انسان اور
جانور میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ادب ہے یہ
وہ تحفۂ آسمانی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بطورِ خاص عطا فرمایا۔
ادب و آداب
اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہے گویا کہ دیگر اقوام یا مذاہب نے اخلاق و
کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت جانی مگر اس کا تمام تر سہرا
اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور
اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔
امام بخار ی رحمۃُ اللہِ
علیہ کی
علمی شہرت اورقدر و منزلت سے طلبا خوب واقف ہیں، جب امام محمد بن حسن رحمۃُ اللہِ
علیہ جو
امام ربانی (از آئمہ احناف) کے نام سے مشہور ہیں کی خدمت میں تعلیم کے لیے
حاضر ہوئے تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی طبیعت کو استاذ مکرم نے دیکھ
کر فیصلہ فرمایا کہ فقہ کی بجائے ، حدیث کا متن سیکھو، با ادب شاگرد با ادب سر
جھکاتے ہوئے فقہ چھوڑ کر حدیث شریف پڑھنے لگ گئے، امام زرنوجی رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے
ہیں کہ یہ استاد صاحب کے فرمان پر چلنے کی برکت ہے کہ آج امام بخاری رحمۃُ اللہِ
علیہ
کی لکھی ہوئی کتاب قرآن مجید کے بعد اول درجہ رکھتی ہے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم
،ص ۵۵)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اپنی خوبصورت کتاب
فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں: لادین لمن لا
ادب له یعنی جو باادب نہیں اس
کا کوئی دین نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ۲۸،ص ۱۵۹)
تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے
میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا
دیتا تھا۔
ایک اور جگہ نقل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت
صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی کہ میں
فاقہ کا شکار رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔
(آداب مرشد کامل ،ص25)
محفوظ خدا رکھنا سدا بے ادبوں سے
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
ایک صحابی حضرت عابس ابن ربیعہ رضی اللہُ عنہ کی
صورت کچھ کچھ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملتی تھی
جب وہ تشریف لاتے حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ تخت سے تعظیماً سیدھے کھڑے ہو
جاتے۔(ملفوظات اعلی حضرت ، ص377)
حضرت سیدنا منصور بن عمار رحمۃُ اللہِ
علیہ کی
توبہ کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ ان کو راہ میں کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر بسم الله الرحمٰن الرحیم لکھا تھا۔
انہوں نے ادب سے رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نہ پائی تو اسے نگل لیا۔ رات خواب دیکھا
کوئی کہہ رہا ہے اس مقدس کاغذ کے احترام کی برکت سے اللہ نے تجھ
پر حکمت کے دروازے کھول دیئے۔(فیضان سنت ،ص 113)
آج تک جس نے
جو کچھ بھی پایا وہ صرف ادب ہی کی وجہ سے پایا اور جو کچھ بھی کھویا وہ بے ادبی کی
وجہ سے ہی کھویا شاید اسی وجہ سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ ”باادب با نصیب بے ادب بے نصیب“
شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی جب
کہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا سردار، یہ الله تعالیٰ کی
بارگاہ میں اس قدر مقرب تھا مگر حکم الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں کی عبادت
ختم ہوگئی اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگیا ہمیں بھی شیطان کے اس برے انجام سے
ڈر جانا چاہیے اور جن جن کی الله پاک نے ادب کرنے کا حکم دیا ادب کرنا
چاہیے، اور ادب کرنے سے تو ایمان جیسی دولت بھی مل جاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کا ادب کرنے سے جادو گروں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی، ہمیں انبیا کرام کے
ساتھ ساتھ علمائے کرام کی بھی عزت کرنی چاہیے۔
علماء ہی تو دین اسلام لوگوں تک پہنچاتے ہیں، بدقسمتی سے آج کل ان کی عزت
لوگوں کے دلوں سے ختم کی جارہی ہے یاد رکھیے علما ہی انبیا کے وارث ہیں، ادب کرنے
کی وجہ سے ہی ولایت کا درجہ بھی مل جاتا ہے۔
آداب کے متعلق امام محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کا بہت ہی
خوبصورت رسالہ ہے جس کا نام الادب فی الدین ہے یہ رسالہ عربی میں ہے اس کا ترجمہ
دعوت اسلامی کے شعبے المدینہ العلمیہ نے کیا ہے جس کا نام آداب دین رکھا ہے، اس کا
مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیوں! معلوم ہوا کہ ہمیں ادب کے دائرے میں رہنا چاہیئے کہ اسی میں ہماری
بھلائی ہے اور جو بےادب ہوتا ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے جیسا کہ شیطان لہذا
ہمیں چاہیئے کہ ہم استاد،ماں باپ،اور بڑوں کی عزت کریں
"الله
تعالیٰ ہمیں اخلاق و آداب سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلم"