دنیا میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب و سنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔

حدیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق پورے نہ کرنے والوں کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1) ماں باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث۔ (3) مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، 2/43، حدیث: 2443)

والدین کے بہت سارے حقوق ہیں جن میں سے 5 حقوق یہ ہیں:

(1): والدین کے ساتھ احسان کرنا: ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدر توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرور کائنات ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسول اللہ! کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) والدین سے نرم دلی سے بات کرنا: والدین اگر اولاد کو کسی بات پر جھڑک دیں تو بھی اولاد کو آگے سے زبان درازی نہیں کرنی چاہیے قرآن پاک میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے، اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حضرت امام احمد بن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: سرور کائنات ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: معراج کی رات میں نے کچھ لوگ دیکھے جو آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤں کو برا بھلا کہتے تھے۔ (الزواجرعن اقتراف الکبائر، 2/ 139)

(3)والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ شریف پڑھنا اتنی آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو اپنے ماں باپ دونوں یا ایک کی قبر پر ہر جمعہ کے دن زیارت کے لئے حاضر ہو وہ بخش دیا جاتا ہے اور اسے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا لکھ لیا جاتا ہے۔(المعجم الاوسط،6/175، حدیث: 6114)

(4) ماں باپ کی نافرمانی سے بچے والدین جو بھی حکم دیں اس پر لبیک کہتے ہوئے فوراً عمل کریں اور نافرمانی جیسے کبیرہ گناہ سے بچے حدیث مبارکہ میں بھی اس کی سخت وعید بیان کی۔ ارشاد فرمایا: ہر گناہ کو اللہ پاک جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی و ایذا رسانی کو نہیں بخشتا بلکہ ایسا کرنے والے کو اس کے مرنے سے پہلے دنیا کی زندگی میں ہی جلد سزا دے دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/ 197، حدیث 7890)

(5) والدین کو ہمیشہ خوش رکھے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا والدین کی رضا میں اور اللہ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔ (شعب الایمان، 6/177، حدیث:7830) حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


پیاری اسلامی بہنو! والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں، بچپن میں انہوں نے ہی اس کی دیکھ بھال اور پرورش کی ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے، کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ اللہ پاک نےماں کے قدموں کے نیچے جنت بھی رکھی ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جنت کو راضی رکھیں۔

اسلامی بہنو! ﷲتعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی میں یہ سب باتیں شامل ہیں:

1۔ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو ان کے لیے باعث تکلیف ہو۔

2۔ اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان کی خدمت کے لیے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔

3۔ ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے۔

4۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لیے ایصال ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔

5۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ (تفسیر خازن، 1/66)

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کے والدین کو سلامت رکھے، ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے، انکو صحت و عافیت اور سلامتی و نیکیوں والی طویل زندگی سے نوازے، ہمیں انکی خدمت کرنے ان کا ادب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


والدین اللہ پاک کی عظیم نعمت ہیں۔ زندگی کا سکون انہی کے ساتھ ہے۔ والدین کا حق بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کا رشتہ اور تعلق سب سے زیادہ ہے اولاد کبھی والدین کا مکمل حق ادا نہیں کرسکتی لیکن اگر اولاد انہی کی آنکھوں کا نور بن جائے اور رضا حاصل کرلے تو اجر کی حقدار ہوگی۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا مگر اس وقت جب اپنے باپ کو غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے۔ (مسلم، ص 624، حدیث:3799) اور فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک اور احسان کرنا نماز روزہ حج وعمرہ اور جہاد سے بھی افضل ہے۔اور فرمایا لوگ جنت کی خوشبو پانچ سو برس سے سونگھیں گے مگر والدین کا نافرمان اور رشتے داروں سے تعلق توڑنے والا محروم رہے گا۔(معجم اوسط، 4/187، حديث: 5662)

والدین کے حقوق کیا ہیں آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو سلمہ کہ ایک آدمی نے آکر عرض کی ! یارسول اللہ ﷺ کوئی ایسی نیکی ہے جو میں اپنےوالدین کے لیے ان کی وفات کے بعد کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کے لیے دعا کرو بخشش طلب کرو، ان کے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرو ان کے دوستوں کی عزت کرو اور ان کے رشتے داروں کی سے صلہ رحمی کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اگر والدین حیات ہیں تو ان کی زندگی میں بھی ان کے حقوق ہیں ان کی خدمت کی جائے ان سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کیا جائے اور ان کے لیے عافیت کی دعا کی جائے ان کے ساتھ نیکی کی جائے۔اور اگر وفات پا جائیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت ایصال ثواب اور صدقہ وخیرت کرتا رہے۔ جیسا کہ فرمان آخری نبی ﷺ ہے: جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کرتا ہے تو اس کے والدین کو اس کا اجر ملتا ہے اور ان کے اجر میں کمی کیے بغیر اس آدمی کو بھی ان کے برابر اجر ملتا ہے۔

اللہ کریم ہمیں والدین کی خدمت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کے ساتھ پیارا پیارا مدینہ دیکھائے۔ آمین


ہر مرد و عورت پر اپنے والدین کے حقوق ادا کرنا فرض ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

احادیث میں بھی والدین کے حقوق کا ذکر ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (مفہوم) جو اپنے والدین کی فرمانبرداری کرے انکو خوش کرے انکے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس حالت میں فوت ہو کہ اسکے والدین اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اولاد کا انداز اپنے والدین کے سامنے ایسا ہونا چاہیے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے ہو مگر افسوس آج کل تو معاملہ اسکے برعکس ہی نظر آتا ہے۔

والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی فرمابرداری کی جائے مثلا جو کام شریعت کے مطابق وہ آپ سے کہیں اس کو فورا بجا لائے اور جو کام شریعت کے خلاف وہ کہے تو اس کام میں انکی فرمابرداری نہیں کی جائے گی اور ان کے احسانات کو یاد رکھا جائے کہ ہماری خاطر وہ کتنی قربانیاں دیتے اور اذیتیں برداشت کرتے ہیں اور خود چاہے جس طرح مرضی گزارا کرے مگر ہماری خواہشات کو پورا کرتے ہیں انکی باتوں کو توجہ سے سنا جائے اور جب وہ بات کر رہے ہوں تو انکی بات کو بیچ میں نہ کاٹا جائے کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے اور والدین کے سامنے موبائل استعمال نہ کیا جائے۔

والدین کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کیا جائے، والدین جب تشریف لائیں تو ادبًا انکی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجائے، والدین اگر غریب ہو اور آپ کی خواہشات کو پورا نہ کرسکتے ہو تو ان کو تنگ نہ کیا جائے انکو طعنہ نہ دیا جائے بلکہ جیسے حالات ہو انکے مطابق گزارا کر لیا جائے، والدین اگر مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی شریعت کے دائرے میں رہ کر انکی تعظیم واجب ہے، انکے دوستوں کی بھی تعظیم کرنی چاہیے، انکو ہمیشہ اپنی دعاوں میں یاد رکھنا چاہیے، انکی طرف پاوں یا پیٹھ کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے، انکی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھتے ہوئے انکے حکم اور مشورے کو قبول کیا جائے، والدین سے دعائیں لیتے رہنا چاہیے۔

اسلام نے سب کچھ ہمارے لیے بیان کر دیا ہے اور والدین کی نافرمانی کے سلسلے میں سزائیں بھی مقرر کر دی ہیں لیکن ان سب کے باوجو د اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو بہت افسوس کے ساتھ یہ نتیجہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اولاد اپنے بزرگ والدین کی نافرمان ہی نہیں بلکہ ان کو ایذا رسانی میں مبتلا کرتے ہیں بہت سے والدین کو تو گھر سے بھی بے گھر ہونا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی اولاد کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب کے اکثر ممالک اور ہمارے ملک کے کافی شہروں میں تو بیت عجائز کے نام سے ایک محکمہ ہی شروع ہو گیا ہے جس میں اولاد اپنے والدین کو داخل کر کے سکون سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے کہ اگر ہمارا یہی رویہ اپنے بزرگ والدین کے ساتھ رہا تو وہ دن دور نہیں کی ہمارے خلف پر اپنے والدین کی تعظیم سے بالکل ہی غافل رہیں گے اور معاشرہ والدین کی دعاؤں کے بغیر ترقی کی راہ پر بھی گامزن نہیں ہوسکتا۔

اور اگر کوئی کامیابی حاصل ہوتو اسے اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اللہ کا کرم اور والدین کی دعاوں کا اثر تصور کرنا چاہیے، والدین پر اگر کوئی فرض عبادت مثلا نمار اور ماہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوتو انکو ادا کر دینا چاہیے اپنے والدین کو وقت دینا چاہیے انکے پاس بیٹھنا چاہیے اگر وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جو ہمیں پسند نہ آئے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اف تک بھی نہیں کرنا چاہیے۔


والدین کے حقوق کی بات کی جائے تو اس کی اہمیت مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی ہر سطح پر واضح نظر آتی ہے۔ اسلام میں والدین کے حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرے، خاص طور پر جب وہ عمر رسیدہ ہوں۔والدین کا احترام صرف لفظوں میں نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی ظاہر ہونا چاہیے۔ ان کی روزمرہ کی ضروریات کا خیال رکھنا، اور ان کے ساتھ وقت گزارنا والدین کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

عزت و احترام والدین کا عزت و احترام کرنا ہر بچے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے تجربات اور قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے والدین کے ساتھ محبت اور خلوص کا برتاؤ بھی ان کے حقوق میں سے ہے۔ ایک مسکراہٹ، شفقت بھری بات، اور دل سے نکلی ہوئی دعا والدین کے دل کو سکون دیتی ہے۔ وہ بھی انسان ہیں اور ان کو بھی جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ہم والدین کی عزت اور حقوق کا خیال رکھیں تو یقیناً ہماری اپنی زندگیاں بھی سکون اور خوشحالی سے بھر جائیں گی۔ ہماری نسلیں بھی یہی اقدار سیکھیں گی اور اس طرح معاشرے میں باہمی احترام اور محبت کی فضا قائم ہو گی۔

خدمت و دیکھ بھال: والدین کی خدمت کرنا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ یہ ہمارے لیے عظیم ثواب کا ذریعہ بھی ہے۔ خاص طور پر جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کی جسمانی و طبی دیکھ بھال کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

بات چیت میں شائستگی: والدین سے ہمیشہ نرمی اور محبت بھرے لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ ان کی باتوں کو توجہ سے سننا چاہیے۔

معاشرتی تعلقات کی حفاظت: والدین کے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اس سے نہ صرف والدین کی معاشرتی حیثیت بلند ہوتی ہے بلکہ ان کی خوشی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

عقیدت و محبت: والدین کو ان کی قدر و منزلت کا احساس دلانے کے لیے بچوں کا ان سے محبت و عقیدت سے پیش آنا بہت ضروری ہے۔ ان کی خوشیوں کا خیال رکھنا اور انہیں اہمیت دینا ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

اچھی صحبت فراہم کرنا: والدین کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی تنہائی کو دور کرنا بچوں کا فرض ہے۔ ان کے ساتھ اچھے لمحات شیئر کرنا اور مشکل وقت میں ساتھ دینا ان کی عمر کے اس دور میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔


معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول کے بعد انسان پر اس کے والدین کا حق ہے۔ وہ محض اس کو وجود میں لانے کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ اس کی پرورش اور تربیت کا بھی سامان کرتے ہیں۔ دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ہے جو اپنی راحت کو اولاد کی راحت پر قربان کر دیتے ہیں۔ حقوق العباد میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے۔والدین کی شفقت اولاد کیلئے رحمت باری کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے جو انہیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے۔ انسانیت کا وجود اللہ تعالی کے بعد والدین بھی کا مرہون منت ہے۔ والدین کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ یہاں ذکر کیے گئے ہیں۔

1۔ حسن سلوک: محبت فطری تقاضا ہے۔ والدین اولاد کی محبت کے پہلے حق دار ہیں۔ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے اچھے رویے سے ان سے محبت کا اظہارکرے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی ا گرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے فرمایا نعم، الله اکبر و اطیب یعنی ہاں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856) اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر قرآن پاک میں اس طرح فرمایا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

2۔اطاعت فرمانبرداری: اولاد کے ذمے یہ ہے کہ والدین کے ہر حکم بجالائیں اور انکی اطاعت کریں اور اگر وہ ایسا حکم دیں جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو ان کی اطاعت اس معاملے میں ضروری نہیں ہے۔ اللہ پاک پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل آیت 24 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جو ماں باپ کو خوش رکھتا ہے جوبد نصیب ماں باپ کو ناراض کرتا ہے اس کیلئے بربادی ہے۔ والدین کا کہنا ماننے کی ایک عظیم مثال حضرت اسماعیل نے قائم کی اور اپنے والد کے حکم کی تعمیل میں قربانی کے لئے تیار ہو گئے۔

3۔ بے رخی اختیار نہ کرو: اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بعد سب سے زیادہ احسانات انسان پر اس کے والدین کے ہیں اولاد ان احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ اولاد کو اپنے والدین کی شکر گزاری کرنی چاہیے حضرت عبد الله بن عمر نے کہا کہ حضور ا کرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔ فرمایا: ہاں (اسکی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکی ماں کوگالی دیتا ہے۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

4۔ والدین کا شکر ادا کرنا: الله اور رسول کے بعد انسان پر سب سےبڑا احسان والدین کاہوتا ہے جنہوں نے پیدائش، پرورش اور تربیت سے جو مصائب برداشت کیے ہیں کوئی دوسرا اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لئے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ لقمان آیت 14 میں ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-ترجمہ: میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا۔

5۔ دعائے مغفرت: والدین کی وفات کے بعد یہ اولاد کا حق ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کی جائے اس سےجنت میں ان کے درجات بلندہوتے ہیں۔ ہمیں نماز میں بھی یہ دعا سکھائی گئی ہے جیسا کہ اللہ پاک سورۂ ابراہیم آیت 41 میں ارشاد فرماتا ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ ترجمہ کنز الایمان: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔


قرآن کریم کی آیت طیبہ میں توحید کے بعد جن کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے وہ والدین ہیں، حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا عرض کی: اے اللہ کے رسول میرے احسان کا زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا تیری ماں اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، اس نے عرض کی: پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، پھر عرض کی: اس کے بعد؟ فرمایا: تیرا باپ۔(بخاری، 4/93، حدیث:5971)

اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ تمام لوگوں سے زیادہ کسی آدمی کے احسان کے زیادہ حقدار اسکے والدین ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے تین دفعہ فرمایا کہ ذلیل و رسوا ہو اس کی خاک ناک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلود ہو۔پوچھا گیا ایسا کون بد بخت ہے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ جو اپنے والدین میں سے ایک یا دنوں کو بڑھاپے میں پائے تو ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

حضرت اسما بنت ابوبکر کی والدہ مشرکہ تھی وہ اپنی بیٹی کو ملنے آئی تو حضرت اسما نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میری والدہ آئی ہے حالانکہ وہ اسلام سے اعراض کرنے والی ہے کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں تو حضور نے فرمایا کہ تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر۔

علمائے کرام فرماتے ہیں: والدین کے بیٹے پر دس حقوق ہیں انہیں کھانا کھلانا خدمت کرنا جب وہ بلائیں تو ان کو جواب دینا چلنے میں ان سے پیچھے چلنا ان کے لیے دعائے مغفرت کرناان کی پسند کو ترجیح دینا نرمی سے گفتگو کرنا حکم ماننالباس پہنانا ان کی وفات کے بعد ان کو ایصال ثواب دینا۔

حضرت عبدالله بن عمر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو گالی گلوچ کرنا کبیرہ گناہوں سے ہے تو صحابہ نے عرض کی کیا کوئی آدمی اپنے والدین کا گالی کرتا تو فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی نکالتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دےگا وہ کسی کی ماں کو برا بھلا کہےگا تو وہ اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حقوق کی اہمیت! دین اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ہر ایک کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور اس پر خوشخبری و وعیدات بیان کی گئی ہیں کہ حقوق اللہ پر بھی اتنی وعیدات نہیں ہیں جتنی حقوق العباد پر بیان کی گئی ہیں چاہے کوئی بادشاہ ہے چاہے فقیر حقوق العباد کا معاملہ سب کے لیے یکساں بیان کردیاگیا ہے اسی طرح والدین کے حقوق بھی اولاد پر لازم ہیں کہ والدین بغیر کسی لالچ و طمع کے اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں اور پھر ان کے ایجوکیشنل مراحل کا خیال رکھتے ہیں دن رات ایک کرکے کماتے ہیں اور اولاد پر خرچ کرتے ہیں بلکل اسی طرح اولاد پر بھی والدین کے حقوق لازم ہیں کہ اولاد والدین کو اف تک نہیں کہہ سکتی والدین کو اف کہنا علمائے کرام نے حرام قرار دیا ہے والدین کے حقوق کا خیال رکھنا فرض ہے والدین کے بے شمار حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1)اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے ماں باپ کو تکلیف ہرگز نہ دیں اگرچہ والدین اولاد پر زیادتی بھی کریں تب بھی فرض ہے کہ والدین کا ہرگز دل نہ دکھائیں۔

2)اپنے ہر عمل کے ذریعے والدین کی تعظیم و تکریم کرے ہمیشہ ہرحال میں ان کی عزت و حرمت کا خیال رکھے۔

2)ہر جائز کام میں ان کی فرماں برداری کرے(ہاں وہ معاملات جن کی شریعت اجازت نہیں دیتی ان معاملات میں ہرگز کسی کی اطاعت نہ کرے جیسے والدین فرض روزے چھوڑنے کا کہیں یا داڑھی منڈانے کا کہیں تو ہرگز ان کی اطاعت نہ کرے)۔

3)اگر ماں باپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو جان و مال کے ذریعے ان کی خدمت کرے۔

4)اگر ماں باپ اولاد کے مال میں سے بغیر اجازت کچھ لے لیں تو ہرگز برا نہ مانیں بلکہ اس پر خوشی کااظہار کریں کہ ماں باپ نے ان کی چیز کو اپنی چیز سمجھا ہے۔

5)ماں باپ انتقال کرجائیں تو ان کے لیے خوب ایصال ثواب کرے ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جایا کریں ان کی مغفرت کی ہمیشہ دعا کیاکریں(ہاں اگر والدین معاذاللہ ثم معاذاللہ کافر ہوں تو ان کے لیے ایصال ثواب نہیں کرسکتے نہ ہی دعائے مغفرت کرسکتے ہیں اگر کرے گا تو کافر ہوجائے گا)ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ میل جول رکھے ان کے ساتھ بھلائی والہ سلوک کرے ماں باپ کے ذمے جو قرض ہو وہ ادا کرے اور جن کاموں کی انہوں نے وصیت کی ہوان کو پورا کرے(ہاں اگر ایسے کام کی وصیت کی ہو جو شرعاً جائز نہ ہو جیسے کہیں کہ میرے جنازے میں فلاں کو نہ آنے دینا یا میرا منہ فلاں کو نہ دیکھنے دینا یہ قطع رحمی ہے جوکہ حرام ہے)۔ (جنتی زیور، ص 92تا 94)


اللہ تبارک و تعالی انسان کے وجود کا سبب حقیقی ہے پر سبب ظاہری والدین ہیں۔ اسکے ساتھ والدین اولاد کی پرورش کے لیے بےشمار تکالیف و مشکلات جھیلتے ہیں ۔ایک طرف ماں پیٹ میں رکھنے اور دودھ پلانے میں تکالیف اٹھاتی ہے تو دوسری طرف باپ اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے طلب معاش میں کوشاں رہتا ہے۔ اسی لئے والدین کے حقوق سے انسان کبھی بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔قرآن و احادیث میں بھی جگہ جگہ والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے 05 حقوق پیش خدمت ہیں۔

1۔ حسن سلوک: قرآن کریم فرقان حمید میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اس سے والدین کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اولاد کو چاہیے کہ انکا ادب و احترام کرے،انکے ہر جائز حکم کی تعمیل کرے،انکی نافرمانی سے بچے، خدمت کرے،ان پر خرچ کرنے میں بقدر استطاعت کمی نہ کرے۔

2۔ ادب و تعظیم: رب تعالی فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! جب والدین کو اف کہنے سے منع کر دیا گیا تو دل آزاری کا گناہ کتنا ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے: سب گناہوں کی سزا رب تعالیٰ قیامت کیلئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کہ اس کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔ لہذا کبھی کوئی ایسا کلمہ کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالیں جس سے انکا دل دکھے یا یہ سمجھا جائے کہ انکی طرف سے اسکی طبیعت پر کچھ بوجھ ہے۔ ہمیشہ ادب کیساتھ ان سے کلام کریں۔ان سے نظریں ملا کر بات نہ کریں اور نہ ہی اونچی آواز میں بات کریں۔ ماں باپ جب کھڑے ہوں تو ان کے لیے تعظیما کھڑے ہو جائیں۔

3۔ زیارت کرنا: والدین کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اسکے لیے ہر نظر کے بدلے حج مبرور (یعنی مقبول حج) کا ثواب لکھتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کی اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے۔فرمایا ہاں اللہ سب سے بڑا آور اطیب ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

انکی زیارت کرتا رہے اور انکے وصال کے بعد ہر جمعہ انکی قبر پر حاضر ہو کر تلاوت قرآن کرے اورایصال ثواب کرے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جو شخص روز جمعہ اپنے والدین یا ایک کی زیارت قبر کرے بخش دیا جائے۔ (المعجم الاوسط،6/175، حدیث: 6114)

4۔ والدین کے دوستوں کیساتھ حسن سلوک: حدیث مبارکہ میں ہے: باپ کیساتھ نیکوکاری سے یہ ہے کہ تو اسکے دوستوں سے نیک برتاؤ کرے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 54) یعنی انکی خوشی، غمی میں شریک ہونا، ضرورت پڑنے پر انکی مدد کرنا۔جب کبھی گھر میں کوئی اچھی چیز بنے انکو بھیجنا۔کیونکہ جو والدین کے دل کے قریب ہوتے ہیں انکو خوش کرنا والدین کے دل میں راحت پہنچانا ہے اس لئے ہمیشہ ان کا خیال رکھے۔

5۔ دعا کرنا: والدین کیلئے دعا کرنے کا خود رب تعالی نے حکم دیا ہے فرماتا ہے: وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) (پ 15، بنی اسرائیل:24) ترجمہ کنز الایمان: اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔

اولاد کو چاہیے کہ والدین کیلئے روزانہ دعا کرے۔کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے: آدمی جب ماں باپ کیلئے دعا کرنا چھوڈ دیتا ہے تو اسکا رزق قطع ہو جاتا ہے۔ (کنز العمال، 16/201، حدیث: 44548)

والدین اگر حیات ہوں تو صحت و تندرستی،ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرے اور اگر وصال کر گئے ہوں تو قبر میں راحت، قیامت کی پریشانیوں سے نجات،بے حساب بخشش، جنت میں داخلے کی دعا کرے۔ جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: ماں باپ کیساتھ حسن سلوک سے یہ ہے کہ اولاد انکے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (کنز العمال، 16/200، حدیث:45441)

علمائے کرام نے والدین کیلئے دعا کرنے کو ان کا شکر ادا کرنا قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: جس نے پنج گانہ نمازوں کے بعد والدین کیلئے دعا کی تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔ پس ہمیں چاہیے کہ والدین کیلئے دعائیں کرتے رہیں۔

یاد رکھیں! اگر والدین کے حقوق میں کوئی کمی ہوئی ہو تو جب تک کہ تلافی ممکن ہو تلافی کرنا ضروری ہے۔لہذا اگر والدین کی حق تلفی کی ہو یا دل آزاری کی ہو تو ان سے معافی مانگنی بھی ضروری ہے۔

والدین کیساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تعلیم جس قدر اسلام نے دی ہے ویسی پوری دنیا کے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ باہر کے ممالک اولڈ ہاوس سے بھرے پڑیں ہیں۔لیکن آج کا ایک مسلم طبقہ بھی دین سے دوری کی بنا پر والدین کیساتھ ناروا سلوک کرتا ہے۔خاص طور پر جب وہ بزرگ ہوتے ہیں۔ ایسی اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب ہم بچپن میں کمزور تھے تب انہوں نے ہمیں سنبھالا اور ہماری پرورش کی ہم پر خرچ کیا اب انکو ہماری ضرورت ہے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا فرض نبھائیں، کیونکہ والدین کی ساری امیدیں اولاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے عقوق والدین سے بچائے۔


پیارے آقا ﷺ کو اہلِ بیتِ اطہار سے بے پناہ محبت تھی۔دورِ رسالت سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اپنے پیارے نبیِ کریم ﷺ کی آل سے بے پناہ محبت کرتی آئی ہے۔کتبِ سیرت میں آپ کی اہلِ بیت سے محبت وتعظیم اور ان کی طرح رجوع لینے کے جابجا واقعات نظر آتے ہیں۔اہلِ بیت سے محبت حضور ﷺ  سے محبت کی علامت ہے۔حضور ﷺ نے خود اس کی ترغیب وتلقین فرمائی ہے اور اسی پر سلف وصالحین کا عمل ہے۔چنانچہ

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کر لو ! جو اللہ پاک سے اس حال میں ملے کہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ شفاعت کے صدقے جنت میں جائے گا۔(مجمع اوسط،1/606،حدیث:2230 )

حدیث پاک میں ہے:حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں تم کو اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمہیں اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔ یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا ۔

(مسلم،ص 1008،حدیث:6225)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:میں تم میں وہ چیز چھوڑتا ہوں کہ اگر تم اسے تھامے رہو تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے۔ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: (1) الله پاک کی کتاب جو آسمان سے زمین تک لمبی رسی ہے اور(2)میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت۔یہ دونوں جدا نہ ہوں گےیہاں تک کہ میرے پاس حوض پر آجائیں۔لہٰذا غور کرو! تم ان دونوں سے میرے بعد کیا معاملہ کرتے ہو! (ترمذی،5 /434،حدیث:3813)

حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ :1)اپنے نبی ﷺکی محبت،2 )اہلِ بیت کی محبت اور3 )اور قرآن کی محبت۔(جامع صغیر،ص25،حدیث: 311 )

اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب میرے گھر میں یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:(اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳))(تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے) تو رسولُ اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا: یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔حضرت امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ﷺ!میں بھی اہلِ بیت سے ہوں؟رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:کیوں نہیں!اِنْ شَآءَ اللہ۔

(شرح السنہ للبغوی، 7/204، حدیث:3805)

جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ- 3 ،اٰلِ عمرٰن:61) تو نبیِ کریم ﷺنے حضرت علی ، فاطمہ حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا:اے اللہ پاک!یہ میرے اہل ہیں۔(مسلم، ص1310،حدیث:2404)

(ترمذی ،5 /407،حدیث:3745 ملخصاً)

حضور ﷺ نے فرمایا:جس نے حسن سے محبت رکھی اس نے اللہ پاک سے محبت رکھی اور یہ بھی فرمایا: جس نے مجھ سے محبت رکھی اس نے ان دونوں (یعنی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) سے محبت رکھی اور یہ کہ ان دونوں کے والدین میرے ساتھ میری جگہ پر بروز قیامت ہوں گے۔(الشفا، 2 /55)

ہم کو اہلِ بیتِ اطہار سے پیار ہے ان شاءاللہ ان کے صدقے اپنا بیڑا پار ہے

اللہ ہمیں اہلِ بیتِ اطہار علیہم الرضوان کی محبت میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


 پیارے آقا ﷺ اپنے گھر والوں سے بہت محبت کرتے تھے اور اس کا حکم بھی اپنی امت کو دیا کہ وہ بھی اہلِ بیت سے محبت کریں۔اہلِ بیت سے محبت کرنے کے حوالے سے یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ 25 ،الشوری:23)ترجمہ: ترجمۂ کنزالایمان : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اُجرَت نہیں مانگتامگر قَرابَت کی مَحَبّت ۔

حضرت مولانا سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:اس آیتِ مبارکہ کا شان نزول حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے اس طرح مروی ہے کہ جب نبی کریمﷺمدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے ذمّہ مصارف بہت ہیں اور مال کچھ بھی نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور کے حقوق و احسانات یاد کرکے حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ہوئی ، ہم نے گمراہی سے نجات پائی ، ہم دیکھتے ہیں ، کہ حضور کے مصارف بہت زیادہ ، اس لئے ہم یہ مال خدّامِ آستانہ کی خدمت میں نذر کے لئے لائے ہیں ، قبول فرما کر ہماری عزّت افزائی کی جائے ، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے وہ اموال واپس فرمادیئے ۔(تفسیر خزائن العرفان،ص893)

رشتہ دار سے کون لوگ مراد ہیں؟حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتی ہیں کہ اس کے بارے میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:اس سے نبیِ اکرم ﷺ کے رشتہ دار مراد ہیں اور مقرضی نے فرمایا:مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:اے حبیب!اپنے پیروکار مومنوں کو فرما دو کہ میں تبلیغِ دین پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت رکھو۔حضرت ابو العالیہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- یہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں۔ابو اسحاق فرماتے ہیں:میں نے حضرت عمر و بن شعیب سے اس آیتِ کریمہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:قُربٰی سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں۔ رہا یہ سوال کہ رشتہ دار سے کون لوگ مراد ہیں؟ تو علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے در منثور اور دیگر کئی مفسرین نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ صحابہ کرام نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!آپ کے وہ کون سے رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟آپ نے فرمایا:علی،فاطمہ اور ان کی اولاد رضی اللہ عنہم۔( خطباتِ محرم،ص 232 تا 234)

اس سے معلوم ہوا کہ جب مسلمانوں میں باہمی محبت واجب ہے تو اشرف المسلمین یعنی اہلِ بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت بدرجۂ اولی واجب ہے۔خلاصہ یہ ہوا کہ میں ہدایت اور ارشاد پر کوئی معاوضہ نہیں طلب کرتا لیکن میرے رشتہ داروں کی محبت جو تم پر واجب ہے اس کا خیال رکھنا۔

رسول اللہ ﷺ نے اہلِ بیت سے محبت کا حکم دیا اور فرمایا:خبردار ہو کر سن لو!جو شخص اہلِ بیت کی محبت پر فوت ہو وہ تائب ہو کر فوت ہوا۔ (الشرف المؤبد، ص 81)

فرمایا:کان کھول کر سن لو!جو شخص اہلِ بیت کی محبت پر فوت ہوا اسے حضرت عزرائیل علیہ السلام اور پھر منکر نکیر جنت کی بشارت دیتے ہیں۔(الشرف المؤبد، ص 81)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اہلِ بیت کی محبت پر فوت ہوا اس نے شہادت کی موت پائی۔

(الشرف المؤبد، ص 81)

اہلِ بیت سے محبت ہونی چاہیے ،ان کی محبت دلوں میں مضبوط ہونی چاہیےاور کسی قسم کا شک و شبہ نہ کیا جائے۔یہ ساری خوشخبریاں اور بشارتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو اہلِ بیت سے محبت رکھتے ہیں۔

(خطبات محرم ،ص 236)

پوری حدیث شریف میں آلِ محمد کا ترجمہ اہلِ بیت اس لیے کیا گیا کہ اہلِ بیت علیہم الرضوان کے آلِ رسول ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں اور دوسروں کا آلِ رسول ہونا اختلافی ہے۔اللہ پاک ہمیں بھی حقیقی معنوں میں اہلِ بیت کی محبت عطا فرمائے امین۔


سب سےمقدم  ہمارا یہ جاننا ضروری ہے کہ اہلِ بیت کون ہیں اور ان میں کون سی مبارک ہستیاں شامل ہیں۔

اہلِ بیت کون ہیں ؟اس بارے میں مفسرین کرام کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک حضور سرورِ عالم ﷺہی مراد ہیں۔بعض کے نزدیک حضور اکرم ﷺ،امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ،سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا،حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام اہلِ بیت ہیں۔

تفسیرِ کبیر میں ہے :وَالْأَوْلَى أَنْ يُقَالَ هُمْ أَوْلَادُهُ وَأَزْوَاجُهُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ مِنْهُمْ وَعَلِيٌّ مِنْهُمْ لِأَنَّهُ كَانَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ بِسَبَبِ مُعَاشَرَتِهِ بِبِنْتِ النَّبِيِّ عليه السلام وملازمته للنبي۔ ترجمہ :اور بہتر ہے یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کی اولاد،آپ کی بیویاں،امام حسن وحسین اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہم اہلِ بیت میں سے ہیں بنتِ رسول کی معیت کی وجہ سے ۔(تفسیر كبير، 9/168)

لكُلِّ شي اسَاسُ وَأَسَاسُ الْإِسْلَامِ حَبُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَحُبُّ أَهْلِ بَيْتِهٖ۔ترجمہ: ہر چیز کی بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب و اہلِ بیت کی محبت ہے۔

(الشرف المؤبد، ص 93)

اہلِ بیت کی محبت ہر مومن پر واجب ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اثْبَتْكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ أَشَدُّ كُمْ حُبًّا لِاَھْلِ بَیْتِیْ وَ اَصْحَابِیْ۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے پل صراط پر زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا،جو میرے اہلِ بیت و اصحاب کے ساتھ زیادہ محبت کرنے والا ہو گا۔(الشرف المؤبد،ص 93)

ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ حُبِّ اہلِ بیت بھی ضروری ہے اور حُبِّ اصحاب بھی لازم۔اگر اصحاب علیہم الرضوان کو چھوڑ کر صرف اہلِ بیت کرام علیہم الرضوان سے محبت کی جائے تو ایسی محبت قابلِ قبول نہ ہو گی۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار،اصحاب ِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے کہ آقا ﷺ اہلِ بیت سے پیار فرماتے اور امت کو بھی اہلِ بیتِ عظام علیہم الرضوان سے محبت کرنے اور ان کی محبت میں جان قربان کردینے کا درس دیا۔چنانچہ

1-آقا کریم ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے: مَنْ مَّاتَ عَلٰى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِيدًا۔ترجمہ جو حُبِّ اہلِ بیت پر فوت ہوا،وہ شہید فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

2-أَلَا وَمَنْ مَّاتَ عَلٰى حُبّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُورًا الَهٗ۔ ترجمہ:خبردار جو آل محمد کی محبت پر فوت ہواوہ بخشا ہوا فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

3- أَلَا وَمَنْ مَّاتَ عَلَى حُبّ آلِ مُحَمَّدٍ مَّاتَ تَائِبًا۔ ترجمہ:خبردار جو آلِ محمد کی محبت پر فوت ہوا وہ توبہ کے ساتھ فوت ہوا۔(الشرف المؤبد، ص 81)

4- أَلَا وَمَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَ ہٗ مَلَكُ الْمُوتِ بِالْجَنَّةِ ثُمَّ مُنْكِرٌ ونَكِيرہٌ ۔ترجمہ:خبردار!جو آلِ محمد کی محبت پر مراتو اُسے ملک الموت، پھر منکر نکیر جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔(الشرف المؤبد، ص 81)

حکایت: جعفر بن سلیمان نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو کوڑے مارے توآپ بے ہوش ہو گئے،جب لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ہوش میں آئے تو فرمایا :تم لوگ گواہ ہو جاؤ کہ میں نے کوڑے مارنے والے کو معاف کر دیا۔ جب کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے کس لئے معاف کیا ؟ تو فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ جب وفات پا جاؤں اور اپنے رسولِ کریم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوں تو مجھے آپ سے شرم آئے گی کہ میری وجہ سے آپ کی آل دوزخ میں جائے۔جب منصور تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے امام ملک کی طرف سے قصاص لینے کا ارادہ کیا تو حضرت امام نے فرمایا :خداہ کی پناہ۔خدا کی قسم !جب کوڑا میرے جسم سے الگ ہوتا تھا تو میں رسولِ محترم ﷺ کی قرابت کی وجہ سے ان کو معاف کردیتا۔( نور الابصار ص 129)

آقا ﷺ کا فرمانِ دل پزیر ہے:مَنْ اَبْغَضَ اَھْلَ الْبَیْتِ فَھُوَمُنَافِقٌ یعنی جو شخص اہلِ بیت سے بغض رکھے گا وہ منافق ہوگا ۔(صواعق محرقہ، ص 172)

اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان اہلِ بیت سے بغض رکھے گا ان مقدس ہستیوں کی ذاتِ بابرکات میں زبان درازی کر ےگا اور دل میں ان نفوسِ قدسیہ کا بغض و کینہ ہوگا تو وہ کبھی بھی کامل مومن ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نبیِ پاک ﷺ نے فرمادیا کہ وہ منافق ہے۔

یاد رہے! ان مقدس ہستیوں سے محبت ہی اصل و حقیقی مومن کی پہچان ہے۔منافقوں کی پہچان کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمادیا:مَا كُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ اِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا یعنی ہم منافقوں کو نہیں پہچانتے تھے مگر امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے۔

(صواعق محرقہ، ص 172)

ان دونوں حدیثوں سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ مومن تو کبھی اہلِ بیت سے بغض و عداوت نہ رکھے گا البتہ ان سے بغض و عداوت رکھنا منافق کاکام ہے ۔نیزآقا ﷺ کی ان تمام احادیث ِمبارکہ سے صاف واضح ہو گیا کہ آپ بذاتِ خود بھی اپنی اہلِ بیت و آل پاک سے بے حد محبت فرماتے تھے اور اس سنتِ مبارکہ کو ادا کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام،تابعین،تبعِ تابعین،محدثین،اقطاب،ابدال،اولیائے کرام رضی اللہ عنہم و رحمۃ اللہ علیہم اجمعین بھی اہلِ بیت کی عظمت پر قربان ہوا کرتے اور آج کے دور میں اولیائے کرام کا بھی یہی انداز ہے کہ اگر ان کے جسم کے ٹکڑے کردیے جائیں تو ان کے لہو کے قطرے قطرے سے اہلِ بیت کی محبت کی خوشبو آئے گی۔

اے مالک و مولیٰ!ہمیں بھی ان مقدس ہستیوں سے جن کے لئے جنت سے جوڑے آتے اور رب کی طرف سے سلام آتا تھا ان کا صدقہ عطا فرما،ہمارے لہو کے قطرے قطرے میں ان کی محبت و عشق کی چاشنی نصیب فرما۔ان کے نانا جان ﷺ کا عشق اور قبر و حشر میں شفاعت نصیب فرما، اہلِ بیت کے سایۂ کرم میں جنت میں داخلہ نصیب فرما،دین پہ استقامت عطا فرما اور اس راستے پر قائم فرما۔نیزکبھی ان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ