یتیم کسے کہتے
ہیں؟ ہر وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔ (در مختار مع رد
المحتار، 10/416)
اس میں شک
نہیں کہ جب تک باپ سلامت رہتا ہے وہ اپنے بچوں کے لئے مضبوط محافظ، بہترین نگران (Guardian)،
شفیق استاذ اورایک سایہ دار درخت ثابت ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی دنیا سے رخصت ہوتا ہے
تو بچّوں کے سر سے گویا سائبان لپیٹ دیا جاتا ہے۔ بظاہر پورا گھر بے سہارا ہو جاتا
ہے اور ایسے میں بعض اپنے بھی پرائے ہونے لگتے ہیں، بعض رشتہ دار نگاہیں پھیر لیتے
ہیں اور تعلق رکھنے والے حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اگر باپ کچھ مال چھوڑ کر گیا ہو
تو کچھ رشتےدار بھوکے گدھ کی طرح مال وراثت پر نظریں گاڑ کر تاک میں بیٹھ جاتے اور
موقع ملنے پر یتیموں کا حق ہتھیا کر اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔
اسلام نے
مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی
سختی سے تاکید کی ہے،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اس میں معاشرے کے ہر فرد کے
حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع مہیا کر
دیئے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے دن گزار سکے۔
یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے
حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑ لینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ سر زمین عرب
پر اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کےحقوق دبانا اور ان پرظلم و
ستم کرنا بھی عام تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں کےساتھ ہونے والے برے سلوک کی
مذمّت کی بلکہ ان سے نرمی و شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے
کا حکم دیا ہے۔آج ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے بے پناہ حقوق
متعین کئے ہیں اور آج کل یتیموں سے ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔
دنیا کو حاصل
کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتیٰ کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا
بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی
جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ
30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اسی طرح ارشاد ہے:
وَ اٰتُوا
الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا
الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا
كَبِیْرًا(۲) (پ
4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ
کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ
ہے۔
یتیم کے حقوق
پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن
حکیم میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں سے حسن سلوک، ان
کے اموال کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور ان پر ظلم و
زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنیوالے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔ ارشاد
باری تعالیٰ ہے: یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ افسوس کہ لوگ
اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا
شکار ہوتے ہیں، انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔
یتیموں کو
وراثت میں ان کے حصّے سے محروم کردینے اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق
سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى
ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ
نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء:
10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ
بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
حدیث پاک میں
ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ
ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔
(مستدرک،2/338، حدیث:2307) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سب سے
بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو اور مسلمانوں
کے گھروں میں سب سے براگھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی
ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حديث:3679)
یاد رکھیے!
یتیم کی آہیں اور بد دعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں۔ روز قیامت ہم سب کو اللہ کے
حضور ڈھائے گئے ظلم و جبر کا حساب دینا ہو گا۔جہاں ہم معاشرے میں دیگر امور کی طرف
توجہ کرتے ہیں، اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں وہاں معاشرے کے یتیموں
کی جانب دیکھنا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہماری امداد،محبت،پیار کے منتظر ہوتے
ہیں،خواہ وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا اہل محلہ یا کہیں بھی رہتے ہوں،ان کا مداوا کرنا
صاحبِ حیثیت کی ذمہ داری ہے، بہرحال ہمیں ہر حال میں ان امور کی جانب توجہ کرتے ہو
ئے یتیم کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب
فرمائے۔