سرزمین عرب پر
اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان پر ظلم و
ستم کرنا بھی عام تھا دین اسلام نے نہ صرف یتیموں سے ہونے والے برے سلوک کی مذمت
کی بلکہ نرمی شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا حکم دیا۔
یتیم
کسے کہتے ہیں؟
وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہوگیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/ 416) بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے
ہیں جب تک بالغ نہ ہو جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔
اسلام نے
مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی
سختی سے تاکید کی ہے اسلام مکمل نظام حیات ہے اس میں معاشرے کے ہر فرد کی حقوق کا
خیال رکھا گیا ہے، لیکن آج کل ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے
دیکھا جاتا ہے اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے
بےپناہ حقوق متعین کیے ہیں اور آج کل یتیموں سے ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار
گرم ہے دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتی کہ وہ خونی
رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں کوئی ان کا پرسان حال
نہیں رہتا اور ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام
ہے۔
اللہ پاک نے قرآن
پاک میں یتیموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا
تَقْهَرْؕ(۹) (پ
30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اور ایک اور جگہ ارشاد
فرمایا:
وَ اٰتُوا
الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا
الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا
كَبِیْرًا(۲) (پ
4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ
کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ
ہے۔
یتیموں کے
حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن
پاک میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں سے حسن سلوک اور
ان کے اموال کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی۔ حدیث مبارکہ میں
بھی سرکار ﷺ نے یتیموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: جو یتیم کے سر پر اللہ پاک کی
رضا کے لیے ہاتھ پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرا ہر بال کے بدلے اس کے لیے
نیکیاں ہیں اور جو شخص سے یتیم لڑکی یا لڑکے کے ساتھ بھلائی کرے (دو انگلیوں کو
ملا کر فرمایا) میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔ (مسند امام احمد، 8/272، حدیث: 22215)
حکیم الامت
مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ ثواب تو خالی ہاتھ پھیرنے کا ہے
جو اس پر مال خرچ کرے اس کی خدمت کرے اسے تعلیم و تربیت دے سوچ لو کہ اس کا ثواب
کتنا ہوگا۔ (مراۃ المناجیح، 6/562)
یتیموں
سے حسن سلوک کی صورتیں: یتیموں سے حسن سلوک کی کئی صورتیں ہیں، مثلا ان کی
پرورش کرنا، کھانے پینے کا انتظام کرنا، اچھی تعلیم و تربیت کرنا، اس نے یتیموں کے
بارے میں کیسی عمدہ تعلیم دی ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ: مسلمانوں
کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور
مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔
(ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)
اللہ پاک نے قرآن
مجید میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ
اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا
یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ
سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ
4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ
میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
فرمان: مصطفی ﷺ:
یتیم کا مال ظلماً کھانے والا قیامت کے روز اس طرح اٹھے گا کہ اس کے منہ کان آنکھ
اور ناک سے آگ کا شعلہ نکلتا ہوگا جو اسے دیکھے گا پہچان لے گا کہ یہ یتیم کا ناحق
مال کھانے والا ہے جس نے یتیم کا مال کھایا وہ ظن غالب کا اعتبار کرتے ہوئے اتنا
مال ان کو لوٹائے اور ساتھ میں ان سے معافی بھی مانگے یاد رہے کہ یتیموں کا حق کسی
کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہو سکتا بلکہ یتیم خود بھی معاف نہیں کر سکتے نہ کہ ان
کی معافی کا کچھ اعتبار ہے ہاں یتیم بالغ ہونے کے بعد معاف کریں تو اس کا معاف
ہوسکے گا۔ (تفسیر طبری، 3/615)