وارث علی عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ تعالی نے
جس طرح مہمان کے حقوق رکھے ہیں اسی طرح اللہ تعالی نے میزبان کے حقوق بھی رکھے ہیں
جو کہ احادیث طیبہ سے ثابت ہیں تو لہذا جو بھی مہمان کسی کے ہاں جائے تو اسے میزبان
کے حقوق کامل طور پر ادا کرنے چاہیے اگر کوئی اضافی بندہ لے کر گیا تو اس کی میزبان
سے اجازت طلب کرے جو کہ حدیث طیبہ سے ثابت ہے آئیے میزبان کے کچھ حقوق پیش کرتے ہیں
جو درج ذیل ہیں۔
1) میزبان کے لیے دعا کرنا ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے
ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر
روزہ دار ہو تو میزبان کے لیے دعا کریں اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے ۔(مسلم
کتاب نکاح صفحہ نمبر 576 حدیث 352)
2)
میزبان کے پاس ٹھہرنا ۔3) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے پاس تین دن سے
زیادہ نہ ٹھہرے اگر مہمان کی خواہش پر تین
دن ٹھہرے تو پھر حرج نہیں۔ ( فیضان ریاض الصالحین جلد نمبر6 صفحہ نمبر 77)
3)
میزبان کو صلہ دینا ۔نبی کریم صلی
اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنے بھائی کو صلہ دو صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے عرض کی صلہ کیا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم؟ تو نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب آدمی اپنے بھائی کے ہاں
جائے تو وہاں کھائے پیے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے یہ اس کا صلہ ہے۔(ایمان
کی شاخیں صفحہ نمبر 598 حدیث ابو داؤد) ۔
4)
میزبان کی دعوت قبول کرنا ۔مسلمان بھائی کی دعوت کو اس کی دل جوئی کے لیے عذر نہ ہونے کی صورت میں قبول کر لینا
چاہیے
(فیضان ریاض
الصالحین جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 186) ۔
5)
میزبان کو فرمائش نہ کرنا ۔حضور
اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان
بھائی کے پاس مہمان بن کر جائے تو وہ اسے
جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس سے متعلق نہ سوال کرے نہ فرمائش اور نہ
کوئی جستجو کرے۔(ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 600)
محمد عمر نقشبندی (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
فرمانِ مصطفےٰ
ﷺ ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے
اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔میزبان
کے حقوق کے متعلق پانچ چیزیں :
1
اجازت طلب کرنا : میزبان کے حقوق میں
سے یہ بھی ہے کہ جب کسی کے گھر پر داخل ہو تو اسکی اجازت طلب کرے اگر وہ اجازت دے
تو گھر میں داخل ہوجاۓ ورنہ
رہنے دے حدیث پاک میں بھی ہے کہ پیارے نبی ﷺ نے اِرشاد فرمایا :اِذَا اسْتَاْذَنَ اَحَدُكُمْ ثَلَاثاً فَلَمْ يُؤْذَنْ
لَهُ فَلْيَرْجِعْ ترجمہ : جب کوئی تین بار اجازت مانگ لے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ (بخاری
، 4 / 170 ، حدیث : 6245)
2
سلام کرنا:میزبان کے حقوق میں سے یہ
بھی ہے کہ جب کسی کے پاس جائے تو سب سے پہلے انہیں سلام کرے ۔
سلام سنّت ہے:
سلا م کر نا ہمارے پیارے آقا، مد ینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بہت ہی پیاری سنّت ہے (بہارِ شریعت،ج3،ص459،ماخوذاً) سلام
کرنا حضرت سیّدنا آدم علیہ السلام کی بھی سنّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص313)
3
خاص کھانے کی فرمائش نہ کرنا : جب
کسی کے پاس مہمان بنے تو جو میزبان کھانے یا پینے کو پیش کرے وہ خاموشی کے ساتھ
تناول یا نوش کرلے کسی خاص کھانے کی فرمائش نہ کیجئے کہ فلان کھانا لے آئے یہ
مناسب نہیں ہے۔
4 کھانے کو عیب نہ لگاۓ: جب کسی کے پاس مہمان بنے تو جو میزبان کھانے کھلائے وہ کھا لے اگر کھانا اچھا نہ لگے یا نمک مرچ کم
زیادہ ہو تو کھانے کو عیب نہ لگائے ۔ اگر میزبان اصرار کرے اور کوئی مجبوری
بھی نہ ہو تو بھوک باقی ہونے کی صورت میں تھوڑا مزید کھا لے کہ مسلمان کا دل خوش
کرنا ثواب ہے ۔
5
غیبت نہ کرنا: کسی کے گھر مہمان
بنے دوبارہ اپنے گھر واپس آ کر اس کی غیبتیں نہ کرنا کہ کھانا اچھا نہیں تھا نمک
مرچ کم یا تیز تھی صفائ نہیں تھی انکے بچوں نے تنگ کیا انہوں نے ہمارے ساتھ اچھا
سلوک نہیں کیا وغیرہ۔ غیبت کے متعلق آیت مبارکہ : اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ
اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ- ترجَمۂ
کنزالایمان : اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ۔کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت
کھائے؟ تو یہ تمھیں گوارا نہ ہو گا۔
احمد مرتضیٰ
عطّاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ
فیضان عطار اٹک ، پاکستان)
مہمان کے جس
طرح بہت سارے حقوق اور آداب ہیں اسی طرح میزبان کے بھی حقوق اور آداب ہیں۔بعض لوگ
ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر
والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور
بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا
تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں
بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو
اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور
ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت
خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان
شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ
ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا:
وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز
نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ
ونحوہا، ص951، الحدیث: 15(1726))
آئیے پہلے میزبان
کے حقوق اور آداب کے بارے میں چند حدیثیں ملاحظہ کیجیئے۔
1:-صحیح مسلم
میں جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
وسلَّم نے فرمایا: ’’جب کسی کو کھانے کی
دعوت دی جائے تو قبول کرنی چاہیے پھر اگر چاہے کھائے، چاہے نہ کھائے۔‘‘(صحیح مسلم
‘‘ ،کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعی ۔ إلخ، الحدیث: 105۔(1430))
2:-ایک حدیث میں
ہے کہ۔مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس
کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔(المرجع السابق،الحدیث: 6135)
3:-امام احمد
و ابو داود نے ایک صحابی سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:جب دو شخص
دعوت دینے بیک وقت آئیں تو جس کا دروازہ
تمھارے دروازہ سے قریب ہو اس کی دعوت قبول کرو اور اگر ایک پہلے آیا تو جو پہلے آیا
اس کی قبول کرو۔
(المرجع
السابق، باب اذا إجتمع داعیان ۔ إلخ، الحدیث: 3756 ،ج 3 ،ص 484۔)
بیہقی نے شعب
الایمان میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
وسلَّم نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا۔ (شعب الإیمان،
باب في المطاعم والمشارب، فصل في طیب المطعم ۔ إلخ، الحدیث: 5803 ،ج 5 ،ص 68۔
آئیے مختصراً
میزبان کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں۔میزبان کے حقوق:-
1:-مہمان کو
چاہیئے کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)
2:-جو کچھ اس
کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے
ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر
دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)
میزبان سے طرح
طرح کے مطالبے نہ کیجیے، وہ آپ کی خاطر مدارت اور دل جوئی کے لئے ازخود جو اہتمام
کرے اسی پر میزبان کا شکریہ ادا کیجیے، اور اس کو کسی بے جامشقت میں نہ ڈالیے۔
3:-اگر کسی کی
دعوت ہو اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا شخص بغیر بلائے چلا آئے تو ظاہر کردے کہ میں
نہیں لایا ہوں اور صاحب خانہ کو اختیار ہے، اسے کھانے کی اجازت دے یا نہ دے، کیونکہ
ظاہر نہ کرے گا تو صاحبِ خانہ کو یہ ناگوار ہوگا کہ اپنے ساتھ دوسروں کو کیوں
لایا۔
4:-مہمان اگر
کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر
ہے،(بہار شریعت،ص،1013)
5:-مہمان کو
چاہئے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذِمّے داریوں کا لحاظ رکھے۔
6:-بغیر اجازت
کے مہمان نہ بنیے اور بے وقت بھی نہ جائے۔
7:-جب آپ کسی
کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچھّی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت
میزبان یااُس کے بچّوں کے لئے تحفے لیتے جائیے۔(550 سنتیں اور آداب)
8:-مہمان کے لیے
یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔(550 سنتیں اور آداب)
9:-بغیر
اجازتِ صاحبِ خانہ وہاں سے نہ اٹھے۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)
10:-اور جب
وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔ (بہار شریعت حصہ 16،ص397)
حافظ محمد
خضر عطاری (درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ
گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
اللہ پاک کا کروڑہا
کروڑ احسان عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمیں سب سے
افضل امت یعنی حضور علیہ السلام کا امتی بنایا دین اسلام ایسا پاکیزہ دین ہے کہ ایک مسلمان کے
دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں انہیں بیان فرماتا ہے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر
جو حقوق ہیں انہیں حقوق میں سے میزبان کے حقوق بھی ہیں دین اسلام ہمیں میزبان کے
حقوق بتاتا ہے ۔ میزبان کے حقوق سے مراد یہ
ہے کہ مثلاً بحیثیت مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا
اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان
سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ
(1) بغیر دعوت
کے مت جائیں: بعض افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی، ، یہ چیز اخلاقیات کے بھی خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا گیا،
اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا
گیا ہو۔
متعدد حدیث
پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے
اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی
تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے
میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
حدیث پاک میں
تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے
کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے
پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو
کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتے ہیں:
2۔کسی کے گھر
مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔
3۔ میزبان
جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے
4- میزبان جو
پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔
5۔ کھانے میں
عیب نہ نکالے۔
6۔ کھانا
کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
عبدالصبورعطاری
(درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
مہمان نوازی کی دین اسلام میں بڑی قدر و منزلت
ہے، مگر آج کے پرفتن دور میں مسلمان اس صفت سے عاری نظر آتے ہیں۔ اب تو بہت کم لوگ ایسے نظر آتے ہیں
جو مہمان کا اکرام اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ورنہ اکثر لوگ تو اس
صفت سے محروم ہی نظر آتے ہیں۔عربی زبان میں مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور میزبان کو
مضیف کہتے ہیں جبکہ اردو زبان میں مہمان داری کرنے والے، دعوت کرنے والے، یا مہمان کو کھانا کھلانے والے
کومیزبان کہتے ہیں۔
دین اسلام بہت
پیارا دین ہے جہاں میزبان پر مہمان کے حقوق کی تلقین فرمائی گئی ہے وہاں مہمان پر
بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے ہیں، اللہ پاک قرآن پاک کی سورہ احزاب میں ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ
فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ
ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ
مِنَ الْحَقِّؕ- (پ 22، الاحزاب:
53) ترجمہ کنز الایمان: اےایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ
پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب
بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل
بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق
فرمانے میں نہیں شرماتا۔
اس آیت مبارکہ
میں پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ کے آداب بیان فرمائے گئے ہیں۔ ہمارے لیے اس آیت مبارکہ
سے حاصل ہونے والی معلومات: 1۔ کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھاناکھانے نہ
جائے 2۔ مہمان کو چاہئے کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لئے
حرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔
متعدد حدیث
پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے
اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی
تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے
میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
حدیث پاک میں
تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے
کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے
پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو
کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتے ہیں:
1۔ کسی کے گھر
مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔
2۔ میزبان
جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے ۔
3۔ میزبان جو
پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔
4۔ کھانے میں
عیب نہ نکالے۔
5۔ کھانا
کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
دین اسلام بہت
پیارا دین ہے؛ یہ دین انسان کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملات میں انسان کو manners کا درس دیتا ہے۔ جہاں دین
اسلام والدین کے حقوق بیان کرتا ہے تو وہیں اولاد کے حقوق کا بھی درس دیتا ہے۔ جہاں حاکم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے وہیں رعایا
کے حقوق کا خیال رکھنے کا شعور بھی دیتا ہے۔ ایسے ہی دین اسلام جہاں مہمان کی میزبانی
کرنے کے فضائل بیان کرتا ہے وہیں میزبان یعنی host کے
حقوق کا خیال رکھنے کا شعور بھی پیدا کرتا ہے۔
میزبانی
(hosting) ۔ میزبانی کرنا انبیاء کرام علیھم السّلام کا بہت ہی
پسندیدہ عمل رہا ہے ۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام میں سے جو اہم ذکر ملتا ہے وہ حضرت ابراھیم علیہ
السلام کا ہے ۔ آپ علیہ السلام کے بارے میں
ملتا ہے کہ آپ مہمان کے بغیر کھانا تناول نہ فرماتے تھے ۔اسی طرح حضور خاتم النبیین
صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عادت کریمہ تھی
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات
صحابہ کرام علیھم الرضوان کو کھانے کے اوقات میں invite
کرتے ۔ جب میزبان کسی اسلامی بھائی کو invite کرے تو اسے
چاہئے کے میزبان (Host) کے
حقوق کا خیال رکھیں۔ مہمان کو چاہئے کہ درج ذیل manners کو مد نظر رکھے:
1 بن بلائے نہ جائے۔ کسی کے بن بلائے اسکے پاس نہیں جانا
چاہئے۔ اور نہ ہی ان لوگوں سے زیادہ کو جانا چاہئے جن کو بلایا گیا۔یعنی کہ دو کو
بلایا گیا تو تین کا چلے جانا۔ بن بلائے
دعوت میں شرکت کرنے والے کے بارے حدیث مبارک میں ہے : " عن عبد الله بن عمر:
قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم : "من دعي فلم يجب فقد عصى الله
ورسوله، ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا" ترجمہ: عبداﷲبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت
ہے کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس کو دعوت دی گئی اور اس
نے قبول نہ کی اس نے اﷲو رسول (عزوجل وصلَّی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی
نافرمانی کی اور جو بغیر بلائے گیا وہ چور ہو کر گھسا اورلٹیرابن کر نکلا۔(سنن أبي
داود،باب ماجاء فی اجابۃ الدعوۃ،ج5،ص569،دارالرسالۃ العالمیہ)
2 وقت کا خیال رکھنا۔ جب کوئی دعوت دے تو مہمان کوچاہئے
کہ اسی وقت اسکے پاس حاضر ہو جس وقت میں
اسے بلایا گیا ہے۔ بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ مہمان دیر سے میزبان کے پاس پہنچتا ہے
جسکی وجہ سے مہمان، میزبان کی تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ اور کسی مسلمان کو تکلیف دینے
کے بارے میں روایات میں آتا ہے ۔ عن أبي صِرْمة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه
وسلم قال:
«مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَقَّ اللهُ عَلَيْهِ». [حسن] - [رواه أبوداود والترمذي وابن ماجه
وأحمد] ابو صرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا : ”جس نے دوسرے کا نقصان کیا، اللہ اس کا نقصان کرے گا اور جس نے دوسرے کو
مشقت میں ڈالا، اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا“۔ اسے ابنِ ماجہ نےبھی روایت کیا-
3 جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھ جانا۔ میزبان کے حقوق میں
سے ایک حق یہ ہے کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھ جانا۔ میزبان کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ پر کھینچا تانی نہ
کریں، بلکہ وہ آپ کو جہاں بٹھائے وہیں بیٹھیں، کیونکہ اگرآپ اپنی مرضی کی جگہ بیٹھیں
گے توممکن ہے کہ ایسی جگہ بیٹھیں جہاں سے مستورات پر نظر پڑتی ہو،یاصاحب خانہ وہاں
بیٹھنے سے بوجھ محسوس کرے،لہذا آپ اپنے میزبان کی فرمائش کے مطابق بیٹھیں اوراس
کے اکرام کوقبول کریں۔
4جو ملے وہ کھا لے ۔ مہمان کو چاہئے کو وہ فرمائش نہ
کرے، بلکہ جو ملے وہ کھا لے۔ بسا اوقات
مہمان فرمائش کر دیتا ہے ، جبکہ وہ چیز میزبان کے پاس موجود نہیں ہوتی ، یوں میزبان
کیلئے آزمائش ہو جاتی ہے ۔
5زیادہ دیر نہ رکے۔ مہمان کو چاہئے کہ میزبان کے پاس زیادہ
دیر نہ رکے ۔ بسا اوقات میزبان نے کسی کام کیلئے جانا ہوتا ہے ۔جبکہ مہمان باتوں میں
لگا رہتا ہے ۔اور میزبان بار بار گھڑی کی طرف بھی دیکھ رہا ہوتا ہے ۔لیکن مہمان کی
لاشعوری اور عدم توجہ کی وجہ سے میزبان کیلئے آزمائش کا سبب بنتا ہے-اگر مذکورہ
بالا طریقے سے کسی کے پاس مہمان بن کر جائیں گے تو انشاء اللہ میزبان کے دل میں
محبت بڑھے گی ۔
اللہ پاک سے
دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں مہمان اور میزبان کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین ثم آمین
محمد احسان فریاد (درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ
گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
اللہ پاک کی
نعمتوں کو اگر انسان شمار کرنا چاہے تو یقیناً نہیں کر سکتا ان بے شمار نعمتوں میں
سے یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ اس کو ماں باپ بہن
بھائی اور دیگر خوش دل اور اچھے اخلاق سے آراستہ پیارے پیارے دوستوں سے سجا
خوبصورت معاشرہ بھی دیا پھر ایک دوسرے سے محبتوں کے اظہار کے لیے ہم ایک دوسرے کے
ہاں آتے جاتے بھی ہیں یوں سمجھیں کہ کبھی ہم مہمان بنتے ہیں تو کبھی میزبان اب
چونکہ ہمیں کبھی خوش قسمتی سے مہمان بھی بننا ہوتا ہے تو ہمیں میزبان کی کن باتوں
میں رعایت رکھنی چاہیے اور کن حقوق کا خیال رکھنا چاہیے آہیے اس بارے میں سنتے ہیں
اور جانتے ہیں کہ اسلام اس حوالے سے کیا
راہنمائی کرتا ہے ۔
(1) بغیر دعوت
کے مت جائیں: بعض افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی، ، یہ چیز اخلاقیات کے بھی خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا گیا،
اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا
گیا ہو۔
متعدد حدیث
پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے
اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی
تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے
میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
حدیث پاک میں
تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے
کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے
پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو
کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتے ہیں:
2۔کسی کے گھر
مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔
3۔ میزبان
جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے
4- میزبان جو
پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔
5۔ کھانے میں
عیب نہ نکالے
6۔ کھانا
کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔
7۔ میزبان کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جانے سے
پہلے میزبان سے آنے کا پوچھ لیا جائے کہ ہم آپ کی طرف آ سکتے ہیں
8۔ ہو سکے تو
واپسی پر محبت کے طور پر کچھ تحفہ بھی پیش کر کے آئیں
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
محمد عبدالله چشتی (درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ
زار لاہور، پاکستان)
عربی زبان میں
مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور میزبان کو مضیف، اردو اصطلاح میں میزبان سے مراد وہ شخص
ہے جو کسی کی ضیافت کا اہتمام کرے، مثلا جو مہمان کا خیال رکھے اسے کھانے پینے اور
آرام کا سامان مہیا کرے۔ دین اسلام ہمیں جہاں بہت ساری باتوں کا درس دیتا ہے وہیں
ہمارا پیارا دین میزبان کے حقوق کا بھی درس دیتا ہے۔
اکثر اوقات ہم
مہمان نوازی کے حقوق کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہیں آئیں آج ہم میزبان کے حقوق کے
بارے میں بات کرتے ہیں کہ مہمان پر میزبان کے کیا کیا حقوق ہوتے ہیں ، جن کا ہمیں
دعوت قبول کرتے وقت اور دعوت پر جاتے وقت خیال رکھنا چاہیے ہم یہاں کچھ حقوق پر
گفتگو کرتے ہیں:
1۔ جب میزبان
آپ کو دعوت دے تو قبول کریں اور جو ٹائم دیا ہے کوشش کر کے اسی وقت پر جانے کی ترکیب
بنائیں۔
2۔ کوئی بھی
اسلامی بھائی بغیر بلائے دعوت میں نہ جائے ، دعوت دیے جانے پر گیا ہے تو پھر بلا
اجازتِ میزبان اپنے ساتھ کسی اور اسلامی بھائی کو لے کر نہ جائے ،اور بعض دفعہ تو
ایسا موقع ہوتا ہے کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا گیا
ہوتا ہے، ایسی صورت میں بغیر بلائے مہمان میزبان کیلئے آزمائش کھڑی کر دیتے ہیں۔
3۔ میزبان
اپنے گھر میں جہاں مہمان کو بٹھا دے وہیں بیٹھ جائے اس کے گھر تاکا جھانکی کرنے سے
بچے اور اس کے گھر کی ترتیب اور اشیاء میں نقص نہ نکالے۔
4۔ مہمان
کھانا کھاتے وقت کسی آ جانے والے شخص کو دعوتِ طعام نہ دے کہ آؤ کھانا کھا لو کیونکہ
مہمان کھانے کا مالک نہیں ہوتا اس لیے وہ اس طرح کسی کو بھی کھانے کیلئے نہیں کہہ
سکتا۔
اور دوسرا یہ
کہ مہمان نہیں جانتا کہ میزبان کے پاس آنے والے شخص کیلئے کھانا ہے بھی یا نہیں۔
5۔ میزبان کے
بنائے گئے کھانے میں نقص نہ نکالے اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو چپ رہیں جو بھی پسند
ہے اس میں کوئی چیز کھالیں اور اسی طرح میزبان کے گھر سے واپس آ کر اس کی چیزوں،
گھر کی ترتیب اور کھانے میں نقص نہ نکالے اس میں غیبت میں پڑنے کا خطرہ ہو سکتا ہے
اور اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا گویا اس کا مردہ گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
6۔ جب کسی کے
ہاں مہمان جائیں تو موسم کے مطابق کوئی پھل یا کوئی اور چیز لےکر جائیں اس طرح آپ
کے میزبان کے دل میں خوشی پیدا ہوگی اور وہ آپ سے خوش ہوگا اور اس کو خوش کرنے کی
برکت سے اللہ پاک آپ کو بھی خوشیاں عطا کرے گا۔
7۔ مہمان جب میزبان
کے گھر جائے تو میزبان کی اچھی بات ہی بیان کرے اگر ان کی برائی دیکھے تو برائی بیان
نہ کرے بلکہ صبر کرے۔
8۔میزبان کے
ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرا جائے، ہر کسی کی اپنی زندگی ہے اور اپنی اپنی مصروفیات ہوتی
ہیں ، میزبان کو آزمائش میں نہ ڈالا جائے جتنی جلدی ہو سکے واپس آ جانا چاہیے۔
اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے دلوں میں خوشیاں داخل
کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں حقوق العباد احسن طریقے سے ادا کرنے کی بھی توفیق
دے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
عباس رضوی (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
الحمد لله عز
وجل ہم مسلمان ہیں اور ہر مسلمان پر چند علوم سیکھنا فرض ہے جنہیں ہم فرض علوم کا
نام دیتے ہیں۔
ان میں سے چند
علوم یہ بھی ہیں جیسا کہ کاروبار کے مسائل سیکھنا ۔ عقائد کے مسائل سیکھنا اور اگر
شادی شدہ بھی ہے تو بیوی بچوں کے حقوق و مسائل سیکھنا جہاں پر یہ علوم سیکھنا فرض
ہے وہیں ہم پر میزبان کے حقوق سیکھنا بھی فرض ہے ، میزبان کے چند حقوق درج ذیل ہیں۔
(1)
دوست کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کھانا*
۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ آدمی
اپنے دوست کے گھر جائے اور اس کی غیرموجودگی
میں بیٹھ کر کھاۓ یہ اس
صورت میں ہے جب اسے یقین ہو کہ دوست اس کے کھانے سے خوش ہو گا۔(احیاء علوم الدین
13/2 مکتبہ المدینہ)
(2)
میزبان پر لازم ہے ۔میزبان پر یہ
بھی لازم ہے کہ وہ مہمان کو بیت الخلا
دکھا دے تاکہ بوقت ضرورت آسانی رہے ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں و مترجم ج 1 ص
434 مکتبہ المدینہ)
(3)
دیر تک بیٹھا ۔روایت ہے حضرت ابن
عمر سے فرماتے ہیں ۔ فرمایا حضرت محمد نے کہ جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص
نہ اٹھے تا آنکہ دستر خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو
جائے۔ (مراۃ المناج شرح مشکوۃ المصابیح
جلد6 ص 75)
(4)
دعوت میں غیبت نہ کرنا ۔حضرت سیدنا
ابراہیم بن ادہم کہیں کھانے کی دعوت پر
تشریف لے گئے لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہیں آیا ۔ ایک شخص بولا
وہ موٹا تو بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادم اپنے آپ کو ملامت کرتے
ہوئے فرمانے لگے۔ افسوس میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی
مجلس میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی ہے یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف
لے گئے اور (اس سے صدمے) میں تین (اور بروایت دیگر سات) دن تک کھانا نہ کھایا۔ تنبیہ الغافلین ص (89) (غیبت کی تباہ کاریاں)
(5)
دعوت قبول کرنا ۔سرکار مکہ مکرمہ
سلطان مدینہ منورہ نے ارشاد فرمایا. اگر مجھے بکری کے پاۓ کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا۔(صحیح
بخاری کتاب الھبہ ٫ باب القلیل من الھبہ ،الحدیث 2568 ص202)
عمر رضا
(درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)
پیارے مسلمان
بھائیو! ہم زندگی میں اکثر مرتبہ اپنے
دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر مہمان بن کر جاتے ہیں لیکن کسی کے ہاں مہمان بن کر
جانا برا کام نہیں ہے لیکن شریعت اسلامیہ نے جس طرح مہمان کے حقوق بیان کیے اس طرح ہی میزبان کے حقوق بیان کیے ہیں
(1)
زیادہ دیر نہ ٹھہرے۔مہمان کو چاہیے
کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لیے حرج اور تکلیف کا سبب
نہ ہو۔ (تفسیر صراط الجنان جلد:8، ص73
مکتبہ المدینہ )
(2)
حساب نہیں ہوگا۔ حضرت سیدنا جعفر بن محمد علیہ رحمتہ اللہ الصمد فرماتے ہیں
جب تم دسترخوان پر اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھو تو زیادہ دیر بیٹھو کیونکہ یہ ساعتیں
تمہاری عمر میں شمار نہیں ہوتیں (یعنی ان کا حساب نہیں ہوگا)(احیاء العلوم جلد 2
صفحہ 30 مکتبۃ المدینہ )
(3)
کھانے کی فرمائش نہ کرنا ۔مہمان کو
چاہیے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار کرے
جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہو کہ یہی سنت ہے چنانچہ مروی ہے کہ جب بھی مصطفی
جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔صحیح مسلم کتاب الفضائل باب
مباعدتہ صلی اللہ علیہ وسلّم( اللاثام ۔۔۔الخ، الحدیث:2327 ص 1270,1271
(4)
شرعی مسئلہ ۔نفل روزہ بلا عذر توڑ
دینا جائز ہے مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان
اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر
ہے بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور ضحوہ کبری (یعنی زوال) سے پہلے توڑ دے بعد کو نہیں
دعوت کے سبب ضحوہ کبری سے پہلے نفل روزہ توڑ سکتا ہے جب دعوت کرنے والا محض اس کی
موجودگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو
کہ بعد میں رکھ لے گا لہذا اب روزہ توڑ لے اور اس کی قضا رکھے لیکن اگر دعوت کرنے
والا محض اس کی موجودگی پر راضی ہو جائے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے نفل روزہ
زوال کے بعد ماں ماں باپ کی ناراضی کے سبب
توڑ سکتا ہے اور اس میں عصر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں۔ (فیضانِ ریاض
الصالحین ج 6 ص 186مکتبہ المدینہ)
(5)
روزے کا عذر ۔مروی ہے کہ کسی نے
دعوت پر روزے کا عذر کیا تو حُسن اَخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: تیرے بھائی نے تیرے لیے اہتمام کیا اور تو کہتا ہے میں روزے
دار ہوں۔(سنن دار قطنی ,کتاب الصیام )
محمد عثمان
عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃالمدینہ فیضان جمال مصطفیٰ واڑہ گجراں
لاہور ، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے ہمیں ایسا دین اسلام عطا فرمایا جو ایک مکمل دین ہے
اور زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے اور ہماری اصلاح کا سامان کرتا
ہے- دین اسلام میں ہر شخص کے حقوق کو بیان فرمایا گیا چاہے کوئی استاد ہو یا شاگرد
، شوہر ہو یا بیوی ، والدین ہوں یا اولاد ، مہمان ہو یا میزبان الغرض ہر صاحب حقوق
کے حقوق کو بیان فرمایا -
دین اسلام میں
جس طرح مہمان کے میزبان پر جو حقوق ہیں اسے قرآن وحدیث میں بالتفصیل بیان فرمایا
اسی طرح میزبان کے جو حقوق مہمان پر ہیں انہیں بھی با لتفصیل بیان فرمایا -
ہمارے معاشرے
میں میزبان کے حقوق کی طرف اس قدر توجہ نہیں دی جاتی جس قدر توجہ مہمان کے حقوق پر
دی جاتی ہے حالانکہ یہ دونوں چیزیں ہی اہمیت کی حامل ہیں - اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
میزبان کے درج
ذیل حقوق ہیں جنہیں قرآن وحدیث میں بیان فرمایا گیا-
1- مہمان میزبان
کی دعوت کو قبول کرے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُجِبْ، فَإِنْ كَانَ
صَائِمًا، فَلْيُصَلِّ، وَإِنْ كَانَ مُفْطِرًا، فَلْيَطْعَمْ» (صحیح مسلم،كِتَابُ النِّكَاحِ،بَابُ
الْأَمْرِ بِإِجَابَةِ الدَّاعِي إِلَى دَعْوَةٍ،حدیث نمبر 3520) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ
دار ہے تو دعا کرے اور اگر روزے کے بغیر ہے تو کھانا کھائے۔
لہٰذا جب بھی
مہمان کو دعوت دی جائے تو خوش دلی سے قبول کرے
2- مہمان جب میزبان
کے گھر پر جاۓ تو سب سے پہلے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کرے - چنانچہ اللّہ پاک
نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ
تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَذَكَّرُوْنَ(سورۃ النور الآیۃ
27)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو
جب تک اجازت نہ لے لو اور ان میں رہنے والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر
ہے تاکہ تم نصیحت مان لو۔
اس آیت کریمہ
کا شانِ نزول یہ ہے: حضرت عدی بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے گھر میں میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے،
چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو
اورمیری اسی حالت میں گھر میں مردوں کا آنا جانا رہتا ہے تو میں کیا
کروں ؟ ا س پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۲۹۷)
لہٰذا مہمان
کو چاہیئے کہ سب سے پہلے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرے میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں اجازت لینے کا
طریقہ بہت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا چنانچہ حضرت ربیع سے روایت ہے قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ مَنْ بَنِي عَامِرٍ
أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ
فِي بَيْتٍ، فَقَالَ: أَلِجُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ لِخَادِمِهِ: >اخْرُجْ إِلَى هَذَا فَعَلِّمْهُ الِاسْتِئْذَانَ
فَقُلْ لَهُ: قُلِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ. فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ،
فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ.(سنن ابی داؤد ،كِتَابُ النَّومِ،بَابُ كَيْفَ الِاسْتِئْذَانُ،حدیث
نمبر5177)
ترجمہ: کہ بنو
عامر کے ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے اجازت چاہی جبکہ آپ ﷺ گھر کے اندر تھے ۔ اور اس
نے کہا : ” کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ “ تو نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا ”
اس کی طرف جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا ادب سکھاؤ اسے کہو کہ ( اس طرح ) کہے : ”
السلام علیکم “ کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ اس آدمی نے یہ بات سن لی تو بولا : ”
السلام علیکم “ کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ تو نبی کریم ﷺ نے اسے اجازت دے دی اور
وہ اندر آ گیا ۔
لہٰذا مہمان
کو چاہیئے کہ پہلے سلام کرے پھر تین مرتبہ اجازت طلب کرے اگر اجازت مل جائے تو گھر
میں داخل ہو وگرنہ واپس لوٹ جاۓ-
بعض اوقات ایسا
ہوتا ہے کہ جب بندہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو آواز آتی ہے کون؟ تو آگے سے دروازہ
کھٹکھٹانے والا کہتا ہے”میں“ ایسا نہیں کہنا چاہیے بلکہ یا تو اپنا نام بتائیں
مثلاً محمد عثمان حاضر ہوا ہوں یا کوئی مشہور کنیت کو ذکر کریں جس سے صاحب خانہ
پہچان لیں-
3- مہمان میزبان
کے پیش کردہ کھانے میں عیب نہ نکالے - مہمان کو چاہیئے کہ میزبان جو بھی کھانا پیش
کرے تو صبر و شکر کے ساتھ تناول کرے اس میں اگرچہ کوئی عیب ہو اسے بیان نہ کرے کیونکہ
ہوسکتا ہے اس سے میزبان کو تکلیف ہو اور کسی مسلمان کو تکلیف دینا کبیرہ گناہ ہے -
چنانچہ مشہور تابِعی بزرگ حضرت مجاہد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
جہنّمیوں پرخارش مُسلّط کردی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کوکھجلائیں گے حتّی کہ ان میں
سے ایک کی (کھال اور گوشت اُترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اُسے پکارکر کہا جائے
گا:اے فُلاں!کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا:
تُو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔(احیاء العلوم،ج2،ص242)
اور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے کہ آپ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے قَالَ: «مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، إِنْ رَضِيَهُ، أَكَلَهُ، وَإِلَّا
تَرَكَهُ»(سننِ ابن ماجه،كِتَابُ
الْأَطْعِمَةِ،بَابُ النَّهْيِ أَنْ يُعَابَ الطَّعَامُ،حدیث نمبر3259)ترجمہ:انہوں
نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے
ورنہ چھوڑ دیتے۔
اور میزبان کو
بھی چاہیے کہ وہ اس طرح کا سوال نہ کرے جس سے مہمان جھوٹ میں مبتلا ہو مثلاً کھانا
کیسا بنا؟ اب مہمان تو یہی کہے گا کہ اچھا بنا ہےاب اگر مہمان کو کھانا اچھا نہیں
لگا تو یہ جھوٹ ہوجاۓ گا -
لہٰذا میزبان
کو بھی حتی الامکان اس طرح کے سوالات سے بچنا چاہیے -
4- مہمان تین
دن سے زائد میزبان کے گھر نہ رہے کیونکہ اس سے ہوسکتا ہے کہ میزبان آزمائش میں
مبتلا ہو جائے نبی کریم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کی مدت تین دن بیان فرمائی
چنانچہ عَنْ
أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ
قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ
جَائِزَتَهُ قَالُوا وَمَا جَائِزَتُهُ قَالَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ
ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَمَنْ كَانَ
يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ (سنن ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ
وَغَايَةِ الضِّيَافَةِ إِلَى كَمْ هِيَ،حدیث نمبر1967)
ترجمہ : ابوشریح
عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ یہ حدیث بیان فرمارہے تھے تو میری
آنکھوں نے آپ کو دیکھا اورکانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: جوشخص اللہ اوریوم
آخرت پر ایمان رکھتاہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے ، صحابہ
نے عرض کیا: مہمان کی عزت وتکریم اورآؤ بھگت کیاہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دن اورایک
رات ، اورمہمان نوازی تین دن تک ہے اورجو اس کے بعدہووہ صدقہ ہے ، جوشخص اللہ اوریومِ
آخرت پر ایمان رکھتاہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے -
اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ان مذکورہ حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
فیضان حیدر (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ضیافت و مہمان
نوازی تمام انبیاء و رسل اور اولیاء و صلحا کا طریقہ رہا ہے سیدنا ابراہیم خلیل
الله علیہ السلام کے متعلق آیا ہے کہ عموما اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک
ان کے پاس کوئی نہ کوئی مہمان نہ آ جاتا تھا ۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب فرشتے انسانی
شکل میں آپ کے پاس آئے تو آپ نے بچھڑا بھون کر ان کی ضیافت آئے میزبان کے حقوق کے
بارے میں کچھ ملاحظہ کرتے ہیں
(1)
میزبان کو تکلیف سے بچانا :- کسی
آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گناہ گار کر
دے ۔ عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وہ اسے کیسے گناہگار کرے گا۔ تو
فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش
کرے ( شعب الایمان ، مترجم ، ص601 مكتبه نوریه رضویه)
(2)
میزبان سے کسی چیز کی فرمائش نہ کرے :- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے
پاس (مہمان بن کر جائے) تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے
متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے(کتاب، شعب الایمان ، مترجم ص 600 مكتبه نوريه رضویه)
3)
میزبان کو صلہ دینا :- حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کو صلہ دو۔ صحابہ نے پوچھا کیا صلہ دیں یا
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جب آدمی اپنے بھائی کے ہاں جائے اور وہاں
کھائے پیئے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے یہ اس کا صلہ ہے۔ (مکتبہ نوریہ
رضویه ،شعب الایمان، مترجم ، ص 598 )
4) میزبان کے پاس زیادہ دیر رکنے کی ممانعت مہمان کیلئے یہ درست نہیں کہ وہ کسی کے ہاں اتنا
ٹھہرے کہ میزبان کو تنگ دل کر دے (شعب الایمان ، مترجم میں 600 مکتبہ نور به رضویه)
5)
خوش کرنا :- صاحب خانہ گھر پر نہ
ہو اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے کھانے پر خوش ہو گا تو آگے بڑھ کر کھانا کھائے ۔
(کتاب ، لباب الاحیاء مترجم )(ص، (133) مكتبة المدينة قرآن و آحادیث میں میزبان کے
جو حقوق بیان فرمائے گئے ہیں اللہ تعالٰی اس پر عمل کرنے اور
دوسری تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین