یتیموں سے بدسلوکی
از بنت کاشف شیراز،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
یتیم
کسے کہتے ہیں؟ ہر
وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔ (ردمختار مع ردالمحتار، ج 10، ص 416) بچہ یا بچی
اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں، جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔
جیسا کہ مفسر
شہیر، حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمتہ الحنان فرماتے ہیں۔ بالغ ہو
کر بچہ یتیم نہیں رہتا۔ انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو،جانور کا
وہ بچہ یتیم ہے جس کی ماں مر جائے، موتی وہ یتیم ہے سیپ میں اکیلا ہو اسے درّ یتیم
کہتے ہیں یہ بڑا قیمتی ہوتا ہے۔
یتیموں کی بد
سلوکی کے بارے میں قرآن پاک میں بڑی سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یتیموں کے حقوق کا
خاص خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
الله تعالیٰ
فرماتا ہے: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ
فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر
دباؤ نہ ڈالو۔ اس آیت مبارکہ سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یتیموں سے سختی،
ظلم یا بد سلوکی نہ کی جائے۔
یتیموں سے حسن
سلوک کرنے اور ان کی خبر گیری کرنے میں رسول اللہ ﷺ کا کردار ہمارے لیے سراپا
ترغیب ہے۔ آپﷺ نے نہ صرف خود یتیموں و بےکسوں کی مدد فرمائی بلکہ رہتی دنیا تک
اپنے ماننے والوں کو اس کا درس بھی دیا۔
یتیموں
کی حق تلفی سے بچئے: یتیموں کی وراثت میں ان کے حصے سے محروم کر دینے
اور ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ
ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ
اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا
یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ
سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق
ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم
جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
حدیث پاک میں
ہے: چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالی نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور نہ
ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا، ان میں سے ایک یتیموں کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2307) اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں
کے مال و حقوق پر نا جائز قبضہ کرنا، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنا اللہ کے ہاں
سخت سزا کا باعث ہے۔
حضور ﷺ نے
فرمایا: مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا
برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بد ترین گھر وہ ہے، جہاں یتیم کے
ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)
یتیموں
سے بد سلوکی کی اقسام:
مالی
بد دیانتی: ان
کے مال میں خیانت، چوری، یا ناجائز فائدہ اٹھانا۔
جذباتی
ظلم: انہیں
حقیر سمجھنا، جھڑکنا، پیار سے محروم رکھنا۔
سماجی
نظر اندازی: تعلیم،
تربیت یا شادی کے حقوق نہ دینا۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والی چیزوں
سے بچو! صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! وہ کون سی ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ
شرک کرنا، جادو کرنا، کسی نفس کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سودکھانا،
یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنا، پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت
لگانا۔ (بخاری، 2/242، حدیث: 2766)
یتیم کا مال
کھانا گناہ کبیرہ ہے اور جہنم میں لے جانے کا باعث ہے۔ یتیم کے مال و حقوق کی
حفاظت اسلامی معاشرے کی بنیاد و ذمہ داری ہے۔ یتیموں سے بد سلوکی ایک ایسا گناہ ہے
جو دنیا اور آخرت دونوں میں وبال بن سکتا ہے۔ یاد رکھیے آج اگر ہم یتیموں کے دکھ
درد کو ہلکا کریں گے اور ان کے چہروں میں مسکراہٹ لائیں گے تو الله کریم ہماری
دنیا اور آخرت کو روشن فرمائے گا۔