لاپروائی کا مطلب: لاپروائی کا مطلب ہے بے فکری یا کسی چیز کی فکر نہ کرنا۔

لاپروائی ایک ایسی عادت یا رویہ ہے جس میں انسان اپنے روز مرہ کے کاموں، فرائض یا ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا، اس میں غفلت برتتا ہے اور اس کی نتائج کی پروا نہیں کرتا۔

کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اس کے اچھے یا برے نتائج پر غور کرلینا انتہائی مفید ہے، اس طرح انسان بہت سارے نقصانات سے بچ جاتا ہے لیکن جب انجام کی پروا کئے بغیر آنکھیں بند کرکے جو جی میں آئے کرلیا جائے یا زندگی کے اہم معاملات پر توجّہ دینے کی بجائے ان سے غفلت برتی جائے تو یہ لاپروائی ہے۔لاپروائی ایک منفی رویہ ہے جو فرد، معاشرہ اور اداروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں، جسے اس فرضی حکایت سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

فرضی حکایت: گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ نوجوان گاڑی چلاتے ہوئے چند لمحوں کیلئے اپنے موبائل فون پر آنے والے پیغامات (Messages) کا جائزہ لیتا اورپھر دوبارہ سامنے دیکھنے لگتا،انجام کی پروا کئےبغیر کچھ دیر تک وہ اسی میں مگن رہا، بالآخر عین اس لمحے جب نوجوان کی توجّہ موبائل فون کی طرف تھی، اچانک مخالف سمت سے ایک تیز رفتار گاڑی نمودار ہوئی اور نوجوان کے سنبھلنے سے پہلےدونوں گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرا چکی تھیں۔ میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! اس سے ملتے جلتے واقعات آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔ ہماری ذرا سی غفلت اورلمحہ بھر کی لاپروائی کانتیجہ بھیانک ہوسکتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی ہم لاپروائی کرنے سے باز نہیں آتے۔

لاپروائی کے اسباب: غفلت اور سستی، خود اعتمادی کی کمی یا حد سے زیادہ خود اعتمادی، وقت کی قدر نہ کرنا، ذمہ داریوں کا احساس نہ ہونا، منفی سوچ اور غیر سنجیدگی، ذہنی دباؤ یا تھکن۔ آئیے! روزمرہ کے معاملات میں کی جانے والی چند لاپروائیوں کا جائزہ لیتے ہیں:

اپنی صحّت کے بارے میں لاپروائی: مناسب غذا کھانا،اپنی صحّت کا خیال رکھنا، بیمارہونے کی صورت میں علاج کروانا، جتنی نیند ضروری ہے اتنی نیند کرنا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھناآپ کے جسم کی ضرورتیں ہیں ان سے لاپروائی برتنا سخت نقصان دہ ہے۔بعض نوجوان لاپروائی کاایسامظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنی طبعی ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھتے جس کے باعث آئے دن بیمار پڑے رہتے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ نے مسلسل نفلی روزے رکھنے اور رات کو نفلی قیام کرنے والے صحابی سے فرمایا: تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے اور تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ (بخاری، 1/649، حدیث:1975) یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے سے تمہارا جسم بہت کمزور ہوجائے گا اور بالکل نہ سونے سے نگاہ کمزور پڑجانے کا خطرہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/188) معلوم ہوا کہ جسم کی حفاظت اور صحت كا خیال بےحد ضروری ہے اس بارے میں ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے۔

معاملات میں لاپروائی: بعض افراد گھر کے کئی معاملات میں بھی لاپروائی کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً خراب نل سے مسلسل پانی بہہ رہا ہے، پنکھے، لائٹیں اور دیگر برقی آلات بلاضرورت استعمال ہورہے ہیں لیکن انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ موبائل یا لیپ ٹاپ چارجنگ پر لگا کرعموماً بھول جاتے ہیں، ماہرین کے مطابق برقی آلات کو کئی گھنٹوں تک چارجنگ پر لگائے رکھنا آتشزدگی کا سبب بن سکتا ہےاور موبائل فونز سے آتشزدگی کے تو کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، لہٰذا احتیاط کیجئے! اس سے پہلے کہ لاپروائی آپ کو کسی بڑے نقصان سے دوچار کردے۔

آخرت کے بارے میں لاپروائی: دینی معاملات میں لاپروائی کرنادنیوی معاملات میں لاپروائی سے بھی زیادہ خطرناک ہے مگر افسوس آجکل نوجوانوں کی اکثریت اس کا شکار ہے، یاد رہے!نماز روزے اور دیگر فرائض و واجبات کی ادائیگی میں لاپروائی اور صغیر ہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے میں لاپروائی، اللہ و رسول کی ناراضی کے باعث ہلاکت و رسوائی کا ذریعہ ہے۔

چنانچہ پارہ 17، سورۂ انبیاء کی آیت نمبر 1 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱)ترجمہ کنز الایمان: لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں۔

وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور لاپروا انسان قیامت کے دن پیش آنے والی عظیم مصیبتوں اور شدید ہولناکیوں سے بے فکر ہیں اور اس کے لئے تیاری کرنے سے منہ پھیرے ہوئے ہیں اور انہیں اپنے انجام کی کوئی پروا نہیں۔

لاپروائی کے نقصانات:

1۔ تعلیمی میدان میں: طالبِ علم اگر لاپروا ہو تو اس کے نتائج خراب آتے ہیں، اس کا وقت ضائع ہوتا ہے اور وہ مواقع کھو دیتا ہے۔

2۔ پیشہ ورانہ زندگی میں: کام میں کوتاہی، دیر، یا غلطیوں سے نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

3۔ معاشرتی سطح پر: رشتے خراب ہو سکتے ہیں، دوسروں کا اعتماد ختم ہو سکتا ہے۔

4۔ ذاتی زندگی میں: انسان کو اپنے فیصلوں پر پچھتاوا ہوتا ہے اور وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر پاتا۔

لاپروائی سے بچاؤ کے طریقے:

1۔ وقت کی پابندی: اپنے دن کی منصوبہ بندی کریں اور وقت کا مؤثر استعمال کریں۔

2۔ ذمہ داری کا احساس: ہر کام کو ذمہ داری سے انجام دیں، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔

3۔ خود احتسابی:روزانہ اپنے کاموں کا جائزہ لیں کہ کہاں کوتاہی ہوئی اور کیسے سدھار سکتے ہیں۔

4۔ ترجیحات طے کرنا: اہم اور غیر اہم کاموں میں فرق کریں اور پہلے اہم کام انجام دیں۔

5۔ ذہنی سکون حاصل کرنا: مناسب نیند، خوراک اور ورزش سے دماغی تھکن دور کریں۔

انجام پر غور کیجئے! لاپروائی ایک خطرناک عادت ہے اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس کے انجام پر غور کیجئے! مثلاً حصولِ علمِ دین سے لاپروائی کا انجام جہالت ہے،وقت کی قدر نہ کرنے کا انجام حسرت اور پچھتاوا ہے اورڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت ہے۔بہرحال دینی امور ہوں یا دنیوی معاملات ہر نوجوان کو چاہئے کہ لاپروائی کی عادت ختم کر کے احساس ذمّہ داری پیدا کرے۔تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں پابندی وقت کے ساتھ پانچ وقت نماز پڑھنے اور قرآن پاک پڑھنے اور اعمالِ صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سستی، کاہلی اور لاپروائی سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

لاپروائی یہ ہے کہ انجام کی پروا کیے بغیر جو جی میں آئے وہ کر لینا۔ یا زندگی کے اہم معاملات پر توجہ دینے کے بجائے غفلت برتنا اور سستی و کاہلی سے کام لینا۔ یہ ایک مہلک مرض ہے۔ جس میں مبتلا شخص اپنی اہم ذمہ داریوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔

اللہ پاک نے اس کی عبادت سے غفلت و لاپروائی برتنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵)(پ 18، المؤمنون: 118) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔

حدیث کی روشنی میں :

حضور ﷺ نے فضول اور بےمقصد چیزوں کو ترک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ ان میں مشغول ہو کر انسان ضروری امور سے بھی بے پروا ہو سکتا ہے۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار چیزوں کو ترک کر دے۔ (ترمذی، 4/142، حدیث: 2324)

ذرا سی لاپروائی برتنے پر کسی کام کا نتیجہ بھیانک ہو سکتا ہے اور ہم مستقل طور پر اس کام کے کے بارے میں پچھتاوے اور افسوس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس لاپروائی کے کئی اسباب و صورتیں ہو سکتے ہیں جیسا کہ:

سوشل میڈیا کا بے جا استعمال بھی ہمیں لاپروائی میں مبتلا کردیتا ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے اہم ترین کاموں کو ترک کر دیتے ہیں جیسے بعض لوگ سوشل میڈیا میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی نماز تک کی فکر نہیں ہوتی۔

اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں سے لا پروا ہو کر انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر اور شکر سے غافل ہو جاتا ہے اور اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنا بھی زوال نعمت کا ایک سبب ہے۔

اسلام نے رشتوں کو اہمیت دی ہے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن آج کے دور کے کئی لوگ اپنے رشتوں۔ سے لاپروا نظر آتے ہیں اور ان کے آپس کے تعلقات کمزور ہوتے جارہے رہیں آخرت کو بھلا دینا کہ انسان دنیاوی کاموں میں حد سے زیادہ مشغول ہو کر غفلت میں پڑ جائے اور اپنے انجام سے لاپروا ہو جائے۔

لاپروائی کے نتائج : لاپروائی کے بہت برے نتائج ہو سکتے ہیں جیسے رشتوں سے لاپروائی کی بنا پر رشتوں سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی طبیب کی لاپروائی کے نتیجے میں مریض کی جان جا سکتی ہے۔ متعین کیے گئے اہداف کی کوشش کرنے میں لاپروائی برتنے سے ہم اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہ سکتے ہیں اور اگر کوئی فرائض و واجبات میں لاپروائی سے کام لے تو وہ آخرت میں دائمی ہلاکت کا شکار ہو سکتا ہے۔ الله پاک ہمیں اس مہلک مرض میں مبتلا نہ کرے اور ہمیں اس مرض سے محفوظ رکھے۔

لاپروائی سے بچنے کے لیے : لاپروائی سے بچنے کے لیے اس کے نقصانات پر غور کیجئے اور اپنے وقت کو اہمیت دیتے ہوئے غیر ضروری کاموں سے اجتناب کریں اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بچیں جو اپنے وقت کو فضول کاموں میں برباد کرتے ہیں اس کے برعکس ہمیں نیک اور پابند شریعت لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہئے۔

لاپروائی ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کی زندگی میں مختلف پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ لاپروائی ایک اچھی صفت نہیں ہے جو انسان کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہے۔ یہ نہ صرف دنیا میں مشکلات کا باعث بنتی ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے نقصانات ہیں۔ ہر انسان بہت سی اچھی اور بری عادتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اسے فائدہ یا نقصان دیتی ہیں لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے کا یقینا نقصان ہی ہوگا۔

لاپروائی کے منفی پہلو:

ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی: لاپروائی انسان کو اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کا باعث بنتی ہے اور فرائض ادا کرنے سے روکتی ہے۔

تعلقات میں خرابی: لاپروائی تعلقات میں خرابی اور عدم تفہیم کا باعث بن سکتی ہے۔

ناکامی: لاپروائی انسان کو اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام کر سکتی ہے۔

خسارہ اور نقصان: یہ صفت انسان کو وقت اور مواقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتی ہے۔

روحانی زوال: لاپروائی انسان کو اللہ کی یاد اور عبادات سے غافل کر دیتی ہے۔لاپروائی پر قرآن مجید میں پر کئی آیات موجود ہیں۔

رسول اللہ ﷺ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں تیری عاجزی اور سستی سے پناہ مانگتا ہوں۔ (نسائی، ص 865، حدیث: 5459)

رسول اللہ ﷺ خود بھی لاپروائی،غفلت اور سستی سے اللہ پاک پناہ مانگتے تھے جو لاپروائی کے نقصان کو واضح کرتا ہے۔ انسان کو اپنی لاپروائی کے اسباب کو سمجھنا چاہیے۔ اپنے اہداف کا تعین کرنا چاہیے اور اہم کاموں کو وقت پر پورا کرنا چاہیے۔لاپروائی سے بچنا ضروری ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور ساتھ ہی ساتھ پرسکون زندگی گزارے۔

اللہ پاک ہمیں لاپروائی اور غفلت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔


دنیا و آخرت کی ناکامی کا سبب: انسان کی فطرت میں غلطی اور سستی کا عنصر پایا جاتا ہے، مگر مسلسل غفلت اور لاپروائی ایک ایسا رویہ ہے جو اسے تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ لاپروائی کا مطلب ہے کسی اہم چیز کو نظر انداز کر دینا، گویا وہ غیر ضروری ہو۔ دین اسلام میں ایسی غفلت کو سخت ناپسند فرمایا گیا ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا (پ 15، الکہف: 28) ترجمہ: اور اس کا کہا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا۔ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ غفلت یعنی لاپروائی، دل کو اللہ پاک کی یاد سے دور کر دیتی ہے اور ایسا شخص گمراہی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔

لاپروائی اکثر جلدبازی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے، اور انسان صحیح وقت پر صحیح کام نہیں کرتا، نتیجۃً پچھتاوے کا شکار ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

یہ حدیث ہمیں احساس ذمہ داری کا درس دیتی ہے کہ انسان کو اپنی حیثیت کے مطابق اپنے فرائض انجام دینا ہوں گے۔ لاپروائی دراصل اسی ذمہ داری سے فرار ہے۔

دعوتِ اسلامی کے بانی شیخ طریقت، امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: لاپروائی سے بچو، لاپروائی انسان کو گمراہی میں ڈال دیتی ہے۔ (نیکی کی دعوت، ص 13)

اسی رسالے میں مزید فرمایا: جو دین کے کاموں میں لاپروا ہے، وہ دنیا کے کاموں میں بھی ناکام رہتا ہے۔ (نیکی کی دعوت، ص 14)

طلبہ، تاجر، ملازمین یا علماء ہر طبقہ اگر اپنی ذمہ داریوں میں سستی اور لاپروائی برتے تو نتائج صرف انفرادی نہیں، اجتماعی طور پر معاشرہ بگڑتا ہے۔ نمازوں میں لاپروائی، والدین کے حقوق میں غفلت، تعلیم میں سستی، یہ سب اعمال برکت سے محروم کر دیتے ہیں۔

مدنی انعامات میں بھی بار بار ہمیں سستی و لاپروائی سے بچنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر ہم مدنی انعامات کے مطابق زندگی گزاریں تو ہم بہت سی لاپروائیوں اور گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ عبادات ادا کرنا دین کی بنیاد ہے، اور لاپروا انسان اس نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔

لاپروائی ایک خطرناک عادت ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس کے انجام پر غور کیجیے! مثال کے طور پر علم دین حاصل کرنے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرنا جہالت ہے، وقت کی قدر نہ کرنے کا انجام حسرت و پچھتاوا ہے اور ڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت ہے۔

لاپروائی صرف ایک عادت نہیں بلکہ ایک خطرناک بیماری ہے، جو وقت کی بربادی، برکت کے خاتمے اور دین سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں، مدنی انعامات پر عمل کریں اور ہر کام کو وقت پر انجام دینے والے بن جائیں۔

اللہ پاک ہمیں لاپروائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

لاپروائی کا مفہوم تو آپ لفظ لاپروائی پڑھتے ہی سمجھ گئے ہوں گے، کیونکہ آپ نے زندگی میں کبھی نہ کبھی یہ لفظ یہ اصطلاح سنی ہوگی اور اس پر آپ کا بارہا عمل بھی رہا ہو گا۔ لاپروائی کہتے ہیں کسی چیز یا عمل کی پروا نہ کرنا، اس کی فکر نہ کرنا، اگر فکر ہے بھی تو اس پر عمل نہ کرنا۔ ہمارے بہت سے اجر والے کاموں میں لاپروائی شامل ہے۔ بعض لاپروائیاں صرف دنیا میں نقصان کا سبب ہیں اور بعض آخرت میں بھی نقصان کا سبب ہیں۔جیسے اگر کوئی بچہ اپنے سکول کا کام ٹھیک سے نہیں کرتا،کوئی عورت گھر کے کام نہیں کرتی کھانا بنانے کپڑے دھونے میں لاپروائی کرتی ہے، کوئی مرد اپنا کام لاپروائی سے کرتا ہے تو یہ اسکا دنیاوی نقصان ہے۔ مگر! جب کوئی بالغ نماز پڑھنے میں لاپروائی کرےکوئی عورت پردہ کرنے میں، غیبت میں تکبر میں چغلی میں لاپروائی کرے تو یہ دین میں لاپروائی ہے۔ اپنی آخرت کے بارے میں لاپروائی ہے یہ گناہ ہے۔ یہ گناہ ہے۔ کبھی کبیرہ کبھی صغیرہ!

لاپروائی کی دو اہم وجوہات ہو سکتی ہیں:

1۔ کام کو ٹالتے رہنا ابھی کرتی ہوں، تھوڑی دیر تک بس تھوڑی اور دیر، اچھا کھانا کھا کر کرتی ہوں اپنا کام، اچھا غسل کر لوں پھر آرام سے بیٹھ کے فریش ہو تو لازمی کر لوں گی، اچھا۔۔۔آج نہیں کرسکی کل سے پکا سب کچھ ٹھیک ٹھیک وقت پر کروں گی۔

اس کا ایک سادہ آسان سا حل ہے جب نماز کا ٹائم ہو تو فوراً پانچ تک گنتی گنیں اور اٹھ جائیں۔ جب ہوم ورک کرنا ہے تو فوراً پانچ تک گن کر کرنا شروع کر دیں۔ تحقیق کے مطابق انسان جب نیا فیصلہ کرتا ہے جیسے میں نماز پڑھ لوں تو اس کو اس فیصلے سے واپس سستی والے موڈ (mood) میں آنے میں پانچ سیکنڈ لگتے ہیں۔

ان پانچ سیکنڈ کو غنیمت جانے اور عمل شروع کر دیں فوراً۔

2۔ کام کی خواہش ہونا مگر ارادہ نہ ہونا۔ مطلب؟ امام غزالی اپنی احیاء العلوم میں ارادہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب انسان اپنی عقل سے کسی کام کا نتیجہ اور اس میں بہتری کو معلوم کرلیتا ہے تو اس کی طبیعت میں بہتری کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کے اسباب حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان کیلئے ارادہ کرتا ہے تو یہ ارادہ شہوت کے ارادے اور حیوانیت کے ارادے کے علاوہ ہے۔

لاپروائی کا ایک علاج: حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کی: مجھے دین میں ایک ایسی بات بتادیجئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی حاجت نہ رہے۔ ارشاد فرمایا: اٰمَنْتُ بِاللہ(میں اللہ پر ایمان لایا) کہہ اور ا س پر قائم رہ۔ (مسلم، ص 40، حدیث: 62)

اگر آپ آج نیک کام لاپروائی کی وجہ سے چھوڑیں گی تو کل قیامت میں آپ کیا کہیں گی؟ اللہ پاک میں روز خواہش کرتی تھی مگر پھر دوسری چیزوں کو ترجیح دینے لگ جاتی تھی!

اللہ پاک سے دعا ہے کہ مجھے بھی اور آپ کو بھی لاپروائی سے بچنے کی توفیق عطا کرے اور اپنی رضا والے کام بالاخلاص اور استقامت کیساتھ کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

لغت میں لاپروائی سے مراد غفلت، بے فکری اور بے احتیاطی ہے، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی کام کی طرف توجہ نہ دینا یا صرف نظر کرنا، اہمیت نہ دینا وغیرہ اس کے معنی میں آ جائے گا، یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر طویل کلام کیا جا سکتا ہے، دور حاضر میں نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس لاپروائی کے سبب بھاری نقصان اٹھایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود افسوس اس امر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی جیسے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ کرنا نتیجتاً موسم برسات میں ملک میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جانا، ڈاکٹرز کی ذرا سی لاپروائی و غفلت مریض کی جان لے سکتی ہے، کسی افسر یا نگران کی معمولی سی تاخیر پورا نظام درہم برہم کر سکتی ہے اسی طرح دیگر شعبہ جات میں بھی لا پروائی کی مثالیں مل سکتی ہیں۔

لاپروائی ایک ایسی عادت ہے جس میں انسان اپنی ذمے داریوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس کے نتائج اکثر منفی ہوتے ہیں جیسے کام کی خرابی، اعتماد میں کمی اور دوسروں کو نقصان پہنچنا۔ لاپروائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان وقت کی قدر کرے، اپنے کام کو سنجیدگی سے لے اور مکمل توجہ کے ساتھ انجام دے۔

قرآن و حدیث میں بھی اس کے متعلق مضامین موجود ہیں، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- (پ 2، البقرۃ: 195) ترجمہ کنز العرفان: اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی اپنے اعمال میں لاپروائی سے کام نہ لو۔

اسی طرح ایک جگہ فرمایا: اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳) (پ 30، العصر: 2، 3) ترجمہ کنز العرفان: بیشک آدمی ضرور خسارے میں ہے مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ جو لوگ غفلت (لاپروائی) میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ نقصان میں ہیں۔

اسی مضمون پہ مبنی حدیثِ نبوی ملاحظہ ہو، چنانچہ کریم آقا کریم ﷺ امت کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو: (1) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (2) صحت کو بیماری سے پہلے (3) مال کو فقر سے پہلے (4) فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور (5) زندگی کو موت سے پہلے۔ (مستدرك، 5/435، حدیث: 7916)

ایک جگہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو اپنے کام غیرسنجیدگی اور لاپروائی سے کرے۔

اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ جو انسان وقت کو ضائع کرتا اور اپنے روز مرہ کاموں میں غفلت و نادانی سے کام لیتا ہے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ہم دیکھتے ہیں کہ جو طلبائے کرام و طالبات سارا سال اپنے اسباق پر توجہ نہیں دیتے انہیں امتحان کے دنوں میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض نتیجۃً ناکام ہو جاتے ہیں ایسے ہی اگر حضرت انسان اپنا مقصدِ حیات فراموش کر دے اور دنیاوی عیش و عشرت میں مشغول ہو کر اللہ و رسول کی نافرمانی کرے تو اسے بروزِ حشر سخت شرمندگی اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور اگر خدا ناخواستہ اللہ پاک کی رحمت شاملِ حال نہ رہی اور آقا ﷺ نے پہچاننے سے انکار فرما دیا تو جہنم ہی ٹھکانا ہو گی لہذا بہتری اسی میں ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔

اللہ کریم بالخصوص دین کے کاموں میں اور بالعموم دیگر کاموں میں غفلت و لاپروائی سے بچتے ہوئے آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

لاپروائی سے مراد غفلت ہے، غفلت کسی بھی معاملے میں ہو خطرناک ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵) (پ 9، الاعراف: 205) ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو، زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اور شام اور غافلوں میں نہ ہونا۔

حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بحرین سے (جزیے کا) مال لے کر واپس لوٹے اور انصار نے آپ کی آمدکی خبر سنی تو سب نے صبح کی نماز حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ جب آپ فارغ ہوئے توسارے آپ کے سامنے حاضر ہو گئے۔ آپ نے انہیں دیکھ کر تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا: میرا خیال ہے کہ آپ لوگوں نے ابو عبیدہ کی آمد کی خبر سن لی ہے کہ وہ کچھ مال لائے ہیں۔ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ایساہی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: خوشخبری سنا دو اور اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کردے گا، پس اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقر (یعنی غربت) کا خوف نہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم پردنیا پھیلا دی جائے گی جیسا کہ تم سے پہلی قوموں پر پھیلائی گئی تھی، پس تم بھی اس دنیا کی خاطر پہلے لوگوں کی طرح باہم مقابلہ کرو گے اور یہ تمہیں غفلت میں ڈال دے گی جس طرح اس نے پچھلی قوموں کو غافل کردیا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 180، 181)

دین میں غفلت و لاپروائی: یہاں دینی امور میں غفلت مراد ہے یعنی وہ بھول ہے جو انسان پر بیدار مغزی اور احتیاط کی کمی کے باعث طاری ہوتی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 179)

دینی معاملات میں لاپروائی کرنادنیوی معاملات میں لاپروائی سے بھی زیادہ خطرناک ہے مگر افسوس آج کل نوجوانوں کی اکثریت اس کا شکار ہے، یاد رہے! نماز روزے اور دیگر فرائض و واجبات کی ادائیگی میں لاپروائی اور صغیر ہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے میں لاپروائی، اللہ و رسول کی ناراضی کے باعث ہلاکت و رسوائی کا ذریعہ ہے۔انجام پر غور کیجئے! لاپروائی ایک خطرناک عادت ہے اس سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس کے انجام پر غور کیجئے! مثلاً حصولِ علمِ دین سے لاپروائی کا انجام جہالت ہے،وقت کی قدر نہ کرنے کا انجام حسرت اور پچھتاوا ہے اور ڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت ہے۔بہرحال دینی امور ہوں یا دنیوی معاملات ہر نوجوان کو چاہئے کہ لاپروائی کی عادت ختم کر کے احساس ذمّہ داری پیدا کرے۔تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکے۔

صحت کے بارے میں لاپروائی: مناسب غذا کھانا،اپنی صحت کا خیال رکھنا، بیمارہونے کی صورت میں علاج کروانا، جتنی نیند ضروری ہے اتنی نیند کرنا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھناآپ کے جسم کی ضرورتیں ہیں ان سے لاپروائی برتنا سخت نقصان دہ ہے۔بعض نوجوان لاپروائی کاایسامظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنی طبعی ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھتےجس کے باعث آئے دن بیمار پڑے رہتے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ نے مسلسل نفلی روزے رکھنے اور رات کو نفلی قیام کرنے والے صحابی سے فرمایا: تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے اور تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ (بخاری، 1/649، حدیث:1975) یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے سے تمہارا جسم بہت کمزور ہوجائے گا اور بالکل نہ سونے سے نگاہ کمزور پڑجانے کا خطرہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/188)

فرائض و واجبات وسنن موکدہ کی ادائیگی میں غفلت ناجائز وممنوع اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 181)


جن خوش نصیبوں نے ایمان کے ساتھ حضور ﷺ کی صحبت پائی چاہے یہ صحبت ایک لمحہ کی ہی کیوں نہ ہو اور ایمان کی حالت میں ہی ان کا خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا ہے یوں تو تمام صحابہ کرام ہی عادل متقی اور پرہیزگار اپنے پیارے آقا پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الہٰی کی خوش خبری پانے کے ساتھ ساتھ بےشمار فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں ان میں سر فہرست وہ عظیم ہستی ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ کے بعد(اس امت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟فرمایا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3671)

اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک میں صاحبہٖ یعنی نبی کے ساتھی اور ثانی اثنین دو میں دوسرا فرمایا اور یہ فرمان کسی دوسرے کے حصہ میں نہیں آیا۔ (پ 10، التوبۃ: 40)

رسول اللہ ﷺ نے صدیق اکبر سے فرمایا:تم میرے صاحب ہو حوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔ (ترمذی، 5/378، حدیث: 3690)

حضور ﷺ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بہت شدید محبت تھی اور تمام صحابہ کرام میں سے آپ رضی اللہ عنہ ہی حضور ﷺ کے زیادہ قریب تھے اس لئے آپ ﷺ کے بعد خلافت کے حق دار بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔

روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتی ہیں جب نبی کریم ﷺ سخت بیمار ہوئے تو حضرت بلال آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ اس زمانے میں ابو بکر نماز پڑھاتے پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن پایا تو کھڑے ہوئے کہ دو شخصوں کے درمیان لے جائے جاتے تھے اور آپ کے قدم زمین پر گھسٹتے تھے حتی کہ آپ مسجد میں تشریف لائے جب صدیق اکبر نے آپ کی آہٹ محسوس کی تو آپ پیچھے ہٹنے لگےحضور ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ نہ ہٹو پس آپ تشریف لائے اور حضرت صدیق کی بائیں جانب بیٹھ گئے کہ صدیق اکبر کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے اور نبی کریم ﷺ بیٹھ کر اور صدیق اکبر حضور ﷺ کی نماز کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ صدیق اکبر کی نماز کی۔

حضور ﷺ نے اپنے مرض وصال میں بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہی نماز پڑھنے کے لئے منتخب فرمایا کسی دوسرے صحابی کو اجازت نہ تھی۔

فرمان رسول اللہ ﷺ: اگر میں اپنا خلیل بناتا تو ضرور ابو بکر کو ہی خلیل بناتا۔ (ترمذی، 5/373، حدیث: 3680)


پیاری پیاری اسلامی بہنو! حضور اکرم ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے اس بات کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟تو آپ نے فرمایا:عائشہ،میں نے عرض کیا:عورتوں میں سے نہیں بلکہ مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں؟تو آپ نے فرمایا:ان کے والد ابو بکر۔(بخاری، 2/519، حدیث:3662)

جو یار غار محبوب خدا صدیق اکبر ہیں وہی یار مزار مصطفےٰ صدیق اکبر ہیں

عمر سے بھی وہ افضل ہیں وہ عثماں سے بھی ہیں اعلیٰ یقیناً پیشوائے مرتضیٰ صدیق اکبر ہیں

اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو عورتوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محبوب تھیں اور مردوں میں ان کے والد یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ محبوب تھے۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو محبوب رب اکبر دو عالم کے تاجور ﷺ سے بےپناہ عشق و محبت تھی اسی طرح رسول رحمت سراپا جود و سخاوت ﷺ بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت و شفقت فرماتے تھے۔اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ رضویہ جلد 8 صفحہ نمبر 610 پر وہ احادیث مبارکہ جمع فرمائی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیارے صدیق اکبر سے اپنی بےمثال محبت کا اظہار فرمایا ہے۔چنانچہ اس ضمن میں دو روایات ملاحظہ فرمائیے:

(1) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ایک تالاب میں تشریف لے گئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:ہر شخص اپنے یار کی طرف پیرے(یعنی تیرے)سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ باقی رہ گئے رسول اللہ ﷺ صدیق اکبر کی طرف پیر یعنی تیر کے تشریف لے گئے اور انہیں گلے لگا کر فرمایا:اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر صدیق کو بناتا لیکن وہ میرے یار ہیں۔ (المعجم الکبیر، 11 /208)

(2)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے حضور پرنور ﷺ نے ان سے مصافحہ فرمایا اور گلے لگایا اور ان کے دہن یعنی منہ پر بوسہ دیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی:کیا حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق کا منہ چومتے ہیں؟فرمایا:اے ابو الحسن! ابو بکر کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتبہ میرے رب کے حضور۔ (فتاویٰ رضویہ، 8/610 تا 612)

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار غار محبوب خدا صدیق اکبر کا

الٰہی!رحم فرما خادم صدیق اکبر ہوں تیری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق اکبر کا

پیاری پیاری اسلامی بہنو! یقیناً تمام صحابہ کرام ہی چمکتے دمکتے ستارے ہیں جن کی شان و عظمت ایسی بے مثال ہے کہ کوئی بھی امتی ان کے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا،لیکن تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے نمایاں ہے،آپ رضی اللہ عنہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ ہیں، اللہ کریم نے آپ کو کئی خصوصیات سے نوازا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی وہ صحابی ہیں جو سرکار ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ آئیے!حضور کی آپ سے محبت کے مزید چند واقعات ملاحظہ کرتی ہیں، چنانچہ

آقائے نامدار ﷺ نے اپنے مرض وصال میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی نماز پڑھانے کے لئے منتخب فرمایا حضرت ابو بکر صدیق نے حضور ﷺ کی حیات ظاہری میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کو 17 نمازیں پڑھائی اور کسی دوسرے صحابی کو اس کی اجازت نہ دی۔ (اسلامی بیانات، 11/160)

حضور ﷺ نے مدینۃ المنورہ کی طرف جب ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی اپنے ہم سفر کے طور پر مختص فرمایا اور آپ ﷺ نے باقی صحابہ کرام علیہم رضوان کو ہجرت کا حکم دے دیا لیکن آپ کو اپنے پاس ہی روکے رکھا یہ شرف تمام صحابہ کرام میں سے صرف اور صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہوا۔

علمائے کرام نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی اور تمام صحابہ کرام میں سے آپ ہی حضور ﷺ کے زیادہ قریب تھے اس لئے حضور ﷺ کے بعد خلافت کے حقدار بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ (فقہ السیرۃ، ص 244)


حضور اکرم ﷺ کے سب سے قریبی ساتھی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ان کا اصل نام عبد اللہ تھا اور ان کی کنیت ابو بکر تھی۔انہیں صدیق کا لقب دیا گیا،جس کا مطلب ہے سچائی کی تصدیق کرنے والا کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے محمد ﷺ کی نبوت اور رسالت کی تصدیق کی تھی۔

یہ اسی طرح سے ہے جیسے ایک باکمال استاد جو کہ بہت سی خوبیوں کا جامع ہوتا ہے اپنے جس شاگرد میں جو ممتاز صلاحیت پاتا ہے اسی خوبی میں اس کو باکمال بناتا ہے جیسے کہ جس شاگرد میں فقیہ بننے کی صلاحیت کو پاتا ہے اس کو فقیہ بناتا ہے ٫ جس میں مقرر بننے کی صلاحیت واضح ہوتی ہے اس کو کامیاب مقرر بناتا ہے تو ایسے ہی ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنے جس صحابی میں جس خوبی کی ممتاز صلاحیت پائی اسی وصف خاص میں کامل بنایا لہذا اپنے پیارے صحابی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں صدیق بننے کی صلاحیت کو واضح طور پر محسوس فرمایا تو اسی وصف میں ان کو ممتازوکامل بنایا۔اور صدیق ہونا ایسا وصف ہے جو بہت سی خوبیوں کا جامع ہے اور اس وصف خاص کے سب سے زیادہ مستحق صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی تھی اسی لئے وہ اس سے سرفراز فرمائے گئے۔

اصدق الصادقیں سید المتقیں چشم و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام

حضور کی صدیق اکبر سے محبت: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور ﷺ سے محبت ایک لازوال اور بے مثال محبت تھی،ایسے ہی حضور ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے محبت بھی سب سے زیادہ تھی جو تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔حضرت ابو بکر صدیق نہ صرف حضور ﷺ کے قریبی ساتھی تھے بلکہ ان کے سچے اور وفادار دوست بھی تھے۔ان کی محبت میں سچائی،ایثار اور قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ حضور ﷺ کی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کے چند پہلو درج ذیل ہیں:

غار ثور میں ساتھ: ہجرت کے وقت جب حضور ﷺ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی تھے جن کو ہجرت کی رات سنگتِ رسول ﷺ کی ہی بدولت ثانى اثنين یعنی کہ دو میں سے دوسرا ہونے کا شرف ملا۔ (پ 10، التوبۃ: 40)

نماز کی امامت: یہاں تک کہ ابن زمعہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھیں مگر اتفاق سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت موجود نہ تھے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے تاکہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں لیکن حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں نہیں، اللہ اور مسلمان ابو بکر ہی سے راضی ہیں،وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ (تاريخ الخلفاء، ص 43)

مال و دولت کی قربانی: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کی راہ میں اپنا مال و دولت خرچ کیا اور کبھی بھی کسی چیز کی پرواہ نہ کی۔اسی طرح سے ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ کہ ابو بکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ (ابن ماجہ، 1 / 17، حدیث: 94)

ان تمام چیزوں سے حضور خاتم النبیین ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے محبت جھلکتی ہے اسی طرح سے ایک اور روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ابو بکر سے محبت رکھنا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا میرے ہر امتی پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 40)

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور ﷺ سے محبت ایک ایسی مثال ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ رہے گی۔


آپ کا نام عبد اللہ بن عثمان ہے۔ آپ کی کنیت ابو بکر، لقب عتیق اور صدیق ہے۔ آپ عام الفیل کے اڑھائی سال کے بعد اور سرکار ﷺ کی ولادت کے دو سال اور چند ماہ بعدپیدا ہوئے۔ آپ چھ ماہ شکم مادر میں رہے اور دو سال اپنی والدہ کا دودھ پیا۔ آپ کی جائے پرورش مکہ مکرمہ ہے۔آپ صرف تجارت کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے۔ آپ اپنی قوم میں بڑے مالدار بامروت، حسن اخلاق کے مالک اور نہایت ہی عزت و شرف والے تھے۔

صدیق اکبر سے حضور کی محبت:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 44)

یار غار محبوب خدا: نبی کریم ﷺ نے ابو بکر الصدیق سے فرمایا: غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ رہوگے۔ (ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690)

بیان ہو کس زبان سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہیں یار غار،محبوب خدا صدیق اکبر کا

بابِ صدیق پر بارانِ نور: حضرت مقدام سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق سے حضرت عقیل بن ابی طالب نے کچھ سخت کلامی کی مگر ابو بکر صدیق نے نبی کریم ﷺ کی قرابت داری کا خیال کرتے ہوئے حضرت عقیل بن ابی طالب کو کچھ نہیں کہا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ابو بکر صدیق سے پورا ماجرا سن کر نبی کریم ﷺ مجلس میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو سن لو!میرے دوست کو میرے لئے چھوڑ دو تمہار ی کیا حیثیت ہے؟اور ان کی کیا حیثیت ہے؟تمہیں کچھ معلوم ہے؟خدا کی قسم!تم لوگوں کے دروازے پر اندھیرا ہے مگر ابو بکر کے دروازے پر نور کی بارش ہورہی ہے خدا کی قسم!تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور ابو بکر نے میری تصدیق کی تم لوگوں نے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ابو بکر نے میرے لئے اپنا مال خرچ کیا اور تم لوگوں نے میری مدد نہیں کی مگر ابو بکر نے میری غمخواری کی اور میری اتباع کی۔ (تاریخ الخلفاء، ص 41)

حاصل کلام: اس سے حضور ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت ظاہر ہوتی ہے، آپ کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ یارغار و یار مزار ہیں اور بروز قیامت بھی اس حال میں تشریف لائیں گے کہ صدیق اکبر کا ہاتھ آپ ﷺکے ہاتھ میں ہوگا۔حضور نے ان کی جتنی مدح و توصیف بیان فرمائی ہے کسی اور صحابی کی نہیں کی۔آپ فقط رسول خدا ﷺکے نہیں بلکہ خود خدا تعالیٰ کے بھی محبوب بندے ہیں کہ پورا عالم خدا کی رضا چاہتا ہے اور خدا آپ کی رضا چاہتا ہے۔

سبھی اصحاب سے بڑھ کر مقرب ذات ہے ان کی رفیقِ سرورِ ارض و سما صدیق اکبر ہیں


خلیفہ اول،جانشین محبوب رب قدير،امير المؤمنين حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی عبداللہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو بکر اور صدیق و عتیق آپ رضی اللہ عنہ کے القاب ہیں۔سبحان اللہ!صدیق کا معنی ہے:بہت زیادہ سچ بولنے والا۔آپ رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت ہی میں اس لقب سے ملقب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچ بولتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ قریشی ہیں اور ساتویں پشت میں شجرہ نسب رسول اللہ ﷺ کے خاندانی شجرے سے مل جاتا ہے۔

صدیق اکبر کا بارگاہ رسالت میں مقام و مرتبہ: جس طرح عاشق اکبر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی پاک ﷺ سے بے پناہ عشق و محبت تھی،اسی طرح رسول رحمت،سرا پا جو دو سخاوت ﷺ بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت و شفقت فرماتے، جگہ بہ جگہ آپ رضی اللہ عنہ کو دعاؤں سے نوازتے آپ کے فضائل کو بیان فرماتے اور آپ کو اخروی انعامات کی بشارت دیتے جس کا ثبوت کئی احادیث کریمہ سے دیکھنے کو ملتا ہے، جیسا کہ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ خاتم المرسلين ﷺ حضرت على المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے تھے اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ فرمایا پھر گلے لگا کر آپ رضی اللہ عنہ کے منہ کو چوم لیا اور حضرت على المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:اے ابو الحسن!میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے۔ (الریاض النضرة،1/185)

اس متعلق اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن میں سے چند کا ذکر پیش خدمت ہے، چنانچہ

بارگاہ رسالت میں صدیق اکبر کی اہمیت: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ احد میں حضرت ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمن کو(جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے) مقابلے کے لئے للکارا تو رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔آپ رضی اللہ عنہ نے سرکار ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت عطا فرمائیں،میں ان کے اول دستے میں گھس جاؤں گا تو نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے آپ سے ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!ابھی تو ہمیں تمہاری ذات سے بہت سے فائدے اٹھانے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں کہ میرے نزدیک تمہاری حیثیت بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہے۔ (تفسیر روح البیان،9/413)

سرکار نامدار کا سچا یار: حضرت عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ اور حضور ﷺ کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے،حضور نے ارشاد فرمایا:ہر شخص اپنے یار کی طرف تیرے، سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اللہ ﷺ اور ابو بكرصديق باقی رہے،رسول اللہ ﷺ صديق اکبر کی طرف تیر کے تشریف لے گئے اور انہیں گلے لگا کر فرمایا:میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ (المعجم الكبير، 1/208)

امت پر تین چیزوں کا وجوب: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں جس نے اپنی دوستی اور مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کیے وہ ابو بکر صدیق ہیں،پس ان سے محبت رکھنا،ان کا شکر یہ ادا کرنا اور ان کی حفاظت کرنا میری امت پر واجب ہے۔ (فيضان صديق اكبر،ص 581، 582)

محبوبِ حبيبِ خدا: حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!لوگوں میں آپ کو سب سے بڑھ کر کون محبوب ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عائشہ انہوں نے دوبارہ عرض کیا: مردوں میں سے کون ہے؟فرمایا:عائشہ کے والد۔ (بخاری،3/126، حدیث:4358)

ابو بکر پر کسی کو فضیلت نہ دو: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مہاجرین و انصار حضور نبی رحمت شفیع امت ﷺ کے دروازہ کے پاس بیٹھے کسی بات پر بحث کر رہے تھے(غالبا مسجد میں آپ کے دروازے کے قریب بیٹھے تھے کیونکہ آپ کا درواز مسجد میں کھلتا تھا دوران بحث آوازیں بلند ہو گئیں تو آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: کس بات پہ بحث کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!فضیلت پر بحث ہورہی تھی۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ابو بکر پر کسی کو فضیلت مت دو کہ وہ دنیا و آخرت میں تم سب سے افضل ہے۔ (فيضان صديق اكبر،ص 585)

سبحان اللہ!یہ تمام احادیث کریمہ رسول اکرم ﷺ کی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت کو نہایت ہی عمدہ انداز میں بیان کرتی ہیں کہ کہیں رسول اکرم ﷺ نے یار غار رضی اللہ عنہ کی فضلیت کو بیان فرمایا تو کہیں ان کے سب سے بڑھ کر محبوب ہونے کو اور یہی نہیں بلکہ ان سے محبت کو اپنی امت پر لازم قرار فرما دیا لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی جان و مال سے بڑھ کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت کرے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے ہر دم بیزار رہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عشق و محبت میں ہی موت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامين ﷺ