افواہوں پر
کان نہ دھریں از بنت مقصود عطاریہ،فیضان آن لائن اکیڈمی بحرین عرب
																			
								
								
								 								
							غیر مستند،غیر
تصدیق شدہ یا اڑائی ہوئی خبر کو افواہ کہتے ہیں۔
حضرت ابن
مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: شیطان آدمی
کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔
لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کوسنا جس کی صورت
پہچانتا ہوں (مگر) یہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم، ص 18،
حدیث: 17)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّے  (انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے) کے تحت
فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا
کسی مسلمان پر بہتان یا فساد و شرارت کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔
افواہیں
پھیلنے کا سلسلہ اب سے نہیں بلکہ بہت پہلے کا ہے، چنانچہ
حضرت قتادہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا
کہ ایک دفعہ مدینہ میں دہشت پھیل گئی تو نبی کریم ﷺ نے ابو طلحہ سے گھوڑا مانگا
جسے مندوب کہا جاتا تھا آپ اس پر سوار ہوئے پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا: ہم نے
وہاں کچھ بھی نہ دیکھا اور ہم نے اس گھوڑے کو دریا پایا۔ (بخاری، 2/272، حدیث: 2867)
افواہ یہ پھیل
گئی کہ دشمن کا لشکر یا ڈاکو حملہ آور ہوگئے اس پر شور مچ گیا اور اہلِ مدینہ
خوفزدہ ہوگئے۔
اسی طرح غزوۂ
احد کے موقع پر جب مسلمانوں پر حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبرﷺ کی شہادت کی
افواہ بجلی بن کر گری تو سب شکستہ دل اور رنجیدہ ہو گئے۔
حضرت امام
مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جان لو! یہ بہت بڑی خرابی و فساد ہے کہ
انسان ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے۔ (سیر اعلام النبلاء، 8/66)
قرآن کریم بھی
بغیر تحقیق کیے خبر کی تصدیق کرنے سے منع فرماتا ہے،چنانچہ قرآن کریم میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا
بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ
26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے
پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس
کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ
تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ
بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براءت ظاہر
ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ (صراط الجنان، 9/409)
اگرچہ یہ
سلسلہ بہت پہلے کا ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سلسلہ بہت زیادہ بڑھ گیا
ہے۔ ہر کوئی سنی سنائی بات کو بلاتحقیق جلدی سے آگے بڑھا دیتا ہے اور افواہ سازی (Rumor
making)میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں حالانکہ فرمان
مصطفٰےﷺہے:  انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ
بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
اس حدیث کا
مطلب ہے کہ جو کوئی واقعہ، خبر یا حدیث سنے، اسے بغیر سوچے سمجھے، بغیر یہ جانے کہ
یہ صحیح بھی ہے یا غلط، جس نے بیان کی ہے وہ بھی سچا ہے یا نہیں، اس بات کو آگے کر
دے جیسا کہ آج خبروں اور سوشل میڈیا پر ہوتا ہے کہ جھوٹی احادیث و خبریں بغیر سوچے
سمجھے آگے بھیجی جاتی ہیں اور لوگوں کے جان و مال اور عزت کو نقصان پہنچایا جاتا
ہے۔ بغیر سوچے سمجھے مطلقا آگے بیان کر دینا ہی قابل گرفت نہیں بلکہ جس کا تعلق
کسی کی جان و مال یا عزت کے ساتھ ہو اور بتانے والا کوئی معتبر شخص نہ ہو اور اسے
آگے پھیلا دینا قابل گرفت ہے۔ خصوصا دینی شخصیات پر بعض لوگ اپنے بغض کی وجہ سے
جھوٹی خبریں مشہور کر دیتے ہیں حدیث پاک سے ان لوگوں کو بالخصوص درس حاصل کرنا
چاہئے جوموبائل فون پر  sms کے ذریعے موصول ہونے والی طرح طرح کی من گھڑت روایات دوسروں کو فارورڈ
کرتے (یعنی آگے بڑھاتے) رہتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
لہٰذا بغیر
تحقیق و تصدیق ہر سنی سنائی بات پر یقین کر کے آگے نہیں پھیلانی چائیے،اگر بات آگے
شیئر کرنا ضروری ہو تب بھی پہلے کسی مستند ذرائع سے تحقیق کر لی جائے پھر حکمت
عملی کے تحت آگے شیئر کیا جائے۔
									
																				افواہوں پر
کان نہ دھریں از بنت ہدایت اللہ،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
																			
								
								
								 								
							افواہ
کا مطلب:افواہ
ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر غیر تصدیق شدہ اور غیر مستند ذرائع سے پھیلی ہو، جس
میں عام طور پر صداقت کے حوالے سے شک و شبہ موجود ہو۔ یہ ایک ایسی خبر یا کہانی ہے
جو عام طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتی ہے اور اس کی حقیقت کو تصدیق کرنے
کا کوئی فوری یا مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔
افواہ درحقیقت
واقعات کی لمبی توجیہات ہیں جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتے ہیں اور یہ کسی
شے، واقعے یا عوامی دلچسپی کے موضوع سے متعلق ہو سکتی ہیں۔
غیر
متوقع اور غیر منطقی: افواہیں اکثر غیر متوقع اور غیر منطقی ہو سکتی ہیں،
جو عام طور پر لوگوں کی سوچ اور عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
افواہیں اکثر
ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتیں ہیں، جو عام طور پر ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتیں،
بلکہ ان کی افواہی نوعیت سے ایک ساتھ ملتی جلتی ہوتی ہیں۔
افواہ
کی مثالیں:
غیر
تصدیق شدہ خبریں: غیر
مستند ذرائع سے پھیلی خبریں جو عام طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتی ہیں
اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔
شایعات:
شایعات
جو عام طور پر غیر مستند ذرائع سے پھیلتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا
کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔
فیس
بک اور دیگر سوشل میڈیا پر شایعات: فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز
پر شایعات جو عام طور پر غیر مستند ذرائع سے پھیلتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق
کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔
افواہوں کی
افادیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی سچائی پر سوال کرنے اور ان پر اعتماد نہ کرنے
کی ترغیب دیتی ہیں۔ افواہیں عام طور پر غلط معلومات فراہم کرتی ہیں اور ان پر
اعتماد کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے، جو کہ ایک اہم نقطہ نظر ہے جو افواہوں کے بارے
میں سچائی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
سنی
سنائی باتیں پھیلانے کا نقصان: ٹیچر کلاس میں داخل ہوئے اور ایک پرچی
پر یہ خبر لکھی کہ راولپنڈی میں دو فریقین کے درمیان جھگڑا دونوں طرف سے لاٹھیاں،
گولیاں چلیں جس میں تین افراد کی موت جبکہ چار افراد زخمی ہوئے اور اپنے قریب
بیٹھے اسٹوڈنٹ کو دکھاتے ہوئے کہا: اب آپ میں سے ہر ایک اس بات کو دوسرے کے کان
میں بتائے، جب سب سے آخر میں بیٹھے اسٹوڈنٹ تک یہ سلسلہ مکمل ہوا تو اب ٹیچر نے اس
آخری اسٹوڈنٹ کو کان میں بتائی گئی خبر بلند آواز سے بیان کرنے کو کہا تو اس نے
کچھ یوں اطلاع دی:پنڈی میں جھگڑا ہوا جس میں آٹھ آدمی قتل جبکہ تین شدید زخمی
ہوئے۔
کہنے کو تو یہ
ایک واقعہ ہے لیکن اس میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔شاید کبھی ہمارے ساتھ بھی اس
طرح ہوا ہو کہ کوئی سنسنی خیز،دل ہلا دینے والی خبر ہم تک پہنچی ہو جو بعد میں
جھوٹی اور فیک ثابت ہوئی ہو یا حقیقت میں معاملہ کچھ اور تھا جو پھیلتے پھیلتے
مذکورہ پریکٹیکل اسٹوری کی طرح رد و بدل اور کمی زیادتی کا شکار ہو گیا ہو مگر یاد
رکھئے !خبر پھیلنے سے لے کر فیک ثابت ہونے تک کئی نقصان دہ اور بھیانک نتائج متوقع
ہیں اور بعض مرتبہ یہی جھوٹی خبر یں کسی سچی اذیت ناک خبر کا باعث بھی بن سکتی
ہیں۔ معاشرے میں اڑتی فیک باتیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا انتشار،لڑائی
جھگڑوں اورفسادات کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کو بھی متاثر کرتی ہیں اور اس کے ساتھ
خواہ مخواہ کے فضول و بےجا تبصرے ماحول کو مزید دہشت ناک بنا دیتے ہیں۔ معاشی (لین
دین کے متعلق) سرگرمیاں اور نظام زندگی بھی اس کے سبب متأثر ہوتےہیں۔ اسی طر ح
مذاق میں پھیلائی گئی جھوٹی خبر بسااوقات سخت نقصان کا باعث بنتی ہے جیسا کہ فرسٹ
اپریل کو اپریل فول کے نام پر ہرسال مختلف واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
بہرحال ان سب
نقصانات اور ذہنی اور ماحولیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے عقل کا تقاضاہے کہ ایسی
سنسنی اور دہشت پھیلانے والی خبروں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے اور نہ
ہی انہیں آگے بڑھایا جائے اور اگر آگے کسی کو بتانا ضروری ہی ہو تو پہلے معلومات
کے ذریعے تک بھروسے کے لائق ہیں۔
ہمارا دین
اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا
بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ
26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے
پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
سبحٰن اللہ!
دین اسلام کی کیا خوبصورت تعلیمات ہیں کہ اسلام ان کاموں سے رکنے کا حکم دیتا ہے
کہ جو معاشرتی امن کے خاتمے کا باعث ہیں اور ان کاموں کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ
امن و اتفاق کا گہوارہ بن سکے۔لہٰذا گھر بار کوچہ و بازار میں بات کی تصدیق اور
حقیقت حال جانے بغیر انسان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے کہ جس سے بعد میں اسے پریشانی
کا سامنا کرنا پڑے۔
یوں ہی حدیث
مبارکہ میں بھی ہمیں اس کے متعلق خبردار کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرسنی سنائی بات آگے بیان
کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
اسی طرح بعض
اوقات شیطان بھی انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا
ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی
کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس
کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔(مسلم، ص 18، حدیث: 17)مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ
علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّےانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے کے تحت فرماتے
ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت کی خبرجس کی
اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔
افواہیں شرعی
طور پر منع کی گئی ہیں اور انہیں جھوٹ اور غیبت کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔ افواہوں
کو پھیلانے اور سننے سے نقصان ہوتا ہے اور اس سے معاشرے میں بداخلاقی اور ناانصافی
پیدا ہوتی ہے۔ اسلام سچائی کو پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور افواہیں
پھیلانے سے منع کرتا ہے۔
افواہوں
کے دینی و دنیوی نقصانات:
افواہیں
جھوٹ کی ایک قسم ہیں: افواہیں عام طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور
انہیں سچ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھوٹ بولنا اسلام میں منع ہے اور قرآن و
حدیث میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
افواہیں
غیبت کی ایک قسم ہیں: افواہیں عام طور پر کسی کے بارے میں غلط اور بدنامی
کی باتیں ہوتی ہیں جو غیبت کی ایک شکل ہے۔ غیبت کرنا بھی اسلام میں منع ہے، اور اس
سے نفسانی خواہشات اور بدعقلی پیدا ہوتی ہے۔
افواہیں
نقصان کا باعث بنتی ہیں: افواہوں کو پھیلانے اور سننے سے لوگوں
کی ساکھ اور عزت کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرے میں بدعقلی اور ناانصافی پیدا ہوتی
ہے۔
افواہوں
سے بچنے کا حکم: اسلام
افواہوں سے بچنے اور سچائی کو ترجیح دینے پر زور دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں افواہوں
کو پھیلانے اور سننے سے منع کیا گیا ہے اور سچائی اور ایمانداری پر عمل کرنے کی
ترغیب دی گئی ہے۔
افواہوں
کی سزا: افواہیں
پھیلانے اور سننے کی سزا دنیاوی اور اخروی دونوں طرح ہے۔ دنیا میں یہ سماجی نقصان
اور رسوائی کا باعث بنتی ہیں، جبکہ آخرت میں یہ گناہ شمار ہو گی اور ان کی سزا
جہنم ہے۔
افواہوں
سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
سچائی
کو ترجیح دیں: سچائی
کو ہمیشہ ترجیح دیں اور جھوٹ سے بچیں۔
غیبت
سے گریز کریں: کسی
کے بارے میں غلط اور بدنامی کی باتیں کرنے سے گریز کریں۔
افواہوں
کو نہ پھیلائیں: افواہوں
کو پھیلانے سے بچیں اور انہیں نہ سنیں۔
معاشرے
میں سچائی اور ایمانداری کی ترویج کریں: معاشرے میں سچائی اور ایمانداری
کی ترویج کریں اور جھوٹ اور افواہوں سے بچیں۔
صبر
اور تحمل کا مظاہرہ کریں: اگر کوئی افواہ آپ کی طرف متوجہ ہو تو
صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور سچائی کا اظہار کریں۔
افواہوں سے
بچنا ایک ضروری دینی فرض ہے، اور اس پر عمل کرنے سے ہم معاشرے میں سچائی اور
ایمانداری کی ترویج کرنے اور بدعقلی اور ناانصافی سے بچنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ افواہیں
پھیلانے سے منع کیا جاتا ہے اور اس کی ممانعت اسلامی عقائد میں شامل ہے۔ یہ بات
قرآن و سنت میں بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ افواہیں پھیلانا ایک سنگین جرم
ہے اور اس سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
افواہیں
پھیلانے سے ممانعت کی وجوہات:
جھوٹ
اور فریب: افواہیں
عام طور پر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ ایک مسلمان کے لیے حرام ہے۔
بدنامی
اور تنازع: افواہیں
لوگوں کے درمیان بدنامی اور تنازع پیدا کرتی ہیں جو کہ اسلامی معاشرے کے لیے نقصان
دہ ہے۔
حقائق
کو مسخ کرنا: افواہیں
حقائق کو مسخ کرتی ہیں اور لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
نفسانی
خواہشات کی تکمیل: افواہیں پھیلانے والے اکثر اپنی نفسانی خواہشات کی
تکمیل کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں۔
مسلمانوں
کے درمیان بغض اور عداوت: افواہیں مسلمانوں کے درمیان بغض اور
عداوت پیدا کرتی ہیں جو کہ اسلام کی روح کے خلاف ہے۔
افواہیں
پھیلانے سے ممانعت کی مثالیں:
اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا
بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ
26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے
پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
							لوگ تفریحاً
جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں پرانے وقتوں میں اگر کوئی افواہ پھیلتی تھی گلی محلے میں
پھیلتی تھی افواہ پھیلنے میں وقت لگتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے اب تو
چھوٹی سی بات بھی چند لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور لوگ جھوٹی افواہوں
پر بہت غور کرتے ہیں جھوٹی خبریں یا کوئی بھی مسئلہ شرعی اسے بغیر تحقیق
دوسرےلوگوں کو شیئر کریں گے۔
جھوٹی خبر عقل
مند کے کان سے ٹکراتی ہے تو دم توڑ دیتی ہے۔ نادان کے کان سے ٹکراتی ہے تو مزید
طاقتور ہو جاتی ہے، جھوٹی افواہیں زیادہ تر دشمن بناتا ہے، احمق اور بے عقل شخص
افواہ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ آج کل ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کی زد میں آیا ہوا ہے یہ
ایک بڑھتا ہوا مرض بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ شخص جسے کچھ نہیں پتا جسے گھر
میں کوئی نہیں پوچھتا دوستوں میں جس کی کوئی عزت نہیں ہوتی وہ بیٹھ کر خبریں دے
رہا ہوتا ہے۔
یاد رکھیں
مسلمانوں میں افواہیں چھوڑنا طرح طرح کی خرابیاں ڈالنا گناہ کا کام ہے۔ اور سننے
والوں کو بھی چاہیے کہ بلاتحقیق کسی بھی افواہ پر یقین نہ کرلیا کریں بلکہ اس کی
تحقیق لازمی کریں کہ خبر دینے والا کس قدر معتمد و معتبر ہے، چنانچہ ارشاد ربانی
ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا
بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ
26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے
پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
احادیث مبارکہ
میں بغیر تحقیق سنی سنائی بات پر عمل کرنے کی ممانعت ہے۔ جھوٹی افواہیں پھیلانے کی
وعید بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے، پیارے آقا ﷺ ارشاد
فرماتے ہیں: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات
بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)بغیر تحقیق کسی پر تنقید بھی نہیں کرنی چاہیے۔
							افواہ سے مراد
ایسی بات ہے جو بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے پھیلائی جائے اور اس کی بنیاد شک اور
جھوٹ پر ہو، شریعت ہمیں تحقیق و تصدیق کرنے کا حکم دیتی ہے اور افواہوں پر کان
دھرنے سے منع کر تی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی کی سنی سنائی بات پر یقین
کرکے کسی کی حق تلفی کرنے یا کسی کو تکلیف پہنچانے کے جرم میں مبتلا ہو جائیں۔
قرآن کریم میں
جگہ جگہ افواہوں پر کان دھرنے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ
اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى
الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ
یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ- (پ 5، النساء:83)
ترجمہ: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے تو اسے پھیلانے لگتے ہیں،
حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور بااحتیار لوگوں کی خدمت میں پیش کر تے تو ضرور ان
میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اس کو جان لیتے۔
اس آیت مبارکہ
سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے ہمیں اس کی
تحقیق کروانی چاہیے جبکہ ہمارے حالات یہ ہیں کہ ایک شخص کوئی بات اچھالتا ہے تو
سوشل میڈیا کے ذریعے وہ بات پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس
بات کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔
آج کل
مسلمانوں اور اسلام کو بد نام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں لہذا ان
مسائل سے بچنے کا واحد حل جو ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اس طرح کی
خبر پہنچے تو اس کی تحقیق عقل مند اور سمجھدار لوگوں سے کروانی چاہیے اسی طرح حدیث
پاک میں ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان
کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
اس حدیث پاک
سے معلوم ہو رہا ہے کہ سنی سنائی بات بیان کرنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے دین اسلام
میں جھوٹ بولنا گناہ ہے اسی مناسبت سے سنی سنائی بات بیان کرنا بھی گناہ ہے لہذا
ہمیں اس گناہ سے بچنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم کوئی بھی کام تصدیق
کئے بغیر نہ کریں، کیونکہ تصدیق کرنا سنت سے ثابت ہے آقا ﷺ کوئی بھی کام تصدیق کئے
بغیر نہیں کر تے تھے، چنانچہ غزوہ احد کے موقع پر کفار نے خاموشی کے ساتھ جنگ کی
تیاری کی تاکہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا جائے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس جو کہ خفیہ
طور پر مسلمان ہو چکے تھے اور مکہ میں ہی رہتے تھے انہوں نے حضور ﷺ کو خط لکھ کر
کفار کے حملے کی خبر دی تو آپ ﷺ نے پہلے تحقیقات کروائیں تحقیقات کروانے کے بعد
معلوم ہوا کہ کفار کا لشکر مدینہ کے بہت قریب آ چکا ہے۔
اس واقعے میں
ہمارے لیے بہت پیارا درس چھپا ہوا ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کی سنت کو اپناتے ہوئے ہر
کام تصدیق کے بعد کرنا چاہیے۔
آخر میں اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں افواہیں پھیلانے جیسے جرم سے محفوظ رکھے اور نبی کریم ﷺ کی
سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
									
																				کراچی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں عظیم الشان محفلِ
میلاد النبی  کا انعقاد
																			
								
								
								 								
							دعوتِ
اسلامی اور کراچی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی (EPZA) کے زیرِ
اہتمام جشنِ ولادتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
کے سلسلے میں ایک عظیم الشان اور روح پرور محفلِ میلاد النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منعقد ہوئی۔
اس بابرکت اجتماع میں سیکریٹری EPZA، ڈی جی ایم، جی ایم اور دیگر افسران سمیت
معزز شخصیات نے شرکت کی۔
محفل
سے  مبلغِ دعوتِ اسلامی مولانا یوسف سلیم
عطاری مدنی نے ایمان افروز خطاب فرمایا جس کا موضوع حُسنِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، اخلاقِ مصطفیٰ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت تھا۔
آپ نے نہایت دلنشین انداز میں سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور سامعین
کو عملی زندگی میں ان تعلیمات کو اپنانے کی ترغیب دی۔
اس
موقع پر شرکا ئےاجتماع نے مختلف اعمالِ خیر کی پابندی کا عزم کیا۔ شرکا نے نماز کی
پابندی کرنے، داڑھی رکھنے اور حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
کی سیرت کے مطابق زندگی گزارنے کی نیت کی۔
محفل
درود و سلام اور نعتیہ اشعار کی صداؤں سے گونجتی رہی، جبکہ عشقِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور روحانیت
کا رنگ محفل پر غالب رہا۔ 
							افواہ کے معنی
بےاصل بات مشہور کرنا، جھوٹی خبر مشہور کرنا۔ دین اسلام میں جھوٹ بولنا ایک گناہ
ہے تو اسی نسبت سے دین اسلام میں افواہ کو بھی ایک برائی گناہ تصور کیا جاتا ہے
افواہ ایک سماجی برائی ہے افواہیں آج کل ہمارے معاشرے میں بڑی عام ہیں، جدید دور
میں تو افواہیں مزید بڑھتی جارہی ہیں پہلے کے زمانے میں افواہیں انسانوں کے ذریعے
پھلتی تھیں اور اس کے پھیلنے میں بھی وقت لگتا تھا مگر جدید دور میں افواہیں سوشل
میڈیا کے ذریعے پھلتی ہیں اور اس کے پھیلنے میں چند منٹ بلکہ چند سیکنڈ لگتے ہیں
اور خبر ساری دنیا تک پھیل جاتی ہے یہ غلط خبر یں نہ جانے کتنوں کا سکون برباد کر
تی ہیں نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں،عزت اور محبت برباد کر تی ہیں۔
افواہ کے
متعلق ایک حقیقت پر مبنی واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ چنانچہ ایک مرتبہ عید الاضحی کے
موقع پر ایک اسلامی بھائی کے دوستوں نے پرینک کی نیت سے ان کی ایک تصویر پر انّا
للّٰہ و انّا الیہ رٰجعون لکھ کر اور دعائے مغفرت کی درخواست
کرکے تصویر facebook پر اپلوڈ کر دی اب ہو کچھ یوں کہ عید کا
موقع تھا اتفاقاً وہ اسلامی بھائی کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے اور گھر والے
بھی مصروف تھے کہ اتنے میں اس اسلامی بھائی کے چھوٹے بھائی بڑے گھبرائے اور روتے
ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور والد صاحب سے کہا کہ بابا باہر بہت سے لوگ جمع ہیں اور
کہہ رہے ہیں کہ بھائی کا انتقال ہو گیا ہے یہ سن کر گھر والوں کے ہوش اڑ گئے اور
سب بہت پریشان ہو گئے ان پر تو ایسے جیسے کوئی قیامت ٹوٹ پڑی کہ صبح تو وہ گھر سے
ٹھیک نکلے تھے اچانک کیا ہوا!
اس اسلامی
بھائی کے والد دینی ماحول سے وابستہ تھے اس لیے انہوں نے گھر والوں کو تسلی دی اور
معاملے کی تحقیقات کرنی چاہی جب تحقیقات کی گئی تو حقیقت سامنے آگئی کہ یہ صرف ایک
مزاح تھا، اس افواہ سے اس اسلامی بھائی کے گھر والوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا
پڑا۔
آج کل تو اس
طرح کے واقعات بہت عام ہیں، کہیں کسی کی موت کی خبر تو کہیں کسی کی شادی کی خبر اس
طرح کی بےاصل خبر وں کو ہوا دی جا رہی ہوتی ہے ہر معاملے کی ہر خبر کی تصدیق کرنی
چاہیے اور اس طرح کی خبروں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور تصدیق کرنی چاہیے کہ سنت
مصطفیٰ بھی ہے کہ آپ ﷺ ہر بات کی ہر خبر کی تصدیق کرواتے اگرچہ خبر دینے والا کوئی
بھی ہوتا، چنانچہ غزوہ احد کے موقع پر جب کفار مکہ نے خفیہ طور پر جنگ کی تیاری کی
تھی اور حملہ کرنے کے لیے روانہ بھی ہوگئے تھے، آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس جو اس وقت
خفیہ طور پر ایمان لائے تھے اور مکہ میں رہتے تھے انہوں نے حضور کو خط لکھ کر کفار
مکہ کے حملے کی خبر دی تو آپ ﷺ نے تحقیقات کروائی تو معلوم ہوا کہ کفار مدینہ کے
بہت قریب آچکے ہیں۔
اس واقعے سے
ہر مسلمان کو درس حاصل کرنا چاہیے اور تحقیق کے بغیر سنی سنائی بات کو آگے نہیں
پہنچا نا چاہیے، سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے والو ں کے بارے میں حدیث پاک میں
ارشاد ہے: آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے وہ ہر سنی ہوئی بات (بلاتحقیق)
بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
									
																				مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت عمران، جامعہ غوث جیلانی میرپورخاص
																			
								
								
								 								
							صحابہ کرام
علیہم الرضوان اس امت کا سب سے بہترین طبقہ ہیں۔ انہوں نے براہ راست پیارے آقا ﷺ سے
دین سیکھا۔ان کا کسی بات پر اتفاق اس بات کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام کا اس
بات پر اجماع ہے کہ پیارے آقا ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں
آئے گا۔ اس عقیدے کے تحفظ کے لیے صحابہ کرام نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آئیے ملاحظہ
کیجئے:
کردار
خلیفہ اول: جنگ
یمامہ یہ وہ جنگ ہے جو عہدِ ابوبکر صدیق میں آپ کے حکم سے نبوت کے جھوٹے دعویدار
مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ میں مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار
لوگ ہلاک ہوئے۔ اور 1200 صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اتنے کثیر صحابہ
کرام نے شہید ہو کر اپنا یہ عقیدہ واضح کردیا کہ حضور ﷺ ہی خاتم النبیین ہیں۔ (الکامل
فی التاریخ،2/218تا 224)
کردار
خلیفہ ثالث: حضرت
عثمان غنی کو خط کے ذریعے اس بات کی خبر پہنچی کہ جو لوگ نبوت کے جھوٹے دعویدار
مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے تھے وہ پکڑے گئے ہیں تو آپ نے جواباً لکھا۔ ان پر دین
حق اور لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی گواہی پیش کرو جو اسے قبول کرلے اور
مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کرلے اسے قتل نہ کرنا،اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب
کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا۔ چنانچہ اس فرمان پر عمل کیا گیا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی،8/350،
رقم:16852)
کردار
فیروز دیلمی: حضور
ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا حضرت فیروز دیلمی نے اسے قتل
کر دیا۔ حضور نے فرمایا: فیروز کامیاب ہو گیا۔ (خصائص کبریٰ، 1/467)
حدیث پاک میں
ہے: میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے چلو گے راہ پاؤ گے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث:6018)
							اسلام کے
بنیادی عقائد میں سب سے اہم اور فیصلہ کن عقیدہ ختم نبوت ہے۔ نبی کریم ﷺ کے بعد نہ
کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی نیا رسول، یہی عقیدہ ایمان کی بنیاد ہے۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ
اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ
22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
یہی وہ عقیدہ
ہے جس پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے ہر موقع پر پہرہ دیا، اپنی جانیں قربان کیں
لیکن ختم نبوت پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔
جھوٹے
نبیوں کے خلاف پہلا جہاد: نبی پاک ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد مختلف
جھوٹے نبی پیدا ہوئے جنہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا۔ سب سے بڑا فتنہ مسیلمہ کذاب کا
تھا۔
حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر مدینے کے کتے بھی مجھے گھیر لیں تو میں جھوٹے
نبیوں کے خلاف جہاد سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔ (سیرت صدیق اکبر، ص 119)
حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا کر لشکر روانہ کیا گیا۔ یمامہ کی جنگ میں 1200
سے زائد صحابہ و حفاظ قرآن شہید ہوئے، لیکن مسیلمہ مارا گیا اور ختمِ نبوت کا پرچم
سربلند رہا۔ (سیرت صدیق اکبر، ص 116)
دیگر
جھوٹے نبیوں کا انجام: اسود عنسی کو حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے قتل
کیا اور طلیحہ اسدی کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شکست دی۔ (سیرت صدیق
اکبر، ص 120)
حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عزم: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ختمِ
نبوت کا پہرہ برقرار رہا۔ وہ فرمایا کرتے: قرآن مکمل، دین مکمل اور نبوت مکمل ہو
چکی ہے، اب جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس کا علاج صرف تلوار ہے۔ (فضائل فاروق
اعظم، ص 88)
حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ساری دنیا جھوٹے نبیوں کا ساتھ دے تو بھی ہم ختمِ نبوت پر
ڈٹے رہیں گے۔ (فضائل اہل بیت، ص 76)
امیر
اہل سنت کے ایمان افروز فرامین: میرے شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا محمد
الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ ختمِ نبوت پر بار بار ایمان افروز فرامین
ارشاد فرماتے ہیں، مثلاً:
٭ ختمِ
نبوت کا انکار کفر ہے، جو منکر ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔ (مدنی مذاکرہ، رمضان
1441ھ)
٭ صحابۂ
کرام نے ختمِ نبوت کیلئے جانیں قربان کیں، ہمیں بھی عقیدہ ختمِ نبوت کا سچا محافظ
بننا ہے۔ (مدنی مذاکرہ، شعبان 1440ھ)
٭ ختمِ
نبوت کا تحفظ عشق مصطفی ﷺ کا لازمی تقاضا ہے۔ (مدنی مذاکرہ، ربیع الاول)
٭ ختمِ
نبوت کے دشمنوں کا ردّ ایمان کی علامت ہے۔ (مدنی مذاکرہ، صفر المظفر 1443ھ)
الغرض ختمِ
نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ صحابۂ کرام نے جانوں کا نذرانہ دے کر
اس عقیدہ کو محفوظ کیا۔ ہم بھی اسی راہ پر چلیں اور ختمِ نبوت کا دفاع ایمان کا
حصہ سمجھیں۔
یا اللہ ہمیں
عقیدہ ختمِ نبوت پر پختہ ایمان اور سچی محبت عطا فرما۔ آمین
									
																				مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد سعید، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور
																			
								
								
								 								
							پیاری پیاری
اسلامی بہنو! اس مضمون میں عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا
کردار بیان کیا جائے گا جن کے پڑھنے سے ان شاءاللہ عقیدہ ختمِ نبوت کو مزید تقویت
و پختگی ملے گی۔ عقیدہ ختمِ نبوت صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین،
علمائےکاملین اور تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے اور تمام صحابہ کرام
اس آیت مبارکہ (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ
22، الاحزاب: 40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔) پر مکمل یقین اور ایمان
رکھتے تھے۔
حضرت
ابوبکر صدیق کا کردار: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیر المومنین حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ
کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لیے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر
سے جنگ کی۔ تاریخ میں اسے ”جنگ یمامہ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200
مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے
جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے
مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (عقیدہ ختم نبوت، ص 26)
حضرت
عثمان غنی کا کردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں
کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے
میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی
گواہی پیش کرو جو اسے قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کرے اسے قتل
نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے کئی
لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا گیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر
رہے ان کو قتل کر دیا گیا۔ (عقیدہ ختمِ نبوت، ص 27، 28)
حضرت
فیروز دیلمی کا کردار: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن
میں نبوت کا دعوی کیا سرکار دو عالم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے
لیے صحابہ کرام سے فرمایا: کہ اسے نیست و نابود کر دو حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ
عنہ نے اس کے محل میں داخل ہو کر اسے قتل کر دیا رسول کریم ﷺ نے غیب کی خبر دیتے
ہوئے مدینہ منورہ میں مرض وصال کی حالت میں صحابہ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود
عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہل بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے
پھر فرمایا فیروز کامیاب ہو گیا۔ (عقیدہ ختمِ نبوت، ص 26)
									
																				مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت فیاض احمد، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور
																			
								
								
								 								
							عقیدہ ختمِ
نبوت سے مراد یہ ہے کہ محمد ﷺ آخری نبی ہیں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا
نبوت آپ پرختم ہو گئی۔ (صراط الجنان، 8/47)
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ
مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ
كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب:
40) ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
حضرت ثوبان سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عنقریب میری امت میں تیس کذّاب پیدا ہوں
گے اور سب کے سب نبوت کا دعوی کریں گے حالانکہ میں سب سے آخری نبی ہوں اور میرے
بعد کوئی نبی نہیں۔ (ابو داود، 4/133،
حدیث : 4252)
ختمِ نبوت پر
کردار صحابہ:
اسود عنسی کا
فتنہ:اس کا پورا نام عبہلہ بن کعب
عنسی اور لقب ذوالخمار ہے۔ بعض نے ذوالحمار ذکر کیا ہے۔ دس ہجری یمن میں اس کذّ اب
کا ظہور ہوا۔ عہد رسالت ﷺ میں ہی اس نے نبوت کا دعوی کر دیا تھا۔اس کا خروج حجۃ
الوداع کے بعد ہوا۔ البتہ اللہ کے نبی ﷺ نے پہلے ہی اس کے ظہور کی پیش گوئی فرمائی
تھی۔
صنعا (یمن) کے
علاقے کے گورنر حضرت شہر بن باذان تھے۔ اس نے صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ ان کو شہید
کرکے ان کی زوجہ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔جب رسول محتشم ﷺ کو اس کی اطلاعات پہنچیں تو
پیارے آقاﷺ نے ارشاد فرمایا :جس طرح ہو سکے اس کے شر کو ختم کردیں۔
ماہ صفر
المظفر میں 11سن ہجری میں ہی کذاب اسود عنسی کو صحابی رسول فیروز دیلمی نے واصل
جہنم کر دیا۔
اسود عنسی کو
قتل کرنے والے حضرت فیروز دیلمی رسول اللہ ﷺ کے جیّد صحابی اور نجاشی بادشاہ کے
بھانجے تھے اور انہیں خود رسول اللہ ﷺنے اس کذّاب کے قتل کا حکم دیا۔ اس کے قتل کی
خبر آپﷺ کو اپنے وصال سے ایک دن اور ایک رات پہلے دی گئی۔
مسیلمہ کذّاب
کا فتنہ: اس کا پورا نام مسیلمہ بن حبیب تھا، کنیت ابو ثمامہ اور تعلق بنو حنیفہ
سے تھا۔ نبوت کا دعوی تو اس خبیث نے دور رسالت ﷺ میں ہی کر دیا تھا لیکن لوگوں کی
حمایت اس نے وصال نبیﷺکے بعد حاصل کی۔ امیر المومنین ابو بکر صدیق نے پےدر پے حضرت
عکرمہ بن ابی جہل، شرحبیل بن حسنہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو اس کی
سرکوبی میں بھیجا۔
ایک طویل قتل
و غارت کے بعد بالآخر مشرکین کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔مسیلمہ کے لشکری
جب بھاگے تو خود مسیلمہ بھی بھاگ کھڑا ہوا اور ایک دیوار کے پیچھے جا کھڑا ہوالیکن
ایک جیّد صحابی حضرت وحشی نے اسے دیکھ لیا اور اسے زور کی نیزہ مارا کہ اس کے سینے
کے آر پار ہو گیا اور وہ واصل جہنم ہوا۔
حاصل
کلام: اس
سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ختمِ نبوت کے متعلق کیا عقیدہ تھا
اور کس جوش و جذبے سے انہوں نے ناموس رسالت پر پہرا دیا اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے
اپنی جانیں اور اپنے عزیز و اقارب کی جانیں دینے سے بھی گریز نہ کیا، جیسا کہ جنگ
یمامہ میں ایک ہزار دو سو صحابہ نے ناموس رسالت کی حفاظت میں اپنی جانیں بطور
نذرانہ پیش کیا اور جام شہادت نوش فرمایا جن میں حضرت عمر کے بھائی حضرت زید بن
خطاب اور خطیب الانصار حضرت زید بن ثابت بن شماس رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔ اور
ابھی تک پہراداران ناموس رسالت اپنی شمشیر و قلم سے ختمِ نبوت پر پہرا دیتے رہے
ہیں۔
تخلیق
میں پہلے نور ان کا آخر میں ہوا ہے ظہور ان کا
تکوین
جہاں ہےان کیلئے ختم ان پہ نبوت ہوتی ہے
محمد
مصطفی۔۔۔ سب سےآخری نبیﷺ
									
																				مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت خلیل، جامعۃ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور
																			
								
								
								 								
							اللہ نے حضور
اکرم ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا۔ اس کے بعد کسی کو نبوت ملنا ممکن نہیں۔ یہ
عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔ جس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا دائرہ
اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد ہو جاتا ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت ایک ایسا عقیدہ ہے
جس کا ذکر قرآن سے بکثرت ملتا ہے۔ پیارے آقا ﷺ کی احادیث بھی حد تواتر تک پہنچتی
ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اس کے منکرین کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ یہاں تک
کہ علمائے اہل سنت نے اس عقیدے میں ذرہ برابر بھی شک کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔
تمام علما کا اتفاق ہے کہ اس میں تھوڑی سی بھی گنجائش نکالنے والا کافر و مرتد ہے۔
کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا؟ لا نبی بعدی یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے
گا اور قرآن میں بھی اللہ نے آپ کو خاتم النبیین فرمایا ہے۔ اب یہاں صحابہ کرام علیہم
الرضوان کے عقیدہ ختمِ نبوت کے متعلق کچھ اقوال صحابہ ملاحظہ کریں۔
حضرت
ابو بکر صدیق اور جماعت صحابہ کا عقیدہ: مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، امیر
المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نبوت کا
جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابی رسول
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے
مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے جنگ کی۔ تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد
کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و
قاری قرآن صحابہ بھی شامل تھے۔ جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس کے لشکر کے 20 ہزار لوگ
ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔ (الکامل فی التاریخ،
2/218تا 224)
صحابہ کرام
علیہم الرضوان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنا عقیدہ واضح کر دیا کہ حضور
خاتم النبیین ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور اگر
کوئی نبوت کا دعوی کرے تو اس سے اعلان جنگ کیا جائے گا۔
حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ: حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ
نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور
اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے فرمایا: ان
کے سامنے دین حق اور لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی گواہی پیش کرو۔ جو اسے
قبول کر لے اور مسیلمہ کذاب سے براءت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو
مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا۔ ان میں کو سے کئی لوگوں نے
اسلام قبول کر لیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب پر رہے تو ان کو
قتل کر دیا۔ (سنن کبری للبیہقی، 8 / 350، رقم : 16852 )
									
																				مسئلہ ختمِ
نبوت پر کردارِ صحابہ از بنت محمد فہیم کھتری،فیض مدینہ نارتھ کراچی
																			
								
								
								 								
							ختمِ نبوت سے
مراد یہ ہے کہ جو سلسلہ نبوت اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اس کی
انتہا محمد عربی ﷺ کی ذات اقدس پر فرمائی یعنی حضور ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی آپ ﷺ آخری
رسول ہیں آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا اس عقیدے کو شریعت کی اصطلاح میں
عقیدہ ختمِ نبوت کہا جاتا ہے۔
عقیدہ ختمِ
نبوت ان عقائد میں سے ہے جس کو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیا گیا ہے
اسی لیے عہد نبوت سے لے کر آج تک ہر مسلمان بغیر کسی تاویل و تخصیص کے آپ ﷺ کے
خاتم النبیین ہونے پر ایمان رکھتا آیا ہے۔
اس عقیدے کی
اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی 100 آیات مبارکہ اور
نبی کریم ﷺ کی 200 سے زائد احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے اس کا منکر کافر و
مرتد ملعون ہے اس میں ادنی سا شک کرنے والا بھی کافر ہے اور عذاب نار کا حقدار ہے۔
(میزان الادیان بالاسلام، ص 54)
عقیدہ
ختمِ نبوت پر صحابہ کرام کا کردار: امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب
اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لیے صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذاب کے 40 ہزار کے لشکر سے
جنگ کی، تاریخ میں اسے جنگ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ میں 1200
مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاری قرآن صحابی بھی شامل تھے
جبکہ مسیلمہ کذاب سمیت اس لشکر کے 20 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں
کو فتح نصیب فرمائی۔
نبوت کا جھوٹا
دعوی کرنے والا یہ مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا اس
وقت حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زمانہ کفر میں سب سے اچھے آدمی کا قاتل
تھا اور زمانہ اسلام میں سب سے بدتر کا قاتل ہوں۔ (کتاب العقائد، ص 54)
اس عقیدے کی
اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ظاہری حیات میں اسلام
کے تحفظ اور دفاع کے لیے جتنی بھی جنگی لڑی گئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام
کی کل تعداد 259 ہے اور عقیدہ ختمِ نبوت کی دفاع کے لیے جنگ یمامہ میں 1200 صحابہ
کرام شہید ہوئے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی اس عقیدے پر جانثاری سے اس کی عظمت کا
اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جب
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے
دعویدار مسیلمہ کذاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے۔ حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب اس کے بارے میں
خط لکھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دین حق کی
گواہی پیش کرو جو اسے قبول کرے اور مسیلمہ کذاب سے علیحدگی اختیار کر لے اسے قتل
نہ کرنا اور جو مسیلمہ کذاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کر دینا ان میں سے جو
مسیلمہ کذاب کے دین پر تھے ان لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔
حضرت ثمامہ بن
اثال رضی اللہ عنہ نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب سے اس قدر نفرت کیا کرتے تھے
کہ جب کوئی آپ کے سامنے اس کا نام لیتا تو جوش ایمانی سے آپ کے جسم پر لرزہ طاری
ہو جاتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ آپ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ
تاریخی جملے ادا کیے: محمد رسول ﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد
کوئی نبی ہے جس طرح اللہ پاک کے الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد ﷺ کی
نبوت میں کوئی شریک نہیں ہے ۔
اسی طرح نبوت
کا جھوٹا دعوی کرنے والا اسود عنسی اس کو صحابی رسول حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ
عنہ نے قتل کر کے واصل جہنم کر دیا اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ قبیلہ مراد سے تعلق
رکھنے والے کچھ افراد نے نبی کریم ﷺ کو اسود عنسی کے بارے میں خبر دی تو پیارے آقا
ﷺ نے ان کو خط لکھا کہ تم اکھٹے ہو کر جس طرح ممکن ہو اسود عنسی کے شر و فساد کو
ختم کرو اس پر دو اشخاص اسود عنسی کی خواب گاہ میں داخل ہوئے اور حضرت فیروز دیلمی
نے اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات ظاہری سے پہلے ہی خبر دے دی تھی
کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ہے اور مرد مبارک نے جو اس کے اہل بیت سے ہے اس نے
اسے قتل کیا ہے اس کا نام فیروز ہے اور فرمایا : فاز فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوا۔
(کتاب العقائد، ص 50)
یہ صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا ایمانی جذبہ تھا کہ ان لوگوں نے عقیدہ ختمِ نبوت کے لیے اپنی
جانوں کی قربانیاں پیش کیں اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کو واصل جہنم کیا۔
            Dawateislami