بے ادبی کی نحوست

Thu, 10 Jun , 2021
2 years ago

منقول ہے کہ جس نے جو  پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی کھویا ۔ یعنی ادب انسان کی ایسی بہترین صفت ہے جس کی بدولت وہ دنیوی اور اخروی نعمتوں سے سرفراز ہوتا ہے اور جس شخص میں وصف معدوم ہو وہ ان نعمتوں سے بھی محروم رہتا ہے ۔ شاید اسی لئے یہ محاورہ مشہور ہے کہ’’باادب با نصیب بے ادب بے نصیب‘‘ ۔ یادرہے جس طرح ریت کے ذروں میں کوئی قیمتی موتی اپنی چمک دمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح باادب شخص بھی لوگوں میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔دِینِ اسلام ہمیں مقدّس ہستیوں ،متبرک مقامات ا ور عظمت والی چیزوں کا احترام کرنے کا حکم دیتا ہے جبکہ ان کی بے ادبی وبے حرمتی سے روکتا ہے اور اس کے نقصانات بھی بتاتا ہے ۔

انبیائے کرام کی بے ادبی:

پارہ 6 سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 12 میں اَنبیائے کرام کی تعظیم بجالانے کا حکم اور اس کی تعمیل کرنےوالوں کیلئے گناہوں کی مغفرت اور جنت کی بشارت ہے جبکہ ان مبارک ہستیوں کی شان میں بے ادبی ہمیشہ کیلئے ذلت و رُسوائی اور نیک اعمال کی بربادی کا سبب ہے جیساکہ شیطان جب وہ اللہ کے پیارے نبی حضرت سَیِّدُنا آدم علیہ السلام کی شان میں بے ادبی کا مرتکب ہوا تو مردود اور ملعون ہوکر جہنم کے دائمی عذاب کا مستحق ٹھہرا ۔قرآن کریم میں کئی مقامات پراس واقعے کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح پارہ 26 سورۂ حجرات کی آیت نمبر 2 میں سید الانبیاء ،احمد مجتبیٰ ،ہمارے پیارے آقا محمد مصطفے ٰ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ی کے آداب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔

بزرگان دین کی بے ادبی:

بزرگانِ دین میں نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ،اولیائے کرام اورعلمائے کرام اور شریعت و سنت پر عمل پیرا ہوکر بارگاہِ خداوندی میں اعلیٰ مقام پانے والی عظیم ہستیاں شامل ہیں ۔ نبی پاک ﷺ کی صحبتِ با برکت کی وجہ سے صحابہ کرام کی تعظیم ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے ان کی شان میں بے ادبی اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی کاسبب ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے اصحاب کے متعلق بری بات کہی تووہ میرے طریقے سے ہٹ گیا، اس کا ٹھکانا آگ ہے اور کیا ہی بری جگہ ہے پلٹنے کی۔ (الریاض النضرۃ،۱/۲۲) اسی طرح اولیائے کرام بھی ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں ،قرآن کریم نے متعدد مقامات پر ان کی شان وعظمت بیان فرمائی ہے ہمیں بھی اللہ کے ان نیک بندوں سے اپنی عقیدت و محبت قائم رکھنی چاہیے اور ان کی صحبت و فرامین پر عمل پیرا ہوکر دین و دنیا کی برکتیں سمیٹنی چاہئیں اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے خود بھی بچنا چاہیے اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بھی بچنا چاہیے جو ان کی شان میں گستاخی و بے ادبی کرتے ہیں کیونکہ حدیثِ پاک میں اللہ کے ولیوں سے دُشمنی رکھنے والوں کیلئے اللہ پاک کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ( بخاری، ۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲ )

والدین کی بے ادبی:

اسلام میں والدین کو بہت بلند مقام حاصل ہے ” جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھا گیا ہے“اور باپ کو”جنت کا درمیانی دروازہ“کہا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر بے شمار اجر و ثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے جبکہ ماں باپ کی بے ادبی کرنے والا آخرت میں تو خسارہ اٹھائے گا بعض اوقات دنیا میں بھی اس گناہ کی سزا پاتا ہے اور ممکن ہے ”جیسی کرنی ویسی بھرنی “کے مصداق اس کی اپنی اولاد بھی اس کے ساتھ اسی طرح پیش آئے اور یوں وہ دنیا میں والدین کی بے ادبی کی سزا میں مبتلا ہوجائے ۔

استاد کی بےادبی:

استاد بھی ان عظیم ہستیوں میں سے ہے جو قابلِ تعظیم ہے ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا ،اب چاہے تو وہ مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے تفسیر کبیر میں ہے : اُستاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دُنیا کی آگ اور مَصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اَساتذہ اسےدوزخ کی آگ اور آخرت کی مصیبتوں سے بچاتے ہیں۔(تفسیر کبیر ،ج۱،ص ۴۰۱)لہٰذا ہمیں اپنے اساتذہ کے آداب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے علم حاصل کرنا چاہیے کیونکہ استاد کی بےادبی ہمیشہ کیلئے علم سے محروم کردیتی ہے۔

بڑے بہن بھائیوں کی بے ادبی:

دین ِ اسلام نےہمیں بڑوں کا احترام سکھا کران کے سروں پر عزت وعظمت کا تاج سجایا ہے ، ہمارے بڑوں میں بڑے بھائی بہن کامقام ومرتبہ بھی لائقِ تعظیم ہے ۔بہن بھائی مشکل حالات میں ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں اور آپس میں اتفاق و اتحاد معاشرے میں تقویت فراہم کرتا ہے ۔لیکن اگر کوئی بڑے بہن بھائیوں کا احترام نہ کرے اور ان سے قطع تعلق ہوجائے تو وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور معاشرے میں تنہا رہ جاتا ہے ۔

رزق کی بے ادبی:

اللہ پاک نے اپنی ہر مخلوق سے رزق کا وعدہ فرمایا ہے اوراس وعدے کے مطابق ہر ایک کو اس کے حصے کے مطابق عطا بھی کرتا ہے۔ جو رزق کی جتنی قدر کرتا ہے اللہ پاک اس کے رزق میں مزید وسعت و کشادگی فرماتا ہے ۔ اس کے برعکس جو لوگ رزق کی بے ادبی و بے حرمتی کرتے ہوئے اسے کچرے یا نالیوں میں بہا کر ضائع کر دیتے ہیں وہ دنیا میں تنگدستی اور محتاجی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت کے عذاب کا شکار ہوسکتے ہیں ۔

اللہ پاک ہمیں باادب بنائے اورادب کی برکتوں سے فیضیاب فرمائے اور بے ادبی سے بچاکر اس کی نحوستوں سے محفوظ فرمائے ۔

محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے

اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَبی ہو