یتیم
کسے کہتے ہیں؟ وہ
نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/416) بچّہ
یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں،جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔
قرآن کریم میں
یتیموں کا مال کھانے کی سزا بیان کی گئی، چنانچہ ارشاد فرمایا: اِنَّ
الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى
ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ
نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ
4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ
میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں
گے۔
یتیم
کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟ یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور
سخت حرام ہے۔ قرآن پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔
افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ
کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک اور
اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں
کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی
کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں ملوّث
ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثا میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال
سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل
ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقرا کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثا کے مال سے
تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے
گااور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔
یتیموں
سے بدسلوکی کی اقسام: جذباتی بدسلوکی، جیسے یتیم بچوں کو طعنہ دینا، ان
کی محرومیوں کا مذاق اڑانا، ان کی نفسیاتی حالت کو نظرانداز کرنا بدترین سلوک میں
شامل ہے۔ جسمانی تشدد، مثلاً گھریلو ملازم یا زیرِ کفالت یتیم بچوں پر ہاتھ
اٹھانا، ان سے سخت مشقت لینا اور ان کی جسمانی صحت کو نظرانداز کرنا ظلم ہے۔ تعلیمی
و معاشی نظراندازی جیسے یتیم بچوں کو تعلیم کے مواقع سے محروم رکھنا اور ان کی
بنیادی ضروریات پوری نہ کرنا ایک سنگین ناانصافی ہے۔ وراثتی حق تلفی مثلاً اکثر
یتیم بچوں کو ان کے والدین کی جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے، جو شرعاً اور
قانوناً ان کا حق ہے۔
قرآن مجید میں
فرمایا گیا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ
فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر
دباؤ نہ ڈالو۔
معاشرتی
ذمے داری: یہ
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ یتیم بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آئیں۔ ان کی
تعلیم، تربیت اور کفالت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اگر ہم خود ان کی مدد نہیں کر
سکتے تو کم از کم ایسے اداروں کا ساتھ دیں جو یتیموں کی فلاح کے لیے کام کر رہے
ہیں۔
یتیم
بچوں کی حالت زار: ہمارے معاشرے میں اکثر یتیم بچوں کو ایسے رویوں کا
سامناکرنا پڑتا ہے جو ان کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں۔ ان سے کم تر انسانوں جیسا سلوک
کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ حقارت، بے اعتنائی اور نفرت برتا جاتا ہے۔ یہ بچے محبت،
توجہ اور سہارے کے سب سے زیادہ محتاج ہوتے ہیں لیکن انہیں اکثر دربدر کی ٹھوکریں
کھانی پڑتی ہیں۔ ہمارے اردگرد کئی ایسے ادارے ہیں جو یتیم بچوں کی دیکھ بھال کر
رہے ہیں، جیسے یتیم خانے، فلاحی ادارے، اور دینی مدارس۔ لیکن اگر ہم بطور فرد اپنے
اردگرد کسی یتیم کو محرومی کا شکار دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں، تو یہ بھی
بدسلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔
یتیم بچوں کو
اپنے بچوں جیسا سلوک دیں انہیں تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کریں ان کے وراثتی
اور معاشی حقوق کا تحفظ کریں۔
اللہ کریم
ہمیں یتیموں سے بدسلوکی کرنے سے بچائے اور حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین