وہ نابالغ
بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہوگیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/ 416) بچّہ یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں
جب تک بالغ نہ ہوں، جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے، جیسا کہ مفسّر شہیر، حکیم
الامّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: بالغ ہو کر بچہ یتیم
نہیں رہتا۔ انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، جانور کا وہ بچہ
یتیم ہےجس کی ماں مر جائے، موتی وہ یتیم ہے جو سیپ میں اکیلا ہو اسے دریتیم کہتے
ہیں بڑا قیمتی ہوتا ہے۔ (نورالعرفان، ص 121)
یتیم کے سا تھ
حسن سلوک کرنے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی حدیث پاک میں بڑی فضیلت آئی ہے،
چنانچہ حسن اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور ﷺ کا فرمان روح پرور ہے: مسلمانوں کے
گھروں میں بہترین گھر وہ ہےجس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور
مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا برتاؤ کیا جاتا
ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 193، حدیث: 3679)
خدائے رحمٰن
کا فرمان عالیشان ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ
اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا
یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ
سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق
ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم
جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
حدیث شریف میں
ہے: یتیم کا مال ظلماً کھانے والے قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ ان کے منہ، کان
اور ناک سے بلکہ ان کی قبروں سے دھواں ا ٹھتا ہو گا، جس سے وہ پہچانے جائیں گے کہ
یہ یتیموں کا مال ناحق کھانے والے ہیں۔ (تفسیر درمنثور، 2/443)
روایات میں
ہے: مکہ مکرمہ میں ایک یتیم بچہ تھا، اس امّت کے فرعون یعنی مکہ پاک کے بہت بڑے
کافر ابوجہل نے اس یتیم کی پرورش کی ذمّہ داری اپنے سر لے لی اور وہ سارا مال جو
اس بچے کو وراثت میں ملا تھا، وہ بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔اب چاہئے تو یہ تھا کہ
ابوجہل اس یتیم بچے کی اچھے سے دیکھ بھال کرتا مگر یہ بدبخت کافر تھا،اس کے دل میں
حرص و ہوس بھری ہوئی تھی،اس نے یتیم کی پرورش کرنے کی بجائے الٹا اس کے ہی مال پر
قبضہ جما لیا۔ ایک دن وہ یتیم بچہ ننگے بدن اس کے پاس آیا اور اپنا مال اس سے
مانگا، اس پر ابوجہل بدبخت نے بےچارے یتیم کو دھکے دے کر نکال دیا۔ اس پر قریش کے
دوسرے سرداروں نے اس یتیم سے کہا:تم محمّدﷺ کے پاس جاؤ! وہ تمہاری مدد کر دیں گے۔
قریش کے سرداروں نے تو یہ بات بطور مذاق کہی تھی، ان کا مقصد تھا کہ یہ یتیم بچہ
محمّد ﷺ سے مدد مانگے گا، وہ اس کی مدد کر
نہیں پائیں گے۔ مگرانہیں کیا معلوم! وہ ربّ کائنات کے محبوب ہیں، وہ ایک ابرو کا اشارہ
ہی فرما دیں تو دنیا ادھر سے ادھر ہو سکتی ہے۔
غم
و رنج و الم اور سب بلاؤں کا مداوا ہو اگر
وہ گیسوؤں والا مرا دلدار ہو جائے
اشارہ
پائے تو ڈوبا ہوا سورج برآمد ہو اٹھے انگلی
تو مہ دو بلکہ دو دو چار ہو جائے
جن کے اشارے
سے ڈوبا سورج پلٹ آئے،انگلی اٹھائیں تو چاند دو ٹکڑے ہو جائے، کیا ان کے چاہے سے
ایک یتیم بچے کا دکھ دور نہیں ہوسکے گا مگر غیر مسلم کیا جانیں حبیب خداکامقام!
خیر! وہی یتیم
بچہ دوجہاں کے تاجدار ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی فریاد پیش کی۔ پیارے آقا نے
اس بچے کو ساتھ لیا اور فوراً ابوجہل کے گھر تشریف لے گئے۔قریش کے سردار تو یہ
خیال کر رہے تھے کہ ابوجہل اکڑ دکھائے گا، معاذ اللہ!رسول خدا ﷺ کے ساتھ گستاخانہ
رویّہ اختیارکرے گا مگر یہ کیا! ابو جہل نے جیسے آپ کو دیکھا تو ادب سے مرحبا کہہ
کر آپ کا استقبال کیا اور فوراً ہی یتیم کا مال لا کراس کے حوالے کردیا۔
یہ دیکھ
کرقریش کے لوگ حیران رہ گئے،جب انہوں نے ابوجہل سے ماجرا پوچھا تو وہ بولا: خدا کی
قسم!میں نے محمّد ﷺ کے دائیں اور بائیں ایک نیزہ دیکھا،مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں
نے ان کی بات نہ مانی تو یہ نیزہ مجھے پھاڑ ڈالے گا۔ (تفسیر کبیر، 11/301)