آج کا کام کل پر مت چھوڑئیے، ورنہ اس کا نقصان آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا، کہتے ہیں" گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں"
سبق آموز حکایت:
لہذا آج کا کام آج ہی کرنا ہوگا، کیونکہ کل کل کا ہی کام کرنا ہے، جیسا کہ ایک
طالب علم سارا سال اپنی پڑھائی پر توجّہ دینے کی بجائے کہتا ہے کہ آج نہیں سبق یاد
کرنا، میں کل کرلوں گا، پھر جب کل آتی ہے، تب بھی وہ یہی جملہ کہتا ہے کہ آج نہیں کل کر
لوں گا، یوں آہستہ آہستہ سال مکمل ہو جاتا
ہے اور امتحانات سر پر آ جاتے ہیں، اب حال
یہ ہے کہ طالبعلم اپنی پڑھائی پر توجّہ نہ دے سکنے پر بہت پچھتاتا ہے اور سوائے رسوائی
کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ، آخر وہ یہی
کہتا ہے کہ" کاش! میں نے روزانہ کا کام، روز کیا ہوتا، روز انہ کا سبق روز یاد کیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی، یوں وہ سراسر نقصان
اٹھاتا ہے اور پھر کامیابی کی منزل طے نہیں کر پاتا۔" اس لئے ہمیں چاہئے کہ آج کا کام آج ہی کریں، کل پر مت چھوڑیں، وقت کی قدر کیجئے، وقت بہت ہی قیمتی اور انمول تحفہ ہے۔ آج عمل کا موقع ہے:
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا
کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے ایک مرتبہ کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے
لوگوں! بیشک تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ کہیں تم لمبی
لمبی امیدیں نہ باندھ بیٹھو اور خواہشات کی پیروی میں نہ لگ جاؤ، یاد رکھو! لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں
اور خبردار! نفسانی خواہشات کی پیروی راہِ حق سے بھٹکا دیتی ہے، خبردار! دنیا عنقریب پیٹھ پھیرنے والی اور آخرت
جلد آنے والی ہے، آج عمل کا دن ہے، حساب کا نہیں، کل حساب کا دن ہوگا، عمل کا نہیں۔
کوچ ہاں اے بےخبر ہونے کو ہے
کب تلک غفلت سحر ہونے کو ہے
باندھ لے تو شہ سفر ہونے کو ہے
ختم ہر فردِ بشر ہونے کو ہے
( موت کا تصور، ص38)
فرمانِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم:
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے
غنیمت جانو، 1۔جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، 2۔صحت کو بیماری سے پہلے، 3۔مالداری کو
تنگدستی سے پہلے، 4۔فرصت کو مشغولیت سے پہلے، 5۔زندگی کو موت سے پہلے۔(چھٹیاں کیسے
گزاریں، صفحہ نمبر 4)
وقت کی قدر کیجئے:
وقت کی قدر کرتے ہوئے آج کا کام اگر آج ہی کریں
گے تو کامیاب ہو جائیں گے، آج وقت ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم آج ہی نیکیوں پر استقامت حاصل
کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، پتہ نہیں
ہمیں کل کا وقت بھی مل پائے گا یا نہیں۔
بعض لوگ نماز میں سستی کرتے ہیں
کہ آج نہیں، کل سے نماز شروع کروں گا، بعض
بے باک لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ
ابھی تو میری عمر ہی کیا ہے؟، جب بوڑھا ہوں گا تو نمازیں پڑھوں گا، نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھوں گا، دیگر عبادات بھی بجا لاؤں گا، لیکن یہ زندگی تو صرف اتنی سی ہے کہ سانس کی
مالا ٹوٹ گئی تو بس، اب کچھ کرنے کی ہمت
نہ رہی، موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، آج تو کئیں بچے پیدا ہوتے ہی وفات پا جاتے ہیں، تو اے نادانو! ذرا سوچئے کہ آپ کس طرح یہ جملہ
کہتے ہیں کہ جب بوڑھا ہو جاؤں گا تو ہی نماز پڑھوں گا، عبادتیں کروں گا، ایسا بالکل بھی نہیں کہنا چاہئے، توبہ کیجئے، اپنی نمازیں قضا نہ کریں کہ بلاوجہ نماز قضا
کرنے والوں کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے۔
آج کا کام کل پر
چھوڑنے کا ایک سبب:
"لمبی امیدیں بھی ہیں، کیونکہ لمبی امید ہوتی ہے تو اس لئے وہ کہتا ہے
کہ کل کرلوں گا، کس کو کیا پتہ؟ کل آئے گی
بھی یا نہیں، لہذا! ایسا نہ کیجئے، لمبی امیدیں نہ لگائیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امید کہتے کس کو ہیں۔
امید کسے کہتے ہیں"
دراز ی عمر کی آرزو اُمید ہے اور کسی چیز سے سیر
نہ ہونا، ہمیشہ زیادتی کی خوا ہش رہنا حرص
ہے، یہ دونوں چیزیں اگر تو دنیا کے لئے ہیں،
تو بری ہیں اور اگر آخرت کے لئے ہیں، تو اچھی۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 7، صفحہ 75)