مشہور مقولہ ہے "با ادب با
نصیب، بے ادب بے نصیب"
ادب کرنے والا دنیا و آخرت میں
کامیاب ہوتا ہے، جبکہ بے ادبی کرنے والا
دنیا اور آخرت میں ذلّت کا شکار ہوکر لوگوں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا ہے، بے ادبی انسان کو تباہی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے، کفار عرب کے سرداروں میں سے ایک نے صحابہ کرام
علیہم الرضوان کی دعوتِ اسلام کے جواب میں اللہ پاک کی شان میں گستاخی کی تو اس پر
بجلی گری اور وہ شخص ہلاک ہوگیا، ارشادِ
باری تعالی ہے،
ترجمہ کنزالایمان: اور کڑک بھیجتا ہے تو اسے ڈالتا ہے، جس پر چاہے اور وہ اللہ میں جھگڑتے ہوتے ہیں
اور اس کی پکڑ سخت ہے۔"( پ 13، الرعد:13)
معلوم ہوا کہ خبردار! خبردار!
اللہ پاک کی بارگاہ میں کوئی ایسا نقطہ نہیں نکالنا چاہئے، جو شانِ اُلوہیت میں بے ادبی قرار پائے۔(عجائب
القران مع غرائب القران، ص323)
بارگاہِ رسالت میں بے ادبی کی نحوست سے ابو لہب کا بیٹا"عتیبہ"شیر کا لقمہ بنا۔(سیرت
مصطفی، ص696)
پانچ دشمنانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عاص بن
وائل، اسود بن مطلب، اسود بن عبد یغوث، حارث بن قیس اور ولید بن مغیرہ بھی بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخیوں اور بے ادبیوں کے سبب ہلاکت کا شکار ہوئے ۔(عجائب القران مع
غرائب القران)
بہار شریعت میں ہے کہ انبیاء
علیہم السلام کی ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے۔(بہار شریعت، ص471)ثابت ہوا کہ بے
ادبی وہ منحوس شے ہے، جو انسان سے اس کا قیمتی
سرمایہ ایمان تک چھین لیتی ہے، علم کی بے
ادبی کرنے والا علم کی برکتوں سے محروم رہتا ہے، اپنے استاد کی بے ادبی کرنے والا علم حاصل
کرلینے کے باوجود دوسروں تک پہنچانے میں ناکام رہتا ہے۔(راہ علم، ص32)
بزرگان دین کی بے ادبی کرنے والا کبھی کامیاب
نہیں ہو سکتا، جیسا کہ غوث اعظم رحمۃ اللہ
علیہ کے ساتھ ابنِ سقا ایک بزرگ کی زیارت کرنے کے لئے گیا، غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے تو ادب کی وجہ سے اعلٰی
مقام حاصل کیا، مگر ابنِ سقا بے ادبی کی
نحوست سے مرتد ہوگیا۔
سادات کرام کی بے ادبی کرنے والا خود کو ان کے
نانا جان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ
وسلم کی ناراضی کا مستحق بنا لیتا ہے، ماں
باپ کی بے ادبی کرنے والا دنیا و آخرت میں اس کی سزا پاتا ہے، تبرکات کی بے ادبی بھی بڑی خطرناک ہے، قوم عمالقہ کی پانچ بستیاں تابوتِ سکینہ کی بے
ادبی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔(عجائب القرآن، ص53)
پیر کی بے ادبی کرنے والا مرید
کبھی بھی نگاہِ مرشد پانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ کلام یہ کہ ادب انسان کو ترقی کی منازل طے
کرواتا ہے، جبکہ بے ادبی انسان کو عروج سے
زوال تک لے آتی ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہر اس قول و فعل سے بچیں، جس سے بے ادبی
کا پہلو نکلتا ہو، اس کے لئے ہمیں با ادبوں
کی صحبت اختیار کرنی ہوگی، جبکہ بے ادبوں کے سائے سے بھی دور بھاگنا ہو گا۔
امیر اہلسنت کیا خوب دعا کرتے ہیں:
محفوظ سدا رکھنا شہا بے اَدَبوں
سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
ادبی ہو
(وسائل بخشش، ص315)
بے ادبی کی نحوست
بنت کریم عطاریہ مدنیہ واہ کینٹ جا معۃ المدینہ
للبنات(خوشبوئے عطار) گلشن کالونی، واہ کینٹ
کسی نے کہا ہے مَا وَصَلَ مَنْ
وَصَلَ اِلَّابِا الْحُرْمَۃِ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّابِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ۔
یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"(راہ
علم، صفحہ29)
بے ادبی خود ایک نحوست ہے، بے ادبی دنیا و آخرت میں ذلّت و رسوائی کا باعث
ہے، بے ادب شخص دنیا و آخرت میں نقصان ہی
اٹھاتا ہے، بے ادبی کی وجہ سے سینکڑوں
ہزاروں برس کے نیک اعمال بھی اَکارت ہو جاتے ہیں، دیکھئے! ابلیس جس نے لاکھوں سال اللہ عزوجل کی عبادت کی، اپنی عبادت سے زمین و آسمان کو بھر دیا، مُعَلّمُ الْمَلَکُوت(یعنی فرشتوں کا استاد)
رہا، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ملائکہ
مقربین کے ساتھ حاضر ہوتا، لیکن نبی کی بے
ادبی کرنے کی وجہ سے بارگاہِ الہی سے مردُود قرار دیا گیا، قیامت تک کے لئے راندہ درگاہ ہو گیا، اس کی لاکھوں سال کی عبادتیں بھی کچھ کام نہ آئیں۔
اسی طرح بارگاہِ رسالت میں بے ادبی کرنے والوں
کے متعلق ربِّ کائنات عزوجل نے اِرشاد فرمایا،
ترجمہ کنزالایمان:" اے ایمان
والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں
ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں
خبر نہ ہو ۔"(پ 26، الحجرات: 2)
صحابہ کرام کی بے ادبی و گستاخی کرنا بھی دنیا و
آخرت میں خسارے کا باعث ہے، جیسا کہ
کراماتِ صحابہ مطبوعہ مکتبہ المدینہ کے صفحہ نمبر 67، 68 پر ایک شخص کا واقعہ نقل
کیا گیا ہے، جو کوفہ کا رہنے والا تھا،
وہ صدیقِ اکبر و فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہما کی شان میں بد زبانی کر رہا تھا، اللہ عزوجل نے اس کی صورت کو مسخ کرکے بندر بنا
دیا۔والعیاذ باللہ
اولیاء کرام کی بے ادبی کرنے والوں کو بھی ڈر
جانا چاہئے کہ اللہ عزوجل حدیثِ قدسی میں ارشاد فرماتا ہے:"جو میرے کسی ولی
سے دشمنی کرے ، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔"(مشکوٰۃ المصا بیح، باب ذکر اللہ، حدیث 2156)
والدین کی بے ادبی اور نافرمانی
کرنے والے بھی اس کے انجام سے ڈریں، جیساکہ
منقول ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے آواز دی، لیکن اس نے جواب نہ دیا، اس پر اُس
کی ماں نے اسے بددعا دی تو وہ گونگا ہوگیا۔
پیر کی بے ادبی کی نحوست سے متعلق حضرت ذوالنّون
مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا
تھا۔"(الرسالۃ القشیریہ، باب الادب، صفحہ 319، نقل از آداب مرشد کامل، صفحہ 27)
کتابوں کی بے ادبی کرنے والے بھی ہوشیار ہوجائیں، شیخ الاسلام اِمام بُرہان الدین رحمۃ اللہ علیہ
بیان کرتے ہیں:" ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے، تو شیخ نے ان سے فرمایا:"تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا
سکتے۔"(ہم اللہ عزوجل سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)(راہ علم، صفحہ34)
محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے
ادبی ہو