شرفِ انسانیت یہ ہے کہ انسان ادب
کے زیور سے آراستہ ہو، جس انسان میں ادب
کا جوہر نہ ہو یقیناً وہ ہر نعمت سے محروم
ہے اور وہ انسان نما حیوان ہوا کرتا ہے، آج تک جس نے جو کچھ بھی پایاہے، وہ
صرف ادب کی ہی وجہ سے پایا ہے اور جو کچھ بھی کھویا ہے، وہ بے ادبی کی وجہ سے ہی کھویا۔
شیطان نے بھی بے ادبی کی تھی،
یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی، جبکہ یہ معلم الملکوت تھا یعنی فرشتوں کا سردار، یہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس قدر مقرب تھا، مگر حکمِ الہی کی نافرمانی کی تو اس کی برسوں
کی عبادت ختم ہوگئی، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے جہنم میں ہو گیا۔
بے ادبی کا قہر:
شیطان نے لاکھوں سال اللہ پاک کی عبادت کی، ایک قول کے مطابق چھ لاکھ سال عبادت کی اور صرف
ایک بےادبی کی وجہ سے چھ لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا اور وہ بے ادبی حضرت آدم
علیہ السلام کی تعظیم نہ کرنا تھی۔(ادب کی اہمیت از مفتی امین صاحب، صفحہ 26، مطبوعہ جمعیت اشاعت اہلسنت)
اس لئے قرآن پاک میں اللہ تعالی
نے فرمایا،
ترجمہ کنزالایمان:اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو، کہ کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں اور
تمہیں خبر نہ ہو۔"(پ26،الحجرات: 2)
انبیائے کرام کی بے
ادبی:
اللہ پاک کے بعد تمام مخلوق میں
انبیاء کرام علیہم السلام افضل و اعلیٰ ہیں، ان کی تعظیم و ادب ضروری اور ان کی شان میں
ادنیٰ سی توہین یعنی گستاخی و بے ادبی کفر ہے، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی
محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:"کسی نبی کی ادنیٰ توہین یا تکذیب یعنی جھٹلانا کفر ہے۔"(بہار
شریعت، حصہ 1،47/1)
مسلمانوں کی بے
ادبی:
حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالی
اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:"تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔"(مسلم،
کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :سباب
المسلم۔۔الخ، ص52)
والدین کی بے ادبی:
حدیث شریف میں ہے:"والدین کی
بے ادبی اور نافرمانی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔" چنانچہ حدیث شریف میں ہے
کہ والدین کو اُف تک نہ کہو، حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات
صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا، " اس کی ناک خاک آلود ہو، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم
کون؟ ارشاد فرمایا:جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا
اور جنت میں داخل نہ ہوا ۔"(مسلم، کتاب البر والصلۃ والادات، باب رغم من ادرک ابویہ اواحدہماعند الکبر ۔۔الخ،
ص1381، الحدیث 2551)
ولی کی بے ادبی:
ولی خدا کے نیک بندوں میں شمار
ہوتے ہیں، یہ بلند درجوں پر فائز ہیں، چنانچہ ان کی بے ادبی کرنے کے متعلق فرمایا گیا
ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالی نے فرمایا:"جو میرے کسی ولی
سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان
دے دیا۔"(بخاری، کتاب الرقاق، باب
التواضع، 6/268، الحدیث4502)
صحابۂ کرام رضی
اللہ عنھم کی بے ادبی:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی کے بارے
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کو
گالی گلوچ نہ کرو، (ان کا مقام یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر
سونا(اللہ تعالی کی راہ میں) خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی رضی اللہ عنہ
کے ایک مُد(ایک چھوٹی سی مقدار) بلکہ آدھامُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔" (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،
باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لو کنت متخذاً خلیلاً، 2/522، الحدیث:2473)
ایک اور جگہ ولیوں کی توہین و بے
ادبی کے بارے میں فرمایا گیا کہ حدیث قدسی میں ہے:"اللہ تعالی ارشاد فرماتا
ہے" جس نے میرے کسی ولی کی توہین کی، اس نے میرے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا۔"
فتاوی رضویہ میں امام احمد رضا
خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ "جو با ادب نہیں، اس کا کوئی دین نہیں۔"(فتاوی رضویہ، جلد 28، صفحہ 108)
جو قابلِ ادب چیزوں اور ہستیوں کا ادب کرتے ہیں،
ان کے نصیب اچھے ہوتے ہیں، دنیا و آخرت میں برکتیں پانے میں کامیاب ہوتے
ہیں، اللہ کریم ہمیں ان بزرگوں کا صدقہ
عطا فرمائے اور ہمیں باادب بنائے اور بے
ادبی کی نحوست سے بچائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم