اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حسن اخلاق سے پیش آنا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ! میرے حسن اخلاق کا زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں اس نے دوبارہ عرض کی: اس کے بعد کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں تیسری بار عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی ارشاد فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پھر عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

والدین کی بات توجہ سے سننا فرمان حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی شافعی رحمۃ اللہ علیہ: ( بیٹے کو چاہیے کہ ) والدین کی بات توجہ سے سنے، ماں باپ جب کھڑے ہوں تو تعظیما ان کے لئے کھڑا ہو جائے، جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فورا بجا لائے، ان دونوں کے کھانے پینے کا انتظام و انصرام کرے اور نرم ولی سے ان کے لئے عاجزی کا باز و بچھائے، وہ اگر کوئی بات بار بار کہیں تو ان سے اکتا نہ جائے، ان کے ساتھ بھلائی کرے تو ان پراحسان نہ جتلائے، وہ کوئی کام کہیں تو اسے پورا کرنے میں کسی قسم کی شرط نہ لگائے، ان کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور نہ ہی کسی معاملے میں ان کی نا فرمانی کرے۔ ( آداب دین، ص 53)

والدین کی خدمت کرنا حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنھما کا بیان ہےکہ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ!میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ ﷺ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہاری ماں(زندہ) ہے ؟انہوں نے کہا جی ہاں تو آپ ﷺ نے فرمایا ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(نسائی، ص 504، حدیث: 3101)

والدین کی کثرت سے زیارت کرنا والدین کو دیکھنا عبادت ہے ان میں سے پہلی یہ ہے کہ اپنے والدین کے چہرے کو محبت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ حدیث میں ہے: اللہ پاک کے آخری نبیﷺ نے فرمایا: جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حجّ مبرور ( یعنی مقبول حج ) کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا: اگرچہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے؟فرمایا:ہاں ! اللہ پاک سب سے بڑا اور اطیب ( یعنی سب سے زیادہ پاک ) ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

والدین کے ساتھ احسان کرنا ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدر توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرور کائنات ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسول اللہ! کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کے حقوق احسن طریقے سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


والدین سے حسن سلوک کو اسلام نے اپنی اساسی تعلیم قرار دیا ہے۔ اور ان کے ساتھ مطلوبہ سلوک بیان کرنے کے لئے احسان کی جامع اصطلاح استعمال کی جس کے معانی کمال درجہ کا حسن سلوک ہے۔والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔

ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) حضور نبی اکرم ﷺ نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو۔ (بخاری، 4/94، حدیث: 5972)

(3) حدیث نبوی ﷺ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے تیسری مرتبہ پوچھا: اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

(5) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے)۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5973)

اللہ پاک ہم سب كو والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی ﷺ


اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔یعنی مخلوق خدا میں حق والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے،والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے۔

احادیث مبارکہ:

(1) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی (ذلیل ہوا) یہ بات آپ ﷺ سن نے تین دفعہ فرمائی۔ لوگوں نے پوچھا اے رسول اللہ کون ذلیل ہوا؟ فرمایا: وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک یا دونوں کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(2) حدیث نبوی ﷺ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد؟ فرمایا: تیری ماں۔ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے تیسری مرتبہ پوچھا، اس کے بعد؟ تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر فرمایا: پھر تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

(3) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث:5972)

(4) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہیکہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا۔میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا۔ میں نے عرض کیا پھر کونسا ؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں۔اس نے پھر کون ؟ فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا پھر کون؟ (چوتھی بار) فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)


والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں بچپن میں انہوں نے ہی ان کی دیکھ بھال اور پرورش کی ہے حقوق الله کے بعد حقوق العباد میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے الله پاک نے اپنے حق کے بعد جس حق کا ذکر کیا ہے وہ والدین کا حق ہے جیسا کہ الله رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کیا گیا ہے۔

والدین کے 5 حقوق:

1۔حضرت ابو امامہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ والدین کا اپنی اولاد پر کتنا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دونوں تیری جنت بھی ہیں اور دوزح بھی یعنی ان کی خدمت کر کے جنت حاصل کر لو یا ان کی نافرمانی کرکے دوزخ کے مستحق ہو جاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

2۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور رب تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

3۔ایک شخص نے آقا ﷺ سے سوال کیا کہ اے الله کے رسول لوگوں میں میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں، اس نے پھر پوچھا کون فرمایا تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون (چوتھی بار) آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

4۔حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ الله تعالیٰ کو کون سا عمل محبوب ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بر وقت نماز ادا کرنا میں نے عرض کیا پھر کیا ارشاد فرمایا ارشاد فرمایا والدین سے نیکی کرنا میں نے عرض کیا پھر کون سا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا الله کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

5۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آقا ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک غبار آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو یعنی ذلیل و رسوا ہو! عرض کیا یا رسول الله ﷺ وہ کون ہے حضور ﷺ نے فرمایا جس نے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

والدین ہمارے لئے سرمایہ ہیں ان کی خدمت ہمارے اوپر الله کی عبادت کے بعد فرض ہے افسوس کہ ہم نے الله کے احکامات کو مسترد کر دیا اور آج ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں وجہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ والدین کی خدمت سے دوری۔

الله پاک ہمیں اپنی والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت اور اس کے بعد والی 16 آیات میں اللہ پاک نے تقریباً 25 کاموں کا حکم دیا ہے آیت کے ابتدائی حصے کا معنیٰ یہ ہے کہ تمہارے رب پاک نے حکم فرمایا کہ تم اللہ پاک کی عبادت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں جو کام کرنے کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے انہیں کرو اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے بچو اس میں آپ ﷺ کی رسالت کا اقرار ان سے محبت اور ان کی تعظیم کرنا بھی داخل ہے کیونکہ اس کا بھی اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ 3، آل عمران: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔

اللہ پاک نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کی تخلیق اور ایجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے والدین ہیں اس لیئے اللہ پاک نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ!سب سے زیادہ حسن صحبت (یعنی احسان کا) مستحق کون ہے ؟ارشاد فرمایا تمہاری ماں کا حق سب سے زیادہ ہے انہوں نے پھر پوچھا پھر کون ؟ ارشاد فرمایا تمہاری ماں انہوں پوچھا پھر کون ارشاد فرمایا تمہارا والد۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کی ساتھ باپ کے نہ ہونے (یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 6515)

حضرت ابو اسید بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے: 1ماں باپ کا نافرمان 2 دیوث 3 مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، 2/43، حدیث: 2443)

اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آ مین

دین اسلام بہت خوبصورت دین ہے۔ ہمارا دین جہاں ہمیں حقوق العباد کی تلقین کرتا ہے وہاں والدین کے حقوق ادا کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے ذیل میں قرآن و سنت کی روشنی میں والدین کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں۔

حسن سلوک والدین کے اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: نیک سلوک اور عمدہ برتاؤ کی سب سے زیادہ حقدار ماں ہے۔

حسن سلوک اور عمدہ عبادت کی زیادہ حقدار ماں ہے۔اسکی وجہ قرآن پاک میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی ماں نے اسکو سخت تکلیف سےپیٹ میں اٹھائے رکھا اور بڑی مشقت سے اس کو جنا اور اس کا دودھ تیس کہنے چھڑایا۔ (پ 26، الاحقاف:15)

2: شکر گزاری والدین کا یہ حق ہے کہ اولاد ساری زندگی ان کے احسانات کا شکر ادا کرتی رہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بےرخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

3۔ اطاعت و فرمانبرداری اولاد کا یہ فرض ہے کہ سوائے خلاف شرع کاموں کے ہر بات میں والدین کی اطاعت کرے۔ قرآن مجید میں ہے: تم ان کے سامنے شفقت اور عاجزی سے جھکے رہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا خواب سنایا تو بیٹے نے کمال درجے کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے سر تسلیم خم کر دیا۔

4۔ مالی وجسمانی خدمت مالی وجسمانی دونوں طرح کی خدمت کے اولین حق دار ماں باپ ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کہہ دیجیے جو مال تم خرچ کرو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرو۔ ایک روز نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوار ہوا، خوار ہوا، خوار ہوا۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکےجنت حاصل نہ کی۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

نبی کریم ﷺ نے ایک بوڑھے والد کی شکایت پر اس کے بیٹے سے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔(ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

5۔ میراث اگر خدانخواستہ والدین کی زندگی میں ان کی اولاد میں سے کوئی وفات پا جائے اور وہ کچھ مال یا جائیداد چھوڑے تو اس میں والدین کا بھی حق ہوتا ہے۔اگر متوفی کی اولاد ہے تو والدین میں سے ہر ایک کو مال کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اولاد نہیں ہے اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہو تو ماں کو تہائی حصہ ملےگا اور باقی باپ کو۔


اپنے والدین کا احترام دنیاوآخرت میں کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں۔

والدین کے پانچ حقوق:

( 1)اگر ماں باپ کو کوئی بھی حاجت ہو تو جان و مال سے انکی اس حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔

(2)ماں باپ کا انتقال ہوجائے تو ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اور فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔

(3) باپ کی نافرمانی اللہ جبّار و قہّار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضی اللہ جبّار و قہّار کی ناراضی ہے، آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 384)

(4) (والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ) ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یٰسٓ شریف پڑھنا ایسی (یعنی اتنی) آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کوپہنچانا، راہ (یعنی راستے) میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کئے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 392)

اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کو سلامت رکھے آمین ثم آمین 

انسان کے والدین انسان کے وجود میں آنے کا سبب ہوتے ہیں اور سب سے گہرا رشتہ جو ہوتا ہے وہ انسان کا اپنے ماں باپ کے ساتھ ہوتا ہے جن کے ساتھ اس کا تعلق سب سے گہرا ہوتا ہے دنیا میں جو اس کا پہلا رشتہ قائم ہوتا ہے کہ جس میں شفقت ہے محبت ہے وہ اس کے ماں باپ کے ساتھ ہیں اس لیے اس رشتے کے اعتبار سے جو ہمارا دین ہمیں تعلیمات دیتا ہے وہ بھی اتنے ہی اعلیٰ درجے کی ہیں۔ اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن تعلق کو اس قدر اعلیٰ انداز میں بیان کیا اور اسے اہمیت کے اس مقام کے اوپر فائز کر دیا جو کسی اور مذہب کے اندر نہیں ملتا۔

والدین کے حقوق:

اس میں جو سب سے پہلا حق ہے وہ یہ ہے: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہ ایک ایسا جامع حق ہے کہ بقیہ حقوق اسی میں آتے ہیں اب اس حق کو اللہ تعالی نے قران مجید میں کس بلندی اور کس عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے، چنانچہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ماں یا باپ کو دور سے آتا دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جایئے، ان سے آنکھیں ملاکر بات مت کیجئے، بلائیں تو فوراً لبّیک کہئے۔ چنانچہ بہار شریعت حصّہ 16 صفحہ 202پر ہے: یہ (یعنی بیٹا) پردیس میں ہے، والدین اسے بلاتے ہیں تو آنا ہی ہوگا، خط لکھنا کافی نہیں ہے۔ یوہیں والدین کو اس کی خدمت کی حاجت ہو تو آئے اور ان کی خدمت کرے۔

والدین کے ساتھ تمیز کے ساتھ آپ جناب سے بات کیجئے، ان کی آواز پر ہرگز اپنی آواز بلند نہ ہونے دیجئے، حضرت عبد اللہ بن عون رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی ماں نے بلایاتو جواب دیتے وقت ان کی آواز قدرے (یعنی تھوڑی سی) بلند ہوگئی، اس وجہ سے انہوں نے دو غلام آزاد کیے۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/45، رقم: 3103)

اللہ پاک پارہ 15سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر23میں ارشادفرماتاہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اس آیت کریمہ میں بھی ماں باپ کے حقوق خود اللہ پاک نے بیان فرمائے ہیں اور اولاد کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے والدین کی خاطر یوں دعا کرے جیسے بیان کردہ آیت میں فرمایا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں والدین کے یہ حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں کہ ان (یعنی والدین) کا نام لے کر کبھی نہیں بلانا چاہیے اور چلو تو ان کے آگے نہیں چلنا چاہیے اگر کسی مجلس میں بیٹھے ہو تو ان سے آگے ہو کے نہیں بیٹھنا بلکہ ان کے پیچھے بیٹھنا چاہیے، یاد رکھئیے کہ والدین کا دل دکھانے والا اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتا ہے اورآخرت کے عذاب کابھی حقدار ہوتا ہے۔

دل دکھانا چھوڑ دیں ماں باپ کا ورنہ اس میں ہے خسارہ آپ کا

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں والدین کے حقوق کو دل و جان سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام کی تعلیمات کو جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے حقوق کا پتہ ملتا ہے، ایک تو حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد،خدا کو ایک ماننا تنہا اس کی عبادت کرنا، نماز پڑھنا۔روزہ رکھنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں، والدین کے ساتھ حسن وسلوک ااولاد کے ساتھ رحم وکرم،یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العبادہیں۔

خدائے پاک کی عبادت کریں اس کے ساتھ بڑاحق یہ ہے کہ پروردگارعالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب والدین کو اف تک کہنے سے منع فرمادیا۔

خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

حدیث پاک میں بھی والدین کے حقوق کے بارے ارشاد فرمایا گیا ہے چنانچہ:

1)مشہور صحابئ رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے سرکار علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

(3)اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ !اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

انسان اس دنیا میں اپنے وجود کیلئے ذات باری تعالی کے بعد سب سے زیادہ محتاج والدین کا ہے کوئی بھی بچہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو گوشت و پوست کا ایک ننھا سا وجود ہوتا ہے جس میں نہ بولنے کی طاقت ہوتی ہے، نہ چلنے پھرنے کی سکت، اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کھاپی سکے، ایسے وقت میں ماں کا وجود اسکے لئے ایک بڑی نعمت ہوتی ہے، وہ ہر لمحے اسکی نگہبانی کرتی ہے اسے دودھ پلاتی اور اسکی پرورش و نگہداشت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔باپ کی شفقت اسے زمانے کے سرد و غم سے بچاتی ہے اس کی محبت کی چھاوں اسے ہر سختی، تکلیف اور رنج سے دور کردیتی ہے، ان دونوں کی پرورش کے نتیجے میں جب وہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اسے اس مقام تک پہنچانے والے اللہ تعالی کے بعد اسکے والدین ہیں۔

ماں باپ کے احسان کی فہرست تو بہت طویل ہے البتہ ان میں سے چند اہم حقوق یہ ہیں:

1۔ طاعت و فرمانبرداری: اگر والدین کسی ایسے کام کا حکم نہیں دےرہے ہیں جس میں اللہ تعالی کی معصیت ہے یا کسی بندے پر ظلم اور اسکی حق تلفی ہےتو انکی اطاعت واجب ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘- (پ 21، لقمٰن: 15)ترجمہ: اگر وہ تم پردباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت کی تکمیل والد کی اطاعت میں ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی والد کی نافرمانی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

2۔ تعظیم و توقیر: قول و فعل کے ذریعہ والدین کی توقیر انکا واجبی حق ہے حتی کہ انکے سامنے اف کر دینے میں انکی بے حرمتی اور انکے ساتھ بدسلوکی ہے۔

اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما۔

3۔ خدمت: مالی اور بدنی دونوں ذریعہ حتی الامکان انکی مدد کرنا اور انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ میرے باپ میرا سارا مال لے لیتے ہیں میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کاہے تمہاری سب سے پاک روزی تمہاری اپنے ہاتھ کی کمائی ہے اور تمہاری اولاد کا مال تمہاری کمائی میں داخل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)

4۔ دعا: والدین جب اس دنیا سے جاچکے ہوں بلکہ اگر وہ بقید حیات ہوں تو بھی اولاد کی دعا کے سخت محتاج ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام کی تعلیمات کو جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کے حقوق کا پتہ ملتا ہے، ایک تو حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد،خدا کو ایک ماننا تنہا اس کی عبادت کرنا، نماز پڑھنا۔روزہ رکھنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں،والدین کے ساتھ حسن وسلوکااولاد کے ساتھ رحم وکرم،یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العبادہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حقوق اللہ میں سب سے بڑا حق توحید و خداپرستی ہےکہ ایک خدائے پاک کی عبادت کریں اس کی ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور حقوق العباد میں سب سی بڑاحق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں،اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں،یہی وجہ ہے کہ پروردگارعالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب والدین کو اف تک کہنے سے منع فرمادیا۔

والدین کے ساتھ حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار آیات کریمہ ہیں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے، خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:

(1) وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

(3) اور دوسری جگہ ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

والدین کے حقوق اور حسن وسلوک کے تعلق سے بے شمار احادیث کریمہ ہیں جن میں حضور ﷺ نے بہت تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ اچھا سلوک کریں اور انہیں تکلیف نہ دیں ان میں سے کچھ کو ذکر کیا جاتا ہے۔

(1)مشہور صحابئ رسول حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے سرکار علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی،یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجزو انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

(2)اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ !اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے۔ (شعب الايمان، 6/186، حدیث: 7856)

(3)حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا کیامیں تمہیں تین بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورسرکار علیہ السلام نے فرمایا: تین لوگوں کی دعا قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا،مسافر کی دعا،اور اولاد کے خلاف والدین کی دعا۔ لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ہمیشہ ایسی حرکت سے پرہیز کرے، جس کے سبب والدین کو اس کی خلاف بد دعا کرنی پڑے، اور والدین کوبھی چاہیے کہ حتیٰ المقدور ان پر بد دعا کرنے سے بچے۔ ورنہ مقبول ہونے پر خود ہی پچھتانا پڑیگا، جیساکہ آج دنیا میں اس کا مشاہدہ کیا جاتاہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ والدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ کعبہ کی طرف دیکھناعبادت ہے۔ قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ جس بھائی کے لیے اللہ کے لیے محبت ہو اس پر نظر ڈالنا عبادت ہے۔

اور جو والدین کو ناراض کرے ان کے حقوق کوادانہ کرے۔ ان کے بارے میں سرکار دوعالم فرماتے ہیں تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے فر ض کو، اور نہ نفلوں کو قبول کرتاہے: ماں باپ کو ایذادینے والا اور صدقہ دے کر احسان جتلانے والا اور تقدیر کا جھٹلانے والا۔

ماں کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا،پوچھنے لگا !اے اللہ کے رسول سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟کہ اس کے سا تھ حسن و سلوک کرو ں۔ آپ نے فرما یا: تیری ماں کا، پوچھا، پھر کس کا، آپ نے فرما یا تیری ما ں، پوچھا، پھر کس کا ؟آپ نے فرمایا تیری ما ں کا۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5970)

کیوں کہ حمل وضع حمل، اور دودھ پلانے کی شفقت اور صعوبت صرف ما ں اٹھاتی ہے باپ نہیں اٹھاتا، اس وجہ سے ما ں کا حق زیادہ ہے۔

اولاد پر والدین کے حقوق بعد وفات: اسلام کی تعلیمات میں جہا ں بار بار تاکید سنایا گیا کہ دنیا وی زندگی میں والدین کے ساتھ حسن و سلوک کریں اور دوسری طرف یہ درس بھی دیا کہ وہ دنیا سے چلے جائیں تو ان کے ساتھ حسن و سلوک کرو۔ان کے کی لئے ہمیشہ دعاء و استغفار کرو،صدقہ و خیرات واعمال صالحہ کا ثواب انہیں پہنچاتے رہو۔

ہا ئے افسوس !آج معاشرے میں بہت ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے اخلاقی زندگی کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہیں مخلوط خاندانوں میں رشتوں کا تقدس بری طرح پا مال ہو رہا ہے باپ جب تک کماتا ہے، اولاد والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہے مگر جیسے ہی ملازمت سے فراغت کے بعد گھر آتا ہے، تو اسے بیکار اور فالتو تصور کیا جانے لگتا ہے، ما ں باپ کا وجود کتنی بڑی نعمت ہے اس کی قدر وہیں جانتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے۔ پیاری اسلامی بہنو! ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اور پرورش وغیرہ پر جو بے انتہاء تکالیف برداشت کرتے ہیں، اس میں ان کے پیش نظر ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑھاپے کے ایام میں اولاد ان کا سہارا بنے اور محتاجی وبے بسی کے ان دنوں میں ہر طرح سے ان کا خیال رکھے۔

ماں باپ کا حق ماننے کی تاکید: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ- (پ 21، لقمٰن: 14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدرو اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں، اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)حدیث مبارکہ میں تو والدین کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بے رخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

والدین کا اولاد پر یہ بھی حق ہے کہ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرے۔

قرآن مجید میں والدین کے حق میں یہ دعا سکھائی گئی: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ!کیا والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!ان کی نماز جنازہ پڑھو، ان کی بخشش کی دعا مانگو،ان کے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، ان کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرو اور ان کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی، ان کی فرمانبرداری کی، اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام میں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے واضح حکم سے انسان کو پابند بنایا ہے:  وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے اپنے حق کے فورا بعد حق والدین کو بیان فرمایا۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح سب کا معبود حقیقی ایک ہی ہے اسی طرح ہر شخص کا باپ اور ماں بھی ایک ہی ہے،یہ ایک بڑی مناسبت ہے والدین کو خالق حقیقی کیساتھ، اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالی نے ہر شخص کو والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے پانچ باتوں کو لازم قرار دیا ہے احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے: چنانچہ حضوراکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں، اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو والدین کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یارسول اللہ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662 )

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص اپنے والدین سے بے رخی کرتا ہے وہ نا شکرا ہے۔

والدین کا اولاد پر یہ بھی حق ہے کہ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرے۔

قرآن مجید میں والدین کے حق میں یہ دعا سکھائی گئی: اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!ان کی نماز جنازہ پڑھو، ان کی بخشش کی دعا مانگو، ان کے کئے ہوئے وعدے پورے کرو، ان کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرو اور ان کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرو۔ (ابو داود، 4/ 434، حدیث: 5143)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی، ان کی فرمانبرداری کی اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین