ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں
کا ادب نہ کرے ۔
انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ کی صفات
کا مظہر ہونا چاہیے اس بنا پر انسان سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر اپنے
خالق کی صفات پیدا کرلے اور اپنے قول و فعل سے ان کا اظہار بھی کرے ، مثلا اللہ
تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ عادل ہے اس لیے عدل کرے، اللہ در گزر کرتا ہے، انسا ن کو
بھی چاہیےکہ وہ ایک دوسرے کی خطاؤں اور غلطیوں سے در گزر کرے، رحم کرنا اللہ
تعالیٰ کی سب سے غالب صفت ہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس حدیث میں
خاص طور پر رحمت پر زور دیا گیا ہے رحم کے حق دار ہمیشہ زیادہ چھوٹے ہوا کرتے ہیں
اور بالعموم بڑے عزت و تکریم کے حق دار ہوا کرتے ہیں، اور بالعموم بڑے عزت و تکریم
کے حقدار ہوتے ہیں اس لئے ۔
نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، اور بڑوں
کی عزت نہیں کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
یعنی وہ میرے سایہ
شفقت سے محروم رہے گا۔
بچوں کو مناسب
تعلیم و تربیت سے محروم رکھنا، انہیں شفقت سے محروم رکھنا ہےاس لیے اگر ہم حضور
اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وعید سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے
کہ ہم بچوں کی مناسب تعلیم اور ضروری تربیت کا فر ض پورا کریں ہمیں بھی چاہیے کہ
ہم اپنے سے بڑوں کا ادب کریں اور اپنے سے چھوٹوں پر شفقت کریں۔
ادب آپ کو کسی بھی معاشرے میں مقام و مرتبہ دلا سکتاہے، بے
ادبی کی وجہ سے بنے ہوئے کام بھی بگڑ جاتے ہیں، ادب معاشرہ میں سب سے اہم چیز ہے،
ادب سے ہم کسی بھی چیز کو حاصل کرسکتے ہیں، لیکن بے ادبی کی وجہ سے ہم کوئی بھی چیز
نہیں حاصل کرسکتے ہیں، وقت ایک لازوال دولت ہے جس کا ہمیں ادب کر نا چاہیے وقت جو
ہے وہ کبھی کسی کا انتطار نہیں کرتا وقت ہی کی قدر کی وجہ سے قومیں زیادہ آباد
ہوئیں اورترقی کی ، وقت کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے قومیں زیادہ خراب ہوئیں، اور ان
کانام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا، وقت کی قدر اہمیت کسی کو بھی نظر انداز نہیں
کرنی چاہیے، وقت کی قدر کے بغیر انسان اپنی اہمیت کو بیان نہیں کرسکتا ہے، ہمیں ہر
چیز کا ادب کرنا چاہیے کہ جو چیز جہاں پر ہے وہاں رکھنی چاہیے مثل مشہور ہے کہ با
ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب ہوتا ہے۔
جو شخص دوسروں کی عزت نہیں کرتا اس کی کبھی عزت نہیں ہوتی
ہے، ادب کی وجہ سے انسان بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا محبوب
بندہ بن جاتا ہے، ادب ہی کی بدولت انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے، بے ادبی کی
نحوست کی وجہ سے انسان پستی کی طرف چلا جاتا ہے، جو قومیں ادب کونظر انداز کردیتیں
ہیں ان کا معاشرے میں کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ہے، بے ادبی کی نحوست کی وجہ سے
انسان اس دنیا میں بھی اور د وسرے جہان میں بھی برباد ہوتا ہے، بے ادبی کی نحوست
انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہے، بے ادبی کی نحوست کی وجہ سے ہی مختلف قوموں کا
نام و نشان ہی اس دنیا سے مٹ گیا۔
روایت ہے کہ جب جنگ
تبوک کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ تبوک کے موقع پر سفر
میں قوم ثمود کے کھنڈرات دیکھے تو آپ نے فرمایا کہ خبردار کوئی شخص اس گاؤں میں
داخل نہ ہو اور نہ ہی کوئی شخص ا س گاؤں کے کنویں کا پانی پئے اور تم لوگ اس عذاب
کی جگہ سے خوفِ الہی عزوجل میں ڈوب کر روتے
ہوئے اور منہ ڈھانپے ہوئے جلد سے جلد گزر جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی عذاب اُتر
پڑے۔
کتابیں اور کاپیاں
جو کہ علم کا ذریعہ ہیں ہمیں ا ن کا ادب کرنا چاہیئے ، کتابوں اور کاپیوں کو ان کی
جگہ پر ہی رکھنا چاہیے دینی کتابوں کا بھی ادب کرنا چاہیے، انسان کو اپنے استاد کا
ادب احترام کرنا چاہیے ادب ہی کی بدولت انسان زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے، ادب اور
بے ادب میں فرق ہوتا ہے، جو انسان ادب کرتا ہے اس کی ہر جگہ پر عزت ہوتی ہے بے
ادبی انسان کے نیک اعمال کو کھا جاتی ہے،
طالبِ علم کو اپنے اساتذہ کے پیچھے چلنا چاہیے ۔
دنیا کے تمام عالم اقوام میں ان ہی قوموں نے ترقی کی ہے
جنہوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا او ر اپنے سے بڑے کا ادب کیا، ہر انسان کو چاہیے
کہ وقت کے مطابق کام کرے، ہر انسان اپنے ماحول بنانے کی کوشش کرے، اپنے اہل خانہ
کو اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا ذہن دینا بھی ایک مسلمان کی اہم ذمہ
داری ہے ، عموماً گھر کے مختلف افراد کی سوچ مختلف ہوتی ہے، ان مختلف ذہنیت رکھنے
والوں کو دین کے راستے پر لانے میں گھر کی خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے
بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
اللہ پاک اور اس کے
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اختیار کرکے عبادتیں بجالا کر
گناہوں سے باز رہ کر اور گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور
انہیں علم و ادب سکھا کر اپنے اہل خانہ کو نیکی کی طرف مائل کرنا، گناہوں سے نفر ت
دلانا اور گھر میں دینی ماحول بنانا ہماری ایک بہت بڑی ضرورت ہے، او راس کے لیے
گھر کے افراد ہماری بات سننے پر آمادہ ہوں اور وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر میں
ماں باپ، بہن بھائی ساس نند سبھی ہماری بات سنیں اور ہمارے قریب آئیں ؟ قرآن پاک
سے پتا چلتا ہے کہ نرم دلی لوگوں کو قریب کرتی ہے، اور سخت مزاجی منتفر ہونے کا
سبب ہے۔
قرآن
پاک میں ترجمہ ہے، تو کبھی کچھ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے
لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند ومزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان
ہوجاتے ۔
اسی
طرح رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سیرت سے بھی پتا چلتا ہے کہ
نرمی ہمارے گھر والوں کی بھلائی کا ذریعہ ہے، فرمایا: اے عائشہ نرمی اختیار کرو جب
اللہ کریم کسی گھر والوں سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو انہیں نرمی عطا فرمادیتا
ہے۔
گھر میں دینی ماحول بنانے کے لیے مزید یہ کہ گھر
میں دعا بھی کرنی چاہیے اور گھر والوں سے مخالفت اور سختی پر صبر و تحمل سے کام
لینا چاہیے کوئی بات مانے یا نہ مانے آپ ہر جائز کام میں سبھی کی بات مانیں، یہ
چھوٹی چھوٹی باتیں د وسروں کی نظر میں آپ کی اہمیت بڑھائیں گی ، اور بالاخر وہ بھی
آپ کی بات سنیں گے۔