حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت طارق محمود،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

اسلام کی تاریخ میں بہت سی خوبصورت اور سچی دوستیوں کی
مثالیں ملتی ہیں لیکن سب سے بہترین اور سچی دوستی نبی کریمﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ کی ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق نبی کریمﷺ کے سب سے قریبی ساتھی اور پہلے
مرد مسلمان تھے۔وہ ہر وقت رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے ان کا ساتھ دیتے اور کسی بھی
مشکل میں ان کا ساتھ نہ چھوڑتے تھے۔
نبی کریمﷺ بھی حضرت ابو بکر صدیق سے بہت محبت کرتے تھے۔آپ
رضی اللہ عنہ کو یار غار یعنی غار کے ساتھی کا لقب ملا۔کیونکہ جب نبی ﷺ ہجرت کر کے
مدینہ جا رہے تھے تو حضرت ابو بکر صدیق ہی ان کے ساتھ تھے۔
یہ محبت صرف دو دوستوں کے درمیان نہ تھی،بلکہ یہ دین،اخلاص
اور سچائی پر مبنی ایک عظیم رشتہ تھا۔نبی کریمﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق سے محبت ہمیں
سکھاتی ہے کہ سچے دوست وہی ہوتے ہیں جو دین اور اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا
ساتھ دیتے ہیں۔ اللہ قرآن کریم کے پارہ 10 سورہ توبہ کی آیت نمبر 40 میں ارشاد
فرماتا ہے: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ
عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ
كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ
حَكِیْمٌ(۴۰) ترجمہ کنز الایمان:
غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور
ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی
کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت مبارکہ میں تاجدار رسالت
ﷺ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیت
مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی
ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی
ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں
نسبی طور پر نبی اکرم ﷺ کے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم
ﷺ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اور
کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا،یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عظیم
مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ (تفسیر
کبیر،6/50)
رحمت عالمیان،مکی مدنی سلطان،محبوب رحمٰن ﷺ کا فرمان حقیقت
نشان ہے: مجھے کبھی کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو ابو بکر کے مال نے دیا بارگاہ
نبوّت سے یہ بشارت سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رو دئیے اور عرض کی:یا رسول اللہ
ﷺ میں اور میرے مال کے مالک آپ ﷺ ہی تو ہیں۔ (ابن ماجہ، 1/72، حدیث: 94)
وہی آنکھ ان کا جو منہ تکے وہی
لب کہ محو ہوں نعت کے
وہی سر جو ان کے لئے جھکے وہی
دل جو ان پہ نثار ہے
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو
بکر رضی اللہ عنہ کا مبارک عقیدہ بھی یہی تھا کہ ہم محبوب ربّ الانام ﷺ کے غلام
ہیں اور غلام کے تمام مال و منال کا مالک اس کا آقا ہی ہوتا ہے ہم غلاموں کا تو
اپنا ہے ہی کیا؟
کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے یہ دل بھی تمہارا ہے
یہ جاں بھی تمہاری ہے
وفاداری کی قدر کریں: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہر مشکل گھڑی میں حضورﷺ کا ساتھ دیا اور حضور ﷺ
نے ان کی وفاداری کو سراہا اور ان سے بے پناہ محبت کی۔
دوستی میں قربانی ضروری ہے: جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سب کچھ دین کے لئے
قربان کیا ویسے ہی حضورﷺ نے بھی ان کے لئے دعا،عزت اور قربت عطا فرمائی۔
اللہ سے دعا ہے کہ حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ کی سچی دوستی کا واسطہ ہمیں بھی ان کی سچی، حقیقی محبت عطا فرمائے۔ آمین
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت سرفراز،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

جن خوش نصیبوں نے ایمان کے ساتھ حضور ﷺ کی صحبت پائی چاہے
یہ صحبت ایک لمحے کے لئے ہی ہو اور پھر ایمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا
ہے۔یوں تو تمام ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل،متقی،پرہیزگار اپنے
پیارے آقا ﷺ پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانے کے ساتھ
ساتھ بے شمار فضائل وکمالات رکھتے ہیں لیکن ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں سر
فہرست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضور کی ابوبکر سے محبت پر احادیث:
(1)اے ابو الحسن میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو اللہ
پاک کے ہاں میرا مقام ہے۔(الریاض النضرة،1/185)
(2) مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہ دیا جتنا ابو بکر
صدیق کے مال نے دیا۔ (ابن ماجہ، 1/72، حدیث: 94)
(3) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ نے
مجھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوا دیکھا تو ارشاد فرمایا: اے
ابودرداء! کیا تم ابو بکر کے آگے چلتے ہو حالانکہ انبیاء مرسلین علیہم السلام کے
بعد ابو بکر سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا۔ (فضائل الصحابہ، ص 187،
حدیث: 135)
(4) مسجد میں ابو بکر صدیق کے دروازے کے علاوہ سارے دروازے
بند کر دو۔ (بخاری،1/177، حدیث: 466)
(5) جو جہنم سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ
وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔(معجم اوسط،6/456، حدیث: 9384)
(6)ابو بکر کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت پر واجب ہے۔
(تاریخ الخلفاء، ص 44)
(7)مجھے آسمانوں کی سیر کرائی گئی بس میرا جس آسمان سے گزر
ہوا میں نے وہاں اپنا نام لکھا ہوا پایا اور اپنے بعد ابو بکر کا نام بھی لکھا ہوا
پایا۔ (مجمع الزوائد، 9/19، حدیث: 14496)
(8) مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا
ہے مگر ابو بکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک روز قیامت انہیں عطا
فرمائے گا۔ (ترمذی،5/374،حدیث:3681)
(9)ابو بکر دنیا و آخرت میں میرا بھائی ہے اللہ پاک اس پر
رحم فرمائے اور اللہ کے رسول کی طرف سے اسے بہتر جزا دے کہ اس نے اپنی جان و مال
سے میری مدد کی۔ (ریاض النضرۃ، 1/131)
(10)ابو بکر کو کسی کو فضیلت مت دو کیونکہ وہ دنیا و آخرت
میں تم سب صحابہ سے افضل ہے۔(ریاض النضرۃ، 1/37)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضور ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت ایک
مثالی اور بے مثال محبت تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں
جنہیں نبی کریم ﷺ نے صدیق کا لقب عطا فرمایا اور یہ لقب انہیں اللہ کی طرف سے ملا
تھا۔ حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان پر
بے حد اعتماد فرماتے تھے۔ کچھ اہم پہلو جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ سے کتنی محبت کرتے تھے۔
غار ثور میں ساتھ: ہجرت کے وقت جب نبی کریم ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ رکھا اور وہ دونوں غار ثور میں چھپے
رہے یہ واقعہ دونوں کی گہری محبت اور اعتماد کی ایک روشن مثال ہے۔
نماز کی امامت: نبی کریم ﷺ کی بیماری کے دوران آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز
پڑھانے کا حکم دیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ پر کتنا بھروسہ کرتے تھے۔
حضور ﷺ اکثر معاملات میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے
مشورہ فرماتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس قدر رسول کریم ﷺ سے فیض
حاصل کیا وہ کسی اور صحابی کو نصیب نہ ہوا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے آقا کریم ﷺ
کے ساتھ سفر و حضر میں دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں زیادہ
وقت گزارا اور خصوصاً سفر ہجرت کے قرب و صحبت کی تو کوئی برابری کر ہی نہیں سکتا
کہ ایام ہجرت میں بلا شرکت گہرے قرب و فیضان مصطفی ﷺ سے تن تنہا فیض یاب ہوتے رہے
اسی لئے عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی ہستی نے تمنا کی تھی کہ کاش!میرے سارے
اعمال ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک دن اور ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ان
کی رات تو وہ جس میں آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار ثور تک پہنچے آقا کریم
ﷺ سے پہلے غار میں جا کر سوراخوں کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا دو سوراخ باقی رہ
گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دیئے وہاں سے سانپ نے ڈس لیا تب بھی نبی کریم ﷺ کے آرام
کی خاطر پاؤں نہ ہٹایا اور(کاش کہ میرے اعمال کے مقابلے میں مجھے صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کا ایک دن مل جائے)ان کا وہ دن جب رسول ﷺ کے وصال کے بعد عرب کے چند
قبیلے مرتد ہو گئے اور کئی قبیلوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو ان نازک و
کمزور حالات میں آپ رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کو غالب کر کے دکھایا(یہ فرمان عمر
فار وق رضی اللہ عنہ کا معنوی خلاصہ ہے)۔ (خازن،2/244)
آپ رضی اللہ عنہ کا رسول ﷺ کا ساتھی ہونا خود اللہ پاک نے
قرآن مجید میں بیان فرمایا یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔
صدیق اکبر کے گھر رسول اللہ کی روزانہ آمد: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے مابین ایسی
گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر روزانہ
تشریف لاتے تھے، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے
کہ کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جس کی صبح و شام رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف نہ
لاتے ہوں۔ (بخاری،1/180، حدیث:476)
ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم ﷺ ظہور اسلام سے قبل بھی ایک دوسرے کے دوست
تھے۔ (ریاض النضرۃ،1/84)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت ایاز خان،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

یارِ غار و یارِ مزار،خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ کا نام مبارک عبد اللہ،کنیت ابو بکر اور لقب عتیق وصدیق ہے صدیق کے معنی ہے
زیادہ سچ بولنے والے اور عتیق کے معنی ہے آزاد۔ عتیق کا لقب نبی کریم ﷺ نے صدیق
اکبر کو بشارت دیتے ہوئے عطا فرما یا کہ تم جہنم سے آزاد ہو۔
نبی کریم ﷺ صدیق اکبر سے بہت محبت فرماتے تھے، تاریخ میں
ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ نے صدیق اکبر سے اپنی محبت کا اظہار
فرمایا۔ آئیے اس متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ فرماتے ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان مال اور محبت میں ابو بکر کا ہے اگر
میں(خدا کے علاوہ)کسی کو خلیل(یعنی دوست)بناتا تو ابو بکر کو بناتا،لیکن اسلام کی
اخوت باقی ہے۔ (مسلم، ص 501، حدیث: 1459)
سبحان اللہ قربان جائیے آقا ﷺ کے انداز پر کس قدر خوبصورت
انداز میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار فرما رہے ہیں جس شخص کے دل
میں حضور اکرم ﷺ کی محبت ہوتی ہے تو اسے دونوں جہاں کی بھلائیاں نصیب ہو جاتی ہیں
قربان جائیں صدیق اکبر کی شان پر کہ خود نبی اکرم ﷺ ان سے محبت کا اظہار فرما رہے
ہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے
لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں شریک رہے،غار میں نبی کریم ﷺ
کے ساتھ تین دن رات تک قیام کیا اور ہر موقع پر آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔
ایک موقع پر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ
سے عرض کیا: یا رسول اللہ لوگوں میں سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ فرمایا:عائشہ
رضی اللہ عنہا سے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی مردوں میں سے؟ فرمایا: ان کے
والد سے۔ (مسلم، ص 502، حدیث: 1466)
سبحان اللہ قربان جائیے ابو بکر صدیق کی شان پر کہ نبی کریم
ﷺ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب صدیق
اکبر ہے اسی طرح جب صدیق اکبر نے اذان میں حضور اکرم ﷺ کے نام مبارک کو سنا اور
انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگائے تو حضور ﷺ نے فرمایا:٫٫ جو شخص میرے اس پیارے دوست
کی طرح کرے تو اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوگئی۔ (فیضان صدیق اکبر، ص 187)
اسی طرح بہت سی احادیث میں نبی کریم ﷺ نے صدیق اکبر کو دوست
کہہ کر مخاطب کیا اور صدیق اکبر سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔
اللہ کریم ہمیں بھی صدیق اکبر سے محبت کرنے اور ان کا طریقہ
اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت امانت علی،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبد اللہ کنیت
عقیق و ابو بکر ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کو عاشق اکبر بھی کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے آپ ہی
اسلام لائے۔آپ اور آپ کے ماں،باپ،آپ کی ساری اولاد اور آپ کی اولاد کی اولاد تمام
کے تمام صحابی ہیں یہ شرف کسی کو نصیب نہیں ہوا۔آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل آسمان کے
ستاروں اور زمین کے ذروں کی طرح بے شمار ہیں۔آپ کے وصال ظاہری کے بعد سب سے پہلے
خلیفہ آپ ہی تھے۔
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: سارے انسانوں میں مجھ پر بڑا احسان کرنے
والے اپنی صحبت و مال میں ابو بکر ہیں اور اگر میں کسی کو ولی دوست بناتا تو میں ابو
بکر کو دوست بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسکی دوستی ہے۔ مسجد میں کوئی
کھڑکی نہ رکھی جائے سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر میں
اپنے رب کے سوا کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست بناتا۔ (مراة المناجيح، 8/290)
حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں ذات
سلاسل کے لشکر پر امیر بنا کر بھیجا۔ فرماتے ہیں کہ میں آقا ﷺ کے پاس آیا میں نے
کہا: لوگوں میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟آپ نے فرمایا: عائشہ۔ میں نے کہا مردوں
میں؟فرمایا: ان کے والد۔ میں نے عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: عمر۔ پھر حضور نے چند
حضرات گنائے تو میں چپ ہو گیا اس خوف سے کہ مجھے ان سب کے آخر میں کر دیں۔ اس حدیث
مبارکہ میں ان کے والد سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضور نے ابو بکر سے فرمایا کہ تم میرے غار میں ساتھی ہو اور
حوض پر میرے ساتھی ہو۔ (ترمذی،5 / 378، حدیث: 3690)
غار سے مراد یا تو غار ثور ہے جہاں ہجرت کے موقع پر 3 دن
حضور کے ساتھ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قیام فرمایا یا مراد قبر ہے۔پہلا احتمال
قوی ہے رب تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا تَنْصُرُوْهُ
فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ
اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ
مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ
تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ
اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰) (پ 10، التوبۃ:
40) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد
فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ
دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے
تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے
نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت
والا ہے۔حضرت صدیق اکبر کی صحابیت قطعی یقینی ہے اس کا انکار کفر ہے کیونکہ یہ
قرآن سے ثابت ہے۔ یعنی دونوں جہان میں تم میرے خاص ساتھی ہو جس ہمراہی میں کسی کی
شرکت نہیں ورنہ حضور کے سارے غلام حوض پر حضور کے ساتھ ہوں گے
(ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690) اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
یعنی اس افضل الخلق بعد الرّسل ثانی اثنین کی ہجرت پر
لاکھوں سلام
جمادی الاخر کی بائیس تاریخ منگل کی شب 13 ھ میں مغرب و عشا
کے درمیان مدینہ منورہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ بلا فصل حضور کے پہلو میں آرام فرما
ہیں۔اللہ پاک ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے اور ہمارے دل کو پیارے
آقا ﷺ کی محبت میں میٹھا مدینہ بنائے۔ آمین
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت اصغر علی،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

نبی پاک ﷺ نے اپنے جس صحابی میں جس خوبی کو ممتاز پایا تو
اسی وصف میں اسے کامل بنایا لہذا اپنے پیارے صحابی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں
صدیق بننے کی صلاحیت کو واضح طور پر محسوس کیا تو اسی وصف میں ان کو ممتاز و کامل
فرمایا اور اس وصف کے سب سے زیادہ مستحق بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں اور اس
وصف کو آپ رضی اللہ عنہ نے زندگی کے ہر معاملے میں نمایاں فرمایا، آپ کے ہر فعل سے
اس کا خوب مظاہرہ ہوا اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ آپ اللہ کے حبیب ﷺ کے محبوب مقرب
دوست جو ہیں!
بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار کار محبوب خدا صدیق اکبر کا
تمام لوگوں سے افضل: سرکار اقدس ﷺ نے فرمایا: سوائے نبی کے اور کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس پر آفتاب طلوع
اور غروب ہوا ہو اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل ہو۔ (فضائل الصحابہ، ص 187، حدیث: 135)
سب سے پہلے داخل جنت: نبی کر یم ﷺ نے فرمایا: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے یعنی اے ابو
بکر سن لو میری امت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہو گے۔ (ابو داود، 4/280،
حدیث: 4652)
آپ کی محبت واجب ہے:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابو بکر سے محبت
کرنا اور ان کا شکر ادا کرنا میری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص، 40)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد سرور،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

محبت ایک لازوال جذبہ ہے جسے اللہ نے انسان کی فطرت میں
رکھا ہے لیکن جب محبت کا تعلق ان ہستیوں سے ہو جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے محبوب
بنایا،تو وہ محبت عبادت بن جاتی ہے۔محبت کے بہت سے پہلو ہیں جس کا ایک پہلو دوستی
ہے۔ایسے ہی ایک عظیم رفیق،محسن اور محبوب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں، جن سے
سرکار دو عالم کو خاص محبت تھی۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہوں نے رسول
اللہ ﷺ کی دعوت پر مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔حضرت ابو بکر صدیق کو رسول
اللہ ﷺ کا یارغار بھی کہا جاتا ہے۔جنہوں نے ہر گھڑی میں اپنے محبوب کا ساتھ دیا۔
نبی ﷺ کو اپنے یارغار سے بہت محبت تھی، صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ سے نہ صرف حضور ﷺ محبت فرماتے تھے بلکہ رب تعالیٰ بھی ان سے محبت فرماتا ہے۔قرآن
پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِلَّا
تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا
ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا
تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ
اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا
السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰) (پ 10، التوبۃ:
40) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد
فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ
دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے
تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے
نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت
والا ہے۔
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں لفظ صاحب سے مراد حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ آیت مبارکہ کے علاوہ بے شمار احادیث میں آپ رضی اللہ عنہ
کے فضائل و کمالات بیان کیے گئے ہیں۔جیسا کہ امام ترمذی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ
سے روایت کرتے ہیں،رسول پاک ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق سے فرمایا:تم حوض کوثر پر اور
غار میں میرے ساتھی ہو۔ (ترمذی،5/378،حدیث:3690)
ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا:اگر میں اللہ کے سوا کسی کو
اپنا خلیل بناتا تو صدیق اکبر کو بناتا۔ (ترمذی، 5/373،حدیث:3680)
یہ الفاظ اس محبت کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں جو آپ کے دل
میں صدیق اکبر کے لئے تھی۔
ایک دفعہ سرکار کائنات ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: جہاں
محبت ہو وہاں کم آیا کرو تو صحابہ کرام علیہم الرضوان آتے ہیں نماز پڑھتے اور چلے
جاتے صدیق اکبر بھی ایسے ہی کرتے ایک دن نبی ﷺ نے صحابہ سے پوچھا:ابو بکر کہاں
مصروف ہیں آج کل؟ تو صحابہ کرام عرض کرنے لگے: وہ باغ میں کام کر رہے ہیں۔ فرمایا:
جاؤ انہیں بلا کر لاؤ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو نبی ﷺ نے اپنا رخ
زیبا پھیر لیا۔جب صدیق اکبر نے چہرہ انور کی طرف دیکھا تو نبی ﷺ کی آنکھوں سے آنسو
آ رہے تھے پوچھا:اے ابو بکر!تم اتنے دن سے کہاں تھے،عرض کی آپ نے خود ہی فرمایا
تھا کہ جہاں محبت ہو وہاں کم آیا کرو تو نبی ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر تم دوسرے
صحابہ کی طرح نہیں ہو۔جب تم میری بارگاہ سے چلے جاتے ہو تو میری ساری توجہ تمہاری
طرف ہو جاتی ہے اور جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو میری ساری توجہ اللہ پاک کی طرف ہو
جاتی ہے۔
عمر بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: آپ سب
سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں؟ فرمایا:عائشہ کے ابا ابو بکر صدیق سے۔میں نے پوچھا:ان
کے بعد کس سے زیادہ محبت کرتے ہیں؟آپ نے فرمایا:عمر سے۔ (بخاری، 2/519، حدیث:3662)
نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری ایام میں ارشاد فرمایا:مسجد نبوی
شریف میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے مگر ابو بکر کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔ (بخاری،
1/177، حدیث:466)
بس ایک ہی در کھلے مسجد نبوی میں یہ افتخار ہے ابن ابی قحافہ کا
ایک دفعہ صدیق اکبر نے اذان میں حضور ﷺ کے نام محمد کو سنا
اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگائے تو حضور ﷺ نے فرمایا:جو شخص میرے اس پیارے
دوست کی طرح کرے اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو گئی۔ (فیضان صدیق اکبر،ص 187)
ابن عساکر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا:حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت
پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 44)
یوں تو دنیا میں کئی رشتے ہیں لیکن حضور ﷺ اور صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ کا تعلق بے مثال و بے نظیر ہے نبی علیہ السلام نے جہاں صدیق اکبر کو
اپنی محبت کا شرف بخشا وہیں صدیق اکبر نے بھی اپنی ساری زندگی محبت رسول ﷺ میں فنا
کردی۔
شان صدیق اکبر پہ قربان میں رازدارِ رسالت کی کیا بات ہے
جس کو صدیق ہے مصطفی نے کہا اس سراپا صداقت کی کیا بات ہے
اللہ پاک ہمیں بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسی سچی اور بے
لوث محبت عطا فرمائے اور ہمیں آقا ﷺ کا سچا پیروکار بنائے۔ آمین
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت عبدالمجید،فیضا ن ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

پیارے آقا ﷺ اپنے یار غار سے بہت محبت کرتے تھے۔ سب سے پہلے
پیارے آقا ﷺ نے حضرت صدیق اکبر کو بے شمار القابات عطا فرمائے۔
عتیق و صدیق دو خاص القابات: حمایت مصطفی ﷺ میں چاروں پہر رہنے والے صدیق اکبر کو بارگاہ
رسالت سے جو القابات ملے ان میں سے ایک لقب عتیق ہے۔
ام المو منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے
فرماتی ہیں:میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام علیہم
الرضوان صحن میں تشریف فرماتھے،میرے اور ان کے مابین چارپائی رکھی تھی،اچانک میرے
والد گرامی امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لےآئے تو حضور نبیٔ
کریم ﷺ نے ان کی طرف دیکھ کراپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا: جسے دوزخ سے آزاد شخص کو
دیکھنا ہو وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔ اس کے بعد سے آپ عتیق مشہور ہوگئے۔ (معجم اوسط، 6/456،
حدیث: 9384)
صرف ابو بکر کا دروازہ کھلا رہے گا:نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا:مسجد(نبوی)میں
کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابو بکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔
جنّت میں پہلے داخلہ:حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جبریل امین علیہ السّلام میرے پاس آئے اور میرا
ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امّت جنّت میں داخل ہوگی۔حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت
آپ کے ساتھ ہوتا،تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:ابو
بکر! میری امّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔ (ابو داود،
4/280، حدیث: 4652)
ایک روایت حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ آپ فرماتے
ہیں کہ ہم لوگ امیر المومنین حضرت علی المرتضی شیر خدا کرّم اللہ وجہہ الکریم کے
ساتھ کھڑے تھے اور آپ خوش طبعی فرما رہے تھے، ہم نے ان سے عرض کیا: اپنے دوستوں کے
بارے میں کچھ ارشادفرمائیے؟فرمایا:رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب میرے دوست ہیں۔ہم نے
عرض کی:حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتائیے؟ فرمایا: ان کے تو کیا کہنے!
یہ تو وہ شخصیت ہیں جن کا نام اللہ پاک نے جبریل امین اور پیارے آقا ﷺ کی زبان سے
صدّیق رکھا ہے۔ (مستدرک، 4/4، حدیث:4462)
حوض کوثر پر رفاقت:پیارے نبی ﷺ نے ایک دفعہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم میرے صاحب ہوحوض
کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔(ترمذی،5 / 378 ،حدیث: 3690)
سب سے زیادہ مہربان:شفیع امّت ﷺ نے حضرت جبریل امین علیہ السّلام سے استفسار فرمایا:میرے ساتھ
ہجرت کون کرے گا؟تو جبریل امین علیہ السّلام نے عرض کی:ابو بکر(آپ کے ساتھ ہجرت
کریں گے)،وہ آپ کے بعد آپ کی امّت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ امّت میں سے سب
سے افضل اورامّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔
مزید برآں،رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر میں
کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو۔(بخاری، 2/591،حدیث:3904)اس سے بھی حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے آپ ﷺ کی محبت اور اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد اشفاق،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت
فرماتے تھے اور ان کو اپنے تمام صحابہ میں سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔آپ ﷺ نے
انہیں اپنی زندگی میں کئی مواقع پر اپنے ساتھ رکھا،جیسے غار ثور میں اور حوض کوثر
پر۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی انہیں اپنی جگہ پر نماز پڑھانے اور امیر حج بنانے کا
حکم دیا۔ایک روایت کے مطابق،آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر
ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔حضور ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے
محبت پر بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:
(1) جنت میں پہلے داخلہ: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبریل امین علیہ السّلام میرے پاس آئےاور میرا
ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایاجس سے میری امّت جنّت میں داخل ہوگی۔حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت
آپ کے ساتھ ہوتا،تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:ابو
بکر!میری امّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔ (ابو داود،
4/280، حدیث: 4652)
(2)گھر کے صحن میں مسجد:ہجرت سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد
بنائی ہوئی تھی چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے ہوش سنبھالا تو
والدین دین اسلام پر عمل کرتے تھے،کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ ﷺ دن کے دونوں
کناروں صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے۔پھر حضرت ابو بکر کو خیال آیا کہ وہ اپنے
گھر کے صحن میں مسجد بنالیں،پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھے اور (بلند آواز سے) قرآن
مجید پڑھتے تھے،مشرکین کے بیٹے اور ان کی عورتیں سب اس کو سنتے اور تعجب کرتےاور
حضرت ابو بکر کی طرف دیکھتے تھے۔ (بخاری، 1/180، حدیث: 476)
(3)تین لقمے اور تین مبارک بادیں:ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم کو بلایا،سب کو ایک ایک لقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو تین لقمے عطا کئے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد
فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک
ہو،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہ السّلام نے کہا:اے رفیق!تجھے مبارک ہو،تیسرا
لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔ (الحاوی للفتاویٰ، 2/51)
(4) خاص تجلی:پیارے حبیب ﷺ غار ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
اونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی:یا رسول اللہ!اس پر سوار ہوجائیے۔آپ ﷺ سوار ہوگئے پھر
آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!اللہ
پاک تمہیں رضوان اکبر عطا فرمائے۔عرض کی:وہ کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک تمام
بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے گا۔ (ریاض النضرۃ، 1/166)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت اشرف صادق،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

جانشین مصطفےٰ، خلیفہ اوّل،امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کا نام پاک:عبد اللہ،کنیت:ابو بکر اور لقب:صدیق و عتیق ہے۔سبحٰن اللہ!صدیق
کا معنی ہے:بہت زیادہ سچ بولنے والا۔آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ سچ بولتے تھے اور عتیق
کا معنی ہے:آزاد۔سرکار عالی وقار،مدینے کے تاجدار ﷺ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:انت عتیقٌ مّن
النّار یعنی اے ابو بکر!تم جہنم سے آزاد ہو۔ (معجم کبیر، 1/20، حدیث:9)
آپ وہ عاشق رسول ہیں جو ہر وقت ہر گھڑی حضور کے ساتھ رہے آپ
کا غار کا واقعی مشہور ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِلَّا
تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا
ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا
تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ
اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا
السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰) (پ 10، التوبۃ:
40) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد
فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ
دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے
تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے
نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت
والا ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے
روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سےبہتر اور رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب
ہیں۔ (ترمذی،5/372، حدیث:3676)
حضرت موسی بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی شیر خدا کرّم اللہ وجہہ الکریم کو یہ فرماتے ہوئے
سنا: ہم سب صحابہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔ (الریاض
النضرۃ، 1/138)
حضور ﷺ کی آپ سے محبت پر احادیث مبارکہ:
(1) ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم کو بلایا،سب کو ایک ایک لقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو تین لقمے عطا کئے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد
فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک
ہو،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہ السّلام نے کہا:اے رفیق!تجھے مبارک ہو،تیسرا
لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔ (الحاوی للفتاویٰ، 2/51)
(2) پیارے حبیب ﷺ غار ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی:یا رسول اللہ!اس پر سوار
ہوجائیے۔آپ ﷺ سوار ہوگئے پھر آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ
ہوکر ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!اللہ پاک تمہیں رضوان اکبر عطا فرمائے۔عرض کی:وہ کیا
ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک تمام بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے
گا۔ (الریاض النضرۃ، 1/166)
(3) جس قوم میں ابو بکر موجو د ہوں تو ان کے لئے مناسب نہیں
کہ کوئی اور ان کی امامت کرے۔ (ترمذی،5/379،حد یث:3693)
(4) مجھے کسی مال نے وہ نفع نہ دیا جو ابو بکر کے مال نے
دیا۔(ابن ماجہ،1/72،حدیث:94)
(5) اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ
میرا بھائی اور دوست ہے۔ (مسلم، ص 998، حدیث: 6172)
(6) ہم نے ابو بکر کے سوا سب کے احسانات کا بدلہ دے دیا ہے
البتّہ ان کے احسانات کا بدلہ اللہ کریم قیامت کے دن خود عطا فرمائے گا۔(ترمذی،5/374،حدیث:3681)
(7) بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی:لوگوں میں سے آپ کو زیادہ
محبوب کون ہے؟فرمایا:عائشہ۔دوبارہ عرض کی گئی:مردوں میں سے کون؟ارشاد ہوا:ان کے
والد(یعنی ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ)۔ (بخاری، 2/519، حدیث:3662)
(8) نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا:مسجد(نبوی)میں
کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابو بکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔
ان احادیث کے علاوہ بہت سی احادیث مبارکہ ایسی ہیں جو آپ رضی
اللہ عنہ سے محبت پر دلالت کرتی ہیں۔
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد انور، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

محبت رسول:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص(کامل)مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک میں
اسے اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(دس اسلامی عقیدے،ص 56)
بے شک کسی بھی شخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی
جان سے بڑھ کر حضور ﷺ کو محبوب نہ سمجھے لیکن اگر وہ محبوب دو عالم ﷺ کسی سے محبت
رکھیں،کسی کے فضائل بیان فرمائیں،اس کو دیگر لوگوں سے ممتاز و اعلیٰ بنا دیں تو اس
سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوگی! اور یہی مقام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے
حصہ کرم میں آیا ہے۔آپ ہی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کو اسلام کے پہلے خلیفہ ہونے کا
اعزاز حاصل ہے۔آئیے! نبی کریم ﷺ کی آپ سے محبت کی چند روشن مثالیں ملاحظہ کیجئے:
ایمان میں سبقت:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والے مرد ہیں۔انہوں نے
بلا تردد یعنی بغیر کسی دلیل کے اسلام قبول کیا۔جیسا کہ محمد بن اسحق رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:مجھ سے محمد بن عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ رسول
پاک ﷺ نے فرمایا:جب میں نے کسی کو اسلام کی دعوت دی تو اس کو تردد ہوا علاوہ ابو
بکر کے کہ جب میں نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر تردد کے قبول کر لیا۔ (تاریخ
مدینۃ دمشق ،44/30)
یار غار بھی تو۔!حضر کے ساتھ سفر میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے رفیق سفر رہے اور بروز
قیامت بھی آپ حضور کے ساتھ ہوں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ سے فرمایا:غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ رہو
گے۔(ترمذی،5/378، حدیث: 3690)
سب سے زیادہ نفع:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: سارے
انسانوں میں مجھ پر بڑا احسان کرنے والے اپنی صحبت اپنی محبت و مال میں ابو بکر
ہیں اور اگر میں کسی کو دلی دوست بناتا تو میں ابو بکر کو دوست بناتا لیکن اسلام
کا بھائی چارا اور اس کی دوستی ہے۔دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر میں اپنے رب کے
سوا کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست بناتا۔(مشکاۃ المصابیح،2/415، حدیث:6019)
اسی طرح کی ایک روایت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ لکھتے ہیں:یہاں احسان سے یا تو وہ بدنی،مالی،وطنی اولاد کی قربانیاں
مراد ہیں جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ برابر کرتے رہے یا حضرت بلال رضی اللہ
عنہ کو خرید کر آزاد کرنا مراد ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ صدیق نے مجھ پر احسان کیا
کہ بلال کو آزاد کروایا ۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی خریداری پر حضور ﷺ نے حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا تھا
اے ابو بکر!بلال کی خریداری میں ہم کو بھی اپنے ساتھ ملالو،آدھی
قیمت ہم سے لے لو،ہم تم دونوں ان کے خریدار ۔تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تڑپ
گئے اورقدموں پر فدا ہو کر بولے:حضور!میں بھی آپ کا غلام،بلال بھی آپ کے غلام۔حضور
میں نے انہیں آپ کے لئے خریدا ہے،میں نے انہیں آزاد کر دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ
عنہ نے جب چہرۂ مصطفےٰ دیکھا تو چہرۂ پاک دیکھتے ہی غش کھا گئے اور بے ہوش ہو گئے۔
حضور ﷺنے اپنی چادر سے چہرے کا گرد و غبار صاف کیا اور فرمایا:اے بلال!تجھے اللہ
پاک کی راہ میں بڑی اذیتیں پہنچیں۔اے صدیق!تم پر لاکھوں سلام کہ تم نے ہم سب
مسلمانوں کے آقا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔تم نے ہمارے آقا حضرت بلال
رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔تم ہمارے آقا کے آقا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 8/352)
خلیل یا تو بنا ہے خلت خ کے پیش سے بمعنی دلی دوست جس کی
محبت دل کی گہرائی میں اتر جائے۔حضور کا ایسا محبوب صرف اللہ ہی ہے،یا بنا ہے خلت
خ کے فتحہ سے بمعنی حاجت یعنی وہ دوست جس پر توکل کیا جائے اور ضرورت کے وقت اس سے
مشکل کشائی حاجت روائی کرائی جائے،حضور انور ﷺ کا ایسا کار ساز حاجت روا محبوب
سواء خدا کے کوئی نہیں ورنہ اصل محبت حضور ﷺ کوجناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بہت
زیادہ ہے۔(مراۃ المناجیح،8/347،346) نیزصوفیاء کے نزدیک خلیل وہ
ہے جس کی محبت میں دل رہے اور رفیق وہ ہے جس کی محبت دل میں رہے ۔(مراۃ المناجیح،8/352)
اللہ کریم اور حضور ﷺ کی محبت و عنایت حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل روایات سے واضح ہے ملاحظہ کیجیے:
آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھیں
مگر اتفاق سے اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے تو حضرت عمر رضی اللہ
عنہ آگے بڑھے تاکہ لوگوں کو نماز پڑھائیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہیں،نہیں۔اللہ
اور مسلمان ابو بکر سے ہی راضی ہیں اور وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ (خلفائے
راشدین، ص 11) اسی روایت سے حضور ﷺ کا علم غیب دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپ کے بعد حرف
با حرف یہ بات ثابت ہوئی کہ خلافت کے معاملے میں اللہ اور لوگ ابو بکر کے علاوہ
کسی سے راضی نہ ہوں گے اسی طرح آپ پہلے خلیفہ مقرر ہوئے اور حضور ﷺ نے آپ کو آگے
بڑھایا مصلے پر کھڑا کیا تو بھلا پھر کون آپکو پیچھے کرسکتا تھا؟
میرے یار کا مرتبہ تم کیا جانو؟ حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ سے حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کچھ سخت کلامی کی مگر حضرت ابو
بکر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی قرابت داری کا خیال کرتے ہوئے حضرت عقیل کو کچھ
نہیں کہا اور حضور ﷺ کی خدمت میں پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابو بکر سے پورا ماجرا
سن کر رسول ﷺ مجلس میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! سن لو میرے دوست کو میرے لئے
چھوڑ دو تمہاری حیثیت کیا ہے؟ اور ان کی حیثیت کیا ہے؟تمہیں کچھ معلوم ہے؟خدا کی
قسم!تم لوگوں کے دروازوں پر اندھیرا ہے مگر ابو بکرکے دراوزے پر نور کی بارش ہورہی
ہے، خدائے ذوالجلال کی قسم!تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور ابو بکر نے میری تصدیق کی
تم لوگوں نے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ابو بکر نے میرے لئے اپنا مال خرچ
کیا اور تم لوگوں نے میری مدد نہیں کی مگر ابو بکر نے میری غمخواری کی اور میری
اتباع کی۔ (خلفائے راشدین، ص 36، 37)
آپ کی محبت واجب ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:ابو بکر سے محبت اور
ان کا شکرادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 40)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت عارف حسین، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

حضور ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت
تھی۔یہ محبت صرف ذاتی تعلق کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس میں دین اسلام کی سر بلندی
اور آپ کے مشن کی تکمیل کا جذبہ کارفرما تھا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
ہمیشہ حضور ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی جان و مال کو قربان کیا۔حضور ﷺ نے
بھی ان پر بھرپور اعتماد کیا اور انہیں اپنے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا۔کچھ اہم
باتیں جو حضور ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کو ظاہر کرتی ہیں پیش
خدمت ہیں:
غار ثور میں رفاقت:ہجرت کے موقع پر حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ رکھا
اور غار ثور میں بھی ان پر بھروساکیا۔
امامت نماز:حضور ﷺ نے اپنی بیماری کے دوران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز
پڑھانے کا حکم دیا،جو آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں کی قیادت کے لئے ان کی اہلیت کا واضح
ثبوت تھا۔
خلافت:حضور ﷺ کے
وصال کے بعدمسلمانوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا،جو اس
بات کا ثبوت ہے کہ حضور ﷺ ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے۔
احادیث میں ذکر:بہت سی احادیث میں حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور
مقام کو بیان کیا ہے۔
ذاتی تعلق:حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک گہرا اور ذاتی تعلق
تھا جو کہ دوستی،محبت اور احترام پر مبنی تھا۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں اہل جنت کی چار
صفات: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1)آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا
ہے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں نے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: (2)آج
تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں۔آپ ﷺ
نے دریافت فرمایا:(3)آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ نے عرض کی:میں نے ۔آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:(4)آج تم میں سے کس نے بیمار کی
عیادت کی؟حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:میں نے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس آدمی
میں بھی یہ تمام باتیں جمع ہو گئیں وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا۔(مسلم، ص398، حدیث
: 2374)
احسان ابو بکر :حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے
اور فرمایا:اللہ پاک کا ایک بندہ ہے جس کو اللہ پاک نے اختیار دیا ہے کہ چاہے دنیا
کی دولت لے چاہے اللہ پاک کے پاس رہنا اختیار کرے۔پھر اس نے اللہ پاک کے پاس رہنا
اختیار کیا۔یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ روئے اور سمجھ گئے کہ آپ ﷺ کی
وفات کا وقت قریب ہے اور بہت روئے۔پھر کہا:ہمارے باپ دادا ہماری مائیں آپ ﷺ پر
قربان ہوں۔پھر معلوم ہوا کہ اس بندے سے مراد خود رسول اللہ ﷺ ہیں۔حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ ہم سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کا احسان ہے ،مال کا بھی ہے اور صحبت کا بھی ۔ اگر میں کسی کو
خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت یعنی بھائی چارہ قائم ہے۔مسجد
میں کسی کا دروازہ نہ کھلا رہے سب بند کر دئیے جائیں پر ابو بکر کے گھر کا دروازہ کھلا
رہے۔(مسلم،ص998،حدیث:6170)
شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: میرے دو وزیر آسمان میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔میرے آسمان
کے دو وزیر حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمین
میں دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔(ترمذی،5/382،حدیث:
3700)
حضرت ابو بکر تمام صحابہ سے افضل ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم رسول
اللہ ﷺ کے زمانے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل شمار کرتے تھے ، ان
کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ کو۔(بخاری،2/518،
حدیث:3655)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع
نہیں دیا جتنا ابو بکر کے مال نے دیا ہے۔ (ترمذی،5/609،حدیث:3661)