
شرفِ انسانیت یہ ہے کہ انسان ادب
کے زیور سے آراستہ ہو، جس انسان میں ادب
کا جوہر نہ ہو یقیناً وہ ہر نعمت سے محروم
ہے اور وہ انسان نما حیوان ہوا کرتا ہے، آج تک جس نے جو کچھ بھی پایاہے، وہ
صرف ادب کی ہی وجہ سے پایا ہے اور جو کچھ بھی کھویا ہے، وہ بے ادبی کی وجہ سے ہی کھویا۔
شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی،
یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی، جبکہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا سردار، یہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس قدر مقرب تھا، مگر حکمِ الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں
کی عبادت ختم ہوگئی، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے جہنم میں ہو گیا۔
بے ادبی کا قہر:
شیطان نے لاکھوں سال اللہ پاک کی عبادت کی، ایک قول کے مطابق چھ لاکھ سال عبادت کی اور صرف
ایک بےادبی کی وجہ سے چھ لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا اور وہ بے ادبی حضرت آدم
علیہ السلام کی تعظیم نہ کرنا تھی۔(ادب کی اہمیت از مفتی امین صاحب، صفحہ 26، مطبوعہ جمعیت اشاعت اہلسنت)
اس لئے قرآن پاک میں اللہ تعالی
نے فرمایا،
ترجمہ کنزالایمان:اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو، کہ کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں اور
تمہیں خبر نہ ہو۔"(پ26،الحجرات: 2)
انبیائے کرام کی بے
ادبی:
اللہ پاک کے بعد تمام مخلوق میں
انبیاء کرام علیہم السلام افضل و اعلیٰ ہیں، ان کی تعظیم و ادب ضروری اور ان کی شان میں
ادنیٰ سی توہین یعنی گستاخی و بے ادبی کفر ہے، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی
محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:"کسی نبی کی ادنیٰ توہین یا تکذیب یعنی جھٹلانا کفر ہے۔"(بہار
شریعت، حصہ 1،47/1)
مسلمانوں کی بے
ادبی:
حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالی
اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:"تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔"(مسلم،
کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :سباب
المسلم۔۔الخ، ص52)
والدین کی بے ادبی:
حدیث شریف میں ہے:"والدین کی
بے ادبی اور نافرمانی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔" چنانچہ حدیث شریف میں ہے
کہ والدین کو اُف تک نہ کہو، حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات
صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا، " اس کی ناک خاک آلود ہو، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم
کون؟ ارشاد فرمایا:جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا
اور جنت میں داخل نہ ہوا ۔"(مسلم، کتاب البر والصلۃ والادات، باب رغم من ادرک ابویہ اواحدہماعند الکبر ۔۔الخ،
ص1381، الحدیث 2551)
ولی کی بے ادبی:
ولی خدا کے نیک بندوں میں شمار
ہوتے ہیں، یہ بلند درجوں پر فائز ہیں، چنانچہ ان کی بے ادبی کرنے کے متعلق فرمایا گیا
ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالی نے فرمایا:"جو میرے کسی ولی
سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان
دے دیا۔"(بخاری، کتاب الرقاق، باب
التواضع، 6/268، الحدیث4502)
صحابۂ کرام رضی
اللہ عنھم کی بے ادبی:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی کے بارے
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کو
گالی گلوچ نہ کرو، (ان کا مقام یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر
سونا(اللہ تعالی کی راہ میں) خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی رضی اللہ عنہ
کے ایک مُد(ایک چھوٹی سی مقدار) بلکہ آدھامُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔" (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،
باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لو کنت متخذاً خلیلاً، 2/522، الحدیث:2473)
ایک اور جگہ ولیوں کی توہین و بے
ادبی کے بارے میں فرمایا گیا کہ حدیث قدسی میں ہے:"اللہ تعالی ارشاد فرماتا
ہے" جس نے میرے کسی ولی کی توہین کی، اس نے میرے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا۔"
فتاوی رضویہ میں امام احمد رضا
خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ "جو با ادب نہیں، اس کا کوئی دین نہیں۔"(فتاوی رضویہ، جلد 28، صفحہ 108)
جو قابلِ ادب چیزوں اور ہستیوں کا ادب کرتے ہیں،
ان کے نصیب اچھے ہوتے ہیں، دنیا و آخرت میں برکتیں پانے میں کامیاب ہوتے
ہیں، اللہ کریم ہمیں ان بزرگوں کا صدقہ
عطا فرمائے اور ہمیں باادب بنائے اور بے
ادبی کی نحوست سے بچائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جو با ادب نہیں اس کا کوئی
دین نہیں۔(فتاوی رضویہ، ج28، ص159)
کسی نے درست کہا کہ"جس نے جو
کچھ پایا، صرف ادب کے سبب پایا اور جو
کھویا، وہ بے ادبی کے سبب ہی
کھویا"، شاید اسی سبب سے یہ بات
مشہور ہے کہ"با ادب با نصیب، بے ادب
بے نصیب"، یہ بات حقیقت ہے کہ ادب کے سبب انسان ترقی و عروج پاتا ہے اور بے
ادبی کے سبب ذلّت و رسوائی کے عمیق گڑھے میں گر سکتا ہے، بے ادبی کی نحوست کا اندازہ ذیل میں درج باتوں
سے ہوتا ہے:
ا عمال کے برباد
ہونے کا سبب:
قرآن پاک میں حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کی بے ادبی کرنے والے کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ۔(پ26،الحجرات:2)
ترجمۂ کنز الایمان:"کہیں تمہارے اعمال اَکارت نہ ہوجائیں اور
تمہیں خبر نہ ہو۔"یعنی بے ادبی و گستاخی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعمال کے
برباد ہونے کا سبب ہے، تمام علماء کا اس
پر اتفاق ہے کہ کفر کے سوا کوئی گناہ اعمال کے ضائع ہونے کا سبب نہیں ہے اور جو
چیز اعمال کے ضیاع کا سبب ہو، کفر ہے۔(صحابہ
کرام کا عشقِ رسول، ص45)
مردود و ذلیل ہونے
کا سبب:
بے ادب بے مراد ہی ہوتا ہے، یہ بے ادبی دنیا و آخرت میں مردُود کروا دیتی ہے،
جیسا کہ ابلیس کی نو لاکھ سال کی عبادت
ایک بےادبی کی وجہ سے برباد ہو گئی اور وہ مردود ٹھہرا۔(آداب مرشد کامل، ص26، 27)
فاقے اور تنگی کا سبب:
منقول ہے کہ کسی شخص نے بارگاہِ
رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم! میں فاقے کا شکار رہتا
ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تو کسی بوڑھے (شخص) کے آگے چلا ہوگا۔(
آداب مرشد کامل، ص26، 27)
ربّ تعالیٰ بے ادبی
کے سبب زمین میں دھنسا دیتا:
تفسیر روح البیان میں ہے کہ پہلے
زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے(شخص) کے آگے چلتا تھا تو اللہ تعالی (اس کی
ادبی کے سبب) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔( آداب مرشد کامل، ص26، 27)
بے ادبی کہیں کا
رہنے نہیں دیتی:
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مرید عالم،
فاضل، مرشد ہونے کے باوجود (اپنے مرشد کامل کے فیض سے)
دامن نہیں بھر پاتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ
وہ اپنے آپ کو مرشد سے افضل سمجھتے لیتے ہیں اور وہ سمجھ اس کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔(آداب
مرشد کامل، ص26، 27)
ان تمام روایات سے یہ بات ظاہر ہے کہ بے ادبی
دنیا و آخرت دونوں میں رسوائی اور ناکامی اور ذلت کا سبب ہے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ادب جیسی پیاری خصلت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم

مشہور مقولہ ہے "با ادب با
نصیب، بے ادب بے نصیب"
ادب کرنے والا دنیا و آخرت میں
کامیاب ہوتا ہے، جبکہ بے ادبی کرنے والا
دنیا اور آخرت میں ذلّت کا شکار ہوکر لوگوں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا ہے، بے ادبی انسان کو تباہی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے، کفار عرب کے سرداروں میں سے ایک نے صحابہ کرام
علیہم الرضوان کی دعوتِ اسلام کے جواب میں اللہ پاک کی شان میں گستاخی کی تو اس پر
بجلی گری اور وہ شخص ہلاک ہوگیا، ارشادِ
باری تعالی ہے،
ترجمہ کنزالایمان: اور کڑک بھیجتا ہے تو اسے ڈالتا ہے، جس پر چاہے اور وہ اللہ میں جھگڑتے ہوتے ہیں
اور اس کی پکڑ سخت ہے۔"( پ 13، الرعد:13)
معلوم ہوا کہ خبردار! خبردار!
اللہ پاک کی بارگاہ میں کوئی ایسا نقطہ نہیں نکالنا چاہئے، جو شانِ اُلوہیت میں بے ادبی قرار پائے۔(عجائب
القران مع غرائب القران، ص323)
بارگاہِ رسالت میں بے ادبی کی نحوست سے ابو لہب کا بیٹا"عتیبہ"شیر کا لقمہ بنا۔(سیرت
مصطفی، ص696)
پانچ دشمنانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عاص بن
وائل، اسود بن مطلب، اسود بن عبد یغوث، حارث بن قیس اور ولید بن مغیرہ بھی بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخیوں اور بے ادبیوں کے سبب ہلاکت کا شکار ہوئے ۔(عجائب القران مع
غرائب القران)
بہار شریعت میں ہے کہ انبیاء
علیہم السلام کی ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے۔(بہار شریعت، ص471)ثابت ہوا کہ بے
ادبی وہ منحوس شے ہے، جو انسان سے اس کا قیمتی
سرمایہ ایمان تک چھین لیتی ہے، علم کی بے
ادبی کرنے والا علم کی برکتوں سے محروم رہتا ہے، اپنے استاد کی بے ادبی کرنے والا علم حاصل
کرلینے کے باوجود دوسروں تک پہنچانے میں ناکام رہتا ہے۔(راہ علم، ص32)
بزرگان دین کی بے ادبی کرنے والا کبھی کامیاب
نہیں ہو سکتا، جیسا کہ غوث اعظم رحمۃ اللہ
علیہ کے ساتھ ابنِ سقا ایک بزرگ کی زیارت کرنے کے لئے گیا، غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے تو ادب کی وجہ سے اعلٰی
مقام حاصل کیا، مگر ابنِ سقا بے ادبی کی
نحوست سے مرتد ہوگیا۔
سادات کرام کی بے ادبی کرنے والا خود کو ان کے
نانا جان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ
وسلم کی ناراضی کا مستحق بنا لیتا ہے، ماں
باپ کی بے ادبی کرنے والا دنیا و آخرت میں اس کی سزا پاتا ہے، تبرکات کی بے ادبی بھی بڑی خطرناک ہے، قوم عمالقہ کی پانچ بستیاں تابوتِ سکینہ کی بے
ادبی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔(عجائب القرآن، ص53)
پیر کی بے ادبی کرنے والا مرید
کبھی بھی نگاہِ مرشد پانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ کلام یہ کہ ادب انسان کو ترقی کی منازل طے
کرواتا ہے، جبکہ بے ادبی انسان کو عروج سے
زوال تک لے آتی ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہر اس قول و فعل سے بچیں، جس سے بے ادبی
کا پہلو نکلتا ہو، اس کے لئے ہمیں با ادبوں
کی صحبت اختیار کرنی ہوگی، جبکہ بے ادبوں کے سائے سے بھی دور بھاگنا ہو گا۔
امیر اہلسنت کیا خوب دعا کرتے ہیں:
محفوظ سدا رکھنا شہا بے اَدَبوں
سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
ادبی ہو
(وسائل بخشش، ص315)
بے ادبی کی نحوست
بنت کریم عطاریہ مدنیہ واہ کینٹ جا معۃ المدینہ
للبنات(خوشبوئے عطار) گلشن کالونی، واہ کینٹ
کسی نے کہا ہے مَا وَصَلَ مَنْ
وَصَلَ اِلَّابِا الْحُرْمَۃِ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّابِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ۔
یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"(راہ
علم، صفحہ29)
بے ادبی خود ایک نحوست ہے، بے ادبی دنیا و آخرت میں ذلّت و رسوائی کا باعث
ہے، بے ادب شخص دنیا و آخرت میں نقصان ہی
اٹھاتا ہے، بے ادبی کی وجہ سے سینکڑوں
ہزاروں برس کے نیک اعمال بھی اَکارت ہو جاتے ہیں، دیکھئے! ابلیس جس نے لاکھوں سال اللہ عزوجل کی عبادت کی، اپنی عبادت سے زمین و آسمان کو بھر دیا، مُعَلّمُ الْمَلَکُوت(یعنی فرشتوں کا استاد)
رہا، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ملائکہ
مقربین کے ساتھ حاضر ہوتا، لیکن نبی کی بے
ادبی کرنے کی وجہ سے بارگاہِ الہی سے مردُود قرار دیا گیا، قیامت تک کے لئے راندہ درگاہ ہو گیا، اس کی لاکھوں سال کی عبادتیں بھی کچھ کام نہ آئیں۔
اسی طرح بارگاہِ رسالت میں بے ادبی کرنے والوں
کے متعلق ربِّ کائنات عزوجل نے اِرشاد فرمایا،
ترجمہ کنزالایمان:" اے ایمان
والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں
ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں
خبر نہ ہو ۔"(پ 26، الحجرات: 2)
صحابہ کرام کی بے ادبی و گستاخی کرنا بھی دنیا و
آخرت میں خسارے کا باعث ہے، جیسا کہ
کراماتِ صحابہ مطبوعہ مکتبہ المدینہ کے صفحہ نمبر 67، 68 پر ایک شخص کا واقعہ نقل
کیا گیا ہے، جو کوفہ کا رہنے والا تھا،
وہ صدیقِ اکبر و فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہما کی شان میں بد زبانی کر رہا تھا، اللہ عزوجل نے اس کی صورت کو مسخ کرکے بندر بنا
دیا۔والعیاذ باللہ
اولیاء کرام کی بے ادبی کرنے والوں کو بھی ڈر
جانا چاہئے کہ اللہ عزوجل حدیثِ قدسی میں ارشاد فرماتا ہے:"جو میرے کسی ولی
سے دشمنی کرے ، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔"(مشکوٰۃ المصا بیح، باب ذکر اللہ، حدیث 2156)
والدین کی بے ادبی اور نافرمانی
کرنے والے بھی اس کے انجام سے ڈریں، جیساکہ
منقول ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے آواز دی، لیکن اس نے جواب نہ دیا، اس پر اُس
کی ماں نے اسے بددعا دی تو وہ گونگا ہوگیا۔
پیر کی بے ادبی کی نحوست سے متعلق حضرت ذوالنّون
مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا
تھا۔"(الرسالۃ القشیریہ، باب الادب، صفحہ 319، نقل از آداب مرشد کامل، صفحہ 27)
کتابوں کی بے ادبی کرنے والے بھی ہوشیار ہوجائیں، شیخ الاسلام اِمام بُرہان الدین رحمۃ اللہ علیہ
بیان کرتے ہیں:" ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے، تو شیخ نے ان سے فرمایا:"تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا
سکتے۔"(ہم اللہ عزوجل سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)(راہ علم، صفحہ34)
محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
ادبی ہو

کسی نے کہا ہے مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّابِا الْحُرْمَۃِ وَمَا
سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّابِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ۔ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب
ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"(راہ
علم، صفحہ29)
بے ادبی خود ایک نحوست ہے، بے ادبی دنیا و آخرت میں ذلّت و رسوائی کا باعث
ہے، بے ادب شخص دنیا و آخرت میں نقصان ہی
اٹھاتا ہے، بے ادبی کی وجہ سے سینکڑوں
ہزاروں برس کے نیک اعمال بھی اَکارت ہو جاتے ہیں، دیکھئے! ابلیس جس نے لاکھوں سال اللہ عزوجل کی
عبادت کی، اپنی عبادت سے زمین و آسمان کو
بھر دیا، مُعَلّمُ الْمَلَکُوت(یعنی
فرشتوں کا استاد) رہا، اللہ عزوجل کی بارگاہ
میں ملائکہ مقربین کے ساتھ حاضر ہوتا، لیکن
نبی کی بے ادبی کرنے کی وجہ سے بارگاہِ الہی سے مردُود قرار دیا گیا، قیامت تک کے لئے راندہ درگاہ ہو گیا، اس کی لاکھوں سال کی عبادتیں بھی کچھ کام نہ آئیں۔
اسی طرح بارگاہِ رسالت میں بے ادبی کرنے والوں
کے متعلق ربِّ کائنات عزوجل نے اِرشاد فرمایا،
ترجمہ کنزالایمان:" اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی
نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے
ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔"(پ 26،
الحجرات: 2)
صحابہ کرام کی بے ادبی و گستاخی کرنا بھی دنیا و
آخرت میں خسارے کا باعث ہے، جیسا کہ
کراماتِ صحابہ مطبوعہ مکتبہ المدینہ کے صفحہ نمبر 67، 68 پر ایک شخص کا واقعہ نقل
کیا گیا ہے، جو کوفہ کا رہنے والا تھا، وہ
صدیقِ اکبر و فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہما کی شان میں بد زبانی کر رہا تھا، اللہ عزوجل نے اس کی صورت کو مسخ کرکے بندر بنا
دیا۔والعیاذ باللہ
اولیاء کرام کی بے ادبی کرنے والوں کو بھی ڈر
جانا چاہئے کہ اللہ عزوجل حدیثِ قدسی میں ارشاد فرماتا ہے:"جو میرے کسی ولی
سے دشمنی کرے ، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔"(مشکوٰۃ المصا بیح، باب ذکر اللہ، حدیث 2156)
والدین کی بے ادبی اور نافرمانی
کرنے والے بھی اس کے انجام سے ڈریں، جیساکہ منقول ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے
آواز دی، لیکن اس نے جواب نہ دیا، اس پر اُس کی ماں نے اسے بددعا دی تو وہ گونگا
ہوگیا۔
پیر کی بے ادبی کی نحوست سے متعلق حضرت ذوالنّون
مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔"(الرسالۃ
القشیریہ، باب الادب، صفحہ 319، نقل از
آداب مرشد کامل، صفحہ 27)
کتابوں کی بے ادبی کرنے والے بھی ہوشیار ہوجائیں،
شیخ الاسلام اِمام بُرہان الدین رحمۃ اللہ
علیہ بیان کرتے ہیں:" ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے، تو شیخ نے ان سے فرمایا:"تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔"(ہم
اللہ عزوجل سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)(راہ علم، صفحہ34)
محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی
ہو

منقول ہے کہ جس نے جو
پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی کھویا ۔ یعنی ادب انسان کی ایسی بہترین صفت ہے جس کی بدولت وہ
دنیوی اور اخروی نعمتوں سے سرفراز ہوتا ہے اور جس شخص میں وصف معدوم ہو وہ
ان نعمتوں سے بھی محروم رہتا ہے ۔ شاید
اسی لئے یہ محاورہ مشہور ہے کہ’’باادب با
نصیب بے ادب بے نصیب‘‘ ۔ یادرہے جس طرح ریت کے ذروں میں کوئی قیمتی موتی اپنی چمک دمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح باادب شخص بھی
لوگوں میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔دِینِ اسلام ہمیں مقدّس ہستیوں
،متبرک مقامات ا ور عظمت والی چیزوں کا احترام کرنے کا حکم دیتا ہے جبکہ ان کی بے ادبی وبے حرمتی سے روکتا ہے اور اس کے نقصانات بھی بتاتا ہے ۔
انبیائے کرام کی بے ادبی:
پارہ 6 سورۂ مائدہ کی
آیت نمبر 12 میں اَنبیائے کرام کی تعظیم بجالانے کا حکم اور اس کی تعمیل کرنےوالوں کیلئے گناہوں
کی مغفرت اور جنت کی بشارت ہے جبکہ ان
مبارک ہستیوں کی شان میں بے ادبی ہمیشہ
کیلئے ذلت و رُسوائی اور نیک اعمال کی بربادی کا سبب ہے جیساکہ شیطان جب وہ اللہ کے پیارے نبی حضرت
سَیِّدُنا آدم علیہ السلام کی شان میں بے ادبی کا مرتکب ہوا تو مردود اور ملعون ہوکر
جہنم کے دائمی عذاب کا مستحق ٹھہرا ۔قرآن کریم میں کئی مقامات پراس واقعے کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح پارہ 26 سورۂ حجرات کی آیت نمبر 2 میں سید الانبیاء
،احمد مجتبیٰ ،ہمارے پیارے آقا محمد مصطفے ٰ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ی کے آداب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے ایمان والو! اپنی
آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور
ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند
آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے
اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔
بزرگان دین کی بے ادبی:
بزرگانِ دین میں نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ،اولیائے کرام اورعلمائے کرام اور شریعت و سنت
پر عمل پیرا ہوکر بارگاہِ خداوندی میں اعلیٰ
مقام پانے والی عظیم ہستیاں شامل ہیں ۔ نبی پاک ﷺ کی صحبتِ با برکت کی وجہ سے صحابہ کرام کی تعظیم ہر مسلمان پر لازم و ضروری
ہے ان کی شان میں بے ادبی اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی کاسبب ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے
میرے اصحاب کے متعلق بری بات کہی تووہ
میرے طریقے سے ہٹ گیا، اس کا ٹھکانا آگ ہے اور کیا ہی بری جگہ ہے پلٹنے کی۔
(الریاض النضرۃ،۱/۲۲) اسی طرح اولیائے کرام بھی ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں ،قرآن کریم
نے متعدد مقامات پر ان کی شان وعظمت بیان فرمائی ہے ہمیں بھی اللہ کے ان نیک بندوں سے اپنی عقیدت و محبت قائم رکھنی چاہیے اور ان
کی صحبت و فرامین پر عمل پیرا ہوکر دین و دنیا کی برکتیں سمیٹنی چاہئیں اور ان
کی بے ادبی اور گستاخی سے خود بھی بچنا چاہیے اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بھی بچنا چاہیے جو ان کی شان
میں گستاخی و بے ادبی کرتے ہیں کیونکہ
حدیثِ پاک میں اللہ کے ولیوں سے دُشمنی
رکھنے والوں کیلئے اللہ پاک کی طرف سے
جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ( بخاری، ۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲ )
والدین کی بے ادبی:
اسلام میں والدین کو
بہت بلند مقام حاصل ہے ” جنت کو ماں کے
قدموں تلے رکھا گیا ہے“اور باپ کو”جنت کا درمیانی دروازہ“کہا گیا
ہے۔ قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن
سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر بے شمار اجر و ثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے جبکہ ماں باپ کی
بے ادبی کرنے والا آخرت میں تو خسارہ اٹھائے گا بعض اوقات دنیا میں بھی اس گناہ کی
سزا پاتا ہے اور ممکن ہے ”جیسی کرنی ویسی
بھرنی “کے مصداق اس کی اپنی اولاد بھی اس
کے ساتھ اسی طرح پیش آئے اور یوں وہ دنیا میں والدین کی بے ادبی کی سزا میں مبتلا
ہوجائے ۔
استاد کی بےادبی:
استاد بھی ان عظیم ہستیوں میں سے ہے جو قابلِ تعظیم
ہے ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا ،اب
چاہے تو وہ مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا
ہے تفسیر کبیر میں ہے : اُستاد اپنے شاگرد
کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دُنیا کی آگ اور
مَصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اَساتذہ اسےدوزخ کی آگ اور آخرت کی مصیبتوں سے بچاتے
ہیں۔(تفسیر کبیر ،ج۱،ص ۴۰۱)لہٰذا ہمیں اپنے اساتذہ کے آداب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے علم حاصل کرنا چاہیے کیونکہ استاد کی
بےادبی ہمیشہ کیلئے علم سے محروم کردیتی
ہے۔
بڑے بہن بھائیوں کی بے ادبی:
دین ِ اسلام نےہمیں بڑوں کا احترام سکھا کران کے سروں پر عزت
وعظمت کا تاج سجایا ہے ، ہمارے بڑوں
میں بڑے بھائی بہن کامقام ومرتبہ بھی لائقِ تعظیم ہے ۔بہن بھائی مشکل حالات میں ایک
دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں اور آپس میں اتفاق و اتحاد معاشرے میں تقویت فراہم کرتا ہے ۔لیکن اگر کوئی بڑے بہن
بھائیوں کا احترام نہ کرے اور ان سے قطع تعلق ہوجائے تو وہ لوگوں کی نظروں سے گر
جاتا ہے اور معاشرے میں تنہا رہ جاتا ہے ۔
رزق کی بے ادبی:
اللہ پاک نے اپنی ہر
مخلوق سے رزق کا وعدہ فرمایا ہے اوراس
وعدے کے مطابق ہر ایک کو اس کے حصے کے مطابق عطا بھی کرتا ہے۔ جو رزق کی جتنی قدر کرتا ہے اللہ پاک اس کے رزق میں مزید وسعت و کشادگی فرماتا
ہے ۔ اس کے برعکس جو لوگ رزق کی بے
ادبی و بے حرمتی کرتے ہوئے اسے کچرے یا نالیوں میں بہا کر ضائع کر دیتے ہیں وہ دنیا میں تنگدستی اور محتاجی کا
شکار ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت کے عذاب کا شکار ہوسکتے ہیں ۔
اللہ پاک ہمیں باادب بنائے اورادب کی برکتوں سے فیضیاب
فرمائے اور بے ادبی سے بچاکر اس کی
نحوستوں سے محفوظ فرمائے ۔
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
اَدَبی ہو

اچھے اخلاق سے انسان کی سعادت
مندی کا پتہ چلتا ہے، جیسے کہ حسنِ اخلاق
کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کہ حسنِ اخلاق بندے کی سعادت مندی میں سے ہے۔"
آج تک جس نے جو کچھ پایا، وہ صرف ادب ہی کی وجہ سے پایا اور جو کچھ کھویا،
وہ بے ادبی کی وجہ سے کھو یا، شاید اس لئے یہ بات بھی مشہور ہے کہ "با
ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب"
ایک بار جناب بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کسی نخلستان
میں تشریف رکھے ہوئے تھے، ایک تاجر کا
وہاں سے گزر ہوا، وہ آپ کے پاس آیا اور
سلام کرکے مؤدب سامنے بیٹھ گیا اور
انتہائی ادب سے گزارش کی، حضور!تجارت کی
کونسی جنس خریدوں، جس میں بہت نفع ہو، جناب بہلول دانا نے فرمایا: کالا کپڑا لے لو"،
تاجر نے شکریہ ادا کیا اور اُلٹے قدموں
واپس چلا گیا، جا کر علاقے میں دستیاب
تمام کپڑا خرید لیا، کچھ دنوں بعد شہر کا بڑا آدمی انتقال کر گیا، ماتمی سیاہ کپڑے کی تلاش میں تھے، اس تاجر کے پاس سارا کپڑا مل گیا، اس نے منہ مانگے دام میں بیچا، جب دوبارہ اس کی ملاقات ہوئی اس دانا سے، تو تاجر نے کہا:اب کیا خریدوں؟ بہلول نے کہا کہ
تربوز خرید لو، تاجر نے بہت سارے تربوز لے لئے، ایک ہی ہفتے میں سب تربوز خراب ہو گئے اور وہ
کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا، اب کی بار جب
اس کی ملاقات بہلول دانا سے ہوئی، تو تاجر
نے کہا:آپ نے میرے ساتھ کیا کیا؟ جناب بہلول نے فرمایا: کہ میں نے نہیں، تیرے ادب نے یہ سب کچھ کیا، جب تو ادب کے ساتھ پیش آیا تو مالا مال ہوگیا، جب گستا خی کی تو کنگال ہو گیا، ادب بہت عمدہ صفت ہے، مگر
افسوس! فی زمانہ ادب کا علم کے معیار سے ہے، چھوٹے ہوں یا بڑے سب کے ساتھ ادب کے ساتھ پیش
آنا چاہئے، والدین کی عزت کرنی چاہئے، ادب و احترام سے ہی انسان کا شمار تہذیب یافتہ
اور شائستہ لوگوں میں ہوتا ہے، ادب و
احترام کے بغیر انسان اس درخت جیسا ہے، جو خوبصورت تو ہے لیکن پھلتا پھولتا نہیں۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ-اِنَّ اللّٰهَ
سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔اے ایمان والو!اللہ اور اس کے
رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، بے
شک اللہ عزوجل سنتا جانتا ہے۔"( پ 26، الحجرات:1)
جہاں ادب کرنے کے ڈھیروں
فائدے ہیں، وہیں بے ادبی کے ہزاروں نقصانات بھی ہیں، "باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب"ہم یہاں بے ادبی کی چند
نحوستیں ذکر کریں گے:
1۔عذابِ
الٰہی:
تفسیر روح البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب
کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا اللہ تعالیٰ اسے(اس کی بے ادبی کی وجہ
سے) زمین میں دھنسا دیتا تھا۔(آداب مرشد کامل، ص26)
2۔ ایمان سے محرومی:
ابلیس نے نو لاکھ سال عبادت کی،
مگر تکبر میں بے ادب ہوا اور ہمیشہ کے لئے مردود ٹھہرا۔"(آداب مرشد کامل، صفحہ26)
اعمال کی بربادی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا
تَشْعُرُوْنَ۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:اے
ایمان والو!اپنی آوازیں اونچی نہ کرو، اس
غیب بتانے والے نبی کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ
کہیں تمہارے عمل اکارت( ضائع) نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔"(پ26،
الحجرات:2)
4،گمراہی
و بد دینی:
ایک شخص جسے ذوالخویصرہ کہا جاتا
تھا، اس شخص نے حضور علیہ السّلام کی
بارگاہ میں بے ادبی کی، تو حضور علیہ
السلام نے اس کے بارے میں فرمایا:"اسے چھوڑ دو، کیونکہ اس کے کچھ ساتھی ہوں گے، تم میں سے ہر ایک اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے
مقابلہ میں اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ میں حقیر جانے گا، وہ لوگ قرآن پڑھیں گے، قرآن اُن کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا، دین سے ایسے نکل جائیں گے، جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔"(مراٰۃ
المناجیح، جلد 8، صفحہ 174، حدیث نمبر 5636 ملتقطاً)
مرید کا زوال:
حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں کہ : "جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا تو وہ لوٹ کر وہیں
پہنچ جاتا ہے، جہاں سے چلا تھا۔"(
الرسالۃ القشیریہ باب الادب، صفحہ 319، آداب مرشد کامل، 27)
غرض یہ کہ ادب انسان کی انسانیت میں نکھار پیدا کرتا ہے، با ادب اور بے ادب
میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
ہمارے بزرگانِ دین ادب کا خاص خیال فرماتے، ہر مقدس چیز کا ادب ہے، بعض اوقات بے ادبی کفر تک پہنچا دیتی ہے، اللہ کریم ہمیں خواب میں بھی بے ادبی سے بچائے
اور ہمیں تمام انبیاء کرام، فرشتوں، صحابہ کرام، اولیاءِ کرام، شعائراللہ، آلِ رسول اور ہر مقدس چیز کا
ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Sunnah-inspiring Ijtima’ was
held on 2nd June 2021 in Vienna, Austria via Skype. Approximately, 22
Islamic sisters had the privilege of attending this great Ijtima’.
Kabinah Nigran Islamic sister delivered a Bayan on the topic ‘excellence
of Makkah Mukarramah’ and explained the attendees
[Islamic sisters]
the excellence of Makkah Mukarramah in light of
the Holy Quran and Hadith. Moreover, she gave
them the information about the religious
activities of Dawat-e-Islami and encouraged them to take part in the religious
activities practically.
Monthly religious
Halqahs of responsible Islamic sisters from Oslo, Norway and other cities

Under the supervision of Dawat-e-Islami, monthly religious Halqahs of
responsible Islamic sisters from Oslo, Norway and other cities were conducted
in the last week of May 2021. Approximately, 15 Islamic
sisters had the privilege of attending these great Halqahs.
The female preachers of Dawat-e-Islami delivered Sunnah-inspiring Bayans
and motivated the attendees [Islamic sisters] to spread the call towards righteousness. Moreover, she conducted a
revision of the weekly Madani Muzakrah and gave them the mindset of improving
the religious activities of Islamic sisters.

Under the supervision of Dawat-e-Islami, Sunnah-inspiring Ijtima’at were
held in different areas of Valencia Division, Spain in the last week of May
2021. These areas included Mislata, Patrix, etc. Approximately, 20
Islamic sisters had the privilege of attending these great Ijtima’at.
The female preachers of Dawat-e-Islami delivered Bayans on the topic
‘impeccable character of Ala Hazrat’, gave the
attendees [Islamic sisters] the information
about the religious activities of Dawat-e-Islami and encouraged them to take
part in the religious activities practically.
Madani Mashwarah of responsible Islamic sisters from Suriname and
Uruguay

Under the supervision of Dawat-e-Islami, Region Nigran Islamic sister
from Central and South America Region held a Madani Mashwarah with Islamic
sisters from Suriname and Uruguay in previous days. Division Nigran
Islamic sister had the privilege of attending this great Mashwarah.
Region Nigran Islamic sister analysed the Kaarkardagi (performance) of the attendees [Islamic sisters], did their
Tarbiyyah and gave them the Hadaf [target] of increasing the number of Madani
Muzkarah. Furthermore, she motivated to improve the performance about the weekly booklet.

مشہور مقولہ ہے
؛ " با ادب با نصیب
بے ادب بد نصیب " تفسیر روح البیان میں ہے
کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نو جوان کسی
بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تو اللہ
تعالیٰ ( اس کی بے ادبی کی
وجہ سے ) زمین میں دھنسا دیتا تھا ۔
ایک
اور جگہ نقل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں عرض کی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں
فاقہ کا شکاررہتا ہوں ۔تو آپ نے ارشاد فرما یا ؛ " تو کسی
بوڑھے شخص کے اگے چلا ہو گا " ( روح البیان پارہ 17) اس سے معلوم ہوا کہ بے ادبی دنیا اور اخرت میں مردود کر
دیتی ہے ۔جیسا کی ابلیس کی نو لاکھ سال کی عبادت ایک بے ادبی کی وجہ سے برباد ہوئی
اور وہ مردود ہوا ۔
حضرت ابو علی دقاق فرماتے ہیں ؛ " بندہ اطاعت سے جنت تک اور ادب سے اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے " (التفسیریہ، باب الادب، ص 316 )
ادب کا باب بہت وسیع ہے ۔ اس میں اللہ
پاک کا ادب ، فرشتوں کا ادب ، کلام اللہ کا ادب ، احا دیث مبارکہ کا ادب ،علم کا
ادب ، کتابوں کا ادب ، مکہ پاک اور مدینہ منورہ زادہا اللہ شرفا و التعظیما کا ادب
، ،مقدس شہروں اور بزرگوں سے مناسبت رکھنے والی اشیاء کا ادب اساتذہ کا ادب ،
والدین کا ادب ،مسلمانوں کی قبروں کا اد ب اور بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا ادب کیا جاتا ہے
ذکر کردہ بعض ادب فرض ہیں کہ ذرا سی بے ادبی کی
نحوست سے کفر میں جا پڑنے اندیشہ ہے ۔ بعض کا ادب واجب ہے اور
عشق ومحبت بعض چیزوں کے ادب کا تقاضہ کرتا
ہے ۔
عرض کہ یہ ایک وسیع علم ہے اور اس کی معلومات حاصل
کرنا بالخصوص ان آداب کی جن کا علم نہ
ہونے کی وجہ سے بے ادبی کریگا اور اس کی نحوست سے اسلام ہی سے خارج ہوجائگا ۔
تو تمام
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کے بارے میں علم
حاصل کریں اور اپنا ایمان بچائیں ۔ اس کے
لیے امیر اھلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب کفر یہ
کلمات کے بارے میں سوال وجواب کا مطالہ کیجئے ۔ عُلماء کی محبت اختیار کیجئے
مدنی مذاکرہ میں شرکت کیجئے اور امیر اھلسنت
کے ادب کا انداز دیکھ /سن کر سیکھئے ، کیوں کہ بہت ساری باتیں کتابوں میں نہیں
لکھی ہوئی وہ تو بزرگوں کے انداز اور افعال سے ملتی ہیں ۔
محفوظ سدا رکھناشہا
بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو