مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد اشرف، جامعۃ المدینہ سمندری فیصل آباد

ختمِ نبوت اسلام
کا ایک بنیادی اور قطعی عقیدہ ہے جس کا تحفظ ہر مسلمان پر لازم ہے۔ قرآن مجید نے
نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین (تمام انبیاء کے خاتم) قرار دیا، اور خود رسول اللہ ﷺ
نے متعدد احادیث میں یہ بات واضح فرما دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
جب رسول اللہ
ﷺ کا وصال ظاہری ہوا اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹے مدعیان نبوت نے سر اٹھایا تو اس
فتنے کا سب سے پہلا اور بھرپور رد عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے آیا۔ ان
عظیم شخصیات نے اپنی جانیں قربان کر کے، اپنی تلواریں نیام سے نکال کر اور اپنی
زبانوں سے کھل کر اعلان کر کے ثابت کیا کہ ختمِ نبوت کا دفاع ایمان کا تقاضا ہے۔
ان کے نزدیک
یہ مسئلہ صرف ایک نظریاتی بحث نہ تھا، بلکہ ایمان و کفر کا فیصلہ کن معیار تھا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین اور جھوٹے نبیوں کے خلاف
جہاد کو سب سے پہلی ترجیح دی، حالانکہ اس وقت امت کو کئی دوسرے بڑے مسائل درپیش
تھے۔
نبیّ کریم ﷺ کے
زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار دو عالم ﷺ نے
اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لئے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و
نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہوکر اسے قتل
کردیا۔ رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینۂ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں
صحابۂ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہل بیت میں سے
ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے، پھر فرمایا : فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص
الکبریٰ، 1 / 467)
مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے
میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے
لئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر
بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں
700 حافظ و قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے
20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل
فی التاریخ، 2 / 218 تا 224)
مفکر اسلام
حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس
سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی
کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل
ہیں۔ (ختم نبوت، ص83)
ختمِ نبوت کے
معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے
اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریم ﷺ اللہ
پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر
کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم نے ختمِ نبوت کے عقیدے کی حفاظت کے لیے جو قربانیاں دیں، وہ رہتی
دنیا تک مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے نہ صرف جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف
جہاد کیا بلکہ پوری امت کو یہ پیغام دیا کہ عقیدہ ختمِ نبوت پر کوئی سمجھوتہ ممکن
نہیں۔ حضرات صحابہ نے جس عزم، غیرت ایمانی اور قربانی کا مظاہرہ کیا، وہ اس بات کا
ثبوت ہے کہ ختمِ نبوت ایمان کا بنیادی ستون ہے، اور اس کے تحفظ کے لیے ہر دور کے
مسلمانوں کو ویسی ہی بیداری، قربانی اور استقامت دکھانی ہوگی۔

سرکار مدینہ ﷺ
کے زمانے یا حضور اکرم ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے، یہ دین
اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی
شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔
صحابہ کرام
علیہم الرضوان جہاں دیگر معاملات میں آقا کریم ﷺ کے وفادار رہے اسی طرح ختمِ نبوت کے
تحفظ میں بھی نہایت اہم کردار ادا کیا اور نبوّت کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف جہاد
اور سخت کاروائیاں کیں،خواہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ عہد نبوی میں کیا یا اس کے
بعد،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا تحفظ ختمِ نبوت میں جو عظیم کردار رہا اس کا
اندازہ ذیل میں بیان کی گئی روایات سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ
حضور خاتم
الانبیا کے دور مبارک میں اسود عنسی نامی ایک بدبخت نے نبوّت کا دعویٰ کیا، 10 سن ہجری یمن میں اس کذاب کا ظہور ہوا
اس کا پورا نام عبھلہ بن کعب عنسی اور لقب ذوالخمار تھا۔ بعض نے ذوالحماربھی ذکر
کیا ہے۔ اس کے قتل کیلئے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کو خود نبی کریم ﷺ نے ایک
خصوصی مہم پر روانہ فرمایا حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ اسود کے شہر صنعاء
(یمن)میں پہنچ کر چھپ گئے اور ایک رات اسود کی رہائش گاہ کی دیوار میں نقب لگائی
اور بڑی جدوجہد کے بعد اسود عنسی کو جہنم واصل کیا۔
اسی طرح طلحہ
اسدی یہ بھی حضور ﷺ کے زمانہ میں مرتد ہوگیا تھا اور پھر نبوت کا دعویٰ کیا۔ نبی
کریم ﷺ نے اس کے قتل کیلئے حضرت ضرار بن ازور کو بھیجا تھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی
رحلت کے بعد اس شخص کا معاملہ انتہائی سنگین ہوگیا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ کی قیادت میں اس کیخلاف جہاد کیا گیا۔
اسی طرح امیر
المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کفار و مرتدین کے خلاف
لڑی جانے والی جنگوں میں سے ایک اہم جنگ جنگ یمامہ بھی ہے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب اور اس کے متبعین کے خلاف لڑی گئی، مفکر اسلام
حضرت علّامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے دس
سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خون ریز تھی
کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ کرام شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی
شامل ہیں۔ (ختم نبوت، ص83)
اس جنگ میں
حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوئے اور آپکو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ نبوت کا
جھوٹا دعویدار مسیلمہ کذاب آپ ہی کے
ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کے بعد حضرت وحشی رضی اللہ عنہ
فرمایا کرتے تھے : اگر میں نے (اسلام لانے سے قبل ) بہترین انسان ( یعنی حضرت حمزہ
رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا ہے تو ( اسلام لانے کے بعد ) بدترین انسان ( یعنی
مسیلمہ کذاب ) کو بھی قتل کیا ہے۔ (فیضان صدیق اکبر، ص 388)
نہ صرف مرد
بلکہ بنو تمیم کے قبیلہ تغلب سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے بھی حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا۔اور بنی تغلب کے بعض
سردار بھی اس کے ہمراہ ہوگئے۔عراق سے بڑا لشکر ساتھ لائی اور مدینہ پر قبضہ کرنے
کا منصوبہ بنایا۔ یہ پھر مسیلمہ کذاب سے مل گئی اور اس سے نکاح کرلیا۔ حضرت خالد
بن ولیدرضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف بھی جہاد کیا۔
ان تمام
روایات و واقعات کے علاوہ دیگر بھی کئی روایات ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ
صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیّ
کریم ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں
ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس کے ساتھ کسی طرح کی نرمی نہیں برتی
جائے گی بلکہ اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
اللہ کریم صحابہ
کرام علیہم الرضوان کے صدقے ہمیں بھی عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے جان مال
اولاد سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از ام ہانی،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

خاتم کا مطلب
ہے، مہر لگانے والا اور خاتم النبیین کا معنیٰ سب سے آخری نبی، جس کے بعد کوئی نبی
نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپﷺ پر
نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا
رسول نہیں آئے گا۔ یہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، یہ عقیدہ قرآن و
سنت سے ثابت ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، جو کوئی حضور پر نورﷺ کی نبوت
کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے
خارج ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ
رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ
اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب:
40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
نبوت آپ پر
ختم ہو گئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی، حتیٰ کہ جب حضرت
عیٰسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پا چکے ہوں گے، مگر نزول کے بعد
نبی کریمﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہونگے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے
قبلہ یعنی کعبہ معطمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔(خازن، 3/503)
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے
انبیا کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے
ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ
کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا:میں(قصر نبوت
کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (مسلم، ص 1255، حدیث: 2286)
نہیں
ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی
وہ
ہیں شاہ رسل ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں
لگا
کر پشت پر مہر نبوت حق تعالیٰ نے
انہیں
آخر میں بھیجا خاتمیت اس کو کہتے ہیں
ختمِ
نبوت اور صحابہ کرام کا کردار: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر المؤمنین
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریمﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا
دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے
مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد
کیا جاتا ہے، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و
قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار لوگ
ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ،
2 / 218 تا 224)
مفکر اسلام
حضرت علامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺ کے دس
سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی
کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل
ہیں۔ (ختمِ نبوت ص،83) ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام
نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ
واضح کردیا کہ حضور نبیّ کریمﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں، حضور اکرمﷺ کے
بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلان جنگ
کیا جائے گا۔
حضرت
عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں
کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذّاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے
میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ، حضرت
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے
جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق اور لآ الٰہ الّا اللہ محمّدٌ رّسول اللہ کی
گواہی پیش کرو۔ جو اسے قبول کرلے اور مسیلمہ کذّاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے
اسے قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذّاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کردینا۔ ان میں
سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذّاب کے مذہب
پر رہے تو ان کو قتل کردیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8 / 350، رقم : 16852)
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت عمران محمد،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

صحابہ کرام کا
کردار نبوت کے مسئلے میں بہت اہم اور واضح ہے۔ انہوں نے اس عقیدے کی حفاظت اور
ترویج کے لیے اپنی جانوں اور اموال کی قربانی۔
ختمِ
نبوت کا عقیدہ: صحابہ
کرام کا پختہ عقیدہ تھا کہ نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے
بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نبوت کے حوالے سے صحابہ کرام کا کردار درج ذیل ہے۔
جھوٹے
نبیوں کا مقابلہ: جب
مسیلمہ کذاب اور دوسرے جھوٹے نبیوں نے نبوت کا دعوی کیا تو صحابہ کرام نے ان کے
خلاف جہاد کیا اور ان کے فتنے کو پھیلنے سے روکا۔
مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے
میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے
لیے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر
بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جامع شہادت نوش فرمایا جن
میں سے 700 حافظ و قاری قران صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر
کے بھی ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل
فی التاریخ، 2/218تا 224)
مفکر اسلام
حضرت علامہ شاہ تراب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم ﷺ کے 10
سال مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کل 74 جنگیں ہوئی جن میں کل 259 صحابہ
شہید ہوئے جبکہ مسیلمہ کذاب کے خلاف جو جنگ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی کہ
صرف اس ایک جنگ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے جن میں سے 700 حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ (ختم
نبوت، ص 83)
ختمِ نبوت کے
معاملے میں جنگ یمامہ میں 24 ہزار صحابہ کرام نے شریک ہو کر اور 1200 صحابہ کرام
نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنا عقیدہ واضح کر دیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ
پاک آخری نبی اور رسول ہیں حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا اور اگر
کوئی نیا نبی ہونے کا دعوی کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
حضرت
فیروز دیلمی کا جذبہ: نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن
میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار دو عالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے
لیے صحابہ کرام سے فرمایا: اسے نست و نابود کر دو حضرت فیروز دیلمی نے اس کے محل
میں داخل ہو کر اسے قتل کر دیا۔ رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ منورہ
میں مرض وصال کی حالت میں صحابہ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور
اس سے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا پھر فرمایا: یعنی
فیروز کامیاب ہو گیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/467ملخصا)
حضرت
عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں
کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے
میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق اور لا الٰہ الا الله محمد رسول الله کی
گواہی پیش کرو جو اسے قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے برءات وعلیحدگی اختیار کرے
اسے قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں
سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب
پر رہے تو انہیں قتل کر دیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8/350،رقم: 16852)
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از اخت فیصل،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

حضور ﷺ خاتم
النبیین ہے آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی مختلف زمانوں میں بہت سے کذاب نے
نبوت کا دعویٰ کیا جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور بہت سے جھوٹوں نے تو ان نبوت
کے جھوٹے دعوے داروں کے ساتھ صحابہ کرام، تابعین، تبعِ تابعین، صالحین اور علمائے
کرام نے مختلف زمانوں میں جنگ لڑ کر، اعلانات کر کے اور دیگر طریقے اپنا کر عقیدہ ختمِ
نبوت کی حفاظت کی تو آئیے عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے چند صحابہ کرام کا
کردار ملاحظہ فرمائیں:
حضرت
ابوبکر صدیق، خالد بن ولید اور بیشتر صحابہ کرام کا کردار: مسلمانوں کے
پہلے خلیفہ، امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں نبوت کا جھوٹا
دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکار وں سے جنگ لڑنے کے لیے صحابی رسول
خالد بن ولید کی سربراہی میں 24 ہزار صحابہ کرام کا لشکر بھیجا گیا جس میں حافظ و
قاری قرآن صحابہ کرام بھی شامل تھے انہوں نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر کے
ساتھ جنگ کی، تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس
جنگ میں 1200 صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ وقاری قرآن
صحابہ کرام تھے جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور
اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ،2/218 تا 224)
جنگ یمامہ میں
24 ہزار صحابہ کرام نے شریک ہو کر 1200 نے جام شہادت نوش کر کے عقیدہ ختمِ نبوت کی
حفاظت کی اور امت کو درس دیا کہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے خلاف جنگ کریں۔
حضرت
فیروز دیلمی کا کردار: حضرت فیروز دیلمی ایک صحابی رسول تھے جو دسویں سال
ایمان لائے وہ نجاشی کے بھانجے تھے اور یمن میں آباد تھے اور انہوں نے ہی سب سے
پہلے ایک نبوت کے جھوٹے دعوے دار کو قتل کیا، چنانچہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود
عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا سرکار دوعالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے
لوگوں کو بچانے کے لیے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست ونابود کردو حضرت فیروز
دیلمی نے اس کے محل میں داخل ہو کر اسے قتل کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے
غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں مرض وفات کی حالت میں صحابہ کرام کو خبر دی
کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا
ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا: فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص کبریٰ 1/467)
حضرت
عثمان غنی کا کردار: مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کے دور میں حضرت عبداللہ
بن مسعود نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کی
تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت
عثمان غنی کو اس بارے میں خط لکھا۔
حضرت عثمان
غنی نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی
گواہی پیش کرو جو اسے قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے
قتل نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے
کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر
رہے تو ان کو قتل کر دیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، 8/350، رقم: 16852)
حضرت عثمان
غنی کے اس خط اور صحابہ کرام کے اس عمل سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جو نبوت کا جھوٹا
دعویٰ کرے یا دعویٰ کرنے والوں کی پیروی کرے تو اول اس پر اسلام پیش کیا جائے تو
اگر وہ مان لیں اور ایمان لے آئے تو چھوڑ دیا جائے اور اگر ایمان نہ لائے تو اس پر
بالکل بھی رحم نہ کھایا جائے اور اسے قتل کر دیا جائے۔
حضرت
ثمامہ کا قول: صحابی
رسول حضرت ثمامہ بن اثال نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب سے بے حد نفرت کرتے
تھے ایک مرتبہ آپ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کیے: محمد
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد کوئی نبی ہے جس طرح اللہ
پاک کی الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت میں کوئی شریک
نہیں ہے۔ (ثمار القلوب فی المضاف و المنسوب،1/261)
عقیدہ ختمِ
نبوت میں صحابہ کرام کا بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے جسے اس مختصر تحریر میں بیان
نہیں کیا جا سکتا۔
مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت تنویر، جامعۃ المدینہ اگوکی سیالکوٹ

اللہ پاک قرآن
مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ
رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ
اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب:
40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
اس آیت مبارکہ
میں خاتم النبیین کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ آخری نبی ہیں کہ
اب آپ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے
بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو ں گے تو
اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے
اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز
پڑھیں گے۔ (خازن، 3/ 503)
نبی
اکرم ﷺ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے: یاد رہے کہ حضور اقدس ﷺ کا آخری نبی
ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث و اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ قرآن مجید کی
صریح آیت بھی موجود ہے اور احادیث تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اجماع
قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم ﷺ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد
کوئی نبی ہونے والا نہیں۔ جو حضور پر نور ﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا
ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس
طرح لا الٰہ الّا اللہ ماننا، اللہ سبحٰنہٗ کو احد، صمد، لا شریک لہ (یعنی ایک، بے
نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرض اوّل و مناطِ ایمان ہے، یونہی محمد
رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید
کی بعثت کو یقینا محال وباطل جاننا فرض اجل وجزءِ ایقان ہے۔ وَ لٰكن رّسول اللہ و خاتم
النّبیّٖن
نص قطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف
احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلّد فی النیران
(یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ
پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تردّد
کو راہ دے وہ بھی کافر بین الکافر جلیّ الکفران (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر
روشن) ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 15/ 630)
اب اس مسئلہ ختمِ
نبوت کے مضمون پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال ذکر کیے
جائیں گے جن کے پڑھنے سے یقینا عقیدہ ختمِ نبوت کو مزید تقویت و پختگی ملے گی ان
شاءاللہ۔ ختمِ نبوت صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین، علمائے کاملین
اور تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔
حضرت
فیروز دیلمی کا جذبہ: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن
میں نبوت کا دعویٰ کیا، سرکار اقدس ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لیے
صحابہ کرام سے فرمایا : اسے نیست و نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے
اس کے محل میں داخل ہوکر اسے قتل کردیا۔ آقا ﷺ نے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینہ
منورہ میں مرض وصال کی حالت میں صحابہ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا
اور اسے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے۔ پھر فرمایا: فاز
فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوگیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/ 467 ملخصا)

لاپروائی ایک
اردو لفظ ہے جس کا مطلب ہے بے احتیاطی، بے فکری، یا عدم توجہ۔ یہ اس وقت استعمال
ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی کام، معاملے یا ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہ لے، یا اس کے
نتائج کی پروا نہ کرے۔
آج آپ کے
سامنے ایک نہایت اہم اور سبق آموز موضوع ہے اور وہ ہے لاپروائی ایک خاموش قاتل۔
زندگی ایک
قیمتی نعمت ہے اور اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انسان کو شعور، ذمہ داری، اور
سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سے لوگ ایسی لاپروائی کا
شکار ہو جاتے ہیں جو آہستہ آہستہ ہماری کامیابی، خوشی اور سکون کو کھا جاتی ہے اسی
لیے اس کو ایک خاموش قاتل کا نام دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسی
عادت ہے جو بظاہر معمولی لگتی ہے، مگر اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ جسے اس
فرضی حکایت سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے:
فرضی
حکایت: گاڑی
تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔نوجوان گاڑی چلاتے ہوئے چند لمحوں کیلئے
اپنے موبائل فون پر آنے والے پیغامات (Messages) کا جائزہ لیتا اور پھر دوبارہ سامنے دیکھنے
لگتا،انجام کی پروا کئے بغیر کچھ دیر تک وہ اسی میں مگن رہا، بالآخر عین اس لمحے
جب نوجوان کی توجہ موبائل فون کی طرف تھی، اچانک مخالف سمت سے ایک تیز رفتار گاڑی
نمودار ہوئی اور نوجوان کے سنبھلنے سے پہلےدونوں گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرا چکی
تھیں۔
اس سے ملتے
جلتے واقعات آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔ ہماری ذرا سی غفلت اور لمحہ بھر کی
لاپروائی کا نتیجہ بھیانک ہوسکتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی ہم لاپروائی کرنے سے باز
نہیں آتے۔
لا
پروائی کے نقصانات: کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ صرف وقت کی لاپروائی کی
وجہ سے کتنے لوگ اپنی منزل تک پہنچنے سے محروم ہو جاتے ہیں؟ کتنے طالبِ علم امتحان
میں فیل ہو جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ انہوں نے وقت پر تیاری نہیں کی؟ کتنے مریض صرف
اس لیے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ ڈاکٹر نے ذرا سی لاپروائی کی؟
لاپروائی صرف
ذاتی زندگی میں ہی نہیں، بلکہ معاشرتی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی نقصان
کا باعث بنتی ہے۔ ایک استاد اگر تعلیم دینے میں لاپروائی کرے تو ایک پوری نسل کا
مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ایک انجینئر اگر پل بنانے میں لاپروائی کرے تو
سینکڑوں جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔
ہمیں یہ بات
سمجھ لینی چاہیے کہ لاپروائی صرف آج کا نقصان نہیں بلکہ آنے والے کل کا بھی دشمن
ہے۔
جیسے اگر ہم
آج اپنے فرائض و واجبات میں لاپروائی کریں گے تو یہ دنیا و آخرت دونوں میں اللہ اور
اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہو گا اس لیے اپنے کل کو بہتر کرنے کے لیے آج محنت
کرنی ہو گی۔
انجام
پر غور کیجئے! لاپروائی
ایک خطرناک عادت ہے اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس کے انجام پر غور کیجئے! مثلاً
حصول علم دین سے لاپروائی کا انجام جہالت ہے،وقت کی قدر نہ کرنے کا انجام حسرت اور
پچھتاوا ہے اورڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت ہے۔بہرحال دینی امور
ہوں یا دنیوی معاملات ہر نوجوان کو چاہئے کہ لاپروائی کی عادت ختم کر کے احساس
ذمّہ داری پیدا کرے۔تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکے۔
لاپروائی
سے بچنے کے اسباب: ہمیں خود کو منظم بنانا ہوگا، وقت کی قدر کرنی ہوگی
اور ہر کام کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ہر کام کو کرنے سے پہلے اس کے نتائج پر غور
کر لینا چاہیے تاکہ بعد کے مسائل سے بچا جاسکے۔

لاپروائی کا
مطلب ہے غفلت برتنا، دھیان نہ دینا یا بے توجہی دکھانا۔ لا پروائی غیر ذمہ داری کے
زمرے میں بھی آتی ہے۔ یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی کام، فرض، یا
تعلق میں سنجیدگی، توجہ یا ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرےجیسے
نماز میں
لاپروائی کرنا، وقت پر نہ پڑھنا یا دھیان نہ دینا۔
رشتوں میں
لاپروائی کرنا کسی اپنے کا خیال نہ رکھنا، جذبات کو نظرانداز کرنا۔گھریلو ذمہ
داریوں میں لاپروائی برتنا۔
کام میں
لاپروائی کرنا،کام کو صحیح طریقے سے نہ کرنا یا تاخیر کرنا توجہ اور اہمیت نہ دینا
یا کام کی نوعیت کے حساب سے اسکو نہ کرنا۔
کسی عہدہ یا
تنظیمی ذمہ داری میں لا پروائی کرنا،وقت پہ نہ پہنچنا، کام کو وقت پہ مکمل نہ کرنا
یا حساس نوعیت کی معلو مات کی حفاظت نہ کرنا یا ادارے کے اصو لوں کو نظر انداز
کرنا وغیرہ،اس طرح کی لاپر وائیاؔں بڑے نقصانات کا سبب بنتی ہیں اس لیے
لاپروائی کا
نتیجہ اکثر نقصان، افسوس یا تعلقات میں دراڑ، جاب سے ہاتھ دھونے اور بعض دفعہ جان
کے بھی لالے پڑ جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ وضاحت درج ذیل پہلوؤں سے کی جا سکتی
ہے:
1۔
جذباتی لاپروائی: جب
کوئی آپ کے جذبات کو نہ سمجھے، نہ ان کی قدر کرے، اور بےحس رہے، تو یہ جذباتی
لاپروائی کہلاتی ہے۔ جیسے: کسی کا حال نہ پوچھنا، دکھ یا خوشی میں ساتھ نہ دینا،
یا مسلسل نظر انداز کرنا۔
2۔
عملی لاپروائی: ذمہ
داریوں کو سنجیدگی سے نہ لینا۔ جیسے: بچوں کی تربیت میں لاپروائی، کام میں سستی،
یا وعدہ کر کے پورا نہ کرنا۔
3۔
دینی لاپروائی: اللہ
کے احکام میں سستی کرنا، نماز، روزہ، زکٰوۃ وغیرہ کو اہم نہ سمجھنا۔
4۔
جسمانی لاپروائی: اپنی
صحت، صفائی یا خوراک کا خیال نہ رکھنا۔ مثلاً بیمار ہو کر بھی دوا نہ لینا۔
لاپروائی اکثر
رشتے خراب کرتی ہے، کام برباد کرتی ہے، اور زندگی میں ندامت لاتی ہے۔
اسلام میں
لاپروائی یا غفلت کو ایک سنگین روحانی بیماری قرار دیا گیا ہے، جو انسان کو دنیا و
آخرت میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس حوالے سے متعدد احادیث موجود ہیں جو ہمیں ہوشیار
اور بیدار رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔
احادیث
مبارکہ:
میں نے جہنم
کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا خواب غفلت میں ہو اور نہ ہی جنت
کی نعمتوں و سرور کے مثل کوئی چیز دیکھی ہے جس کا چاہنے والا خواب غفلت میں ہو۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/272، حدیث: 5346)
غافل لوگوں
میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا (جنگ سے) بھاگنے والوں میں ثابت قدم رہنے والے
کے قائم مقام ہے۔ (معجم کبیر، 10/ 16،حدیث: 9797)
مجھے تم پر
فقر کا خوف نہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم پر دنیا پھیلا دی جائے گی جیسا کہ تم سے
پہلی قوموں پر پھیلائی گئی تھی، پس تم بھی اس دنیا کی خاطر پہلے لوگوں کی طرح باہم
مقابلہ کرو گے، اور یہ تمہیں غفلت میں ڈال دے گی جس طرح اس نے پچھلی قوموں کو غافل
کردیا۔ (بخاری، 4/225، حدیث: 6425)

ہر انسان بہت
سی اچھی اور بری عادتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اسے فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہیں،
نقصان دینے والی عادتوں میں سے ایک سستی اور لاپروائی بھی ہے جس کا اظہار ہم بہت
سے کاموں کو ٹال کر کرتے ہیں کہ آج نہیں تو چلو کل کرلیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: جس شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اسے دھوئے بغیر سو جائے پھر کوئی
چیز اسے کاٹ لے تو وہ شخص اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔ (مشكاة المصابيح، 2/97، حدیث: 4219)
مشہور مقولہ
ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو کیونکہ اگر آج کا کام وقت پر نہ کیا تو دوسرے دن
کل والا کام بھی کرنا پڑے گا جو نہ ہونے کی صورت میں سب کے سامنے شرمندگی سے دوچار
کردے گا۔
ہم بحیثیت
انسان کسی نہ کسی حد تک سستی سے کام لیتے ہیں لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی
ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے کا یقیناً نقصان ہی ہوگا لیکن ہم
پھر بھی تاخیر کرتے رہتے ہیں۔
ٹال مٹول اور
کاہلی کی عادت اگر پکی ہوجائے تو اس کے برے اثرات آپ کی صحت پر بھی پڑسکتے ہیں، آپ
مستقل طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، ورزش کو ملتوی کرتے ہوئے آپ مزید غیر
صحت مند خوراک کھاتے رہتے ہیں اور حتیٰ کہ کسی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے
باوجود ڈاکٹر کے پاس جانے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔
صرف
قوت ارادی پر انحصار نہ کریں: ایک برطانوی نفسیاتی ماہر کا کہنا ہے
کہ لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم پختہ ارادہ کرلیں تو سستی سے چھٹکارا حاصل
کرسکتے ہیں۔
لیکن برطانوی
ماہرکے بقول قوت ارادی کام کا جذبہ پیدا کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے
لیکن یہ بہترین طریقہ نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ناگوار پہلوؤں کو نظر انداز
کر کے اپنا بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔
مثلاً اگر آپ
آدھے گھنٹے سے دوڑ رہے ہیں اور اب آپ کے پٹھوں میں درد ہو رہا ہے، تو ضروری نہیں
کہ یہ درد کوئی بری بات ہو اور اس کے خلاف لڑنا ضروری ہو، کیونکہ اگر آپ واقعی فٹ
ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ درد بھی اس کا حصہ ہے۔
جس
کام کو ٹال رہے ہیں اس میں کچھ مثبت تلاش کریں: کیا کسی کام
کو ٹالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ناکام ہو جانے کا خطرہ ہے، تحقیق بتاتی ہے کہ
اس مسئلے کی وجہ ہمیشہ سستی اور وقت کا درست استعمال نہ کرنا نہیں ہوتی بلکہ اس کی
وجہ اپنے جذبات کو درست سمت میں استعمال نہ کرنا بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کو یہ فکر
ہے کہ آپ کسی کام میں ناکام ہو جائیں گے تو آپ اس کام کو ملتوی کرنے کے بہانے
ڈھونڈتے ہیں اور ناخوشگوار جذبات سے نہیں گزرنا چاہتے۔
اس قسم کی سوچ
پر قابو پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے سامنے جو کام پڑا ہے، اس میں سے مثبت پہلو
تلاش کریں ہوسکتا ہے آپ اس میں کوئی نئی چیز سیکھ لیں اور آپ کو توقع سے زیادہ مزہ
آنے لگے۔
اپنی
تکلیف کو کم کریں: کسی کام کے آغاز کو جتنا آسان بنا سکتے ہیں بنائیں۔
کیا آپ نے کبھی ’چوائس آرکیٹیکچر‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اس کی ایک عام مثال یہ ہے
کہ جب آپ خریداری کر کے دکاندار کو پیسے دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس چاکلیٹ کی
بجائے کوئی تازہ پھل پڑا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ زیادہ صحت افزا
چیزیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔

لاپروائی ایک
ایسا تصور ہے جو روزمرہ کی زندگی سے لے کر قانونی اور اخلاقی میدان تک ہر جگہ پایا
جاتا ہے سادہ الفاظ میں لاپروائی کا مطلب ہے کسی ایسے فرض کو پورا کرنا جو کسی خاص
صورتحال میں ایک معقول شخص سے توقع کی جاتی ہے اس میں دانستہ طور پر نقصان پہنچانے
کا ارادہ شامل نہیں ہوتا بلکہ یہ غفلت عدم توجہی یا غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے۔
قرآن کریم میں
غفلت کا ذکر: وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا
لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ﳲ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
بِهَا٘-وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ
بِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۷۹)
(پ
9، الاعراف: 179 ) ترجمہ: اور یقینا ہم نے بہت سے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے
پیدا کیا ہے وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ یہی لوگ غفلت میں
پڑے ہوئے ہیں۔
نماز
میں لاپروائی: رسول
ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلی چیز جس کا بندے سے قیامت کے دن حساب لیا جائے گا وہ نماز
ہے اگر نماز درست ہوئی تو اس کا پورا عمل درست ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو اس
کا سارا عمل خراب ہوگا۔ (نسائی، ص 84، حدیث: 463) نماز میں لاپروائی اور سستی پوری
دین کی بنیاد کو کمزور کرتی ہے۔
لاپروائی سے
دل سخت ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کثرت سے قبروں کی زیارت کیا کرو یہ
تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ (ابن ماجہ، 2/251، حدیث: 1569)
لاپروائی دل
کو سخت کر دیتی ہے اور انسان کو موت اور اخرت سے غافل کر دیتی ہے

کسی بھی کام
کو کرنے سے پہلے اس کے اچھے یا برے نتائج پر غور کرلینا انتہائی مفید ہے،اس طرح
انسان بہت سارے نقصانات سے بچ جاتا ہے لیکن جب انجام کی پروا کئے بغیر آنکھیں بند
کرکے جوجی میں آئے کرلیا جائے یا زندگی کے اہم معاملات پر توجہ دینے کی بجائے ان
سے غفلت برتی جائے تو یہ لاپروائی ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔
اپنی
صحت کے بارے میں لاپروائی: مناسب غذا کھانا،اپنی صحّت کا خیال
رکھنا، بیمارہونے کی صورت میں علاج کروانا، جتنی نیند ضروری ہے اتنی نیند کرنا،
صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا آپ کے جسم کی ضرورتیں ہیں ان سے لاپروائی برتنا سخت
نقصان دہ ہے۔بعض نوجوان لاپروائی کاایسامظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنی طبعی ضروریات کا
بھی خیال نہیں رکھتےجس کے باعث آئے دن بیمار پڑے رہتے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ نے مسلسل نفلی
روزے رکھنے اور رات کو نفلی قیام کرنے والے صحابی سے فرمایا:تم پر تمہارے جسم کا
بھی حق ہے اور تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ (بخاری،1/649، حدیث:1975) یعنی ہمیشہ
روزہ رکھنے سے تمہارا جسم بہت کمزور ہوجائے گا اور بالکل نہ سونے سے نگاہ کمزور
پڑجانے کا خطرہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/188) معلوم ہوا کہ جسم کی حفاظت اور صحّت كا
خیال بے حد ضروری ہے اس بارے میں ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے۔
برے
لوگوں کی صحبت میں لاپروائی: برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا،انہیں اپنا
دوست بنانا اور ان سے محبت کرنادنیا اور آخرت میں انتہائی نقصان دہ ہے حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: برے ہم نشین سے بچو
کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔ (تاریخ ابن عساکر، 14/ 46) یعنی
جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست وبرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں اور لاپروائی
کرتے ہوئے برے لوگوں کی صحبت اختیار کر لیتے ہیں ہمیں ایسی لاپروائی سے بچنا چاہیے۔
وقت
کی لاپروائی : نماز
وقت پرادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے گویا یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اپنا ہر کام مقرّرہ
وقت پر کیا جائے۔ اسی لیے نمازی اپنی روزمرّہ زندگی کو نماز کے اوقات کے ساتھ
مرتّب کرتا ہے۔ مثلًا ظہر کے بعد فلاں کام کرنا ہے، عصر کے بعد فلاں جگہ جانا ہے
وغیرہ۔ لیکن بےنمازی کو نقصان کا ایک خدشہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت کی پابندی نہ کر
سکے اور زندگی کے معاملات عجیب و غریب ترتیب پر ہوں۔
سب سے پہلے
قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا،اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی
ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔ (معجم اوسط، 1/504، حدیث: 1859)
قرض
ادا کرنے میں لاپروائی سے کام لینا: کچھ لوگ ایک بڑی رقم قرض لیتے ہیں اور
پھر قرض خواہ کو بلا وجہ توڑ پھوڑ کر یعنی تھوڑی تھوڑی کرکے رقم لوٹاتے ہیں جبکہ
بعض تو قرض کے نام پر دوسروں کے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ہڑپ کرجاتے ہیں، ابھی تو
یہ سب آسان لگ رہا ہوگا لیکن قیامت میں بہت مہنگا پڑجائے گا۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : جو دنیا میں کسی کے تقریباً تین پیسے دین (یعنی قرض) دبا لے گا
بروز قیامت اس کے بدلے سات سو باجماعت نمازیں دینی پڑ جائیں گی۔ (فتاویٰ رضویہ، 25
/ 69ملخصاً )اوّلاً تو حتّی الامکان خود کو قرض لینے سے بچائیے اور اگر زندگی میں
کسی موقع پر قرض لینا بھی پڑ جائے تو قرض واپس کرتے وقت ایسا انداز نہ ہو جس سے آپ
کی عزت اور نیک نامی پر کوئی حرف آئے اور آپ کے دوسروں سے تعلقات خراب ہوں۔ ورنہ
قرض خواہ کو اس طرح پریشان کرنے کا ایک دنیاوی نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کی
نظروں میں ایسے آدمی کا اعتبار نہیں رہتا اور اگلی بار ضرورت پڑنے پرلوگ اسے قرض
دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ کریم مجھے اور آپ کو اپنے در کے سوا کسی کا
محتاج نہ بنائے۔ آمین

لا پروائی سے
مراد کسی بھی چیز کی پروا نہ کرنا۔ کچھ لوگ لاپروائی کو ایک مثبت رویہ سمجھتے ہیں،
کیونکہ ان کے خیال میں اس سے انسان آزاد اور بے فکر ہو جاتا ہے۔ تاہم، لاپروائی اکثر
منفی رویہ ہوتا ہے، کیونکہ اس سے انسان کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، حادثات
مالی نقصان وغیرہ۔
فرضی
حکایت: احمد
ایک طالبِ علم تھا جو اپنی پڑھائی میں بہت ہی لاپروا تھا۔ وہ اپنے اسباق کو نظر
انداز کرتا تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ ایک دن، احمد کے استاد نے
اسے ایک پروجیکٹ سونپا جو بہت ہی اہم تھا۔ احمد نے پروجیکٹ کو نظر انداز کیا اور
اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے چلا گیا۔
جب احمد واپس
آیا تو اسے پتا چلا کہ اس کے استاد نے اسے جو پروجیکٹ سونپا تھا وہ بہت ہی اہم تھا
اور اسے پورا کرنا ضروری تھا۔ احمد نے پروجیکٹ کو پورا کرنے کی کوشش کی لیکن اب
وقت بہت کم تھا جس کی وجہ سے وہ اسے پورا نہیں کر سکا۔ اسے اپنے استاذ محترم کے
سامنے بھی شرمندگی محسوس ہوئی احمد کی لا پروائی کے سبب وہ پروجیکٹ مکمل نہ ہو سکا۔
احمد کے استاد
نے اسے سمجھایا کہ لاپروائی کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اسے اپنی پڑھائی
میں لاپروائی کو ختم کرنا چاہیے۔ احمد نے اپنے استاد کی بات مانی اور اپنی پڑھائی
میں لاپروائی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
احمد نے اپنی
پڑھائی میں لاپروائی کو ختم کرنے کے بعد: اپنے اسباق میں کامیاب ہوا۔ اپنے استاد
کی نظروں میں عزت حاصل کی۔