عرب کی سر
زمین پر اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان کے
ساتھ بد سلوکی کرنا بھی عام تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں سے ہونے والے برے
سلوک کی مذمت کی بلکہ ان سے نرمی و شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال
رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔
قرآن مجید میں
23 مختلف مقامات پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اٰتُوا
الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا
الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا
كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان
کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے
مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔
شان
نزول: اس
آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اس کے یتیم بھتیجے کا بہت
زیادہ مال تھا، جب وہ یتیم بالغ ہوا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے
انکار کر دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اس شخص نے یتیم کا مال اس کے حوالے
کر دیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ (بیضاوی، 2/141)
یتیم اس
نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہو جائے۔ کثیر احادیث میں یتیم کے
ساتھ حسن سلوک کرنے اور بد سلوکی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے:
چنانچہ حضور ﷺ
نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے
ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ
بدسلوکی کی جاتی ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193،
حدیث: 3679)
یتیموں
کی حق تلفی سے بچئے: یتیموں کی وراثت میں ان کے حصے سے محروم کر دینے
اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ
اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا
یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ
سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق
ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم
جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
حدیث مبارکہ
میں ہے: چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور
نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا، ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔
(مستدرک، 2/338، حدیث: 2307)