اسلام ایک
ایسا دین ہے جو معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا ضامن ہے، خصوصاً کمزور، محتاج اور بے
سہارا طبقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ انہی میں سے ایک اہم طبقہ یتیموں کا ہے۔ یتیم
وہ نابالغ بچہ ہوتا ہے جس کا والد فوت ہو چکا ہو۔ چونکہ وہ اپنی عمر اور حالات کی
بنا پر خود اپنا دفاع اور کفالت نہیں کر سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کے
حقوق کی تاکید کی بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا۔
قرآن کریم میں
ارشاد ہے: اَرَءَیْتَ الَّذِیْ
یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ
30، الماعون: 1، 2) ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو
یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ یعنی جو شخص یتیم سے بدسلوکی کرے، وہ درحقیقت دین کا انکار
کرنے والوں جیسا عمل کرتا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ
الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗۚ- (پ 8،
الانعام: 152)ترجمہ: اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر بہتر طریقے سے، یہاں تک
کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائے۔
اللہ کے رسول ﷺ
نے یتیموں پر ظلم کرنے والوں کو سخت وعید سنائی۔ فرمایا: جس نے کسی یتیم کا مال
ناحق کھایا، وہ قیامت کے دن اپنے پیٹ میں آگ لے کر آئے گا۔ یہ تمام آیات و احادیث
اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یتیموں سے محبت، شفقت اور ان کی کفالت دین اسلام
کا ایک اہم جزو ہے، جب کہ ان کے ساتھ بدسلوکی، ظلم، یا بے رخی ایمان کے منافی ہے۔
اسلام نے
یتیموں کو معاشرے کا محتاج فرد نہیں بلکہ ایک امانت اور ذمہ داری قرار دیا ہے۔
یتیم کی کفالت، ان کے حقوق کی حفاظت اور ان کے ساتھ نرمی و محبت اختیار کرنا نہ
صرف حسن اخلاق کی بلند ترین مثال ہے بلکہ جنت کا راستہ بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم
اپنے معاشرے کے یتیم بچوں کی عزت کریں، ان کے حقوق ادا کریں اور ان کے لیے سہارا
بنیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور نبی کریم ﷺ کی قربت حاصل ہو۔