختلف افراد کی سوچ مختلف ہوتی ہے، ان مختلف ذہنیت رکھنے والوں کو دین کے راستے پر لانے میں گھر کی خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔

اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اختیار کرکے عبادتیں بجالا کر گناہوں سے باز رہ کر اور گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور انہیں علم و ادب سکھا کر اپنے اہل خانہ کو نیکی کی طرف مائل کرنا، گناہوں سے نفر ت دلانا اور گھر میں دینی ماحول بنانا ہماری ایک بہت بڑی ضرورت ہے، او راس کے لیے گھر کے افراد ہماری بات سننے پر آمادہ ہوں اور وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر میں ماں باپ، بہن بھائی ساس نند سبھی ہماری بات سنیں اور ہمارے قریب آئیں ؟ قرآن پاک سے پتا چلتا ہے کہ نرم دلی لوگوں کو قریب کرتی ہے، اور سخت مزاجی منتفر ہونے کا سبب ہے۔

قرآن پاک میں ترجمہ ہے، تو کبھی کچھ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند ومزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے ۔

اسی طرح رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سیرت سے بھی پتا چلتا ہے کہ نرمی ہمارے گھر والوں کی بھلائی کا ذریعہ ہے، فرمایا: اے عائشہ نرمی اختیار کرو جب اللہ کریم کسی گھر والوں سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو انہیں نرمی عطا فرمادیتا ہے۔

گھر میں دینی ماحول بنانے کے لیے مزید یہ کہ گھر میں دعا بھی کرنی چاہیے اور گھر والوں سے مخالفت اور سختی پر صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے کوئی بات مانے یا نہ مانے آپ ہر جائز کام میں سبھی کی بات مانیں، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں د وسروں کی نظر میں آپ کی اہمیت بڑھائیں گی ، اور بالاخر وہ بھی آپ کی بات سنیں گے۔ 


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

انسانوں میں ادب      و احترام کاشعور روزاول سے ہے ، اسلامی تعلیمات ، خصوصاً قرآن وحدیث میں تہذیبِ نفس اور کردارسازی میں ادب کوجو اہمیت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ ادب ہی نسان کو حیوانوں سے جدا کرتا ہے ۔ادب ہی انسان کی معراج اور ارتقا کا ذریعہ ہے ۔ادب ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان عزت و عظمت کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور بے ادبی وہ کھائی ہے جس میں گر کر انسان ذلت و رسوائی کی گہرائی میں چلا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ادب کی بڑی اہمیت ہے ، بلکہ عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے ۔ الدین کلہ ادب ، دین سارے کا سارا ادب ہے ۔

الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ :

کردم ازعقل سوالے کہ بگو ایمان چیست

عقل در گوش دلم گفت ایمان ادب است

میں نے عقل سے پوچھا کہ بتا ایمان کیا ہے ؟ عقل نے میرے دل کے کان میں کہا ایمان ادب کا نام ہے۔ (فتاوی رضویہ ،ج۲۳، ص ۳۹۳)

ادب کی وجہ سے بعض اوقات انسان وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو کئی سالوں کی محنت سے بھی نہیں حاصل کر پاتا۔اور بے ادبی کی وجہ سےانسان آن کی آن میں بلندوبالا مقام سے پستی و ذلت کی کھائیوں میں جا گرتا ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا : ما وصل من وصل الا بحرمۃ و ما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ۔ یعنی جس نے جو پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایااور جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ کھویا۔ (تعلیم المتعلم و طریق التعلم )

امام رویم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اجعل عملک ملحا و ادبک دقیقا۔ اپنے عمل کو نمک اور ادب کو آٹا بناو۔ یعنی کم عمل پر زیادہ ادب کی حاجت ہے۔ (الطرر والحواشی علی الحکم العطائیہ،ص ۹۶)

تویاد رکھیں کہ جس طرح ادب سے انسان کوبلندیاں اور رفعتیں ملتی ہیں ۔ اسی طرح بے ادبی سے انسان کو نحوستیں اور ذلتیں بھی ملتی ہیں ۔ادب سے قومیں بنتی ہیں بے ادبی سے فنا ہوتی ہیں ۔تاریخ شاہد ہے کہ گذشتہ زمانوں میں جن قوموں کو ہلاکت خیز عذاب سے دو چار کیا گیا اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر عبرت کا نشانہ بنایا گیا ، اس کی وجہ صرف اللہ کی نافرمانی ہی نہ تھی بلکہ انبیاء و رسل اوراولیاء واتقیاء کی بے حرمتی اور بے ادبی بھی تھی۔

حضرت ذالنون مصری فرماتے ہیں کہ : اذا خرج المرید عن الحدالادب فانہ یرجع من حیث جاء۔

جب مرید ادب کی حد یں توڑدے تو وہ لوٹ کروہیں پہنچ جا تا ہے جہاں سے چلا تھا۔

(الطرر والحواشی علی الحکم العطائیہ،ص ۹۶، رسالہ قشیریہ)

پہلے زمانے میں کوئی نوجوان کسی بوڑھے کے آگے چلتا تو اللہ اسے ( بطورسزا) زمین میں دھنسا دیتا۔

(روح البیان، پارہ ۱۷)

ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں فاقہ کی شکایت کی تو فرمایا کہ ضرور تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہو گا۔ (روح البیان، پارہ ۱۷)

شیطان نے لاکھوں سال اللہ کی عبادت کی ۔ایک قول کے مطابق اس نے 6 لاکھ سال عبادت کی ۔ صرف ایک بےادبی کی وجہ سے 6 لاکھ سال کی عبادت ضائع کربیٹھا ۔

علماء فرماتے ہیں : اپنے شیخ اورمرشد کی گستاخی و بے ادبی سلب توفیق اور خذلان کا سبب بنتی ہے اور آخر کاریہ بے ادبی متاع ایمان کوبھی ضائع کر دیتی ہے۔(معاذ اللہ )

آج کے معاشرے کا اگرجائزہ لیا جائے تو واضح ہے کہ لوگوں نے کس جراءت کے ساتھ علماء اور دیندار طبقہ کی بے ادبی اور ان پر بے جا تنقید کرنے کو اپنا شیوہ بنایا ہے۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص علماء کی توہین و بے ادبی کرتا ہے اس پر کفر اور سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے۔

علامہ ابن نجیم مصری فرماتے ہیں : الاستہزاء بالعلم والعلماء کفر ۔علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔

(الاشباہ والنظائر، باب الردۃ)

بے ادب کیلئے حدیث میں وعید :

لیس من امتی من لم یجل کبیرنا و یرحم صغیرنا،و یعرف لعالمنا حقہ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں جو ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے ، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے ،اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں ۔(مستدرک للحاکم،مسنداحمد)

اللہ پاک ہمیں بے ادبی اوربے ادبوں سے بچائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو


بے اد بی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

دینِ اسلام ہمیں ہر ہر معاملے میں ادب کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم مقدس ہستیوں، متبرک مقامات اور با برکت چیزوں کا احترام کریں اور بے اَدَبی اور بے اَدَبوں کی صحبت سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ جیسا کہ منقول ہے کہ :

” مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ إلِّا بالحُرْمَۃ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ إلَّا بِتَرْکِ الحرمۃ والتَعْظَیْمِ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کے سبب سے پایا اور جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی کھویا۔ ( تعلیم المتعلم طریق التعلم، ص42)

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ " با ادب با نصیب، بے اَدَب بے نصیب " اللہ تعالیٰ نے فرمایا" وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔( الحجرات : 02 )

شیطان مردود کیوں قرا ر دیا گیا؟

شیطان نے لاکھوں سالاللہ پاک کی عبادت کی ایک قول کے مطابق نو لاکھ سال عبادت کی اور وہ صرف ایک بے ادبی کی وجہ سےنو لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا اور اسی بے ادبی ب کے سبب وہ برباد ہوگیا اور قیامت تک کے لئے مَردُود قرار دیا گیا۔ اور وہ بے ادبی حضرت آدم علیہ السّلام کی تعظیم نہ کرنا تھا ۔

بے ادبی کی وجہ سے فاقہ:

کتاب "آداب مرشد کامل " میں تفسیرِ روح البیان کے حوا لے سے ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔

ایک اور جگہ ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔ (آداب مرشد کامل ص 25)

نبی کی بے ادبی کے سبب جہنمی قرار:

بلعم بن باعورا جس نے اللہ کے نبی حضرتِ موسیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کی ، اس کی اس گستاخی اور بے ادبی کی وجہ سے جہنم میں کتے کی شکل میں جائے گا۔ اس کے بر عکس اللہ تعالیٰ اس کتے کو انسانی شکل میں جنت میں داخل فرمائے گا جس نے اصحابِ کہف( جوکہ اللہ کے نیک اولیاء میں سے تھے) کا ادب و احترام کیا ۔

 اللہ کے نیک بندوں سے محبت کرنے والا ، ان کا ادب و احترام کرنے والااگرچہ ایک نجس جانورہی کیوں نہ ہواللہ تعالیٰ اسے جنتی بنادے ۔اور انسان اگر چہ اشرف المخلوقات ہے اللہ کے نبی کی بے ادبی کرنے کے سبب جہنمی ہو جاتا ہے۔

اللہ کے رسول کو ایذاء دینے والے کا انجام:

اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذاء دینے والوں کے لئے دنیااور آخرت دونوں میں لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ( احزاب : 57 )


امیراہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی جانب سے عطاکردہ

ہفتہ وار رسالہ

کام کے اوراد

اِس رسالے کی چندخصوصیات:

٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے ’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو، عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی شمولیت ٭آیات کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کےلئے پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔

17صفحات پر مشتمل یہ رسالہ 2021ءمیں اردو زبان کے1st ایڈیشن میں46ہزار کی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔

مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے16روپے ہدیۃ پر حاصل کیجئے اوردوسرو ں کو بھی ترغیب دلائیے۔

اس رسالے کی PDF دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

Download Now


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

 ایک مشہورمقولہ ہے کہ ”باادب بانصیب ، بےادب بےنصیب“ یعنی انسان جو پاتا ہے ادب کی وجہ سے پاتا ہے اور جو کھوتا ہے اس کاسبب بے ادبی ہے۔ بے ادبی کی نحوست اس قدر زیادہ ہے کہ ایمان کو کاملیت تک نہیں پہنچنے دیتی ۔ جیسا کہ حسن اخلاق کے پیکر فرماتے ہیں :وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرےاور ہمارے بڑوں کی توقیر(عزت)نہ کرے۔ (ترمذی، ح ١٩٢٦،ج ٣،ص ٣٦٩)

اور اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :جو باادب نہیں اس کا کو ئی دین نہیں۔(فتاوٰی رضویہ،ج٢٨،ص١٥٨،رضا فاؤنڈیشن)

بعض اوقات بے ادبی کفر تک لے جاتی ہے اور ہمیشہ کے لیے جہنم کو ٹھکانہ بنا دیتی ہے۔جیسے شیطان نے کوئی سالوں تک اللہ کی عبادت کی اور کوئی علوم و فنون کا ماہر تھا یہاں تک کہ فرشتوں میں وعظ کرتا تھا لیکن ایک نافرنی نے اسکا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جہنم کردیا اور وہ نافرمانی حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی تھی۔( عجائب القرآن،ص ٢٥٧ مخلصاً)

اسی طرح ایک شخص جس کا نام بلعم بن بعورہ تھا ، بہت بڑا عابد و زاہد اور عالم تھا۔روحانیت کا یہ عالم کہ زمین پر بیٹھ کر عرش اعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا۔ لیکن مال کی حوس اور دنیا کی محبت نے اسکا انتہائی برا حال کیا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارگاہِ خداوندی سے دھتکار دیا گیا۔ مال کی لالچ میں آکر اس بد بخت نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی لیے بد دعا کرنا چاہی اور بے ادبی کی کوشش کی جس کی وجہ سے اسکی زبان لٹک کر سینے تک آگئی اور کفر پر مرا۔(عجائب القرآن،ص١١٨ مخلصاً)

گویا کہ بے ادبی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی بنا دیتی ہے۔

جتنا بڑا علم و عابد ہو اگر اپنے سے بڑے مرتبے والے کی ادنٰی سی بے ادبی بھی کر دے تو اسکے نیک اعمال اسطرح برباد ہو جاتے ہیں کہ اسے خبر بھی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں حکم فرماتا ہے : وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔ ( الحجرات : 02 )

اسی لیے اگر روضہ رسول پر بھی حاضری دیں تو ادب کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ بندہ اطاعت سے جنت تک اور ادب سے خدا تک پہنچ جاتا ہے ۔اللہ تعالٰی ہمیں بے ادبیوں سے محفوظ فرمائے اور باادب بنائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

انسان اور جانور میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ادب ہے  یہ وہ تحفۂ آسمانی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بطورِ خاص عطا فرمایا۔

ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہے گویا کہ دیگر اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔

امام بخار ی رحمۃُ اللہِ علیہ کی علمی شہرت اورقدر و منزلت سے طلبا خوب واقف ہیں، جب امام محمد بن حسن رحمۃُ اللہِ علیہ جو امام ربانی (از آئمہ احناف) کے نام سے مشہور ہیں کی خدمت میں تعلیم کے لیے حاضر ہوئے تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی طبیعت کو استاذ مکرم نے دیکھ کر فیصلہ فرمایا کہ فقہ کی بجائے ، حدیث کا متن سیکھو، با ادب شاگرد با ادب سر جھکاتے ہوئے فقہ چھوڑ کر حدیث شریف پڑھنے لگ گئے، امام زرنوجی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ استاد صاحب کے فرمان پر چلنے کی برکت ہے کہ آج امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ کی لکھی ہوئی کتاب قرآن مجید کے بعد اول درجہ رکھتی ہے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص ۵۵)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اپنی خوبصورت کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں: لادین لمن لا ادب له یعنی جو باادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ۲۸،ص ۱۵۹)

تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔

ایک اور جگہ نقل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔ (آداب مرشد کامل ،ص25)

محفوظ خدا رکھنا سدا بے ادبوں سے

مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

ایک صحابی حضرت عابس ابن ربیعہ رضی اللہُ عنہ کی صورت کچھ کچھ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملتی تھی جب وہ تشریف لاتے حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ تخت سے تعظیماً سیدھے کھڑے ہو جاتے۔(ملفوظات اعلی حضرت ، ص377)

حضرت سیدنا منصور بن عمار رحمۃُ اللہِ علیہ کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ ان کو راہ میں کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر بسم الله الرحمٰن الرحیم لکھا تھا۔ انہوں نے ادب سے رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پائی تو اسے نگل لیا۔ رات خواب دیکھا کوئی کہہ رہا ہے اس مقدس کاغذ کے احترام کی برکت سے اللہ  نے تجھ پر حکمت کے دروازے کھول دیئے۔(فیضان سنت ،ص 113)

آج تک جس نے جو کچھ بھی پایا وہ صرف ادب ہی کی وجہ سے پایا اور جو کچھ بھی کھویا وہ بے ادبی کی وجہ سے ہی کھویا شاید اسی وجہ سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ ”باادب با نصیب بے ادب بے نصیب“

شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی جب کہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا سردار، یہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر مقرب تھا مگر حکم الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں کی عبادت ختم ہوگئی اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگیا ہمیں بھی شیطان کے اس برے انجام سے ڈر جانا چاہیے اور جن جن کی الله پاک نے ادب کرنے کا حکم دیا ادب کرنا چاہیے، اور ادب کرنے سے تو ایمان جیسی دولت بھی مل جاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ادب کرنے سے جادو گروں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی، ہمیں انبیا کرام کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کی بھی عزت کرنی چاہیے۔

علماء ہی تو دین اسلام لوگوں تک پہنچاتے ہیں، بدقسمتی سے آج کل ان کی عزت لوگوں کے دلوں سے ختم کی جارہی ہے یاد رکھیے علما ہی انبیا کے وارث ہیں، ادب کرنے کی وجہ سے ہی ولایت کا درجہ بھی مل جاتا ہے۔

آداب کے متعلق امام محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کا بہت ہی خوبصورت رسالہ ہے جس کا نام الادب فی الدین ہے یہ رسالہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ دعوت اسلامی کے شعبے المدینہ العلمیہ نے کیا ہے جس کا نام آداب دین رکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! معلوم ہوا کہ ہمیں ادب کے دائرے میں رہنا چاہیئے کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے اور جو بےادب ہوتا ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے جیسا کہ شیطان لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم استاد،ماں باپ،اور بڑوں کی عزت کریں

"الله تعالیٰ ہمیں اخلاق و آداب سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم"


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

قرآن کریم میں حضرات صحابہ  رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے واسطے سے قیامت تک تمام انسانوں کو آداب واخلاق سکھلائے گئے ہیں اور بے ادبی کے نقصانات اور اس کے مہلک اثرات سے آگاہ کیا گیا ہے ارشاد رب العالمین ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالعرفان : اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو ۔ (الحجرات: 02)

ادب کو انسان کے زیور سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اگر تعلیم او رعلم کی کمی رہ جائے تو اسے زندگی کے کسی بھی موڑ پر پورا کیا جاسکتا ہے لیکن اگر تربیت اور ادب کی کمی رہ جائے تو اکثر اوقات انسان پچھتاتا رہتا ہے۔

بے ادبی کی نحوست:

تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔

ایک اور جگہ نقل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔ (روح البیان ، پارہ 17،آداب مرشد کامل، ص 25)

حضرت ، امام اہلسنت ، مولٰنا شاہ احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ولادین لمن لا ادب لہ

یعنی جو بادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ، ج ۲۸، ص ۱۵۸، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن )

ادب تک پہنچنے اور بے ادبی سے پرہیز کرنے کی راہوں میں سے ایک، ادب اور بے ادبی کے موارد و مصادیق کو جاننا ہے، اگر چہ ادب بے ادبی کے مصادیق میں سے ہر ایک کی اپنی خاص نشانیاں ہیں، لیکن ادب کو مکمل اور دقیق طور پر پہچاننا بے ادبی کے مصادیق پر توجہ کئے بغیر ممکن نہیں ہے، اگر دوستی اور معاشرتوں کا تحفظ ادب ہے، تو بے ادبی، یعنی مشکوک افراد کے پاس آمد و رفت ، دوست منتخب کرنے میں غور نہ کرنا اور مجالست اور رفاقت میں ذمہ داری سے کام نہ لینا ہے ۔ جو شخص دوسرے افراد سے برتاؤ میں عظمت و تکریم سے پیش آنے کے لئے تیار نہیں ہے اور مسلسل دوسروں کی توہین اور غیبت کرتا رہتا ہے، جو دوسروں کی بکواس کو بکواس اور گالیوں کا جواب گالیوں سے دیتا ہے، جو مجالس و محافل میں دوسروں کے حق کی رعایت نہیں کرتا ہے اور نظم و نسق، مقررات اور خاموشی کی رعایت نہیں کرتا ہے، جو دوسرے کی باتوں کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے، جو گفتگو اور بحث کے دوران شور مچاتا ہے، دوسرے کے حق کی رعایت نہیں کرتا ہے یہ سب چیزیں ادب کے فقدان کی نشانیاں ہیں۔

ادب میں سعادت ہے اور بے ادبی میں بدبختی ہے۔ دین میں سے ادب کو نکال دیں تو دین کی روح ختم ہوجاتی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے میرے رب نے ادب سکھایا ۔ (کشف الخفاء، ج:۱‘ص۷۲ رقم ۱۶۴ )

آداب کے متعلق امام محمد بن محمد غزالی علیہ الرحمۃ کا بہت ہی خوبصورت رسالہ ہے جس کا نام الادب فی الدین ہے یہ رسالہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ دعوت اسلامی کے شعبے المدینہ العلمیہ نے کیا ہے جس کا نام آداب دین رکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

محمد ابوبکر ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان بخاری کراچی )
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے ۔ (الحجرات : 01)

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔

( الحجرات : 02 )

تفسیر رُوحُ البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہتَعَالٰی اسے (ا سکی بے اَدَبی کی وجہ سے)زمین میں دھنسا دیتا تھا۔

ایک اور جگہ نقْل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرْض کی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں فاقہ کا شکار رہتاہوں ۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تو کسی بوڑھے(شخص) کے آگے چَلا ہوگا۔(روح البیان پارہ ۱۷)

اس سے معلوم ہوا کہ بے اَدَبی دنیا وآخِرت میں مَردُود کروادیتی ہے ۔ جیسا کہ ابلیس کی نولاکھ سال کی عبادت ایک بے اَدَبی کی وجہ سے برباد ہوگئی اور وہ مَردُود ٹھہرا۔

(۱)حضرت ابوعلی دقّاق علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : بندہ اِطاعت سے جنّت تک اور اَدَب سے خدا عَزَّ وَجَلَّ تک پہنچ جاتا ہے ۔ ( الر سالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۶)

(۲)حضرت ذُوالنُّون مِصری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ، جب کوئی مرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا ، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چَلا تھا۔( الر سالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۹)

(۳) حضرت ا بنِ مبارَک علیہالرحمۃ فرماتے ہیں کہ ، ہمیں زیادہ عِلْم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑا سا اَدَب حاصل کرنے کی زیادہ ضَرورت ہے۔(الرسالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۷)

(۴) اعلیٰحضرت الشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ایک جگہ حضرت شَیخ سَعدی علیہ رحمۃ الہادی کے قولِ نصیحت کو بڑی اَہمیت دی ۔فرمایا!کیا وجہ ہے کہ مرید عالم فاضل اور صاحبِ شَرِیْعَت و طریقت ہونے کے باوُجود(اپنے مرشِد کامل کے فیض سے ) دامن نہیں بھر پاتا؟ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ اکثر علمائے دین اپنے آپ کو پیرو مرشِد سے افضَل سمجھتے ہیں یا عمل کا غُرور اور کچھ ہونے کی سمجھ کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ وگرنہ حضرت شَیخ سعدی علیہ رحمۃ الہادی کا مشورہ سنیں ۔

مَدَ نی مشورہ : فرماتے ہیں ! بھر لینے والے کو چاہئے کہ جب کسی چیز کے حاصل کرنے کا ارادہ کرے تو اگرچہ کمالات سے بھرا ہوا ہو۔ مگر کمالات کو دروازے پر ہی چھوڑ دے (یعنی عاجزی اختیار کرے)اور یہ جانے کہ میں کچھ جانتا ہی نہیں ۔ خالی ہو کر آئیگا تو کچھ پائے گا، اور جو اپنے آپ کو بھرا ہوا سمجھے گا تو یاد رہے کہ بھرے برتن میں کوئی اور چیز نہیں ڈالی جاسکتی ۔( کتاب آداب مرشدکامل)

آج تک جس نے جو کچھ بھی پایا وہ صرف ادب ہی کی وجہ سےپایا اور جو کچھ بھی کھویا وہ بے ادبی کی وجہ سے ہی کھویا، شاید اسی وجہ سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ ”باادب با نصیب بے ادب بے نصیب“

سورہ بقرہ آیت نمبر 34 میں ہے :اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اورکافروں میں ہوگیا

شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی جب کہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا سردار ، یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر مقرب تھا مگر حکم الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں کی عبادت ختم ہوگئی اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگیا ہمیں بھی شیطان کے اس برے انجام سے ڈر جانا چاہیے اور جن جن کی اللہ پاک نے ادب کر نے کا حکم دیا ادب کرنا چاہیے، اور ادب کرنے سے تو ایمان جیسی دولت بھی مل جاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا ادب کرنے سے جادو گروں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی، ہمیں انبیا کرام کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کی بھی عزت کرنی چاہیے۔

علما ہی تو دین اسلام لوگوں تک پہنچاتے ہیں، بدقسمتی سے آج کل ان کی عزت لوگوں کے دلوں سے ختم کی جارہی ہے یاد رکھئے علما ہی انبیا کے وارث ہیں، ادب کرنے کی وجہ سے ہی ولایت کا درجہ بھی مل جاتا ہے۔

حضرت بشر حافی جو کہ ولایت سے پہلے ایک شرابی تھے ، بس انہوں نے اللہپاک کے نام کی یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تعظیم کی جس کی وجہ سے اللہ پاک نے ولایت کا ایسا درجہ عطا فرمایا کہ جانور بھی آپ کی تعظیم کی خاطر راستے میں گوبر نہ کرتے کیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ننگے پاؤں ہوا کرتے تھے بزرگان دین کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کی زندگیاں ادب سے بھری ہوتی ہیں، اعلیٰ حضرت سادات کرام کا بے حد ادب فرماتے جب بھی سادات کرام کو کچھ پیش کرنا ہوتا ڈبل حصہ عطا فرماتے، ہمیں بھی ان کی زندگی سے سیکھنا چاہیے ۔اسلام ہمیں مسجد کے آداب بھی سکھانا ہے ملفوظات اعلیٰ حضرت میں مسجد کے اداب بیان کیے چند ایک پیشِ خدمت ہے۔

مسجد میں دوڑنا یا زور سے پاؤں رکھنا جس سے دھمک پیدا ہو، منع ہے ۔

مسجد میں چھینک آئے تو کوشش کریں آواز نہ نکلے حدیث پاک ہیں ہے ۔

مفہوم حدیث: اللہ عزوجل کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجد میں زور سے چھینک کو ناپسند فرماتے۔

میں نے عقل سے سوال کیا کہ تو یہ بتا کہ "ایمان" کیا ہے؟ عقل نے میرے دل کے کانوں میں کہا ایمان، ادب کا نام ہے۔(فتاوی رضویہ ج23ص393)

پیارے اسلامی بھائیوں ! ادب سرا سر دین ہے ادب چراغ راہ مبین ہے ادب رضائے العالمین ہے ادب ہے تو دین ہے ادب نہیں تو کچھ نہیں ادب کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا:

ادب تاجیست از فضل الٰہی

بنہ برسر برو ہر جا کہ خواہی

ترجمہ : ادب اللہ کے فضل کا تاج ہے سر پے رکھ اور جس جگہ چاہے تو جا سکتا ہے۔

ایک طالب علم تھا ،اس کی قابلیت ، ذہانت اور استعداد کا بڑا چرچا تھا، اتنا چرچا تھا کہ ویسے تو وہ سبق میں آتا ہی نہیں تھا اور اگر کبھی آجاتا اور اِرادہ ہوتا کہ آج عبارت پڑہوں گا ،اگر اس کو موقع نہ ملتا اور کوئی دوسرا عبارت شروع کرتا تو وہ کتاب بغل میں اُٹھا کر چلا جاتا تھا ، بے ادبی کی انتہا تھی ، استاذ کی بھی اور کتاب اور ساتھیوں کی بھی ، ایک کام اور کرتا تھا کہ اگر ارادہ کرتا کہ آج سبق نہیں ہونے دینا ہے تو وہ آتا اور اشکال پر اشکال کرتا اور اس طرح گھنٹہ ختم ہوجاتا ، جیسے طلبہ عصر کے بعد نکلتے ہیں ایسے ہی اس کے ساتھی بھی نکلتے، وہ بھی ساتھ ہوتا تھا تو جہاں جاتے کھیت اجاڑ دیتے تھے اور شرارتیں کرتے تھے اور وہ کبھی یہ حرکت کرتا تھا کہ حقہ لیا ہوا ہے ،منہ سے لگا کر دارِ جدید کا چکر لگا رہا ہے ، تو انجام یہ ہو اکہ میزان سے لیکر دورہ تک اسی مدرسے میں پڑھا، لیکن دورہ کے سال سہ ماہی میں اس کا اخراج ہوگیا، یقیناً کوئی ناقابل برداشت حرکت کی ہوگی ، جس کی وجہ سے اخراج ہوگیا، اجلاس صد سالہ کے موقع پر ۱۹۸۱ءء میں دستار بندی تھی، جب ہم اجلاس صد سالہ کے لیے جارہے تھے تو لاہور کے اسٹیشن پر ملاقات ہوگئی وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ دفن ہوا کہ نام ونشان نہ رہا ۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے صفحہ ہستی سے

تمہارا نام بھی نہ رہے گا داستانوں میں

معلوم ہوا کہ ایک ہائی اسکول میں ٹیچر ہے، لوگ سارے مدرسے جارہے ہیں اور خوش ہیں اور وہ رو رہا ہے تو یہ ہے باادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب۔

کبھی اس پر فخر نہ کرو کہ ہمارا ذہن تیز ہے، حافظہ عمدہ ہے، میں نے مدرسے میں ایسے طالب علم دیکھے کہ قلم برداشتہ قصیدہ عربی کاشروع کیا اور لکھا، لیکن ان میں بھی اساتذہ کا ادب نہیں تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے علم سے نہ ان کو فائدہ ملا، نہ دوسروں نے فائدہ اٹھایا، اس لئے میں عرض کر رہا تھا کہ ادب کا پاس رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے استاذ کے ادب کا حال

ہمارے استاذ تھے، ان کے ادب کا حال یہ تھا کہ ہم نے کبھی ان کو ننگے سر نہیں دیکھا،چاہے سردی ہو یا گرمی ہو، لیکن وہ ٹوپی نہیں اتارتے تھے، دوسری بات یہ کہ ہم نے کبھی ان کو پاؤں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا ، وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پاؤں پھیلا کر لیٹنا ادب کے خلاف ہے، اور وہ سر سے ٹوپی بھی نہیں اتارتے تھے ،حالاں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

قرآن میں ہے : اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُؕ-اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْۙ-یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَۚ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: سنو وہ اپنے سینے دوہرے کرتے(منہ چھپاتے) ہیں کہ اللہ سے پردہ کریں سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے بےشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے۔ (ہود : 05)

حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ نے شان نزول یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم جب قضا ئے حاجت کے لیے بیٹھتے تو سینے جھکادیتے یا پردہ ڈال دیتے تھے، محض اللہ تعالیٰ سے حیا کی بنیاد پر تو قرآن نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو چھپانے کے باوجود دیکھ رہا ہے، اس تکلف کی ضرورت نہیں، یہ ضروریات بشریہ میں سے ہیں۔ لیکن اس کے لیے طریقہ ہے،قاعدہ یہ ہے کہ آدمی جب قضائے حاجت کے لئے جائے تو جب بیٹھنے کے قریب ہو ازار کو اس وقت نیچے کرے، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ بے پردہ نہیں ہوں گے، کھڑے ہونے کی حالت میں ازار کو اپنی جگہ سے نیچے کرنا یہ حیا کے خلاف ہے، اس میں آدمی بالکل ننگا ہو جاتا ہے، باقی یہ نہیں کہ سینہ جھکائے یا اپنے اوپر پردہ ڈالے، اس تکلیف کی ضرورت نہیں ، تو صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کا یہ حال تھا اور ان کو اس طرح بے پردہ ہونا بھی گوارا نہ تھا، لیکن شریعت نے منع کردیا ۔

بہر حال ہمارے استاذ پاؤں نہیں پھیلاتے تھے، یہ ان کا حال تھا اور اچھا حال تھا، لیکن شریعت نے اس کا مکلف نہیں بنایا اور یہ بھی ان کاحال تھا کہ کہیں کاغذ کا پرزہ پڑاہوتا اٹھا لیتے اور فرماتے یہ تحصیل علم کا آلہ ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے، تو اس ادب کا نتیجہ یہ تھا کہ جب استاذ کے ہاں بخاری کا ختم ہوتا تو پچاس ہزار افراد شریک ہوتے اور ایک جم غفیر ہوتا ۔

جمعہ کے روز ہمارے استادصاحب کی مجلس ایک گھنٹے کی ہوتی اور اس میں شرکت کے لیے پچاس ، ساٹھ ، ستر میل دور سے لوگ آتے اور مجمع اتنا ہوتا کہ شامیانے لگے ہوئے ہیں، لیکن ناکافی ہیں ۔یہ اس ادب کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے لوگوں کے دِلوں میں ایسی کشش پیدا کی کہ وہ دور دراز سے آتے تھے، ادب سے علم میں برکت ہوگی ، آپ جتنے با ادب ہوں گے اتنی ہی آپ کے علم میں برکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ علوم کی فراوانی عطا فرمائے گا ۔

والدین کا ادب ہو ، کتاب کا ادب ہو، استاذ کا ادب ہو، کاغذ کا ادب ہو، کتابوں میں باہمی رعایت ہو کہ تفسیر پر حدیث کی کتاب نہ رکھی جائے ، حدیث پر فقہ کی کتاب نہ رکھی جائے، فقہ پر منطق کی کتاب نہ رکھی جائے اسی طرح قرآن پڑھنے کے بعد اس کو اپنی جگہ پر رکھیں ، آج کل بیٹے ماں باپ کے نافرمان ہیں، استاذ کا ادب نہیں ، کلاس اور کتاب کا ادب نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم میں برکت نہیں ۔ پہلے زمانے میں اتنے مولوی نہیں ہوتے تھے ،لیکن علم میں برکت تھی ، آج کل تو ٹی وی ہے ، ڈش ہے، مخرّب اخلاق لٹریچر ہے ، جس کی وجہ سے ہر طرف بے حیائی ہے، اگر آپ بازاروں میں جائیں گے تو روحانیت متاثر ہوگی اور اگر آپ ان سے بچیں اور ادب کا اہتمام ہو تو آپ کا فیض عام ہوگا۔


بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
4 years ago

ادب کی تعریف:

ادب ایک ایسے وصف کا نام ہے، جس کے ذریعے انسان اچھی باتوں کی پہچان حاصل کرتا یا اچھے اخلاق اپناتا ہے۔(آداب دین، صفحہ4)

تعلیم ربانی:

ادب وہ انمول چیز ہے، جس کی تعلیم خود ربّ کائنات عزوجل نے اپنے مدنی حبیب، حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"

ادبنی ربی فاحسن تادیبی۔یعنی مجھے میرے ربّ نے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا۔"

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

ادب کو انسان کے زیور سے تعبیر کیا جاتا ہے اور شرفِ انسانیت یہ ہے کہ انسان ادب کے زیور سے آراستہ ہو، جس انسان میں ادب کا جوہر نہ ہو، یقیناً وہ ہر نعمت سے محروم ہے، جیسا کہ حسنِ اخلاق کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور، سلطان بہرو بر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ ہم میں سے نہیں، جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا ادب و احترام نہ کرے۔"( ترمذی، حدیث 1926، جلد 3، صفحہ 369)

بزرگانِ دین کے اقوال:

ابنِ مبارک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"ہمیں زیادہ علم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑا سا ادب حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔"( رسالہ القشیریہ، باب الادب، صفحہ 317)

حضرت سیّدنا ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:"بندہ اطاعت(کرنے) سے جنت تک اور ادب(کرنے) سے خدا عزوجل تک پہنچ جاتا ہے۔"(الرسالۃ القشیریہ باب الادب، صفحہ 316)

اعلی حضرت، ولی نعمت، عظیم البرکت، پروانۂ شمع رسالت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:"ولا دین لمن لا ادب لہ"یعنی جو با ادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔"(فتاوی رضویہ، جلد 28، صفحہ 158، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

(وسائل بخشش)

خزانہ قدرت سے جس کو جو نعمت ملی، ادب کی بنا پر ملی ہے اور جو ادب سے محروم ہے، حقیقتاً ایسا شخص ہر نعمت سے محروم ہے کہ ما وصل من وصل الابا الحرمۃ وما سقط من سقط الابترک الحرمۃ۔یعنی جس شخص نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"( کامیاب طالب علم کون، ص55)

جو ہے باادب وہ بڑا با نصیب ہے

جو ہے بے ادب وہ نہایت برا ہے

(وسائل بخشش ، ص454)

بے ادبی کا نقصان:

بے ادبی انسان کو دنیا و آخرت میں مردُود کروا دیتی ہے، جیسے ابلیس کی ساری عبادت ایک بے ادبی کی وجہ سے برباد ہو گئی اور وہ مردود ٹھہرا، حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:" جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ "

( ا لر سا لۃ القشیریہ، باب الادب، ص319)

تفسیر روح البیان میں ہے:"کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ عزوجل اسے(اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا،"(تفسیر روح البیان، پارہ 17، بحوالہ آدابِ مرشد کامل، صفحہ 26)

الحاصل:

طلبائے کرام کو چاہئے کہ وہ ہر صورت میں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام بجالائیں اور ان باتوں سے بچنے کی کوشش کریں، جن سے بے ادبی کا اندیشہ ہو، یاد رکھئے! جو طالب علم استاد کی بے ادبیاں کرتا ہے، وہ کبھی بھی علم کی روح کو نہیں پا سکتا، اگر وہ بظاہر بڑا عالم بن جائے، تب بھی ایسی خطائیں کر جاتا ہے کہ وہ خود حیران رہ جاتا ہے کہ مجھ سے یہ خطائیں کیسے ہوگئیں، یہ سب استاد کی بے ادبی کا نتیجہ ہوتا ہے، جو طالب علم اپنے استاد اور دینی کتب کا احترام نہیں کرتا، وہ علم کی روح سے محروم ہوجاتا ہے۔"(حافظہ کمزور ہونے کی وجوہات، صفحہ 19)

کسی نے بالکل سچ کہا ہے:" با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب"