حضور کی فاروق اعظم سے محبت از بنت ریاض فاطمہ،فیضان ام عطار گلبہار
سیالکوٹ
امیر المومنین
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اسلام کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ آپ ہی وہ شخصیت ہیں
جن کے سائے سے شیطان بھی بھاگتا ہے، جن کے نام سے آج بھی کفر و باطل کے ایوانوں
میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آپ ہی وہ شخصیت ہیں جنہیں اللہ پاک نے فاروق کا لقب
عطا فرمایا۔ آپ نے اسلام کے لیے بہت سی خدمات سر انجام دیں اور اسلام کے لیے بے
شمار قربانیاں دیں۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کو طاقت بخشی اور
کفار کے مظالم کا سامنا کیا اور ان کی شخصیت کی وجہ سے نبی کریم ﷺ ان سے بے حد
محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ
پیارے نبی
رسول ہاشمی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے عمر سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا، جس
نے عمر سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی۔ بے شک اللہ پاک عرفہ کی رات کو مسلمانوں
پر عمومی فخر فرماتا ہے اور عمر پر خصوصی فخر فرماتا ہے۔ بےشک پہلے انبیاء کرام
علیہم السلام کی امت میں محدث ہوتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر
ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیسے محدث؟ فرمایا: وہ جس
کی زبان پر فرشتے بولتے ہیں۔ (معجم اوسط، 5/102، حدیث: 6726)
طبرانی شریف
کی حدیث پاک میں ہے کہ حضور پرنور ﷺ نے فرمایا: عمر میرے ساتھ ہے، میں عمر کے ساتھ
ہوں، میرے بعد عمر جہاں بھی ہو، حق اس کے ساتھ ہوگا۔ (تاریخ ابن عساکر، 48/324)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے کہ آپ ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کس قدر محبت
فرماتے تھے کہ آپ کو اپنا ساتھی قرار دیا کہ عمر میرے ساتھ ہے اور میں عمر کے ساتھ
اور جسے جان عالم ﷺ کا ساتھ نصیب ہو اس کے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔
اے کاش ہمیں
بھی بروز قیامت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صدقے جانِ عالم ﷺ کا ساتھ نصیب ہو
جائے۔ آمین
حضور ﷺ کی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت کے بارے میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے میں
اپنی قبر سے باہر نکلوں گا اس کے بعد ابوبکر اور پھر عمر۔ (ترمذی، 5/ 388، حدیث:
3712)
جب حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کا جنازہ پلنگ پر رکھ دیا گیا تو لوگوں نے چاروں طرف سے جنازے کو
گھیر لیا اور ان کے لیے دعائے خیر کرنے لگے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں میں بھی ان لوگوں میں کھڑا تھا کہ یکا یک ایک شخص میرے پیچھے ا کر کھڑا
ہو گیا اور اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ کر کہنے لگا اللہ تم پر رحمت نازل فرمائے
تم نے اپنے بعد کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا کہ اس کے مثل عمل کرے مجھے اللہ سے
ملنا تمہارے جیسے عمل کر کے ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے امید تھی
کہ اللہ تمہیں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ جمع کر دے گا اس لیے کہ میں اکثر رسول
اللہ ﷺ کو اس طرح فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکر و عمر تھے، میں اور
ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا، میں اور ابوبکر اور عمر نکلے۔ حضرت ابن عباس کہتے
ہیں: میں نے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شخص جناب علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ (بخاری،
2/524، حدیث: 3677)
رسول اللہ ﷺ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کئی مواقع پر اپنی محبت اور اعتماد کا اظہار فرمایا۔ ایک
مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385،
حدیث:3706) یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کی ان سے محبت
کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے دو دو وزیر ہیں،دو آسمان
میں اور دو زمین میں۔ آسمان میں میرے دو وزیر جبرائیل و میکائیل ہیں اور زمین میں
میرے دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں۔ (ترمذی، 5/382، حدیث: 3700)
ام المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے امیر المومنین حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یوں دعا فرمائی کہ اے اللہ! خصوصاً عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسلام کو عزت عطا فرما۔ (ابن ماجہ، 1/77،
حدیث: 105)
معلوم ہوا کہ
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ ہیں۔ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اللہ سے
مانگ کر لیا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ مراد رسول ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
سرکار مدینہ قرار قلب و سینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے عمر سے محبت کی اس کا دل
ایمان سے معمور کر دیا جائے گا۔ (ریاض النضرہ، 1/319)
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلی امتوں
میں کچھ لوگ ہوتے تھے جو نبی نہ ہونے کے باوجود کلام کرتے تھے۔ میری امت میں اگر
کوئی ہے تو عمر ہے۔ (بخاری، 2/527، حدیث: 3689)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! قربان جائیے محبت مصطفی ﷺ پر کہ آپ ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے
کس قدر محبت فرماتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت سے بے
شمار ایسے فضائل عطا ہوئے جس میں آپ منفرد ہیں یعنی وہ فضائل خاص آپ ہی کو عطا
ہوئے کوئی دوسرا اس میں شریک نہ تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کچھ ایسے ہی فضائل
ملاحظہ کیجئے۔ چنانچہ
رسول اللہ ﷺ نے آپ کے جنتی محل کا ذکر فرمایا۔ (بخاری،
2/390،
حدیث: 3242) رسول اللہ ﷺ نے آپ کو خود علم عطا
فرمایا۔ (بخاری، 2/525،
حدیث: 3681) رسول اللہ ﷺ نے آپ کی دین میں پختگی کو
بیان فرمایا۔ (بخاری، 2/528، حدیث: 3691)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! حضور ﷺ کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت کا بیان بہت طویل ہے۔
جو اس تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حضور ﷺ کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے
محبت کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے مکتبہ المدینہ کی کتاب فیضان فاروق
اعظم کا مطالعہ کیجئے۔
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت ذوالفقار علی،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
حقیقت میں
کمال اور خوبی والا شخص وہ ہے۔ جو دوسروں کو بھی کمال خوبی والا بنا دے تو ہمارے
پیارے آقا ﷺ حقیقت میں کمال خوبی والے ہیں۔ جنہوں نے بےشمار لوگوں کو کمال خوبی
والا بنا دیا اور ان کا فیضان ہمیشہ جاری رہے گا۔ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے جن کو کمال
خوبی والا بنا دیا ان میں سے ایک حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ ہیں جو کہ افضل
البشر بعد الانبیا حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے بعد تمام صحابہ کرام میں سب
سے افضل ہیں۔
ترمذی شریف کی
حدیث میں ہے: حضور ﷺ نے دعا فرمائی: یا الله! خاص طور سے عمر بن خطاب کو مسلمان
بنا کر اسلام کو عزت و قوت عطا فرما! تو الله کے محبوب ﷺ کی یہ دعا بارگاہِ الٰہی
میں مقبول ہو گئی اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ اسلام سے مشرف ہوگئے۔
سرکار اقدس ﷺ
نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/ 385، حدیث: 3706)
حضور ﷺ نے
فرمایا: عمر مجھ سے ہے اور میں عمر سے ہوں اور عمر جس جگہ بھی ہوتے ہیں حق ان کے
ساتھ ہوتا ہے۔ (مدارج النبوۃ، 2/436)
ایک اور حدیث پاک
میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے زمانے میں محدث ہوئے ہیں۔ اگر میری امت
میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر رضی الله عنہ ہیں۔ (بخاری، 2/ 527، حدیث: 3689)
حضرت
عمر کے مشورے کی اہمیت: حضرت عمر رضی الله عنہ کے مشورے کئی مواقع پر وحی
الہٰی کے موافق نکلے۔ مثال کے طور پر: پردے کے احکام، بدر کے قیدیوں سے متعلق
فیصلہ اور مقام ابرہیم کو مصلیٰ بنانے کے بارے میں ان کی رائے بعد میں وحی کی صورت
میں نازل ہوئی۔
حضور
کی عمر سے ذاتی طور پر محبت: حضور ﷺ نے حضرت عمر رضی الله عنہ کو نہ
صرف دنیاوی بلکہ اخروی فضیلتوں کی بھی بشارتیں دیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے: عمر
جنت میں جائے گا ایک اور موقع پر فرمایا: میں ابو بکر اور عمر جنت میں ایک ساتھ
ہوں گے۔
حضرت محمد ﷺ کو
حضرت فاروق اعظم سے بےحد محبت تھی اور یہ محبت کئی احادیث اور واقعات سے ثابت ہے،
چند ایک احادیث بطور مثال پیش کی جارہی ہیں، چنانچہ
دعائے
مصطفیٰ: حضور
ﷺ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا: اے اللہ! عمربن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت ہے۔
(مستدرک، 4/34، حدیث: 4541) یہ دعا اس وقت کی گئی جب حضرت عمر ایمان نہیں لائے تھے
لیکن رسول اللہ ﷺ کو ان کی قوت اور صلاحیتوں سے محبت تھی اور آپ چاہتے تھے کہ وہ
اسلام کے لیے وقف ہوں۔
اگر
میرے بعد نبی ہوتا!!! سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میرے بعد نبی ہوتا تو
عمر ہوتا۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706)
جنت
کی بشارت: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں دیکھا کہ ایک محل ہے میں نے پوچھا
یہ کس کا ہے؟ کہا گیا عمر بن خطاب کا۔ (ترمذی، 5/386، حدیث: 3709)
حق
اور باطل کی تمیز: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک اللہ نے حق کو
عمر کی زبان اور دل پر رکھ دیا ہے۔(ترمذی، 5/383، حدیث: 3702)
شیاطین
بھاگ جاتے ہیں: حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں بلاشبہ نگاہِ
نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان بھی انسان کے شیطان بھی دونوں میرے عمر کے
خوف سے بھاگتے ہیں۔ (ترمذی، 5/387، حدیث: 3711)
حق
عمر کے ساتھ: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر مجھ سے ہیں میں عمر سے ہوں اور عمر جس جگہ بھی ہوتے
ہیں حق ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ (خلفائے راشدین، ص 116)
حضور ﷺ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بہت محبت فرماتے تھے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو
بھی رسول اللہ سے بے پناہ محبت تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام کے لیے خدمات
اور ان کی شخصیت کی وجہ سے آپ ﷺ ان سے خاص محبت رکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں
فاروق کا لقب دیا،جس کا مطلب ہے حق اور باطل میں فرق کرنے والا۔
محبتِ
فاروقی کے مظاہر: کچھ
اہم باتیں جو اس محبت کو ظاہر کرتی ہیں درج ذیل ہیں:
دعائے
مصطفیٰ: رسول
اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے ایمان لانے سے قبل دعا فرمائی: اے اللہ!
ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما:
ابو جہل یا عمر بن خطاب۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3701)
فاروق
کا لقب: نبی
کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا،جو کہ آپ کی شخصیت
اور کردار کی عظمت کا مظہر ہے۔
احادیث میں ذکر: بہت سی احادیث
میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور نبی کریم ﷺ کی محبت کا ذکر ملتا ہے۔
مشاورت: نبی کریم ﷺ اکثر اہم معاملات
میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرماتے تھے، جو کہ آپ کی رائے پر اعتماد کا
اظہار تھا۔
حضور ﷺ کی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت پر احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کئی مواقع پر اپنی محبت اور اعتماد کا اظہار فرمایا۔ ایک
مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385،
حدیث:3706) یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کی ان سے محبت
کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے
ہیں:میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے تم مجھ سے باتیں کرتے ہو اورمیں تم سے اور میری
وفات بھی تمہارے لیے بہتر، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے، جب میں کوئی بھلائی
دیکھوں گا توحمد الٰہی بجالاؤں گا اور جب برائی دیکھوں گا تمہاری بخشش کی دعاکروں
گا۔ (البحر الذخار، 5/308، 309، حدیث: 1925)
حکیم الامّت
حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی ﷺ اپنے ہر امّتی اور
اس کے ہرعمل سے خبردارہیں۔حضور انور ﷺکی نگاہیں اندھیرے، اجالے، کھلی، چھپی، موجود
ومعدوم ہرچیزکو دیکھ لیتی ہے۔جس کی آنکھ میں مازاغ کا سرمہ ہو، اس کی نگاہ ہمارے
خواب و خیال سے زیادہ تیز ہے، ہم خواب وخیال میں ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں، حضور ﷺ نگاہ
سے ہر چیز کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ صوفیا فرماتے ہیں کہ یہاں اعمال میں دل کے اعمال
بھی داخل ہیں، لہٰذا حضورﷺ ہمارے دلوں کی ہر کیفیت سے خبردار ہیں۔ (مراۃ، 1/439)
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! معلوم ہوا آپ ﷺ اپنے امتیوں کے تمام احوال سے باخبر ہیں تو ہمارے نیک
اعمال دیکھ کر خوش اور برے اعمال سے غمگین بھی ہوتے ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ
اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی رضا حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال
کریں، آپ ﷺ کی ذات بابرکت پر کثرت سے درودوسلام کے گجرے نچھاور کریں، آپ ﷺ کی
سنّتوں پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی سکھائیں تاکہ حضور ﷺ خوش ہوکر روز محشر اپنے
گنہگار امتیوں کی شفاعت فرماکر جنت میں ہمیں بھی اپنے ساتھ لیتے جائیں۔ آمین
یا
الٰہی جب پڑے محشر میں شور دارو گیر
امن
دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385، حدیث:
3706)
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں
میں محدث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ (بخاری، 2/527، حدیث: 3689)
حضور نبی اکرم
ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن
کے ساتھ اﷲ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر
کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ (بخاری، 2/528، حدیث: 3689)
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے دو دو وزیر ہیں، دو
آسمان میں اور دو زمین میں۔ آسمان میں میرے دو وزیر جبرائیل و میکائیل ہیں اور
زمین میں میرے دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں۔ (ترمذی، 5/382، حدیث: 3700)
رسول اللہ ﷺ بھی
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا لحاظ کرتے تھے، جیسا کہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حریرہ (آٹے سے بنایا جانے
والا کھانا) پکا کر لائی۔ (ام المومنین
حضرت سیدتنا) سودہ رضی اللہ عنہا میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں۔میں
نے ان سے کہا: تم بھی کھاؤ! انہوں نے انکار کیا تو میں نے خوش طبی کرتے ہوئے کہا: کھا
لو ورنہ میں اسے تمہارے چہرے پر مل دوں گی، انہوں نے پھر انکار کیا تو میں نے
حریرہ سے ہاتھ بھرا اور ان کے چہرے پر مل دیا انہوں نے بھی اپنا ہاتھ حریرہ سے
بھرا اور میرے چہرے پر مل دیا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ مسکرا دیئے (ام المومنین
حضرت سیدتنا) سودا رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اس کے (سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا کے) چہرے پر اور ملو۔انہوں نے میرے چہرے پر اور مل دیا۔حضور ﷺ یہ منظر دیکھ
کر بہت خوش ہوئے۔اتنے میں گھر کے باہر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے (اپنے بیٹے
کو) آواز دی: عبداللہ عبداللہ! رسول اللہ ﷺ نےمحسوس کیا کہ غالباً حضرت عمر فاروق
اندر آنے والے ہیں،آپ ﷺ نے ہمیں ارشاد فرمایا: یعنی جلدی جلدی اٹھو اور اپنا منہ
دھو لو! حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کا لحاظ
کرتے ہوئے دیکھا تب سے میرے دل میں بھی حضرت عمر کی ہیبت بیٹھ گئی۔ (سنن کبری
للنسائی، 5/291، حدیث: 8917)
آخر میں اللہ پاک
سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عشق رسول کا کچھ عطا
فرمائے۔ ہمارے دلوں کو عشق رسول کی شمع سے روشن فرمائے اور ہمارا سینہ حضور جان
جانان کی محبت میں میٹھا میٹھا مدینہ بنائے۔ ہمیں پکا سچا عاشق رسول بنائے۔
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت محمد جمیل،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
الحمدللہ!
ہمیں اولیائے کرام، صحابۂ کرام اور بالخصوص خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے فضائل
و کمالات سے واقفیت حاصل کرنے کا خوب خوب موقع ملتا ہے۔ انہی جلیل القدر ہستیوں
میں ایک عظیم المرتبت نام حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بھی ہے، جنہیں
پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں خاص مقام اور محبت حاصل تھی۔
اسلام
لانے پر خوشی کا اظہار: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اسلام میں آمد سے
پہلے مسلمان چھپ چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ جب آپ ایمان لائے تو پیارے آقا ﷺ کو
بہت خوشی ہوئی۔ آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا فرمائی تھی: اے اللہ! عمر بن خطاب کے
ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما! (مستدرک، 4/34، حدیث: 4541) اللہ کریم نے اپنے
محبوب ﷺ کی دعا کو قبول فرمایا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام کو عزت
ملی۔ یہی وجہ ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر
ہوتا۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706)
یہ صرف تعریف
نہیں، بلکہ حضور ﷺ کے دل کی محبت کا مظہر ہے۔
محبت کا عملی
مظاہرہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہنے کو باعثِ فخر
سمجھتے تھے۔ آپ کی زبان سے جو بات نکلتی، وہ اللہ کے حکم سے موافقت پاتی۔ قرآن کی
کئی آیات آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوئیں، جنہیں موافقات عمر کہا
جاتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اور فہمِ دین پر ایسا
اعتماد تھا کہ کئی مواقع پر آپ نے فرمایا: عمر جہاں ہوتا ہے، حق اس کے ساتھ ہوتا
ہے۔
(تاریخ ابن
عساکر، 48/324)
رسول کریم ﷺ
نے فرمایا: بے شک شیطان، عمر کے سائے سے بھی بھاگتا ہے۔ (ترمذی، 5/387، حدیث: 3711
مفہوماً)کیا مقام ہے ان ہستی کا جن سے شیطان بھی ڈرے! اور کیا عظمت ہے اس محبت کی
جو آقا ﷺ کے دل میں ان کے لیے ہو!
وصال
مصطفی ﷺ پر حالت: جب
پیارے آقا ﷺ کا وصال ہوا، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غم کی شدت سے بے خود ہو
گئے۔ تلوار کھینچ لی اور اعلان کیا کہ جو یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے،
میں اسے قتل کر دوں گا۔ یہ اظہار اس عاشقِ رسول کا تھا جو نبی پاک ﷺ کی جدائی کو
برداشت نہ کر سکا۔
محبت
کا اجر: حضور
ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اپنی زندگی میں دعا کی اور بعدِ وصال آپ کو وہ
عظمت عطا ہوئی کہ آپ کو حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن
کیا گیا۔ کیا یہ کسی معمولی محبت کا صلہ ہو سکتا ہے؟ نہیں! یہ محبتِ مصطفی ﷺ کا
عظیم انعام ہے۔
آئیے! ہم بھی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سنتوں پر چلیں، عدل، تقویٰ، جرأت اور عشقِ رسول سے
اپنے دل کو روشن کریں۔ مدنی ماحول سے وابستہ ہو کر اور سنتوں بھری زندگی گزار کر،
اس محبت کو عملی طور پر اپنائیں جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آقا ﷺ سے کی اور جو
آقا ﷺ نے ان سے فرمائی۔
اللہ کریم
ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا عشق رسول، عدل، حیا اور دین داری نصیب فرمائے۔ آمین
بجاہ النبی الامین ﷺ
حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت طاہر راحیلہ،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
خلیفہ دوم
امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول تھے، آپ کا دل اللہ پاک کے
نور سے منور تھا، اللہ کریم نے شمع رسالت کے صدقے ایسا کمال عطا فرمایا تھا کہ آپ کی
فہم و فراست ان واقعات و حقائق کا ادراک کر لیتی تھی جو مستقبل میں رونما ہونے
والے تھے، حق و باطل کی پہچان کرنے میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ قربت و صحبتِ رسالت مآب
ﷺ کی برکت سے سیرت فاروق اعظم ایک حسین مرقع ہے۔
حضور ﷺ کو
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام
اور نبی کریم ﷺ کے لیے بے مثال قربانیوں اور خدمات کے پیش نظر آپ ﷺ ان سے بہت محبت
فرماتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم ﷺ سے بے حد محبت کرتے تھے اور ان
کی اطاعت میں اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔
محبت
کا اظہار: نبی
کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہادری، جرأت اور اسلام کے لیے خدمات کو
سراہتے ہوئے ان سے محبت کا اظہار فرمایا تھا۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر
میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706)
حضرت
عمر کی محبت:حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان کی اطاعت کو اپنی
زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔ وہ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے پیچھے چلنے اور ان کی ہر بات پر
عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام اور نبی کریم ﷺ کی
خاطر اپنی جان اور مال کی قربانی دینے میں کبھی دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی تمام
تر صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے وقف کر دی تھیں۔
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کی اکثر آرا نبی کریم ﷺ کی وحی کے موافق ہوتی تھیں، جو ان کی گہری عقیدت
اور محبت کا نتیجہ تھی۔
نبی کریم ﷺ کی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جن میں آپ ﷺ کا ان کے بارے
میں اچھے کلمات کہنا اور ان کی تعریف کرنا شامل ہے۔ حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق
اعظم رضی اللہ عنہما کو دنیوی حیات اور بعدِ ممات بھی سرور کائنات ﷺ کا قرب خاص
رہا۔ چنانچہ عاشقِ مصطفیٰ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
محبوبِ
ربِ عرش ہے اس سبز قبے میں پہلو
میں جلوہ گاہ عتیق وعمر کی ہے
سعدین
کا قران ہے پہلوئے ماہ میں جھرمٹ
کئے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے
آپ رضی اللہ عنہ
کی عظمت و شان کی کیا بات ہے کہ آپ کا شمار ان صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں ہوتا
ہے کہ جن سے سرکار دو عالم ﷺ کو خصوصی محبت تھی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے ان کے بہت سے انوکھے
فضائل بیان فرمائے ہیں جو صرف آپ کی شان و عظمت پر مشتمل ہیں آئیے! ہم بھی ان کی
مثالیں سنتی ہیں: چنانچہ
٭ رسول
اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خود علم عطا فرمایا۔ (بخاری، 2/525، حدیث: 3681ملخصا)
٭ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ
اسلام کی دعا فرمائی۔ (ترمذی، 5/383،
حدیث: 3703) ٭رسول اللہ ﷺ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر
ہوتا۔ (ترمذی، 5/385، حدیث: 3706) ٭ میرے
بعد حق عمر کے ساتھ ہوگا وہ جہاں بھی ہوں۔ (مسند بزار، 6/98،
حدیث: 2154) ٭ فاروق اعظم کی
محبت ایمان کی ضمانت ہے۔ (کنز العمال، 7/8،
حدیث: 3611) ٭ رسول اللہ ﷺ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ (بخاری، 2/529، حدیث: 3693) ٭ جس
سے عمر ناراض ہو جائے اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہو جاتا ہے۔
پیاری اسلامی
بہنو! ہم نے فضائل فاروق اعظم بزبان مصطفیٰ ﷺ سنے۔ اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کا صدقہ نصیب فرمائے۔ ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ
کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین
آج ہم ایک
ایسے عظیم المرتبت صحابی رسول کے بارے میں پڑھیں گی جن کے بارے میں خود اللہ کے
آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ کیا آپ جانتی
ہیں ایسے عظیم انسان کون ہیں؟ ان کی کنیت ابو حفص، لقب فاروق اعظم اور نام مبارک
عمر ہے۔
آپ رضی اللہ
عنہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی ﷺ کی دعا سے نبوت کے چھٹے سال 39 مردوں کے بعد
ایمان لائے۔ آپ کے ایمان لانے کے بعد مسلمانوں کو بہت بڑا سہارا مل گیا۔
نبی
کریم کا خاص قرب: حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی حضور سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا
میں تو آپ نبی کریم ﷺ کی قربت سے شرف پاتے ہی رہے لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ وصال
ظاہری کے بعد آپ کو نبی کریم ﷺ کا خاص قرب نصیب ہوا کہ روضہ رسول ﷺ کے قرب میں آپ کو
جگہ نصیب ہوئی۔
حیاتی
میں تو تھے ہی خدمتِ محبوبِ خالق میں
مزار
اب ہے قریبِ مصطفےٰ فاروق اعظم کا
آقا
ﷺ کی عمر سے محبت: نبی کریم ﷺ نے فاروق اعظم کی محبت کے بارے میں کیا
ہی خوب لب کشائی فرمائی کہ من ابغض عمر فقد ابغضنی ومن احبّ عمر
فقد احبّنی یعنی
جس نے عمر سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے
مجھ سے محبت کی۔ (معجم اوسط،5/102، حدیث: 6726)
عمر
بولتے تو باقیوں کو خاموش کروا دیا جاتا: حضرت سیدنا اسود رضی اللہ عنہ
بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: کہ یارسول اللہ! میں نے اپنے رب کی حمد
میں کچھ کلمات کہے ہیں اور آپکی بھی تعریف کی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد
فرمایا: بے شک تمہارا رب اپنی تعریف کو پسند فرماتا ہے۔ وہ کلمات مجھے بھی سناؤ جن
سے تم نے اپنے رب کی تعریف کی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں وہ کلمات سنانے لگا کہ ایک
مرد حاضر ہوئے اور اجازت طلب فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے خاموش کروا دیا۔ وہ
شخص داخل ہوئے کچھ دیر بات کرنے کے بعد چلے گئے۔ میں نے دوبارہ حمد کے کلمات سنانا
شروع کیے وہ پھر واپس آ گئے حضور ﷺ نے مجھے پھر خاموش کرا دیا۔ میں عرض گزار ہوا:
یارسول اللہ! یہ کون صاحب ہیں؟ جن کے لیے آپ نے مجھے خاموش کرا دیا۔ تو رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: یہ ایسا شخص ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا، یہ عمر بن خطاب ہے۔ (مسند
امام احمد، 5/ 303، حدیث: 15590)
شان
عمر فاروق:
کیا شان ہے حضرت عمر کی کہ ٭جن کے بولنے سے باقی
سب کو خاموش کروا دیا جاتا٭ جب آپ محبوبِ خدا سے
ہم کلام ہوتے تو محبوبِ خدا بھی آپ ہی کی طرف توجہ فرماتے ٭عمر وہ ہیں جن کے لیے آخری نبی ﷺ فرمایا: جس نے عمر سے بغض رکھا اس
نے مجھ سے بغض رکھا ٭عمر وہ ہیں جن کے بارے میں
آخری نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ٭عمر وہ ہیں جن کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عمر اہل
جنت کے چراغ ہیں ٭عمر وہ جن کے لیے فرمایا گیا یہ
وہ شخص ہے جو باطل کو نا پسند کرتا ہے ٭عمر وہ
ہیں جن کے لیے کہا گیا اللہ کی پسند عمر کی پسند ہے اور عمر کی پسند اللہ کی پسند
ہے ٭عمر وہ ہیں جن کو دنیا میں بھی قربِ مصطفےٰ
کی دولت نصیب ہوئی اور دنیا سے جانے کے بعد بھی قرب مصطفے میں جگہ ملی۔
اللہ کی ان پر
رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بخشش ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین
اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے ہمارے
معاشرے میں افواہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے یہ افواہیں بعض اوقات
افراد خاندانوں یہاں تک کہ پوری قوم کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی ہیں، قرآن و
سنت میں ہمیں اس حوالے سے واضح ہدایت دی گئی ہیں کہ ہم سنی سنائی باتوں پر یقین نہ
کریں اور تحقیق کے بغیر کوئی خبر آ گے نہ پھیلائیں، اللہ تعالیٰ سورۂ حجرات میں
ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا
اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶)
(پ
26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے
پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت میں نہ
صرف افواہوں کو پھیلانے سے منع کیا گیا ہے بلکہ باقاعدہ ایک اصول بیان کیا گیا ہے
تحقیق کے بغیر کسی خبر پر عمل نہ کیا جائے۔
یہی وہ وجہ ہے
جس سے افواہ پھیلتی ہے اگر ہر شخص اس آیت پر عمل پیرا ہو جائے تو افواہوں کے
پھیلنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے
لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرتا پھرے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
افواہوں
کے نقصانات: آ
ج کے دور میں خصوصا سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی موجودگی میں افواہیں بہت
تیزی سے گردش کر رہی ہیں اور ان کے نقصانات بھی شمار سے باہر ہیں معاشرتی بے چینی
اور خوف افواہیں اکثر خوف کی فضا قائم کرتی ہیں مثلا بیماریوں فسادات یا معاشی
بحرانوں سے متعلق غلط معلومات لوگوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتی ہے افواہوں کے
باعث کئی مقامات پر پرامن ماحول بد امنی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
تعلیمی
اور دینی اداروں پر بداعتمادی: بعض افواہ دینی تعلیمی اداروں کو بدنام
کرنے کے لیے پھیلا ئی جاتی ہیں جن سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور ادارے
معاشی اور مالی نقصان اٹھاتے ہیں۔
معاشی
نقصان: اسٹاک
مارکیٹ کاروبار یا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے متعلق پھیلائی گئی جھوٹی اطلاعات
عام آ دمی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
افواہوں پر
کان نہ دھریں از بنت محمد زاہد، جامعۃ المدینہ فیض مدینہ نارتھ کراچی
اللہ پاک قرآن
میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ
فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا
عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی
قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت مبارکہ
سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت
ہو یا کسی کے بارے میں بات ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو
کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ اگر بغیر تحقیق اس کی بات پر یقین کرلیں گے تو اس سے
بدگمانیاں اور فتنا و فساد پھیلنے کا خدشہ ہے۔
ایک اور جگہ اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ
الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-( سورہ النساء:04 آیت 83) ترجمہ: اور
جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بیٹھتے ہیں۔
اس آیت کو
سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ ملکی و بین الاقوامی معاملات اور
صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص
اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور
کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی
ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسی سازشیں، افواہیں اور خبریں دن
رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں
کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک
کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ ا لامان والحفیظ، کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔
کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی
افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے
سمجھے جانے والے ہمارے لوگ ان باتوں کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اسلام کو بدنام
کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ بات کہی، وہ پھیلتے پھیلتے دس
مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ
گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔ ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول
دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہل دانش اور سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے
وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ (صراط
الجنان، 2/260)
اس کے متعلق
ایک واقع ہے کہ ایک استاد اپنی کلاس میں آیا اور آگے بیٹھے ہوئے بچے کے کان میں
بولا کہ لاہور میں بس کے ساتھ ایک حادثہ ہوا ہے اور اس میں تین لوگ انتقال کرگئے
اور دو لوگ زخمی ہوئے اور کہا کہ یہ بات دوسرے بچے کو کان میں بتاؤ اور وہ دوسرے
کو بتائے گا اس طرح کر کے جب یہ بات سب سے آخری بچے کے پاس پہنچی تو استاد نے اس
سے کہا کہ اب یہ بات بلند آواز سے سب کو بتاؤ اس بچے نے کہا: لاہور میں بس کے ساتھ
ایک حادثہ ہوا جس میں دس لوگ انتقال کر گئے اور 15 لوگ زخمی ہوئے۔
اس واقعے سے
یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ افواہ اڑتی ہے اور لوگوں تک پہنچتی ہے تو لوگ اس میں اپنی
بات اور جھوٹ ملا دیتے ہیں جس سے بات بہت بڑی ہو جاتی ہے حالانکہ اتنی وہ بڑی بات
ہوتی نہیں ہے۔
حدیث مبارکہ
میں ہے: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی
کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تحقیق کیے بغیر)
بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
اس حدیث
مبارکہ میں بغیر تحقیق بات کو آگے بڑھانے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ جھوٹا
ہے اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق
کے بات کو آگے پہنچا دیتے ہیں جب کہ ہمارا دین اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے
کہ کوئی بات بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی
ہو، اسے ماننے اور اسے آگے پھیلانے سے منع کرتا ہے۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ
اگر ہمیں کو حدیث یا کوئی روایت ملے تو ہم اسے علما کے سامنے پیش کریں اور اس کا
حکم معلوم کریں۔
اسی طرح بعض
اوقات شیطان بھی انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا
ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی
کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس
کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم، ص 18، حدیث: 17)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّےانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے کے
تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت کی
خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔ (مراٰۃ المناجیح،6/477)
بغیر تحقیق
بات کو آگے پہنچانے کے نقصانات:
• جو بغیر
تحقیق بات کو آگے بڑھائے وہ اپنے آپ کو جھوٹ میں مبتلا کرتا ہے۔
• بغیر تحقیق
بات کے نتیجے میں کوئی مسئلہ یا اختلاف، لڑائی وغیرہ ہوتی ہے تو اس کا وبال بتانے
والے کے سر پر ہوتا ہے۔
• بلا تحقیق
بات کرنا واٹس ایپ کے دور میں زیادہ تیز ی سے پروان چڑھ رہا ہے۔جس کے نتیجے میں
لوگوں میں دشمنیاں،عداوتیں، لڑائیاں، بغض و حسد اور ناراضگی وغیرہ بڑھ جاتی ہے۔
• اگر وہ بلا
تحقیق بات ہمارے ملک یا شہر وغیرہ کی ہو تو اس کے نتیجے میں بات پھیلانے والے کو
قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
• اس طرح کوئی
شخص آکر کہے کہ فلاں نے آپ کے بارے میں کچھ کہا ہے تو وہ اس کی تحقیق کئے بغیر
اپنے دل میں دوسرے کے بارے میں بغض وعداوت پیدا کر دیتا ہے۔
• بلا تحقیق
بات کو لوگ آگے پھیلانے میں اپنا کردار خوب ادا کرتے ہیں اس وقت وہ بھول جاتے ہیں
کہ وہ کتنے بڑے گناہ میں اپنے آپ کو مبتلا کر رہے ہیں۔
اس لیے ہم کو
اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم بلا تحقیق کوئی بات آگے نہ بڑھائیں۔ جب
کوئی بات ہمارے پاس آئے تو اس کی تحقیق کی جائے پھر آگے بڑھائی جائے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں بھی سوچ سمجھ کر درست اور حقیقت حال کے مطابق محتاط انداز میں بات
کرنے والا بنائے، ہمیں خیر پھیلانے کا ذریعہ بنائے اور ہر طرح کے فتنہ وفساد کی
ترویج واشاعت سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ
افواہوں پر
کان نہ دھریں از بنت شہزاد احمد، جامعۃ المدینہ حبیبیہ دھوراجی کراچی
آج کے معاشرے
میں نظر دوڑائی جائے تو کوئی خطہ ایسا نظر آنا ناممکن ہے جہاں جھوٹی افواہوں کا
رواج نہ ہو۔ اب تو سوشل میڈیا پر بھی جھوٹی افواہوں کا ہونا عام ہے جسے لوگ بغیر
تحقیق کے آگے بڑھادیتے ہیں۔
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ
الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی
الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ-وَ لَوْ لَا
فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۳) (پ 5،
النساء: 83) ترجمہ کنز العرفان: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے
تو اسے پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور اپنے بااختیار لوگوں کی
خدمت میں پیش کرتے تو ضرور ان میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اس (خبر
کی حقیقت) کوجان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور
تم میں سے چند ایک کے علاوہ سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ
ملکی و بین الاقوامی معاملات اور صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا
حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے
پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی
سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے
ایسی سازشیں، افواہیں اور خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر
یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت
میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ ا لامان والحفیظ،
کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔ کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا
جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن
کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے سمجھے جانے والے ہمارے لوگ ان باتوں کو اسلام کے
نام پر پیش کرکے اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ
بات کہی، وہ پھیلتے پھیلتے دس مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں
لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔
ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہلِ دانش اور
سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور
رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ (صراط الجنان، 2/260)
یاد رکھیں!
مسلمانوں میں افواہیں چھوڑنا، طرح طرح کی خرابیاں ڈالنا گناہ کا کام ہے، ایسا نہیں
کرنا چاہیے لوگوں کو چاہیے جھوٹی خبریں، افواہوں پر کان نہ دھریں اس پر توجہ نہ دے
اپنے کام سے کام رکھے اور بغیر تحقیق کے ایسی باتوں کو آگے ہرگز نہ بڑھائے ورنہ
کوئی بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے اللہ پاک ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
آمین
حضرت حفص بن
عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی شخص کے جھوٹا
ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8،
حدیث: 5)
بازاری
افواہیں: جہاں
بہت سی جگہوں اور سوشل میڈیا پر افواہوں کا سلسلہ جاری ہے وہی بازاری افواہیں بھی
عام ہے بغیر تصدیق کے ہر ایک ایسی باتوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے جسکی کچھ
حقیقت نہیں۔
جیساکہ سیدی
اعلحضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بازاری افواہ قابل اعتبار
اور احکام شرع کی مناط ومدار نہیں ہوسکتی بہت خبریں بے سروپا ایسی مشتہر ہوجاتی
ہیں جن کی کچھ اصل نہیں یا ہے تو بہزار تفاوت اکثر دیکھا ہے ایک خبر نے شہر میں
شہرت پائی اور قائلوں سے تحقیق کیا تو یہی جواب ملاکر سنا ہے نہ کوئی اپنا دیکھا
بیان کرے نہ اس کی سند کا پتا چلے کہ اصل قائل کون تھاجس سے سن کر شدہ شدہ اس
اشتہار کی نوبت آئی یا ثابت ہوا تو یہ کہ فلاں کا فرمایا فاسق منتہائے اسناد تھا
پھر معلوم ومشاہد کہ جس قدر سلسلہ بڑھتا جاتا ہے خبر میں نئے نئے شگوفے نکلتے آتے
ہیں زید سے ایک واقعہ سنیے کہ مجھ سے عمرو نے کہا تھا عمرو سے پوچھئے تو وہ کچھ
اور بیان کرے گا۔بکر سے دریافت ہوا تو اور تفاوت نکلا۔ علی ھذا القیاس (فتاویٰ
رضویہ، 4/479)
ایسی بات جس
میں کسی مسلمان کی شکایت ہو یا اسکی سزا سے متعلق بات ہو تو پہلے اسکی تحقیق کرلی
جائے اسکے بعد ہی فیصلہ کیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹی بات ہو اور اگر وہ
جھوٹی بات ہوگی تو اس سے ایک مسلمان کو اذیت ہوگی اور مسلمان کو اذیت دینا ناجائز
و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
مشہور تابعی
مفسرحضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ مسلمان کو تکلیف دینے سے متعلق فرماتے ہیں: جہنمیوں
پرخارش مسلط کردی جائے گی تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتّی کہ ان میں سے ایک کی
(کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکارکر کہا جائے گا:اے
فلاں!کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو
مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ
فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا
عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی
قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس
کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ
تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ
بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براء ت ظاہر
ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ (صراط الجنان، 9/409)
دین اسلام کی
کیا خوبصورت تعلیمات ہیں کہ اسلام ان کاموں سے رکنے کا حکم دیتا ہے کہ جو معاشرتی
امن کے خاتمے کا باعث ہیں اور ان کاموں کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و اتفاق
کا گہوارہ بن سکے۔لہٰذا گھر بار کوچہ و بازار میں بات کی تصدیق اور حقیقت حال جانے
بغیر انسان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے کہ جس سے بعد میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا
پڑے۔
شیطان
کا جھوٹی خبریں پھیلانا: شیطان بھی بعض اوقات انسانی شکل میں آکر
جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان
آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر
دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا
جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم،
ص 18، حدیث: 17)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّے ”انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے“
کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت
کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔
جھوٹی افواہوں
کے نقصانات اور ذہنی اور ماحولیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے عقل کا تقاضاہے کہ ایسی
سنسنی اور دہشت پھیلانے والی خبروں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے اور نہ
ہی انہیں آگے بڑھایا جائے اور اگر آگے کسی کو بتانا ضروری ہی ہو تو پہلے معلومات
کے ذرائع کو دیکھ لیا جائے کہ وہ کس حد تک بھروسے کے لائق ہیں۔
افواہ
کے معنی: افواہ
عربی زبان کا لفظ ہے جو فوهٌ سے بنا ہے اردو زبان میں بھی مستعمل ہے، جس کے معنی
ہیں بے اصل بات مشہور کرنا، جھوٹی خبر مشہور کرنا، اڑتی ہوئی خبر، غیر یقینی و
نامعتبر لوگوں کی خبریں۔
دین
اسلام میں افواہ: دین
اسلام نے افواہ کو برائی گناہ اور ایک معاشتی برائی تصور کیا ہے اور اس برائی کو
سختی کے ساتھ ختم کرنے کی تعلیم دی ہے اور ایسے لوگوں کو دنیا و آخرت کے انجام بد
سے باخبر بھی کیا ہے، عوام الناس میں سے بعض کا یہی مشغلہ ہوتا ہے کہ وہ صبح سے
شام تک کوئی نہ کوئی افواہ پھیلاتے رہتے ہیں اور انسانی سماج بالخصوص مسلم امت کو آزمائشوں،
اضطراب و کرب سے دوچار کرتے ہیں۔ اس دور میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جدید میڈیا و
ذرائع ابلاغ و خبر رساں ادارے بھی اس کے محرک و علمبردار ہیں جس کے سبب معاشرتی
زندگیاں درہم برہم ہیں، بنا کسی تحقیق و تصدیق کے کوئی نہ کوئی خبر مشہور کردی
جاتی ہے کہیں بھی فسادات کی خبریں مشہور کردی جاتی ہیں، کسی کا الزام کسی کے سرڈال
دیا جاتا ہے، کسی کی بیماری یا انتقال کی خبریں عام کردی جاتی ہیں ایسی خبروں سے
انسانیت مجروح ہوجاتی ہے اور معاشرے میں کشمکش شروع ہوجاتی ہے، خاندان ٹوٹ جاتے
ہیں، فرقہ وارانہ منافرت پھیل جاتی ہے، فساد برپا ہو جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا:
افواہ
تھی کہ میری طبیعت خراب ہے لوگوں
نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
فاسق
کی خبر کی تحقیق: دین
اسلام نے اس معاملے میں بات کی تعلیم دی ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا
بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ
26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے
پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت میں
ایک اسلامی قانون بیان کیا گیا ہے کہ دین اسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو معاشرتی
امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و
سکون کا گہوارہ بنتا ہے، جیسے مذکورہ بالا آیت میں بیان کئے گئے اصول کو اگر ہم آج
کل کے دور میں پیش نظر رکھیں تو ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتاہے کیونکہ
ہمارے ہاں لڑائی جھگڑے اورفسادات ہوتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ جب کسی کو کوئی اطلاع
دی جاتی ہے تووہ اس کی تصدیق نہیں کرتا بلکہ فوراً اس پر رد عمل کرتا ہے۔
ہر
بات آگے پھیلانا: یوں
ہی حدیث مبارکہ میں بھی ہمیں اس کے متعلق خبردار کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرسنی سنائی بات آگے
بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
نگہبان
فرشتے: آج
کل کے سوشل میڈیا کے جدید ماحول میں مشہور ہونے کے لیے انسان بغیر تحقیق کے سچی
اور جھوٹی باتیں آگے پھیلاتے چلے جاتے ہیں کوئی بھی بات آگے پہنچانے میں بندے کو
بہت غور تفکر کرنا چاہئے کیونکہ کراما کاتبین ہمارے ہر قول فعل کو لکھ رہے ہیں،
جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ
عَتِیْدٌ(۱۸) (پ
26، ق:18) ترجمہ: وہ زبان سے کوئی بات نہیں نکالتامگر یہ کہ ایک محافظ فرشتہ اس کے
پاس تیار بیٹھاہوتا ہے۔
اکثر وہ باتیں
بے معنی فضول یا جھوٹی ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں جھوٹوں کے متعلق
ارشاد فرماتا ہے: فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) (پ 3،
اٰل عمران: 61) ترجمہ کنز العرفان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔
جھوٹی افواہیں
پھلانے والوں کو اس آیت مبارکہ سے عبرت حاصل کرنی چاہئے، لہٰذا ہر فرد پر لازم ہے
کہ وہ افواہوں کے پھیلاؤ میں حصہ نہ لے بلکہ ان کی روک تھام میں کردار ادا کرے۔
حکومت، میڈیا اور سماجی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے
عوام کو درست اور مصدقہ معلومات فراہم کریں تاکہ افواہ ساز عناصر کی حوصلہ شکنی
ہو۔
افواہیں صرف
الفاظ نہیں ہوتیں، یہ وہ چنگاریاں ہیں جو پورے معاشرے کو جلا سکتی ہیں۔ ان کے سد
باب کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک پرامن، باشعور اور
مہذب معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔
افواہوں پر
کان نہ دھریں از بنت محمد اشرف عطاریہ، جامعۃ المدینہ 137 روڈ فیصل آباد
افواہیں
معاشرے کی وہ بیمار سوچیں ہیں جو حقیقت کے بغیر صرف سننے، پھیلانے اور بدگمانی
پیدا کرنے کے لیے وجود میں آتی ہیں۔ افواہوں پر کان دھرنے سے نہ صرف فرد کی سچائی
سے دوری بڑھتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں انتشار، بدگمانی، فساد اور بے سکونی پیدا
ہوتی ہے۔ دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں سچائی، تحقیق اور حسن ظن
کی تعلیم دیتا ہے، اور بلا تحقیق کسی بات کو قبول کرنے یا پھیلانے سے سختی سے
روکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ
قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ
فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا
عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی
قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت میں
واضح طور پر تاکید کی گئی ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر عمل یا یقین نہ کیا جائے بلکہ
تحقیق کی جائے۔ افواہ اکثر فاسق یا غیر معتبر ذرائع سے آتی ہے، اور اگر انسان بغیر
تحقیق اس پر کان دھرتا ہے تو وہ خود بھی گناہگار ہوتا ہے اور دوسروں کے حقوق بھی
پامال کر دیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی
کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کرتا پھرے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
یہ حدیث
افواہوں کے پھیلاؤ کی جڑ پر ضرب لگاتی ہے۔ جب انسان بغیر تحقیق بات کرتا ہے، خاص
کر افواہ، تو وہ جھوٹا شمار ہوتا ہے۔
بزرگان
دین کا طرز عمل: بزرگان
دین ہمیشہ افواہوں سے بچنے کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ
اللہ فرمایا کرتے تھے: اگر کوئی تمہارے پاس کسی کے خلاف بات لائے تو پہلے یہ دیکھو
کہ وہ شخص تمہارے سامنے کسی دوسرے کے بارے میں بھی ایسی بات کرتا ہے۔
حضرت امام
غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ بدگمانی، تجسس، غیبت اور
افواہوں کو دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ یہ دلوں میں کدورت، نفرت اور
فتنہ پیدا کرتی ہیں۔
افواہوں کے
نقصانات: شخصیت کشی اور عزتیں پامال ہوتی ہیں، معاشرے میں بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے،
فرقہ واریت اور فتنہ جنم لیتا ہے، لوگوں کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں، فتنہ و
فساد اور بدگمانی پروان چڑھتی ہے۔
اسلام ہمیں
تحقیق، سچائی اور خیر خواہی کا سبق دیتا ہے۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر لینا نہ
صرف جہالت کی نشانی ہے بلکہ معاشرتی فتنوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ قرآن و
سنت کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ افواہوں پر کان نہ دھریں، نہ ان کو آگے بڑھائیں
اور نہ ان کا شکار بنیں۔ یوں ہم ایک پرامن، باخبر اور سچائی پر قائم معاشرہ قائم
کر سکتے ہیں۔
Dawateislami