انسانوں میں ادب و احترام کاشعور روزاول سے ہے ، اسلامی
تعلیمات ، خصوصاً قرآن وحدیث میں تہذیبِ نفس اور کردارسازی میں ادب کوجو اہمیت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس
ہے۔
ادب ہی نسان کو حیوانوں سے جدا کرتا
ہے ۔ادب ہی انسان کی معراج اور ارتقا کا ذریعہ ہے ۔ادب ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان عزت و عظمت کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور بے ادبی وہ کھائی ہے جس میں گر کر
انسان ذلت و رسوائی کی گہرائی میں چلا
جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ادب کی بڑی اہمیت ہے ، بلکہ عربی کا ایک مشہور
مقولہ ہے ۔ الدین کلہ ادب ، دین
سارے کا سارا ادب ہے ۔
الشاہ امام احمد
رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ :
کردم
ازعقل سوالے کہ بگو ایمان چیست
عقل
در گوش دلم گفت ایمان ادب است
میں نے عقل سے پوچھا کہ بتا ایمان کیا ہے ؟ عقل نے میرے
دل کے کان میں کہا ایمان ادب کا نام ہے۔ (فتاوی رضویہ ،ج۲۳، ص ۳۹۳)
ادب کی وجہ سے بعض
اوقات انسان وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو کئی سالوں کی محنت سے بھی نہیں حاصل
کر پاتا۔اور بے ادبی کی وجہ سےانسان آن
کی آن میں بلندوبالا مقام سے پستی و ذلت کی کھائیوں میں جا گرتا ہے ۔ کسی نے کیا خوب
کہا : ما وصل من وصل الا بحرمۃ و ما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ۔ یعنی جس
نے جو پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایااور جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے
کی وجہ کھویا۔ (تعلیم المتعلم و طریق
التعلم )
امام رویم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اجعل عملک ملحا و ادبک
دقیقا۔
اپنے عمل کو نمک اور ادب کو آٹا بناو۔ یعنی کم عمل پر زیادہ ادب کی حاجت ہے۔ (الطرر والحواشی علی الحکم العطائیہ،ص ۹۶)
تویاد رکھیں کہ جس طرح ادب سے انسان کوبلندیاں اور رفعتیں ملتی ہیں ۔ اسی طرح بے ادبی سے انسان کو نحوستیں اور ذلتیں بھی ملتی ہیں ۔ادب سے قومیں بنتی
ہیں بے ادبی سے فنا ہوتی ہیں ۔تاریخ شاہد ہے کہ گذشتہ زمانوں میں جن قوموں کو ہلاکت خیز عذاب سے
دو چار کیا گیا اور ان کو صفحہ ہستی
سے مٹا کر عبرت کا نشانہ بنایا گیا ،
اس کی وجہ صرف اللہ کی
نافرمانی ہی نہ تھی بلکہ انبیاء و رسل اوراولیاء واتقیاء کی بے حرمتی اور بے ادبی
بھی تھی۔
حضرت ذالنون مصری
فرماتے ہیں کہ : اذا
خرج المرید عن الحدالادب فانہ یرجع من
حیث جاء۔
جب مرید ادب کی حد
یں توڑدے تو وہ لوٹ کروہیں پہنچ جا تا ہے جہاں سے چلا تھا۔
(الطرر
والحواشی علی الحکم العطائیہ،ص ۹۶، رسالہ
قشیریہ)
پہلے زمانے میں
کوئی نوجوان کسی بوڑھے کے آگے چلتا
تو اللہ اسے (
بطورسزا) زمین میں دھنسا دیتا۔
(روح
البیان، پارہ ۱۷)
ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں
فاقہ کی شکایت کی تو فرمایا کہ ضرور تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا
ہو گا۔ (روح البیان، پارہ ۱۷)
شیطان نے لاکھوں
سال اللہ کی عبادت
کی ۔ایک قول کے مطابق اس نے 6 لاکھ سال عبادت کی ۔ صرف ایک بےادبی کی وجہ سے 6
لاکھ سال کی عبادت ضائع کربیٹھا ۔
علماء فرماتے ہیں
: اپنے شیخ اورمرشد کی گستاخی و بے ادبی سلب توفیق اور خذلان کا سبب بنتی ہے اور
آخر کاریہ بے ادبی متاع ایمان کوبھی ضائع کر دیتی ہے۔(معاذ اللہ )
آج کے معاشرے کا
اگرجائزہ لیا جائے تو واضح ہے کہ لوگوں
نے کس جراءت کے ساتھ علماء اور دیندار طبقہ کی بے ادبی اور ان پر بے جا تنقید کرنے کو
اپنا شیوہ بنایا ہے۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص علماء کی توہین و بے ادبی
کرتا ہے اس پر کفر اور سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے۔
علامہ ابن نجیم
مصری فرماتے ہیں : الاستہزاء بالعلم
والعلماء کفر
۔علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔
(الاشباہ
والنظائر، باب الردۃ)
بے
ادب کیلئے حدیث میں وعید :
لیس من امتی من لم یجل کبیرنا و
یرحم صغیرنا،و یعرف لعالمنا حقہ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں جو ہمارے بڑوں کا ادب
نہ کرے ، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے ،اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت
میں سے نہیں ۔(مستدرک للحاکم،مسنداحمد)
اللہ پاک ہمیں بے
ادبی اوربے ادبوں سے بچائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محفوظ
سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے
اور
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو