اسلام ایک ایسا دین ہے جو معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا ضامن ہے، خصوصاً کمزور، محتاج اور بے سہارا طبقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ انہی میں سے ایک اہم طبقہ یتیموں کا ہے۔ یتیم وہ نابالغ بچہ ہوتا ہے جس کا والد فوت ہو چکا ہو۔ چونکہ وہ اپنی عمر اور حالات کی بنا پر خود اپنا دفاع اور کفالت نہیں کر سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کے حقوق کی تاکید کی بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے: اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ 30، الماعون: 1، 2) ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ یعنی جو شخص یتیم سے بدسلوکی کرے، وہ درحقیقت دین کا انکار کرنے والوں جیسا عمل کرتا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗۚ- (پ 8، الانعام: 152)ترجمہ: اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر بہتر طریقے سے، یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے یتیموں پر ظلم کرنے والوں کو سخت وعید سنائی۔ فرمایا: جس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھایا، وہ قیامت کے دن اپنے پیٹ میں آگ لے کر آئے گا۔ یہ تمام آیات و احادیث اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یتیموں سے محبت، شفقت اور ان کی کفالت دین اسلام کا ایک اہم جزو ہے، جب کہ ان کے ساتھ بدسلوکی، ظلم، یا بے رخی ایمان کے منافی ہے۔

اسلام نے یتیموں کو معاشرے کا محتاج فرد نہیں بلکہ ایک امانت اور ذمہ داری قرار دیا ہے۔ یتیم کی کفالت، ان کے حقوق کی حفاظت اور ان کے ساتھ نرمی و محبت اختیار کرنا نہ صرف حسن اخلاق کی بلند ترین مثال ہے بلکہ جنت کا راستہ بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے کے یتیم بچوں کی عزت کریں، ان کے حقوق ادا کریں اور ان کے لیے سہارا بنیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور نبی کریم ﷺ کی قربت حاصل ہو۔

اللہ پاک ہمیں یتیموں، مسکینوں ناداروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے والا بنائے۔ احترامِ مسلم اور خدمتِ خلق کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین

اسلام نے یتیموں سے نرمی، محبت اور عدل کا حکم دیا ہے۔ جو شخص یتیم کے ساتھ سختی، حق تلفی یا بدسلوکی کرتا ہے، وہ نہ صرف انسانیت بلکہ دین کی بھی توہین کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

یتیموں پر ہاتھ اٹھانا، ان کا مال دبانا، یا ان کی تحقیر کرنا ظلم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھیں، ان کے دکھ بانٹیں اور انہیں وہ محبت دیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ اسلام ہمیں نہ صرف یتیموں پر شفقت کا حکم دیتا ہے بلکہ ان کے حقوق کی پامالی کو سخت گناہ قرار دیتا ہے۔

یا اللہ! ہمیں یتیموں کے حقوق ادا کرنے والا بنا،ان کے چہروں پر مسکراہٹ لانے والا بنا،ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والا بنا۔ اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کے ساتھ نبی ﷺ جنت میں ہوں گے اس لیے کہ وہ یتیم کا سہارا بنے۔ آمین یا ربّ العالمین

یتیم کسے کہتے ہیں؟ وہ نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/416) بچّہ یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں،جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔ٍ

ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں پہلے بڑا گنہگارتھا، ایک دن کسی یتیم(Orphan) کو دیکھا تو میں نے اس سے اتنا زیادہ عزّت و محبت بھرا سلوک کیا جتنا کہ کوئی باپ بھی اپنی اولاد سے نہیں کرتا ہوگا۔ رات کو جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ جہنّم کے فرشتے بڑے برے طریقےسے مجھے گھسیٹتے ہوئے جہنّم کی طرف لے جارہے ہیں اور اچانک وہ یتیم درمیان میں آ گیا اور کہنے لگا: اسے چھوڑدو تاکہ میں رب کریم سے اس کے بارے میں گفتگو کرلوں، مگر فرشتوں نے انکار کردیا، پھر ایک نداسنائی دی:اسے چھوڑ دو! ہم نے یتیم پر رحم کرنے کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے۔ خواب ختم ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی، اس دن سےہی میں یتیموں سے انتہائی باوقارسلوک کرتا ہوں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 231)

فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھروہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بد ترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ،4/193، حدیث:3679)

یتیموں کی حق تلفی سے بچئے: یتیموں کو وراثت میں ان کے حصّے سے محروم کردینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلّق سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک،2/338، حدیث:2307)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


وہ نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہوگیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/ 416) بچّہ یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں، جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے، جیسا کہ مفسّر شہیر، حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: بالغ ہو کر بچہ یتیم نہیں رہتا۔ انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، جانور کا وہ بچہ یتیم ہےجس کی ماں مر جائے، موتی وہ یتیم ہے جو سیپ میں اکیلا ہو اسے دریتیم کہتے ہیں بڑا قیمتی ہوتا ہے۔ (نورالعرفان، ص 121)

یتیم کے سا تھ حسن سلوک کرنے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی حدیث پاک میں بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ حسن اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور ﷺ کا فرمان روح پرور ہے: مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہےجس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 193، حدیث: 3679)

خدائے رحمٰن کا فرمان عالیشان ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث شریف میں ہے: یتیم کا مال ظلماً کھانے والے قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ ان کے منہ، کان اور ناک سے بلکہ ان کی قبروں سے دھواں ا ٹھتا ہو گا، جس سے وہ پہچانے جائیں گے کہ یہ یتیموں کا مال ناحق کھانے والے ہیں۔ (تفسیر درمنثور، 2/443)

روایات میں ہے: مکہ مکرمہ میں ایک یتیم بچہ تھا، اس امّت کے فرعون یعنی مکہ پاک کے بہت بڑے کافر ابوجہل نے اس یتیم کی پرورش کی ذمّہ داری اپنے سر لے لی اور وہ سارا مال جو اس بچے کو وراثت میں ملا تھا، وہ بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔اب چاہئے تو یہ تھا کہ ابوجہل اس یتیم بچے کی اچھے سے دیکھ بھال کرتا مگر یہ بدبخت کافر تھا،اس کے دل میں حرص و ہوس بھری ہوئی تھی،اس نے یتیم کی پرورش کرنے کی بجائے الٹا اس کے ہی مال پر قبضہ جما لیا۔ ایک دن وہ یتیم بچہ ننگے بدن اس کے پاس آیا اور اپنا مال اس سے مانگا، اس پر ابوجہل بدبخت نے بےچارے یتیم کو دھکے دے کر نکال دیا۔ اس پر قریش کے دوسرے سرداروں نے اس یتیم سے کہا:تم محمّدﷺ کے پاس جاؤ! وہ تمہاری مدد کر دیں گے۔ قریش کے سرداروں نے تو یہ بات بطور مذاق کہی تھی، ان کا مقصد تھا کہ یہ یتیم بچہ محمّد ﷺ سے مدد مانگے گا، وہ اس کی مدد کر نہیں پائیں گے۔ مگرانہیں کیا معلوم! وہ ربّ کائنات کے محبوب ہیں، وہ ایک ابرو کا اشارہ ہی فرما دیں تو دنیا ادھر سے ادھر ہو سکتی ہے۔

غم و رنج و الم اور سب بلاؤں کا مداوا ہو اگر وہ گیسوؤں والا مرا دلدار ہو جائے

اشارہ پائے تو ڈوبا ہوا سورج برآمد ہو اٹھے انگلی تو مہ دو بلکہ دو دو چار ہو جائے

جن کے اشارے سے ڈوبا سورج پلٹ آئے،انگلی اٹھائیں تو چاند دو ٹکڑے ہو جائے، کیا ان کے چاہے سے ایک یتیم بچے کا دکھ دور نہیں ہوسکے گا مگر غیر مسلم کیا جانیں حبیب خداکامقام!

خیر! وہی یتیم بچہ دوجہاں کے تاجدار ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی فریاد پیش کی۔ پیارے آقا نے اس بچے کو ساتھ لیا اور فوراً ابوجہل کے گھر تشریف لے گئے۔قریش کے سردار تو یہ خیال کر رہے تھے کہ ابوجہل اکڑ دکھائے گا، معاذ اللہ!رسول خدا ﷺ کے ساتھ گستاخانہ رویّہ اختیارکرے گا مگر یہ کیا! ابو جہل نے جیسے آپ کو دیکھا تو ادب سے مرحبا کہہ کر آپ کا استقبال کیا اور فوراً ہی یتیم کا مال لا کراس کے حوالے کردیا۔

یہ دیکھ کرقریش کے لوگ حیران رہ گئے،جب انہوں نے ابوجہل سے ماجرا پوچھا تو وہ بولا: خدا کی قسم!میں نے محمّد ﷺ کے دائیں اور بائیں ایک نیزہ دیکھا،مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں نے ان کی بات نہ مانی تو یہ نیزہ مجھے پھاڑ ڈالے گا۔ (تفسیر کبیر، 11/301)

اللہ پاک ہمیں یتیموں، مسکینوں، بےسہاروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے، ان کے کام آنے، ان کی دیکھ بھال رکھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

یتیم کسے کہتے ہیں؟ ہر وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔ (ردمختار مع ردالمحتار، ج 10، ص 416) بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں، جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔

جیسا کہ مفسر شہیر، حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمتہ الحنان فرماتے ہیں۔ بالغ ہو کر بچہ یتیم نہیں رہتا۔ انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو،جانور کا وہ بچہ یتیم ہے جس کی ماں مر جائے، موتی وہ یتیم ہے سیپ میں اکیلا ہو اسے درّ یتیم کہتے ہیں یہ بڑا قیمتی ہوتا ہے۔

یتیموں کی بد سلوکی کے بارے میں قرآن پاک میں بڑی سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یتیموں کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

الله تعالیٰ فرماتا ہے: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اس آیت مبارکہ سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یتیموں سے سختی، ظلم یا بد سلوکی نہ کی جائے۔

یتیموں سے حسن سلوک کرنے اور ان کی خبر گیری کرنے میں رسول اللہ ﷺ کا کردار ہمارے لیے سراپا ترغیب ہے۔ آپﷺ نے نہ صرف خود یتیموں و بےکسوں کی مدد فرمائی بلکہ رہتی دنیا تک اپنے ماننے والوں کو اس کا درس بھی دیا۔

یتیموں کی حق تلفی سے بچئے: یتیموں کی وراثت میں ان کے حصے سے محروم کر دینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالی نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا، ان میں سے ایک یتیموں کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2307) اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں کے مال و حقوق پر نا جائز قبضہ کرنا، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنا اللہ کے ہاں سخت سزا کا باعث ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بد ترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

یتیموں سے بد سلوکی کی اقسام:

مالی بد دیانتی: ان کے مال میں خیانت، چوری، یا ناجائز فائدہ اٹھانا۔

جذباتی ظلم: انہیں حقیر سمجھنا، جھڑکنا، پیار سے محروم رکھنا۔

سماجی نظر اندازی: تعلیم، تربیت یا شادی کے حقوق نہ دینا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو! صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! وہ کون سی ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی نفس کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سودکھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنا، پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری، 2/242، حدیث: 2766)

یتیم کا مال کھانا گناہ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے کا باعث ہے۔ یتیم کے مال و حقوق کی حفاظت اسلامی معاشرے کی بنیاد و ذمہ داری ہے۔ یتیموں سے بد سلوکی ایک ایسا گناہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں وبال بن سکتا ہے۔ یاد رکھیے آج اگر ہم یتیموں کے دکھ درد کو ہلکا کریں گے اور ان کے چہروں میں مسکراہٹ لائیں گے تو الله کریم ہماری دنیا اور آخرت کو روشن فرمائے گا۔

آخر میں الله سے دعا ہے کہ وہ ہمیں یتیموں سے حسن سلوک کرنے، اور ان کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

یتیم کسے کہتے ہیں؟ وہ نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/416) بچّہ یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں،جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔

قرآن کریم میں یتیموں کا مال کھانے کی سزا بیان کی گئی، چنانچہ ارشاد فرمایا: اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟ یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآن پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں ملوّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثا میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقرا کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثا کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گااور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔

یتیموں سے بدسلوکی کی اقسام: جذباتی بدسلوکی، جیسے یتیم بچوں کو طعنہ دینا، ان کی محرومیوں کا مذاق اڑانا، ان کی نفسیاتی حالت کو نظرانداز کرنا بدترین سلوک میں شامل ہے۔ جسمانی تشدد، مثلاً گھریلو ملازم یا زیرِ کفالت یتیم بچوں پر ہاتھ اٹھانا، ان سے سخت مشقت لینا اور ان کی جسمانی صحت کو نظرانداز کرنا ظلم ہے۔ تعلیمی و معاشی نظراندازی جیسے یتیم بچوں کو تعلیم کے مواقع سے محروم رکھنا اور ان کی بنیادی ضروریات پوری نہ کرنا ایک سنگین ناانصافی ہے۔ وراثتی حق تلفی مثلاً اکثر یتیم بچوں کو ان کے والدین کی جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے، جو شرعاً اور قانوناً ان کا حق ہے۔

قرآن مجید میں فرمایا گیا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔

معاشرتی ذمے داری: یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ یتیم بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آئیں۔ ان کی تعلیم، تربیت اور کفالت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اگر ہم خود ان کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ایسے اداروں کا ساتھ دیں جو یتیموں کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔

یتیم بچوں کی حالت زار: ہمارے معاشرے میں اکثر یتیم بچوں کو ایسے رویوں کا سامناکرنا پڑتا ہے جو ان کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں۔ ان سے کم تر انسانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ حقارت، بے اعتنائی اور نفرت برتا جاتا ہے۔ یہ بچے محبت، توجہ اور سہارے کے سب سے زیادہ محتاج ہوتے ہیں لیکن انہیں اکثر دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ ہمارے اردگرد کئی ایسے ادارے ہیں جو یتیم بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، جیسے یتیم خانے، فلاحی ادارے، اور دینی مدارس۔ لیکن اگر ہم بطور فرد اپنے اردگرد کسی یتیم کو محرومی کا شکار دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں، تو یہ بھی بدسلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔

یتیم بچوں کو اپنے بچوں جیسا سلوک دیں انہیں تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کریں ان کے وراثتی اور معاشی حقوق کا تحفظ کریں۔

اللہ کریم ہمیں یتیموں سے بدسلوکی کرنے سے بچائے اور حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


عرب کی سر زمین پر اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان کے ساتھ بد سلوکی کرنا بھی عام تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں سے ہونے والے برے سلوک کی مذمت کی بلکہ ان سے نرمی و شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔

قرآن مجید میں 23 مختلف مقامات پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔

شان نزول: اس آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا، جب وہ یتیم بالغ ہوا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اس شخص نے یتیم کا مال اس کے حوالے کر دیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ (بیضاوی، 2/141)

یتیم اس نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہو جائے۔ کثیر احادیث میں یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور بد سلوکی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے:

چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

یتیموں کی حق تلفی سے بچئے: یتیموں کی وراثت میں ان کے حصے سے محروم کر دینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث مبارکہ میں ہے: چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا، ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2307)

یاد رکھیے! اگر ہم یتیموں کے دکھ، درد میں شریک ہوں، ان کے لیے اندھیروں میں اجالا بنیں، ان کی مسکراہٹ کا سہارا بنیں تو ضرور رب کریم ہماری دنیا و آخرت روشن فرمائے گا۔ اللہ کریم ہمیں یتیموں کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ

یتیم کسے کہتے ہیں؟ وہ نابالغہ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/416)

بدسلوکی کی تعریف: بدسلوکی کا مطلب ہے برا برتاؤ یا ناروا سلوک کرنا۔ مثال کے طور پر بچوں کے ساتھ چیخنا یا مارنا بد سلوکی ہے، کسی کی بے عزتی کرنا یا طنز کرنا بد سلوکی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔

احادیث مبارکہ:

مسلمانوں میں بہترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو جس سے اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں بد ترین گھر وہ گھر ہے جس سے برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا ان میں سے ایک یتیم کا مال نا حق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2307)

بدسلوکی کی کئی اقسام ہیں، مثلاً مالی بدسلوکی یعنی یتیم کے مال پر نا جائز قبضہ یا خیانت وغیرہ، نفسیاتی بد سلوکی یعنی تحقیر،نظر انداز کرنا یا طعنہ زنی وغیرہ، جسمانی بدسلوکی یعنی مار پیٹ یا تشدد اور سماجی بد سلوکی یعنی یتیم کو معاشرے میں کمتر سمجھنا یا اس سے امتیازی سلوک روا رکھنا وغیرہ۔

یتیم اور لاوارث بچے معاشرہ کا ایسے ہی حصہ ہیں جیسے عام بچے، لیکن نہ ان کے قریبی رشتے دار اس جانب توجہ کرتے ہیں اور نہ حقوق انسانی کی پاسداری کا دم بھرنے والے۔ لوگ ان کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں اور اس سے کتراتے ہیں اسلام کا مطالعہ کریں جس کی بنیاد ایثار،قربانی شفقت و محبت اور حقوق کی پاسداری پر ہے، یتیموں کا خیال رکھنا صد قہ اور نیکی ہے، یتیموں سے رحم و محبت جنت کے درجے بلند کرتا ہے، ان کی مدد کرنا والا اللہ کی قربت پاتا ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں یتیموں سے حسن سلوک کرنے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


یتیم کسے کہتے ہیں؟ وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہو جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔ جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کریں احادیث میں یتیم کی اچھی پرورش کرنے کے بہت فضائل بیان کیے گئے ہیں۔

جبکہ یتیم کے ساتھ بدسلوکی کرنا مثلا وراثت میں ان کے حصے سے محروم کر دینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث پاک میں ہے کہ چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہوگا۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2307)

حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ سے آگ نکل رہی ہوگی عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا، ترجمہ: بے شک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بڑھتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 2/ 9، جزء: 4، حدیث: 9279)

فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بدترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

یتیموں سے حسن سلوک کرنے اور ان کی خبر گیری کرنے میں رسول اللہ ﷺ کا کردار ہمارے لئے سراپا ترغیب ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف خود یتیموں و بےکسوں کی مدد فرمائی بلکہ رہتی دنیا تک اپنے ماننے والوں کو اس کا درس بھی دیا۔ لہذا ہمیں بھی یتیم کے ساتھ اچھے سے پیش آنا چاہئے انکے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں یتیم پر ظلم زیادتی کرنے سے بچائے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا، جب وہ یتیم بالغ ہو ا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اس شخص نے یتیم کا مال اس کے حوالے کردیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ (بیضاوی، 2 / 141)

آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب یتیم اپنا مال طلب کریں تو ان کا مال ان کے حوالے کردو جب کہ دیگر شرعی تقاضوں کو پورا کرلیا ہے اور اپنے حلال مال کے بدلے یتیم کا مال نہ لو جو تمہارے لئے حرام ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے کر اس کا عمدہ مال لے لو۔ یہ تمہارا گھٹیا مال تمہارے لئے عمدہ ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال ہے اور یتیم کا عمدہ مال تمہارے لئے گھٹیا اور خبیث ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے حرام ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا حرام ہوا یعنی گھٹیا معاوضہ دے کر کھانا بھی حرام ہے تو بغیر معاوضہ کے کھالینا تو بطریق اولیٰ حرام ہوا۔ ہاں شریعت نے جہاں ان کا مال ملا کر استعمال کی اجازت دی وہ جدا ہے۔

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

اس سے پہلی آیات میں یتیموں کا مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید لطف و کرم کے حقدارتھے۔اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔ (تفسیر کبیر، 3 / 506)

یتیموں کا مال ناحق کھانے کی وعیدیں: احادیث مبارکہ میں بھی یتیموں کا مال ناحق کھانے پر کثیر وعیدیں بیان کی گئی ہیں،ان میں سے 3وعیدیں درج ذیل ہیں:

(1) حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی: یا رسول اللہ! ﷺ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 2 / 9، جزء: 4 ، حدیث: 9279)

(2) میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، 2 /467، حدیث: 725)

(3) چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے: (1) شراب کا عادی۔ (2) سود کھانے والا۔ (3) ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔ (4) والدین کا نافرمان۔ (مستدرک، 2 / 338، حدیث: 2307)

دین اسلام وہ پیارا دین ہے جو جاہلیت کی برائیوں کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیمات کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر رضائے الٰہی کے ساتھ ساتھ ثواب و نجات آخرت کا سامان بھی اکٹھا کیا جاسکے۔ جیسا کہ اسلام سے پہلے یتیموں سے برا سلوک کیا جاتا تھا اس کی مذمت کی گئی اور ان سے شفقت کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔

یتیم کسے کہتے ہیں؟ وہ نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (درمختار، 10/416) بچّہ یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں،جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔ (یتیم کسے کہتے ہیں؟، ص 2)

آئیے یتیموں کے حقوق کے متعلق چند احادیث ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)فرمان مصطفے ﷺ ہے: مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھروہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بد ترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ،4/193، حدیث:3679)

(2)ایک شخص نے نبیّ کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی،ارشاد فرمایا: یتیم پر رحم کیا کر، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کراور اپنے کھانے میں سے اسے بھی کھلایا کر، ایسا کرنے سے تمہارا دل نرم اور حاجتیں پوری ہوں گی۔ (مجمع الزوائد، 8/293، حدیث:13509ملتقطاً)

(3)یتیموں کو وراثت میں ان کے حصّے سے محروم کردینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلّق سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، چنانچہ حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا، ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث:2307)

(4)حضور اکرم ﷺ نے (بارگاہ الہی)میں عرض کی: اے اللہ! میں دو کمزور انسانوں یتیم اور عورت کا حق (ضائع کرنا خاص طور پر) حرام قرار دیتاہوں۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3678)

(5) میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھر آپ ﷺ نے اپنی شہادت والی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیااور ان کے درمیان کچھ کشادگی فرمائی۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/262)

یتیم کی کفالت کرنے والے کو قیامت کے دن حضورسید الانبیاء، احمد مجتبیٰ ﷺ کی مبارک رفاقت نصیب ہو گی۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں یتیموں کی کفالت کرنے کی سعادت عطا فرمائے، ہمیں بھی کل بروز قیامت حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ کی مبارک رفاقت نصیب فرمائے۔ آمین


یتیم کسے کہتے ہیں؟ ہر وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، 10/416)

اس میں شک نہیں کہ جب تک باپ سلامت رہتا ہے وہ اپنے بچوں کے لئے مضبوط محافظ، بہترین نگران (Guardian)، شفیق استاذ اورایک سایہ دار درخت ثابت ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو بچّوں کے سر سے گویا سائبان لپیٹ دیا جاتا ہے۔ بظاہر پورا گھر بے سہارا ہو جاتا ہے اور ایسے میں بعض اپنے بھی پرائے ہونے لگتے ہیں، بعض رشتہ دار نگاہیں پھیر لیتے ہیں اور تعلق رکھنے والے حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اگر باپ کچھ مال چھوڑ کر گیا ہو تو کچھ رشتےدار بھوکے گدھ کی طرح مال وراثت پر نظریں گاڑ کر تاک میں بیٹھ جاتے اور موقع ملنے پر یتیموں کا حق ہتھیا کر اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔

اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اس میں معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع مہیا کر دیئے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے دن گزار سکے۔ یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑ لینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ سر زمین عرب پر اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کےحقوق دبانا اور ان پرظلم و ستم کرنا بھی عام تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں کےساتھ ہونے والے برے سلوک کی مذمّت کی بلکہ ان سے نرمی و شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔آج ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے بے پناہ حقوق متعین کئے ہیں اور آج کل یتیموں سے ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔

دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتیٰ کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اسی طرح ارشاد ہے:

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔

یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں سے حسن سلوک، ان کے اموال کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور ان پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنیوالے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ افسوس کہ لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔

یتیموں کو وراثت میں ان کے حصّے سے محروم کردینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک،2/338، حدیث:2307) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے براگھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حديث:3679)

یاد رکھیے! یتیم کی آہیں اور بد دعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں۔ روز قیامت ہم سب کو اللہ کے حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہو گا۔جہاں ہم معاشرے میں دیگر امور کی طرف توجہ کرتے ہیں، اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں وہاں معاشرے کے یتیموں کی جانب دیکھنا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہماری امداد،محبت،پیار کے منتظر ہوتے ہیں،خواہ وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا اہل محلہ یا کہیں بھی رہتے ہوں،ان کا مداوا کرنا صاحبِ حیثیت کی ذمہ داری ہے، بہرحال ہمیں ہر حال میں ان امور کی جانب توجہ کرتے ہو ئے یتیم کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔