قرآن کریم میں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے واسطے سے قیامت تک تمام انسانوں کو آداب واخلاق
سکھلائے گئے ہیں اور بے ادبی کے نقصانات اور اس کے مہلک اثرات سے آگاہ کیا گیا ہے
ارشاد رب العالمین ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا
تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالعرفان : اے ایمان
والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز
سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں
تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو ۔ (الحجرات: 02)
ادب کو انسان کے زیور
سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اگر تعلیم او رعلم کی کمی رہ جائے تو اسے زندگی کے کسی بھی
موڑ پر پورا کیا جاسکتا ہے لیکن اگر تربیت اور ادب کی کمی رہ جائے تو اکثر اوقات
انسان پچھتاتا رہتا ہے۔
بے
ادبی کی نحوست:
تفسیرِ روح البیان
میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔
ایک اور جگہ نقل ہے
کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی کہ میں
فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔ (روح
البیان ، پارہ 17،آداب مرشد کامل، ص 25)
حضرت ، امام اہلسنت ،
مولٰنا شاہ احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ولادین
لمن لا ادب لہ
یعنی جو بادب نہیں اس
کا کوئی دین نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ، ج ۲۸، ص ۱۵۸، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن )
ادب تک پہنچنے اور بے
ادبی سے پرہیز کرنے کی راہوں میں سے ایک، ادب اور بے ادبی کے موارد و مصادیق کو
جاننا ہے، اگر چہ ادب بے ادبی کے مصادیق
میں سے ہر ایک کی اپنی خاص نشانیاں ہیں، لیکن ادب کو مکمل اور دقیق طور پر پہچاننا
بے ادبی کے مصادیق پر توجہ کئے بغیر ممکن نہیں ہے، اگر دوستی اور معاشرتوں کا تحفظ ادب
ہے، تو بے ادبی، یعنی مشکوک افراد کے پاس آمد و رفت ، دوست منتخب کرنے میں غور نہ
کرنا اور مجالست اور رفاقت میں ذمہ داری سے کام نہ لینا ہے ۔ جو شخص دوسرے افراد سے برتاؤ میں عظمت و تکریم سے پیش آنے کے لئے تیار نہیں
ہے اور مسلسل دوسروں کی توہین اور غیبت کرتا رہتا ہے، جو دوسروں کی بکواس کو بکواس
اور گالیوں کا جواب گالیوں سے دیتا ہے، جو مجالس و محافل میں دوسروں کے حق کی
رعایت نہیں کرتا ہے اور نظم و نسق، مقررات اور خاموشی کی رعایت نہیں کرتا ہے، جو
دوسرے کی باتوں کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے، جو گفتگو اور بحث کے دوران شور مچاتا
ہے، دوسرے کے حق کی رعایت نہیں کرتا ہے یہ سب چیزیں ادب کے فقدان کی نشانیاں ہیں۔
ادب میں سعادت ہے اور
بے ادبی میں بدبختی ہے۔ دین میں سے ادب کو نکال دیں تو دین کی روح ختم ہوجاتی ہے، حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے میرے رب نے ادب سکھایا ۔ (کشف
الخفاء، ج:۱‘ص۷۲ رقم ۱۶۴ )
آداب کے متعلق امام
محمد بن محمد غزالی علیہ
الرحمۃ کا بہت ہی خوبصورت رسالہ ہے جس کا نام الادب
فی الدین ہے یہ رسالہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ دعوت اسلامی کے شعبے
المدینہ العلمیہ نے کیا ہے جس کا نام آداب دین رکھا ہے، اس کا مطالعہ کرنا بہت
مفید ہے۔