وَ اٰتُوا
الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا
الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا
كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان
کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے
مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ایک
شخص کی نگرانی میں اس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا، جب وہ یتیم بالغ ہو ا
اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی
جسے سن کر اس شخص نے یتیم کا مال اس کے حوالے کردیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور
اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ (بیضاوی، 2 / 141)
آیت کا مفہوم
یہ ہے کہ جب یتیم اپنا مال طلب کریں تو ان کا مال ان کے حوالے کردو جب کہ دیگر
شرعی تقاضوں کو پورا کرلیا ہے اور اپنے حلال مال کے بدلے یتیم کا مال نہ لو جو
تمہارے لئے حرام ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے کر اس کا عمدہ
مال لے لو۔ یہ تمہارا گھٹیا مال تمہارے لئے عمدہ ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال ہے
اور یتیم کا عمدہ مال تمہارے لئے گھٹیا اور خبیث ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے حرام ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا حرام ہوا یعنی گھٹیا
معاوضہ دے کر کھانا بھی حرام ہے تو بغیر معاوضہ کے کھالینا تو بطریق اولیٰ حرام
ہوا۔ ہاں شریعت نے جہاں ان کا مال ملا کر استعمال کی اجازت دی وہ جدا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا
اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ
سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ
4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ
میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں
گے۔
اس سے پہلی آیات
میں یتیموں کا مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں یتیموں کا مال ناحق
کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے
کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید لطف و کرم
کے حقدارتھے۔اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ
بھرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ
یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔ (تفسیر کبیر، 3 / 506)
یتیموں
کا مال ناحق کھانے کی وعیدیں: احادیث مبارکہ میں بھی یتیموں کا مال
ناحق کھانے پر کثیر وعیدیں بیان کی گئی ہیں،ان میں سے 3وعیدیں درج ذیل ہیں:
(1) حضور اقدس
ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ
ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی: یا رسول اللہ! ﷺ، وہ کون لوگ ہوں
گے؟ ارشاد فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا ترجمہ: بیشک
وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے
ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 2 / 9، جزء: 4 ، حدیث: 9279)
(2) میں نے
معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر
ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر
ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض
کی: یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، 2 /467، حدیث: 725)