حضور کی فاروق
اعظم سے محبت از بنت عبدالرشید،جامعۃ المدینہ ام حفصہ رائیونڈ لاہور
حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کے ان جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنہیں
نبی کریم ﷺ کی خاص محبت اور قربت حاصل تھی۔ آپ کا لقب الفاروق نبی کریم ﷺ نے عطا
فرمایا، جس کے معنی ہیں: حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے پر خوشی کا اظہار فرمایا اور متعدد مواقع پر ان کی
رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔
قبولِ
اسلام اور نبی کریم ﷺ کی خوشی: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول
کرنے سے قبل مسلمان خفیہ طور پر عبادت کرتے تھے، لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا
تو مسلمانوں کو تقویت ملی۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی تھی: اے اللہ! اسلام کو ان دونوں
میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو، اس کے ذریعے عزت عطا فرما: ابو جہل یا عمر
بن خطاب کے ذریعے۔ (ترمذی، 5/383، حدیث: 3701)
اس دعا کے بعد
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور نبی کریم ﷺ کی محبت و قربت حاصل کی۔
نبی
کریم ﷺ کی گواہی: جب
سے عمر مسلمان ہوئے ہیں، ہم ہمیشہ باعزت رہے ہیں۔ (بخاری، 2/526، حدیث: 3684)
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: بیشک اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ (ترمذی، 5/383،
حدیث: 3702)
یہ حدیث مبارک
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی اہمیت اور نبی کریم ﷺ کی ان سے محبت کی واضح
دلیل ہے۔
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں، ابوبکر اور
عمر ایک ساتھ تھے، تو میں نے ایسا ایسا کیا۔
یہ انداز نبی
کریم ﷺ کی حضرت عمر سے قریبی تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔