محمد ابوبکر ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان بخاری کراچی )
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان
والو اللہ اور
اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا
ہے ۔ (الحجرات : 01)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ
لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ
کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے
آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں
اور تمہیں خبر نہ ہو ۔
(
الحجرات : 02 )
تفسیر رُوحُ البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب
کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہتَعَالٰی اسے
(ا سکی بے اَدَبی کی وجہ سے)زمین میں دھنسا دیتا تھا۔
ایک اور جگہ نقْل ہے کہ کسی شخص نے
بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرْض کی حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں فاقہ کا شکار
رہتاہوں ۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تو کسی
بوڑھے(شخص) کے آگے چَلا ہوگا۔(روح البیان پارہ ۱۷)
اس سے معلوم ہوا کہ بے اَدَبی دنیا
وآخِرت میں مَردُود کروادیتی ہے ۔ جیسا کہ ابلیس کی نولاکھ سال کی عبادت ایک بے
اَدَبی کی وجہ سے برباد ہوگئی اور وہ مَردُود ٹھہرا۔
(۱)حضرت ابوعلی دقّاق علیہ الرحمۃ فرماتے
ہیں : بندہ اِطاعت سے جنّت تک اور اَدَب سے خدا عَزَّ وَجَلَّ تک پہنچ جاتا ہے ۔ ( الر سالۃ
القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۶)
(۲)حضرت ذُوالنُّون مِصری علیہ الرحمۃ فرماتے
ہیں کہ ، جب کوئی مرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا ، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے
جہاں سے چَلا تھا۔( الر سالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۹)
(۳) حضرت ا بنِ مبارَک علیہالرحمۃ
فرماتے ہیں کہ ، ہمیں زیادہ عِلْم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑا سا اَدَب حاصل
کرنے کی زیادہ ضَرورت ہے۔(الرسالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۷)
(۴) اعلیٰحضرت الشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ایک جگہ حضرت شَیخ سَعدی علیہ رحمۃ الہادی کے قولِ نصیحت
کو بڑی اَہمیت دی ۔فرمایا!کیا وجہ ہے کہ مرید عالم فاضل اور صاحبِ شَرِیْعَت و طریقت
ہونے کے باوُجود(اپنے مرشِد کامل کے فیض سے ) دامن نہیں بھر پاتا؟ غالباً اس کی
وجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ اکثر علمائے دین اپنے آپ کو پیرو مرشِد سے افضَل
سمجھتے ہیں یا عمل کا غُرور اور کچھ ہونے کی سمجھ کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ وگرنہ
حضرت شَیخ سعدی علیہ رحمۃ
الہادی کا مشورہ سنیں ۔
مَدَ
نی مشورہ : فرماتے ہیں ! بھر لینے والے کو چاہئے
کہ جب کسی چیز کے حاصل کرنے کا ارادہ کرے تو اگرچہ کمالات سے بھرا ہوا ہو۔ مگر
کمالات کو دروازے پر ہی چھوڑ دے (یعنی عاجزی اختیار کرے)اور یہ جانے کہ میں کچھ
جانتا ہی نہیں ۔ خالی ہو کر آئیگا تو کچھ پائے گا، اور جو اپنے آپ کو بھرا ہوا
سمجھے گا تو یاد رہے کہ بھرے برتن میں کوئی اور چیز نہیں ڈالی جاسکتی ۔( کتاب آداب
مرشدکامل)
آج
تک جس نے جو کچھ بھی پایا وہ صرف ادب ہی کی وجہ سےپایا اور جو کچھ بھی کھویا وہ بے
ادبی کی وجہ سے ہی کھویا، شاید اسی وجہ سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ ”باادب با نصیب بے ادب بے نصیب“
سورہ بقرہ آیت
نمبر 34 میں ہے :اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو
ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اورکافروں میں ہوگیا
شیطان نے بھی
بے ادبی کی تھی یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی جب کہ یہ معلم الملکوت
تھا یعنی فرشتوں کا سردار ، یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر مقرب
تھا مگر حکم الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں کی عبادت ختم ہوگئی اورہمیشہ ہمیشہ
کے لیے جہنمی ہوگیا ہمیں بھی شیطان کے اس برے انجام سے ڈر جانا چاہیے اور جن جن کی اللہ پاک
نے ادب کر نے کا حکم دیا ادب کرنا چاہیے، اور ادب کرنے سے تو ایمان جیسی دولت بھی
مل جاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا ادب کرنے سے جادو گروں کو ایمان کی
دولت نصیب ہوئی، ہمیں انبیا کرام کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کی بھی عزت کرنی چاہیے۔
علما ہی تو دین
اسلام لوگوں تک پہنچاتے ہیں، بدقسمتی سے آج کل ان کی عزت لوگوں کے دلوں سے ختم کی
جارہی ہے یاد رکھئے علما ہی انبیا کے وارث ہیں، ادب کرنے کی وجہ سے ہی ولایت کا
درجہ بھی مل جاتا ہے۔
حضرت بشر حافی
جو کہ ولایت سے پہلے ایک شرابی تھے ، بس انہوں نے اللہپاک کے نام کی
یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کی
تعظیم کی جس کی وجہ سے اللہ پاک نے ولایت کا ایسا درجہ عطا فرمایا
کہ جانور بھی آپ کی تعظیم کی خاطر راستے میں گوبر نہ کرتے کیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ
ننگے پاؤں ہوا کرتے تھے بزرگان دین کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کی زندگیاں ادب
سے بھری ہوتی ہیں، اعلیٰ حضرت سادات کرام کا بے حد ادب فرماتے جب بھی سادات کرام
کو کچھ پیش کرنا ہوتا ڈبل حصہ عطا فرماتے، ہمیں بھی ان کی زندگی سے سیکھنا چاہیے ۔اسلام
ہمیں مسجد کے آداب بھی سکھانا ہے ملفوظات اعلیٰ حضرت میں مسجد کے اداب بیان کیے
چند ایک پیشِ خدمت ہے۔
مسجد میں
دوڑنا یا زور سے پاؤں رکھنا جس سے دھمک پیدا ہو، منع ہے ۔
مسجد میں چھینک
آئے تو کوشش کریں آواز نہ نکلے حدیث پاک ہیں ہے ۔
مفہوم
حدیث: اللہ عزوجل
کے پیارے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجد میں زور سے چھینک کو ناپسند فرماتے۔
میں نے عقل
سے سوال کیا کہ تو یہ بتا کہ "ایمان" کیا ہے؟ عقل نے میرے دل کے کانوں میں
کہا ایمان، ادب کا نام ہے۔(فتاوی رضویہ ج23ص393)
پیارے اسلامی
بھائیوں ! ادب سرا سر دین ہے ادب چراغ راہ مبین ہے ادب رضائے العالمین ہے ادب ہے
تو دین ہے ادب نہیں تو کچھ نہیں ادب کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا:
ادب تاجیست از فضل الٰہی
بنہ برسر برو ہر جا کہ خواہی
ترجمہ : ادب اللہ کے
فضل کا تاج ہے سر پے رکھ اور جس جگہ چاہے تو جا سکتا ہے۔
ایک طالب علم
تھا ،اس کی قابلیت ، ذہانت اور استعداد کا بڑا چرچا تھا، اتنا چرچا تھا کہ ویسے تو
وہ سبق میں آتا ہی نہیں تھا اور اگر کبھی آجاتا اور اِرادہ ہوتا کہ آج عبارت پڑہوں
گا ،اگر اس کو موقع نہ ملتا اور کوئی دوسرا عبارت شروع کرتا تو وہ کتاب بغل میں
اُٹھا کر چلا جاتا تھا ، بے ادبی کی انتہا تھی ، استاذ کی بھی اور کتاب اور ساتھیوں
کی بھی ، ایک کام اور کرتا تھا کہ اگر ارادہ کرتا کہ آج سبق نہیں ہونے دینا ہے تو
وہ آتا اور اشکال پر اشکال کرتا اور اس طرح گھنٹہ ختم ہوجاتا ، جیسے طلبہ عصر کے
بعد نکلتے ہیں ایسے ہی اس کے ساتھی بھی نکلتے، وہ بھی ساتھ ہوتا تھا تو جہاں جاتے
کھیت اجاڑ دیتے تھے اور شرارتیں کرتے تھے اور وہ کبھی یہ حرکت کرتا تھا کہ حقہ لیا
ہوا ہے ،منہ سے لگا کر دارِ جدید کا چکر لگا رہا ہے ، تو انجام یہ ہو اکہ میزان سے
لیکر دورہ تک اسی مدرسے میں پڑھا، لیکن دورہ کے سال سہ ماہی میں اس کا اخراج ہوگیا،
یقیناً کوئی ناقابل برداشت حرکت کی ہوگی ، جس کی وجہ سے اخراج ہوگیا، اجلاس صد
سالہ کے موقع پر ۱۹۸۱ءء میں دستار
بندی تھی، جب ہم اجلاس صد سالہ کے لیے جارہے تھے تو لاہور کے اسٹیشن پر ملاقات
ہوگئی وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ دفن ہوا کہ نام ونشان نہ رہا ۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے صفحہ ہستی سے
تمہارا نام بھی نہ رہے گا داستانوں میں
معلوم ہوا کہ
ایک ہائی اسکول میں ٹیچر ہے، لوگ سارے مدرسے جارہے ہیں اور خوش ہیں اور وہ رو رہا
ہے تو یہ ہے باادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب۔
کبھی اس پر
فخر نہ کرو کہ ہمارا ذہن تیز ہے، حافظہ عمدہ ہے، میں نے مدرسے میں ایسے طالب علم دیکھے
کہ قلم برداشتہ قصیدہ عربی کاشروع کیا اور لکھا، لیکن ان میں بھی اساتذہ کا ادب نہیں
تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے علم سے نہ ان کو فائدہ ملا، نہ دوسروں نے فائدہ اٹھایا،
اس لئے میں عرض کر رہا تھا کہ ادب کا پاس رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے
استاذ کے ادب کا حال
ہمارے استاذ
تھے، ان کے ادب کا حال یہ تھا کہ ہم نے کبھی ان کو ننگے سر نہیں دیکھا،چاہے سردی
ہو یا گرمی ہو، لیکن وہ ٹوپی نہیں اتارتے تھے، دوسری بات یہ کہ ہم نے کبھی ان کو
پاؤں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا ، وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے
اور اللہ
تعالیٰ کے سامنے پاؤں پھیلا کر لیٹنا ادب کے خلاف ہے، اور وہ سر سے ٹوپی بھی نہیں اتارتے تھے ،حالاں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
قرآن میں ہے : اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ
لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُؕ-اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْۙ-یَعْلَمُ مَا
یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَۚ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: سنو
وہ اپنے سینے دوہرے کرتے(منہ چھپاتے) ہیں کہ اللہ سے پردہ کریں سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ
لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے
بےشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے۔ (ہود : 05)
حضرت ابن
عباس رضی الله تعالیٰ
عنہ
نے شان نزول یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم جب قضا ئے
حاجت کے لیے بیٹھتے تو سینے جھکادیتے یا پردہ ڈال دیتے تھے، محض اللہ تعالیٰ سے
حیا کی بنیاد پر تو قرآن نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو چھپانے کے باوجود دیکھ رہا
ہے، اس تکلف کی ضرورت نہیں، یہ ضروریات بشریہ میں سے ہیں۔ لیکن اس کے لیے طریقہ
ہے،قاعدہ یہ ہے کہ آدمی جب قضائے حاجت کے لئے جائے تو جب بیٹھنے کے قریب ہو ازار
کو اس وقت نیچے کرے، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ بے پردہ نہیں ہوں گے، کھڑے ہونے کی
حالت میں ازار کو اپنی جگہ سے نیچے کرنا یہ حیا کے خلاف ہے، اس میں آدمی بالکل
ننگا ہو جاتا ہے، باقی یہ نہیں کہ سینہ جھکائے یا اپنے اوپر پردہ ڈالے، اس تکلیف کی
ضرورت نہیں ، تو صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کا یہ حال
تھا اور ان کو اس طرح بے پردہ ہونا بھی گوارا نہ تھا، لیکن شریعت نے منع کردیا ۔
بہر حال
ہمارے استاذ پاؤں نہیں پھیلاتے تھے، یہ ان کا حال تھا اور اچھا حال تھا، لیکن شریعت
نے اس کا مکلف نہیں بنایا اور یہ بھی ان کاحال تھا کہ کہیں کاغذ کا پرزہ پڑاہوتا
اٹھا لیتے اور فرماتے یہ تحصیل علم کا آلہ ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے، تو اس
ادب کا نتیجہ یہ تھا کہ جب استاذ کے ہاں بخاری کا ختم ہوتا تو پچاس ہزار افراد شریک
ہوتے اور ایک جم غفیر ہوتا ۔
جمعہ کے روز
ہمارے استادصاحب کی مجلس ایک گھنٹے کی ہوتی اور اس میں شرکت کے لیے پچاس ، ساٹھ ،
ستر میل دور سے لوگ آتے اور مجمع اتنا ہوتا کہ شامیانے لگے ہوئے ہیں، لیکن ناکافی
ہیں ۔یہ اس ادب کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے لوگوں کے دِلوں میں ایسی کشش پیدا
کی کہ وہ دور دراز سے آتے تھے، ادب سے علم میں برکت ہوگی ، آپ جتنے با ادب ہوں گے
اتنی ہی آپ کے علم میں برکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ علوم کی فراوانی عطا فرمائے گا ۔
والدین کا
ادب ہو ، کتاب کا ادب ہو، استاذ کا ادب ہو، کاغذ کا ادب ہو، کتابوں میں باہمی رعایت
ہو کہ تفسیر پر حدیث کی کتاب نہ رکھی جائے ، حدیث پر فقہ کی کتاب نہ رکھی جائے،
فقہ پر منطق کی کتاب نہ رکھی جائے اسی طرح قرآن پڑھنے کے بعد اس کو اپنی جگہ پر
رکھیں ، آج کل بیٹے ماں باپ کے نافرمان ہیں، استاذ کا ادب نہیں ، کلاس اور کتاب کا
ادب نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم میں برکت نہیں ۔ پہلے زمانے میں اتنے مولوی
نہیں ہوتے تھے ،لیکن علم میں برکت تھی ، آج کل تو ٹی وی ہے ، ڈش ہے، مخرّب اخلاق
لٹریچر ہے ، جس کی وجہ سے ہر طرف بے حیائی ہے، اگر آپ بازاروں میں جائیں گے تو
روحانیت متاثر ہوگی اور اگر آپ ان سے بچیں اور ادب کا اہتمام ہو تو آپ کا فیض عام
ہوگا۔