مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی مہمان نوازی سے خوش رہے ہو سکتا ہے گھر والوں نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو خصوصا رشتہ داروں میں اور بالخصوص سسرالی رشتہ داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے ایک کھانا بنایا تو اعتراض دو کیوں نہیں بنائے دو بنائے تو اعتراض تین کیوں نہیں بنائے نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا میٹھا بنایا تو اعتراض فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایضاء رسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتہ داروں کو دیکھ کر گھر والوں طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے آئیے  میزبان کے حقوق کے بارے میں کچھ سنتے ہیں (صراط الجنان جلد 2 ص340)

1) میزبان کے لیے دعاکرنا ۔امام ابو زکریا یحیی بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے لیے دعائے مغفرت اور دعائے برکت کرے اور اگر مہمان روزہ دار ہو اور کھانا نہ کھانا چاہتا ہو تو میزبان کے گھر نفل نماز پڑھے تاکہ اہل خانہ و حاضرین کے لیے فضل و برکت نازل ہو ۔ (شرح مسلم للنوی کتاب النکاح 5/236)

2) مہمان کسی کو کھانے کی دعوت نہ دے ۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ مہمان کھاتے وقت کسی آجانے والے آدمی کو آرڈر نہ کرے کہ آؤ کھانا کھا لو کیونکہ مہمان کھانے کا مالک نہیں (مرآة المناجیح 5/76)

3) اضافی افراد ساتھ نہ لے جائے ۔حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سمیت اس شخص نے پانچ افراد کو دعوت پر بلایا ایک شخص ان افراد کے پیچھے آگیا جب دروازے پر پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے میزبان سے فرمایا یہ شخص ہمارے پیچھے آگیا ہے اگر تم چاہو تو اجازت دو چاہو تو لوٹا دو میزبان نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں نے اسے اجازت دے دی مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جتنے افراد کی دعوت کی جائے اتنے ہی دعوت میں شریک ہوں اور اگر بالفرض کوئی فرد یا چند افراد زائد ہوں تو میزبان سے ان کے بارے میں بھی اجازت لے لی جائے ۔(مسلم کتاب الاطعمہ صفحہ 866)

4) زیادہ دیر نہ ٹھہرے ۔مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے گھر زیادہ دیر نہ ٹھہرے حدیث پاک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کسی مسلمان شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وہ ا سے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہوگا اور حال یہ ہوگا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔( مسلم کتاب اللقطة باب لضیافة ص 951 )

5) بن بلائے نہ جانا۔حدیث مبارکہ میں ہے جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا۔جان بوجھ کر ایسا نہ کرے البتہ اگر اتفاقا کھانے کے وقت پہنچ گیا تو جب تک دعوت نہ دی جائے نہ کھائے اور جب دعوت دی جائے تو دیکھے کہ اگر واقعی محبتا کھلانا چاہتے ہیں تو شریک ہو جائے اور اگر محسوس کرے کہ تکلفا کہتے ہیں تو شریک نہ ہو بلکہ معذرت کر لے۔ ( احیاء العلوم مترجم جلد 2 صفحہ 32)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اسلام نے جس طرح مہمان کے حقوق کی تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے حقوق کی بھی تعلیمات دی ہیں آئیے آج میں آپ کو میزبان کے حقوق بتانے کی کوشش کرتا ہوں اللہ پاک سے دعا ہے کہ مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے

نمبر 1 ۔ مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے حقوق کا خیال رکھے میزبان جو کھانا پیش کرے اس میں مہمان کو چاہیے کہ اس میں نقص نہ نکالے میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرائے اور اس کے کھانے پینے کا انتظام کرے۔

نمبر 2 ۔ مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے ساتھ اچھا سلوک کرے میزبان کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئے دور اولین میں مہمان کے لئے پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جاۓ اجازت لے کر جاۓ اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے

نمبر3 ۔مہمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے۔ *(فتاوی الھندیہ )

مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے گھر میں داخل ہوتے وقت اس سے اجازت لے مہمان کو چاہیے کہ میزبان کا کم سے کم وقت لے اور اس بات کا خیال رکھے کہیں اسکے بیٹھنے سے میزبان کے کام کاج میں حرج نہ ہو اور اہل خانہ کو پریشانی نہ ہو

نمبر 4 ۔جب مہمان اپنے ساتھ کسی بن بلائے شخص کو دعوت میں لے کر چلا جائے تو اسے چاہیے کہ میزبان سے اس شخص کی اجازت لے اگر اجازت مل جائے تو فبہا ورنہ اس شخص سے معذرت کر لے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مہمان اور میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین


(1) میزبان کے لیے دعا :حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لیے‌) دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے۔ ) (فیضان ریاض الصالحين جلد 6 ,ص185 )

(2) میزبان جہاں بیٹھائے وہاں بیٹھے:اگر میزبان کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کرے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسا اوقات اس نے اپنے ذہن میں ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس بات نہ ماننے سے اسے تشویش ہوگی۔ (احیاء العلوم جلد 2،ص :52)

(3) مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرنا:مہمان کو چاہئے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے. پیش کرنا میزبان پر دشوار ہوتا ہے اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار کرے جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہو کہ یہی سنت ہے چنانچہ مروی ہے کہ جب بھی مصطفی جان رحمت صلى اللہ عليه وسلم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔ (احیاء العلوم, جلد :2 ،ص : 37)

(4) حضرت علی رضی اللہ تعالی ہے اور میزبانی :صحابہ کرام کو بھی میزبانی کا عمل بے حد پسند تھا ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ اے علی رضی اللہ تعالی عنہ تمہیں کون کون سے عمل پسند ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا گرمیوں کے روزے رکھنا اور مہمان کی ضیافت کرنا پسندیدہ عمل ہیں۔( ایمان کی شاخیں ،ص : 599)

(5) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور میزبانی :حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جب معزز مہمان آئے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیه و سلم خود بنفس نفیس ان کی خاطر داری فرماتے ۔( ایمان کی شاخیں ،ص :599)


اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہمیں ہر چیز کا علم دیا ہے جس طرح میزبان کے مہمان پر کچھ حقوق ہیں اسی طرح مہمان کے میزبان پر کچھ حقوق ہیں آئیے ہم ذکر کرتے ہیں ۔

1)میزبان کے لیے دعا کرنا ۔میزبان کے لیے دعا کرنا اس کا حق ہے ۔( اَلّٰلہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فَیْ مَا رَزَقَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَارْحَمْھُمْ)ترجمہ: اے اللہ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما(الجامع الترمذی حدیث نمبر 3576)

2)بن بلائے نہ جانا ۔نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اِذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو۔ حدیث مبارکہ ہے کہ جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا۔(احیاء العلوم جلد نمبر 2 صفحہ 32)

3)بوجھ نہ بننا ۔حضرت ابو شریح کعبی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے ایک دن ایک رات اس کا جائز ہے اور تین دن ضیافت ہے اور اس سے زیادہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی کے پاس اتنا ٹھہرے کہ اس کو تکلیف ہو۔(فیضان سنت صفحہ نمبر 822)

4)پہلے سلام کرے پھر اجازت لے۔حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام کے ساتھ ابتدا نہ کرے اس کو اجازت نہ دو گھر میں داخلہ کی اجازت مانگنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ فورا گھر میں باہر والے کی نظر نہ پڑے آنے والا باہر سے سلام کر رہا ہو اجازت پا رہا ہو اور صاحب خانہ پردہ وغیرہ کا انتظام کر لیں نیز اجازت مانگنے والے کو جلد بازی بھی زیب نہیں دیتی جس سے صاحب خانہ پریشان ہو جائے۔(فیضان نے سنت صفحہ نمبر 664)

5) غیر شرعی چیز دیکھے تو لوٹ آئے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دعوت دی انہوں نے گھر میں دیوار پر پردہ دیکھا حضرت ابن عمر نے معذرت میں کہا ہم پر اس معاملے میں عورت غالب ہو گئی ہیں حضرت ابو ایوب نے کہا اس سے میں ڈرتا تھا مگرآپ کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں تھا بخدا میں تمہارے ساتھ کھانا نہیں کھاؤں گا تو واپس ہو گئے ۔(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 صفحہ 251)


"یہ بات سنت نہیں کہ آدمی دوسروں کے کھانا کھانے کے وقت کا انتظار کریں اور اس وقت ان کے پاس جائے کیونکہ یہ اچانک جانا ہے اور اس سے روکا گیا ہے ۔ایک حدیث مبارکہ میں  ہے۔ جو آدمی دعوت کے بغیر کسی کے ہاں کھانے کے لیے جائے وہ فاسق بن کر جاتا ہے اور حرام کھاتا ہے (سنن ابی داؤد جلد دو صفحہ 169کتاب الاطعمہ)

وضاحت ۔لیکن اگر جانے والا کھانے کی انتظار کے بغیر اتفاقا کھانے کے وقت چلا گیا تو جب تک اسے اجازت نہ دی جائے نہ کھائے جب اسے اجازت دے دی جائے تب وہ کھا لے ۔

اگر وہ محبت سے شریک کر رہا ہے تو شرکت کرے اور اگر وہ شرم و حیا کے طور پر کہتا ہے تو نہیں کھانا چاہیے بلکہ کوئی عذر پیش کر دے البتہ بھوکا ہو اور کوئی مسلمان بھائی کھلانا چاہے اور اس نے اس کے کھانے کے وقت کا انتظار بھی نہیں کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں کھانا کھلانے کا ثواب حاصل کرنے پر اس مسلمان بھائی کی مدد کرنا یہ بزرگوں کی عادت ہے صاحب خانہ گھر پر نہ ہو اور اسے اس کی دوستی پر کامل یقین ہو نیز وہ جانتا ہو کہ وہ اس کے کھانے پر خوش ہوگا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی کھا سکتا ہے کیونکہ اجازت سے مراد رضامندی ہے بالخصوص کھانے کے بارے میں اور اس کا معاملہ کشادگی پر مبنی ہے اور بعض لوگ صراحتا اجازت دے دیتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں لیکن وہ دل سے راضی نہیں ہوتے ایسے لوگوں کا کھانا کھانا مکروہ ہے اور بہت سے غیر موجود جو اجازت نہیں دیتے لیکن ان کا کھانا پسندیدہ ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں کھانا تناول فرمایا حالانکہ وہ گھر پر موجود نہ تھیں اور کھانا بھی صدقے کا تھا آپ نے فرمایا صدقہ اپنے مقام کو پہنچ گیا (مسند امام احمد بن حنبل جلد چھ صفحہ 18 مرویات عائشہ)

وضاحت ۔(یعنی صدقہ حضرت بریرہ تک پہنچ گیا اب اس کی حیثیت صدقہ والی نہیں)آپ نے یہ کھانا اس لیے کھایا کہ آپ جانتے تھے وہ اس پر خوش ہوں گی اس لیے اس گھر میں اجازت حاصل کیے بغیر داخل ہونا جائز ہے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اجازت دے دے گا اگر یہ بات معلوم نہ ہو تو اجازت لیے بغیر اندر نہ جائے حضرت محمد بن واسع اور ان کے ساتھی رحمہم اللہ حضرت حسن بصری رحمت اللہ کے گھر اجازت کے بغیر جاتے جو کچھ ملتا کھاتے تھے حضرت حسن تشریف لائے تو دیکھ کر خوش ہوتے اور فرماتے ہم بھی ایسے ہی کرتے تھے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ بازار میں پھل بیچنے کی دکان سے پھل کھا رہے تھے( کبھی چمڑا چڑھائی گئی) اس ٹوکری سے انجیر نکالتے اور کبھی دوسری ٹوکری سے خشک کھجور نکالتے ہشام نے پوچھا اے ابو سعید! آپ اس قدر پرہیزگار ہونے کے باوجود دوسرے کا مال اجازت کے بغیر کھا رہے ہیں انہوں نے فرمایا اے بے وقوف ! میرے سامنے کھانے سے متعلق آیت کریمہ پڑھی۔ 


الحمد اللہ ہمارے دین اسلام نے ہماری ہر معاملے کے اندر رہنمائی فرمائی جب حقوق العباد کی باری آئی تو ہمارے دین اسلام اور ہمارے بزرگوں نے ہماری رہنمائی فرمائی اور جہاں آقا مدینے کے تاجدار  ﷺ نے والدین کے حقوق ،رشتہ داروں کے حقوق، مہمانوں کے حقوق کی تاکید فرمائی اسی طرح میزبان کے حقوق کو بھی ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔

(1) غیر شرعی چیز دیکھنے پر لوٹ آنا۔حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو دعوت دی تو انہوں نے گھر میں دیوار پر پردہ دیکھا حضرت ابن عمر نے معذرت میں کہا: ہم پر اس معاملے میں عورتیں غالب ہوگئی ہیں حضرت ابو ایوب نے کہا : اس سے میں ڈرتا تھا مگر آپ کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں تھا بخدا ! میں تمہارے ساتھ کھانا نہیں کھاؤں گا لہذا واپس ہوگئے -( نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری صفحہ 251 جلدی 5 )

(2)- عیب نہ نکالنا۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے بھی کسی کھانے کو عیب نہ لگایا پسند آیا تو تناول فرما لیا نہ آیا تو چھوڑ دیا-(فیضان رياض الصالحین جلد 6 صفحہ 181)

(3)میزبان کے لیے دعا کرنا - میزبان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے ترجمہ : اے اللہ ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔(الجامع الترمذی ، حدیث نمبر : 3576)

(4)- بن بلائے نہ جانا ۔ ترجمہ نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو -حدیث مبارکہ : جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا ( احیاء العلوم جلد 2 ص 32)

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہمیں زندگی کے رہنے کے ہر اصول سکھائے ہیں جس طرح مہمانوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح میزبانوں کے بھی کچھ حقوق اسلام نے ہمیں دیئے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ باتیں بیان کرتے ہیں۔

1) میزبان کی مصروفیت کا خیال ۔اہل سنت کا رسالہ 103 سنتیں اور آداب میں ہے مہمان کو چاہیے اپنے میزبان کے مصروفیات اور ذمہ داری کا خیال رکھے ۔(103 سنتیں اور اداب صفحہ نمبر 15)

2) میزمان جو کھلائے وہ کھا لینا ۔حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس مہمان بن کر جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے۔(ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 600)

3) میزبان کے پاس زیادہ دیر تک نہ ٹھہرنا ۔کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گنہگار کر دے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم وہ اسے کیسے گناہگار کرے گا ۔ فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے ۔( ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 601)

4) میزبان نے جہاں بٹھایا وہاں بیٹھ جانا ۔اگر میزبان کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کر دے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسا اوقات اس نے اپنے ذہن میں ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس کی بات نہ ماننے سے اس کو تشویش ہوگی ۔(احیا العلوم جلد نمبر دو صفحہ نمبر 52)

5) پردے والی جگہ پر نہ جانا۔مہمان کو چاہیے جب وہ گھر میں جائے تو عورتوں کے کمرے اور دروازے کے پاس یہاں پردے والی جگہ کے سامنے نہ بیٹھے ۔(احیا العلوم جلد نمبر دو صفحہ نمبر 52)


1۔میزبان کے لئے دعا کرنا ۔جب میزبان کے گھر سے چلنے لگیں ،تو یہ دعا پڑھیں:اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْترجمہ:اے اللہ ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔(الجامع الترمذی، حدیث نمبر: 3576

2۔دل آزاری نہ کرنا ۔جو بھی میزبان کھانا پیش کرے اس پر منہ نہ بنانا اور اسکی دل آزاری نہ کرنا ۔۔ رسول اللہ نے فر مایا: ’’ تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔‘‘( مسند احمد)۔ مومن کو ستانا اور توبہ نہ کرنا سخت عذاب کا باعث

3۔گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینا ۔میزبان کے گھر داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا ۔پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا :اِذَا اسْتَاْذَنَ اَحَدُكُمْ ثَلَاثاً فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ ترجمہ : جب کوئی تین بار اجازت مانگ لے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔

4۔کھانے میں عیب نہ نکالنا جو ملے اسکو صبر تحمل کے ساتھ کھا لینا۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3564


دنیا میں ہر چیز کے کچھ نہ کچھ حقوق ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ میزبانی سنت انبیاء علیہم السلام ہے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ آپ جب بھی کھانا تناول فرمانے لگتے تو اپنے ساتھ کسی کو کھانے کے لیے بٹھا لیتے اور جب تک کوئی مہمان نہ آتا تناول نہ فرماتے ۔ احادیث مبارکہ میں بھی  جگہ جگہ میزبان اور میز بانی کا ذکر ہے۔ مہمان کو بھی چاہیے کہ وہ میزبان کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے ۔ اور اگر میزبان کچھ بھی لائے تو مہمان صبر و شکر کے ساتھ تناول کریں اگر میزبان مہمان کے ذوق کے مطابق کھانا کھلائے تو اس پر بہت بڑا اجر ہے۔

(1) (میزبانی قرآن پاک کی رو سے ) (ترجمہ کنز العرفان :) بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے اور اللہ سنے والا جاننے والا ہے۔ (پارہ 6 سورت النساء )

شان نزول : اس کا شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا اور انہوں نے اچھی طرح کی میز بانی نہ کی جب وہاں سے نکل رہا تو ان کی شکایت کرتا ہوا نکلا۔ 148(بیضاوی النساء آیت )

(ایک نصیحت 2)

پہلے یعنی مہمان نوازی والے شان نزول کو لیں تو اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو خصوصا رشتہ داروں میں اور بالخصوص سسرارلی رشتہ داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ عام ہے ایک کھانا بنایا تو اعتراض کے دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کے میٹھا کیوں نہیں بنایا ؟الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذا رسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتہ داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے حدیث مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا کہ کسی مسلمان شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرا رہے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اس سے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا ارشاد فرمایا وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہوگا اور حال یہ ہوگا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔( مسلم ( ضیافت ونحوھا ص 951 الحدیث 15( 1726

3فرمان مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم)

تاجدار رسالت شہنشاہ رسالت مخزن جود و سخاوت پیکرعظمت و شرافت ) محبوب رب العزت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے "جنت میں ایسے بالا خانے ہیں. جن کا اندر باہر سے اور ان کا باہر اندر سے نظر آتا ہے ان کو اللہ عزوجل نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو نرمی سے گفتگو کرتے کھانا کھلاتے اور رات کو اس وقت نماز پڑھتے ہیں جب لوگ سوئے ہوتے ہیں( السنن الکبری للبیہقی کتاب الصیام باب من لم یردبسردالصیام باسا۔۔۔آلخ الحدیث8479ص495 )

(4) کس دعوت میں جانا چاہیے ہے اور کس میں نہیں؟ بندے کو چاہیے کہ اس دعوت میں نہ جائے جس میں اسے نہ بلایا گیا ہو حدیث پاک میں ہے(ترجمہ) جو شخص ایسی دعوت میں گیا جہاں سے نہیں بلایا گیا تو وہ فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا( فردوس الاخبار لدیلمی باب المیم 6117)البتہ جب اسے معلوم ہو کہ دعوت آمد پر وہ خوش ہوگا تو جا سکتا ہے۔ قول ہےکہ حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بندہ جو کچھ اپنے اوپر اپنے ماں باپ پر اور دوسروں پر خرچ کرتا ہے اس کا بروز قیامت حساب لیا جائے گا البتہ جو کچھ وہ اپنے بھائیوں پر خرچ کرتا ہے اس کا حساب نہ ہوگا اور یہ اس کے لیے آڑ بن جائے گا۔ لباب الاحیاء ص132 ) 


  ایک بندہ مہمان بن کر جب کسی کے ہاں جاتا ہے تو اگلا بندہ اس کی مہمان نوازی کرتا ہے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے یا اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے تو اسے میزبان کہتے ہیں ۔ یہاں میزبان کے حقوق اس لیے بتائے گئے ہیں تاکہ لوگ اگر کسی کے ہاں مہمان بن کر جائیں تو اپنے میزبان کے حقوق کا خیال رکھیں.

کھانے میں عیب نہ نکالنا: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو عیب نہ لگا یا پسند آیا تو تناول فرما لیا پسند نہ آیا تو چھوڑ دیا ۔

میزبان کے ہاں دیر تک نہ ٹھہرنا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گنہگار کر دے ،عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اسے کیسے گنہگار کرے گا ؟تو فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے۔(ایمان کی شاخیں ص601) ( مسلم)

میزبان کو دعا دینا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر و ہ روزه دار ہو تو ( میزبان کے لیے دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے ۔

دعوت میں بن بلائے مہمان بن کرجائے تو: حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سمیت اس نے پانچ افراد کو دعوت پر بلایا ا ایک شخص ان افراد کےپیچھے آگیا جب دروازے پر پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میزبان سے فرمایا : یہ شخص ہمارے پیچھے آگیا ہے اگر تم اجازت دو اگر چاہو تو لوٹا دو ؟ میزبان نے عرض کی یارسول اللہ میں نے اسے اجازت دے دی .

میزبان کی دل آزاری سے بچنے کیلئے چاہیے کہ میزبان کیلئے دعائے خیر کرے وہاں کچھ دیر نماز پڑھ لے اس سے میزبان بھی خوش ہو جائے گا اور روزہ بھی نہ توڑنا پڑے گا مدعو ا فراد کے ساتھ زائد افراد ہو تو انہیں چاہیے کہ ان کی میزبان سے اجازت لے لیں ۔ پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! اگر ہمیں کہیں مدعو کیا جائے تو میزبان کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے جانا چاہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں احترام مسلم اور حقوق مسلم ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کی دل آزاری کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین


اسلامی ثقافت میں ،مہمان نوازی ایک مقدس اور معزز روایت ہے، جو سخاوت،احترام اور مہربانی کی اقدار کو مجسم کرتی ہے،جہاں مہمان کے کچھ حقوق ہیں ،وہاں میزبان کے بھی ایسے حقوق ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ بندے پر حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی لازم ہیں لہٰذا تمام حقوق ادا کرنے ضروری ہیں ۔ آئیے حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے اور میزبان کے حقوق پڑھیے۔

عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهٗ ومَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ والْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهٗ. (رَوَاہُ الْبُخَارِی وَمُسْلِم) ترجمہ:حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہےاور جو شخص اللہ پاک اور قیام کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہےاسے چاہئے کہ اپنےمہمان کا احترام کرے۔(بخاری، كتاب الادب، باب من كان يؤمن ب اللہ ...الخ، ۴/ ۱۰۵،حدیث:۶۰۱۸ ۔ مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار...الخ، ص۴۸، حدیث:۱۷۳)

شرح اربعین نوویہ (اردو ) میں اس حدیثِ پاک پاک کے تحت میزبان کے کچھ حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔

1: مہمان كو چاہئے کہ وہ میزبان کی مصروفیات اور ذمہ داریوں کا لحاظ رکھے ۔ (یعنی ایسا نہ ہو کہ میزبان کے گھر کوئی مسئلہ ہو یا کوئی ایسا کام ہو جس کی وجہ سے اسکو آپکے لئے وقت نکالنے میں مشقّت کا سامنا کرنا پڑے لہذا اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے) ۔ 

٭2:جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مناسب ہے کہ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یا اُس کے بچوں کے لیے تحفے لیتے جائیں ۔( تحفہ دینے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا اگر جیب اجازت دے تو میزبان یا اُس  کے بچوں کے لئے ضرور تحفہ لے کر جانا چاہیے ) 

٭3: حضرت علّامہ مولانا   مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ’’بہار شریعت، حصہ 16، جلد3، صفحہ 394‘‘ پر نقل فرماتے ہیں کہ مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں

 (1) جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے ۔ (2) جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو۔یہ نہ ہو کہ کہنے لگے:اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ نہ کہے۔ (3) بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ (یعنی میزبان سے اجازت لئے بِغیر) وہاں سے نہ اُٹھے ۔    (4) جب وہاں سے جائے تو اس (میزبان) کے لیے دُعا کرے۔ (فتاوی ھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ۵/ ۳۴۴، ۳۴۵)

(اللہ تعالیٰ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیقِ عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین  ﷺ


دین اسلام کامل و اکمل اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دین اسلام نے جس طرح نماز ، روزہ کا حکم دیا اسی طرح تمام مسلمانوں  کے حقوق کی ادائیگی پر بھی زور دیا ہے مسلمانوں کے حقوق میں سے میزبان کے حقوق بھی آتے ہیں۔ چنانچہ آپ بھی میزبان کے 5 حقوق پڑھیے اور علم میں اضافہ کیجیے ۔

(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور میزبانی:. صحابہ کرام کو بھی میزبانی کا عمل بے حد پسند تھا ایک دفعہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے پوچھا: اے علی رضی اللہ عنہ تمہیں کون کونسے عمل پسند ہیں حضرت علی کی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ گرمیوں کے روزے رکھنا اور میزبان کی ضیافت کرنا۔ (ایمان کی شاخیں شعب الایمان صفحہ نمبر 599 )

(2) میزبان کے لیے دعا : حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لئے ) دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھالے۔( فیضان ریاض الصالحین جلد :6 ، صفحہ نمبر : 185 )

(3) رات کا کچھ وقت مہمانوں کے ساتھ گزارے :رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے انہیں اچھی باتیں اور دلچسپ وانوکھے واقعات سنا کر مانوس کرے اور مزاح سے بھر پور باتوں کے ذریعے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے ( لیکن خلاف شرع اور حد زیادہ نہ ہوں)۔ میزبان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ مہمان کو بیت الخلا دکھا دے ( تاکہ بوقت ضرورت آسانی رہے ) ۔( دین ودنیا کی انوکھی باتیں جلد ،1 صفحہ نمبر : 434 )

(4) کھانے میں عیب نہ نکالنا :اعلی حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عليه رحمتہ اللہ کھانے میں عیب نکانے کے متعلق فرماتے ہیں : کھانے میں عیب نکالنا اپنے گھر پر بھی نہ چاہیے مکروہ و خلاف سنت ہے ۔ ( فیضان رياض الصالحين جلد ، 6 ، ص: 181)

(5) دعوت میں شرکت کے آداب :

(1) گھر میں داخل ہو کر کسی نمایاں جگہ پر نہ بیٹھے بلکہ عاجزی اپنائے

(2) عورتوں کے کمرے کے دروازے یا پردے کے سامنے نہ بیٹھے

(3) اگر میزبان کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کرے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسااوقات اس نے اپنے ذہن میں ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس کی بات نہ ماننے سے اسے دشواری ہوگی

(4) جس طرف سے کھانا لایا جارہا ہو اس جانب بار بار نہ دیکھے کہ یہ حرص کی علامت ہے ۔

(5) اہل خانہ کو نہ تو زیادہ انتظار کرائے اور نہ ہی تیاری سے قبل حاضر ہو۔( احیاء العلوم جلد : 2 ،صفحہ نمبر: 52 )