محمد معین رمضان عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے میٹھے
اور پیارے اسلامی بھائیو! مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں جو
مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان
نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی
شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان
کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد
یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا
اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان
سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ میرے
پیارے اسلامی بھائیو! اس دور میں رشتوں کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم ایک
دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم آپس میں ملتے نہیں پھر یونہی
ہمارے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں میرے محترم اسلامی بھائیو! ہمیں اس کاحل تلاش کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ
ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی کریں جس کے ہمیں د نیوی و اُخروی فوائد ہوں۔(آئیں
کچھ میزبان کے حقوق کے متعلق سنتے ہیں۔)
(1)مومن
کی دعوت قبول کرنا۔جب انسان کو اس
کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اپنی امت کے
حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو
اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے لیے انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ
کام جزِ دین ہے۔
(2)میزبان
کی روایات کا احترام۔مہمان کو چاہیے
کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے
مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض لوگ
تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں۔
(3)کھانے
میں شرم نہ کریں۔بعض افراد ایسے بھی
ہوتے ہیں کہ ان کو جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی
تو اپنی ضرورت سے کم کھاتے ہیں جبکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ میزبان کو اصرار
کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے کھانا کھا لیں۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب
تمہارا مومن بھائی تم سے کھانا کھانے کا
تقاضا کرے تو کھا لو میزبان کو مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کو قسم دے. کیونکہ کھانا
کھانے کی دعوت دے کر وہ آپ کا احترام بجا لانا چاہ رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر امام
ارشاد فرماتے ہیں: «ایک شخص کی اپنے مومن بھائی سے محبت اس کے بھائی کی دعوت پر اس
کے مناسب مقدار میں کھانا کھانے سے پتا چلتی ہے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ شخصِ مہمان
میری دعوت پر کھانا کھاۓ اور
اچھا مناسب مقدار میں کھاۓ، اس کام سے مجھے وہ خوشحال کرتا ہے۔
(4)میزبان
کے پاس ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرنا۔نبی
اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا
جائے گا، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے
گناہ میں ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے
گناہ میں ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں
ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر
کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔
(5)جہاں
میزبان بٹھا دے، بیٹھ جائیں۔امام
باقر کا فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی اپنے برادرِ دینی کے گھر داخل ہو تو اسے چاہیے
کہ جہاں پر اسے میزبان بٹھا دے وہیں پر بیٹھ جاۓ، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی جگہوں کو مہمان
سے بہتر جانتا ہے۔
اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب
العالمین)
محمد
سرور خان قادری (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ شیراں والا گیٹ
لاہور ، پاکستان)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں
مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کئی سے حقوق ہیں
جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہیں دور اولین میں مہمان کے لیے پہلا اور اولین حق یہ
ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے محترم اسلامی
بھائیو حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس جس طرح کا بھی مہمان آتا آپ اس
کی خوب خاطر تواضع فرمایا کرتے تھے اور چاہے وہ کسی شعبے کے ساتھ بھی تعلق رکھتا یہ
نہیں دیکھتے کہ یہ بڑا مہمان ہے یا یہ بڑی ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے تو اس
کا احترام اس طرح کرنا چاہیے بلکہ ادنی و اعلی حاکم و محکوم اور چھوٹا بڑا جو بھی آتا
میرے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس کی خوب مہمان نوازی فرماتے اور میزبانی
کے حقوق ادا فرمایا کرتے تھے۔
( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں
ٹھہرنا چاہیے )آپ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں
ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا۔ مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں اتنی دیر
مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے سے میزبان کو کون سے گناہ
میں ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں
مہمانی پر ٹھہر ا رہے کہ اس کے پاس مہمان پرخرچ
کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے۔
پیارے اسلامی
بھائیو پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا
تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ کہ مہمان پر چار چیزیں
واجب ہیں :
مہمان کو جہاں
میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے، میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے اس پر
خوش ہو ،میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔ ( فتاوی عالمگیری)
اسی طرح میزبان
کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں (1) مہمان کو چاہیے کہ ہمیشہ
خیر سگالی اور اظہار محبت کے لیے اپنی حیثیت استطاعت کے مطابق چھوٹا موٹا تحفہ میزبان
کے لیے ضرور لے کر جائیں تاکہ میزبان خوش ہو (2) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر
کی روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ
جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے
ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں(3) اس طرح ان سے اس طرح کا مزاج اپنائے کہ وہ آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں۔
ان کے علاوہ
بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن
اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے
اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گےاور اگر ان پر عمل نہ کیا
جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں۔ اللہ پاک ہمیں مہمان
نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین
محمد جنید عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو آپ کو پتا ہے جیسا کہ مہمان
کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے اسی طرح میزبان کے حقوق بھی ہمیں
اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے گھر جائے تو تین
دن سے زیادہ دن اس کے پاس نہ ٹھہرے اور
جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر جائے اس کے بارے میں کچھ حدیث مبارکہ بیان
کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں اللہ پاک مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین
(1)
متقین کی دعوت کرنا ۔متقی اور پا
سا لوگوں کی دعوت کرنا اور ان کی خدمت کرنا باعث برکت اور حصول کا ذریعہ ہے۔۔جیسا
کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔مومن کے علاوہ کسی اور کو
اپنا دوست نہ بناؤ اور کھانا صرف متقی آدمی
کو کھلانا چاہیے۔
(2)
مہمان کو جس جا ٹھہرایا جائے وہیں ٹھہرنا چاہیے ۔ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔مہمان
چار چیزوں کا خیال رکھے۔ جہاں اسے بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔میزبان سے اجازت لے کر
اٹھے۔جب نکلے تو میزبان کے لیے دعا کریں۔
(
3) کھانا کھانے کے وقت نہ جانا ۔کھانے
کے وقت کسی کے ہاں مہمان بن کر نہیں جانا چاہیے۔اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے۔یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰـكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا
فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕپارہ 22 ۔سورۃ الاحزاب۔ آیت نمبر 53
ترجمہ۔ اے ایمان والو: نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو
جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ تو نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ
تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو جائے اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے
باتوں میں دل بہلاؤ۔
الضیف : اس
زمانے میں دو قسم کے لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے ایک وہ جو کہیں سے ملنے آئے دوسرا بے ٹھکانہ مسافر
پر الضیف کا لفظ بولا جاتا ہے پہلے زمانے میں ہوتا تھا کہ مسجد میں مسافرآ
جاتے اور کہتے: میں مسافر ہوں تو لوگ ان کی مہمانی کر دیا کرتے تھے حضرت علی رضی
اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے کہ جب تک کہ مہمان
ساتھ نہ ہوتا اگر کوئی مہمان نہ آتا تو باہر گلی سے کسی مسافر کو گھر لے آتے کہ میرے
ساتھ کھانا کھاؤ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر آدمی نہیں تھے تنگدستی کے
ساتھ گزارا کیا کرتے تھے ۔
مہمان کی خدمت اور اکرام کے متعلق اعلی حضرت رحمتہ اللہ
علیہ نے بیان فرمایا: جس کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کا
اکرام کرے مہمان کا اکرام کیا ہے مہمان کے اکرام میں اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے مختلف احادیث میں چار درجے
بیان فرمائے ہیں : پہلی بات فرمائی ابو داؤد شریف کی روایت ہے
[ لیلۃ الضیف حق علی کل مسلم ] مہمان کی پہلی رات ہر مسلمان پر حق واجب ہے کھانے کا ذکر نہیں فرمایا رات کا ذکر فرمایا اس
سے مراد یہ ہے کہ مہمان کے رہنے آرام اور کھانے کا انتظام کرنا۔
اس سے اگلا درجہ آپ نے فرمایا : (یوم ولیلۃ)
اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہم جب بھی کسی کے ہاں
مہمان بن کر جائے تو ہمیں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اور ہمیں میزبان کے حقوق کا بھی خیال کیا
جائے اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی
ہمیں میزبان اور مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
محمد شاہ زیب
سلیم عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
انبیاء ومرسلین
علیھم السلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے قرآن وحدیث میں انبیاء
ومرسلین علیھم السلام کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں نبی
اور رسول خدا کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں، ان کی نگرانی اور تربیت خود اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے۔ صغیر و کبیرہ گناہوں سے بالکل پاک ہوتے ، عالی نسب، عالی حسب (یعنی
بلند سلسلہ خاندان)، انسانیت کے اعلی مرتبے پر پہنچے ہوئے، خوبصورت ، نیک سیرت ،
عبادت گزار، پرہیز گار ، تمام اخلاق حسنہ سے آراستہ اور ہر قسم کی برائی سے دور
رہنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں عقل کامل عطا کی جاتی ہے جو اوروں کی عقل سے انتہائی
بلند و بالا ہوتی ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو قرآن و حدیث میں میزبان کے
حقوق بہت تفصیلا بیان کیے گئے مہمان کے لیے چاہیے کہ میزبان جہاں بھی بٹھایا
جائے وہیں بیٹھے جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو یہ نہ ہو کہ وہ
کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے گھر ہی کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ
جیسا کہ آج
کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔ مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی غیبت نہ کرے ۔
1)دل
آزاری نہ کرنا:(۱۲) گھر کے انتظامات پر بے جا تنقید نہ کریں جس سے ان کی دل
آزاری ہوں۔ ہاں ، اگر نا جائز بات دیکھیں، مثلاً جانداروں کی تصاویر و غیر آویزاں
ہوں تو احسن طریقے سے سمجھا دیں۔ ہو سکے تو کچھ نہ کچھ تحفہ پیش کریں خواہ کتنا ہی
کم قیمت ہو ، محبت بڑھے گی۔(سنتیں اور آداب صفحہ 40 مکتبہ المدینہ )
2)
کھانے میں عیب نہ نکالنا:کھانے میں
کسی قسم کا عیب نہ لگائیں مثلا یہ نہ کہیں کہ مزیدار نہیں، کچارہ گیا ہے، پھیکا
ہوگیا کیونکہ کھانے میں عیب نکالنا مکروہ و خلاف سنت ہے اور اگر اس کی وجہ سے
کھانا پکانے والے یا میزبان کی دل آزاری ہو جائے تو ممنوع ہے بلکہ جی چاہے تو کھائیں
ورنہ ہاتھ روک لیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نور کے پیکر
تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور، سلطان بحرو بر صلی اللہ تعالی علیہ والہ
وسلم نے کبھی کسی کھانے کو عیب نہیں لگایا (یعنی برا نہیں کہا) اگر خواہش ہوتی تو
کھا لیتے اور خواہش نہ ہوتی تو چھوڑ دیتے۔(تربیت اولاد صفحہ نمبر 122)
3)
میزبان کی اجازت سے روزہ رکھنا:
مہمان میزبان کی اجازت سے روزہ رکھے گا کہ میرے نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی قوم کے پاس بطور مہمان ٹھہرے تو وہ ان کی
اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔(ترمذی کتاب الصوم حدیث نمبر 789 )
4)
زیادہ دیر نہ ٹھہرنا:حضور صلی اللہ
تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ
اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گناہ گار کردے۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ
وہ اسے کیسے گناہگار کرے گا؟ تو فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس
اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے۔(ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 601)
5)
شوق سے کھانا :مہمان کا شوق سے
کھانا کھانا میزبان کو خوش کرتا ہے کہ میرا کھانا مہمان کو پسند آیا ہے ۔(امیر اہل
سنت کی 786 نصیحتیں صفحہ نمبر 85)
احمد رضا
عطّاری (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
مہمان کو چاہیے
کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے ، جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو۔
اور جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے. مہمان کو چاہیے کہ بن بلائے دعوت پر نہ
جائے ۔ جس سے اس کو تکلیف ہو۔ اور میزبان کے ہاں اتنا نہ بیٹھے کہ اس کے لیے خرچ
اور تکلیف کا سبب ہو۔ میزبان کا شکر ادا
کرنا چاہیے لیکن بیوقوف مہمان اس بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میزبان نے یہ جتنا
اہتمام کیا ہے اسے رخصت کے وقت اس کو ساتھ لے جانے کے لیے دے دے۔جہاں مہمان کے
حقوق ہیں وہی میزبان کے بھی حقوق ہیں۔
آئیے چند احادیث
مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔
1 ؛ میزبان کے ہاں دیر تک نہ ٹھہرنا ۔حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتناقیام کرے کہ اسے گناہ گار کر
دے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اسے کیسے گناہ گار کرے گا ؟تو
فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش
کرے۔ (ایمان کی شاخیں ،ص، 601)
2
؛ فرمائش نہ کرنا :حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس (مہمان بن کر) جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے
پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو
کرے۔( شعب الایمان، ایمان کی شاخیں ،ص ، 600 ) (طبرانی)
3
؛ میزبان کے لیے دعا کرنا.حضرت سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار
ہو تو (میزبان کے لیے ) دعا کرے اور اگر روزہ نہ ہو تو کھانا کھالے ۔(مسلم ، کتاب
النکاح ، باب الامر باجابة الداعی الی دعوۃ ، ص576 ،حدیث :3520)
4
؛ آخر تک بیٹھنا ۔روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں۔ فرمایا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص نہ اٹھے تاآنکہ دستر
خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو جائے۔(مراة المناجیح ج
،6، ص 75،حدیث 4069 )
5
؛ دعوت قبول کرنا ۔مہمان کو چاہیے
کہ میزبان کی دعوت قبول کرے اس کے دل میں خوشی داخل کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یعنی جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ عزوجل اور اس کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب الامر با
جابة الداعي إلى دعوة الحديث :1432،ص750)
6
؛ بغیر دعوت کے نہ جانا :کسی کے
ہاں بغیر دعوت (یعنی بن بلائے ) نہیں جاناچاہیے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :من مشى إلى طَعَامٍ لم يُدْع الَيْهِ مشی فا سِقًا و اكل حراما یعنی جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا
اور اس نے حرام کھایا ۔(مسندابی داؤد الطیالسی، الحدیث : 2332، ص306 )
7
؛ میزبان کی غیبت نہ کرنا : مہمان
کو چاہیے کہ میزبان کی غیبت مت کرے ۔ اس کے کھانے کی برائی بیان نہ کرے ۔حضرت
ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کہیں
کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے ، لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہ آیا۔
ایک شخص بولا وہ موٹا بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمۃ اپنے آپ
کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے لگے : افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے
کہ میں ایک ایسی مجلس(یعنی بیٹھک/ دعوت) میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو
رہی ہے یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف لے گئے اور (اس صدمے سے) تین ( اور بروایت دیگر
سات) دن تک کھانا نہ کھایا۔( تنبيه الغافلين ،ص،89)
آصف علی (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
مہمان کی جیسی
عزت کی جاتی ہے ویسے ہی مہمان کو میزبان کی
عزت کرنی چاہیے ۔میزبان کی دل آزاری نہ کی جائے اس کے لیے دعا کی جائے ۔بن بلائے
دعوت پر نہ جایا جائے چنانچہ حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم
روف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت اس
نے پانچ افراد کو دعوت پر بلایا ۔ ایک شخص ان افراد کے پیچھے آ گیا ۔ جب دروازے پر
پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میزبان سے فرمایا یہ شخص ہمارے پیچھےآگیا
ہے اگر تم چاہو تو اجازت دو اور اگر چاہو تو لوٹا دو۔ میزبان نے عرض کیا ۔ یا رسول
اللہ میں نے اُسے اجازت دے دی۔(مسلم - کتاب الاطعم ص-862- حدیث ۔ 5309)
(1)
میزبان کے لیے دعا ۔حضرت سیدنا ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو
اسے چاہیے کہ قبول کرے۔اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لئے )دعا کرے اور
اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھالے-(مسلم کتاب النکاح ص، 576, حدیث 352)
2
; حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور میزبانی : جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار
بار فرماتے اور کھائیے اور کھا ئیے اور جب مہمان خوب آسوده ہو جاتا اور انکار کرتا
تو تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک جاتے ۔ (ایمان کی شاخیں شعب الایمان مترجم)
3
; بغیر اجازت نہ جانا : ایک مرتبہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کافر آیا اس کے لیے بکری کا دودھ لایا گیا وہ
سارا کا سارا پی گیا اس کے بعددوسری بکری پھر تیسری حتی کے سات بکریوں کا دودھ پی
گیا مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا برا نہ منایا، اس نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور سو گیا ۔ رات کو بستر
پر پاخانہ کر دیا شرم کے مارے صبح اٹھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و علیہ وسلم سے
اجازت لیے بغیر نکل گیا راستے میں پہنچا تو اسے خیال آیا کہ میں اپنی تلوار بھول آیا
ہوں تلوار لینے کیلئے واپس گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے۔ کہ امام الانبیاء حبیب کبریا
صلی اللہ علیہ وسلم اس کی غلاظت کو خود صاف فرمارہے ہیں۔ اس عادت کریمہ کو دیکھ کر
ا کر اس سے رہا نہ گیا فوراً کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں آگیا۔( ایمان کی شاخیں
شعب الایمان مترجم )
4
; سخاوت کرنا: حضرت سید نا ملحان
طائی رحمہ اللہ تعالی علیہ سے منقول ہے حاتم طائی کی زوجہ "نوار" سے کہا
گیا : ہمیں حاتم طائی کےمتعلق کچھ بتاؤ ۔ اس نے کہا: حاتم طائی کا ہر کام عجیب تھا۔ ایک مرتبہ قحط
سالی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، آسمان سے پورا سال بارش نہ ہوئی۔ بھوک
اور کمزوری نے دودھ پلانے والیوں کو دودھ پلانے سے روک دیا۔ اونٹ سارا سارا دن پانی
کی تلاش میں پھرتے لیکن انہیں ایک قطرہ پانی نہ ملتا۔ ہر ذی روح بھوک و پیاس سے بے
تاب تھا۔ ایک رات سردی نے اپنا پور ازور دکھا رکھا تھا اور ہمارے گھر میں کھانے کے
لئے ایک لقمہ بھی نہ تھا۔ ہمارے بچے عبداللہ ،عدی ، اور سفانہ بھوک سے بلبلا رہے
تھے۔ واللہ (اللہ کی قسم ) ہمارے پاس انہیں
دینے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ بچوں کی آوو بکا سن کر ایک کو حاتم طائی اور دوسرے کو
میں نے گود میں اٹھالیا ، ہم انہیں کافی دیر تک بہلاتے رہے۔ لیکن بھوک نے ان کا
برا حال کر رکھا تھا-بالآخرت کافی دیر بعدتھک ہار کر دونوں بچے سو گئے ۔ ہم نے انہیں
ایک چٹائی پرلٹا دیا پھر تیسرے کو بہلانے لگے بالآخر وہ بھی سو گیا۔ حاتم طائی نے
کہا : آج نہ جانے مجھے نیند کیوں نہیں آرہی ؟ پھر وہ ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ رات کی
سیاہی کو آسمان پر چمکنے والے ستارے دور کر رہے تھے جنگلی جانوروں کے چیخنے کی
آوازیں فضا میں بلند ہو رہی تھیں ۔ ہر چلنے والا مسافر ٹھہر چکا تھا ، با ہر کسی کی آہٹ سنائی دی، حاتم طائی نے بلند
آواز سے کہا:” کون ہے؟" لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔میں نے کہا
:"ہمارے ساتھ یا تو کسی نے مذاق کیا ہے یا کوئی دھو کہ ہونے والا ہے ۔ میں باہر گئی اور حالات کا جائزہ لے کر واپس
آئی تو حاتم طائی نے پوچھا:کون ہے؟ میں نے کہا: آپ کی فلاں پڑوسن ہے، اس کڑے وقت میں آپ کے علاوہ کوئی اور اسے نظر نہ آیا
جس کے پناہ لیتی ۔ اپنے بھوکے بچوں کو آپ کے پاس لائی ہے۔ وہ بھوک سے خود اس طرح
بلبلا رہے ہیں جیسے کسی جانور کے بچے چھینتے ہیں۔ یہ سن کر حاتم طائی نے کہا : اسے
جلدی سے میرے پاس لاؤ۔ میں نے کہا : ہمارے اپنے بچے بھوک سے مرے جا رہے ہیں، انہیں
دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں تو پھر بیچاری پڑوسن اور اس کے بچوں کی ہم کیا مدد
کریں گے؟ حاتم طائی نے کہاں " خاموش رہو، اللہ تعالٰی ضرور تمہارا اور ان سب
کا پیٹ بھرے گا۔ جاؤ! جلدی سے اس دکھیاری ماں کو اندر بلا لاؤ۔ میں اسے بلالائی ۔
اس غریب نے دو بچے اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تھے اور چار بچے اس سے لپٹے اس کے پیچھے
اس طرح آرہے تھے جیسے مرغی کے بچے مرغی کے گرد جمع ہو کر چلتے ہیں۔ حاتم طائی نے
انہیں کمرے میں بٹھایا اور گھوڑے کی طرف بڑھا، برچھی سے گھوڑا ذبح کر کے آگ جلائی
گئی۔
جب شعلے بلند ہونے لگے تو چھری لے کر گھوڑے کی
کھال اتاری پھر اس عورت کی طرف چھری بڑھاتے ہوئے کہا : " کھاؤ! اور اپنے بچوں
کو بھی کھلاؤ پھر مجھ سے کہا: " تم بھی کھاؤ اور بچوں کو بھی جگا دو تا کہ وہ
بھی اپنی بھوک مٹا سکیں ۔ ہماری پڑوسن تھوڑا تھوڑا گوشت کھا رہی تھی اس کی جھجک کو
محسوس کرتے ہوئے حاتم طائی نے کہا: کتنی بری بات ہے کہ تم ہماری مہمان ہو کر تھوڑا
تھوڑا کھارہی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ہمارے قریب ہی ٹہلنے لگا۔ ہم سب کھانے میں مصروف
تھے اور حاتم طائی ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا لیکن بخدا!
حاتم طائی نے ایک بوٹی بھی نہ کھائی حالانکہ وہ ہم سب سے زیادہ بھوکا تھا۔ (عیون
الحکایات، حصہ دوم، ص:241)
محمد ہارون عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو شریعت مطہرہ ہمیں ہر اس کام سے منع کرتی ہے جو کسی بھی پہلو سے معیوب
ہو اور لوگ بھی اسے ناپسند کرتے ہوں مثال کے طور پر کسی کے گھر بن بلائے دعوت پر
چلے جانا یا جن کو دعوت دی گئی ہے ان کے ساتھ چلے جانا یہ اخلاقا نامناسب فعل ہے
ہو سکتا ہے اس طرح بن بلائے جانا میزبان کو ناگوار لگے اور وہ واپس لوٹا دے اور
پھر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اسی لیے ہمیں بن بلائے مہمان نہیں بننا چاہیے تاکہ
ہم میزبان کی ناراضگی سے بچ سکیں آئیے میزبان کے کچھ اور حقوق سنتے ہیں
(1)
میزبان کے لیے دعا کرنا:حضرت سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے
اور اگر وہ روزہ دار ہو تو میزبان کے لیے دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا
کھا لے۔(ریاض الصالحین جلد 6 ص 185)
(2)
میزبان کے کھانے پر خوش ہونا:جو
کچھ مہمان کے سامنے پیش کیا جائے اسے چاہیے کہ اس پر خوش ہو اور یہ نہ کہے کہ اس
سے اچھا تو میں اپنے گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے کوئی دوسرے الفاظ جیسا کہ
آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں
(بہار شریعت
جلد 3 جزء الف ص 394)
(3)
میزبان کی عیب جوئی نہ کرنا:کسی بھی
مہمان کو میزبان کی عیب جوئی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کا وبال بہت زیادہ ہے جیسا
کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ اگر
کوئی بد نصیب اللہ کے محبوبوں کو عیب لگائے تو اس کے سارے عیب کهول دینا سنت الہیہ
ہے دیکھو ولید بن مغیرہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہا تو رب تعالی
جو عیبوں کو چھپانے والا ہے اس نے سورۃ ن میں اس کے دس عیب کھولے حتی کہ آخر میں
فرمایا (عتل بعد ذلک زنیم) ترجمہ: وہ حرام
کا تخم ہے
(مرآۃ المناجیح
شرح مشکاۃ المصابیح جلد 3 ص 120)
اسی وجہ سے ہمیں
کسی بھی مسلمان میزبان کی عیب جوئی نہیں کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس کے پاس ہمارے
اس سے زیادہ راز ہوں اگر اس نے عیب کھول دیے تو ہمارا کیا بنے گا
(4)
میزبان کی دعوت کو قبول کرنا:حضرت
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ
وسلم نے فرمایا کہ جو تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرو (مرآۃ المناجیح شرح
مشکاۃ المصابیح جلد 3 ص 135)
اس کی شرح میں
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میزبان دعوت دے تو قبول
کرو بشرطیکہ دعوت ممنوعات شرعیہ سے خالی ہو لہذا جس ولیمہ میں ناچ گانا خاص کھانے
کی جگہ ہو وہاں نہ جائے۔
(5)
میزبان کے ساتھ حسن سلوک کرنا:حضرت
سیدنا مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم !میں کسی شخص کے ہاں جاؤں اور وہ مجھے
مہمان بنائے اور مہمان نوازی نہ کرے پھر وہ میرے یہاں آئے تو کیا اس سے بدلہ لوں پیارے
آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلکہ تم اس کی
مہمان نوازی کرو۔(اللہ والوں کی باتیں جلد 7 ص 176)
اللہ پاک ہمیں
میزبانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم)
محمدیاسرعلی (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو !آپ کو پتا ہے کہ جیسا کہ مہمان کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات
سکھاتی ہیں کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے گھر جائے تو تین دن سے زیادہ دن
اس کے پاس نہ ٹھہرے اور جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر جائے اس کے بارے میں
کچھ حدیث مبارکہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ اللہ پاک مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا
فرمائے امین ثم امین
(میزبان
کے لیے دعا کرنا ) ۔عبداللہ بن زبیر
کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ کے پاس تشریف لاۓ اور افطار کیا اور فرمایا تمہارے پاس روزہ
رکھنے والوں نے افطار کیا اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے
فرشتوں نے دعا کی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے (ترجمہ)آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھلانے والوں سے فرمایا یعنی اے اللہ جو روزی تو نے
انہیں دی ہے اس میں برکتیں عطا فرما انہیں بخش دے اور ان پر رحم فرما ۔
(ترجمہ) اے
اللہ کھلا اس کو جس نے مجھے کھلایا اور پلا اس کو جس نے مجھے پلایا -- (حوالہ) 47. سنن ابی داودکتاب الاطعمتہ باب فی ادعاء لرب
الطعام اذاآکل عندہ جلد5صفحہ661رقم الحدیث3854 48سنن ابی داود جلد5صفحہ560رقم الحدیث3729
49مسندآحمد
جلد39صفحہ228رقم الحدیث23809۔
(مہمان
کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا ) (ترجمہ) نمبر 1 ۔مہمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ میزبان
کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے (ترجمہ)نمبر2۔حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو
صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔( 51الفتاوی
الھندیتہ 52الآثار. صفحہ83)
(میزبان
کا کم سے کم وقت لینا)مہمان کو چاہیے
کہ میزبان کا کام سے کم وقت لے اور اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں اسکے بیٹھنے سے میزبان
کا کام کاج میں حرج نہ ہو اور اہل خانہ کو پریشانی نہ ہو- نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کسی مسلمان شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا
عرصہ ٹھہرےکہ گناہگار کر دے کہ وہ اسکے پاس ٹھہرا رہےاور اس کے پاس اسے پیش کرنے
کے لیے کچھ نہ ہو۔
اللہ تعالی سے
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم
آمین
راشد علی
عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ شاہ
عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوکر انسان زندگی کے تمام مراحل احسن انداز
میں گزار سکتا ہے جہاں اسلام نے نماز ،روزہ،حج،وغیرہ کے بارے تعلیمات سے بنی نوع
آدم کو باور کرایا وہاں ان امور کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے معاملے میں بھی
رہنمائی فرمائی حقوق العباد میں سے ایک اہم پہلو مہمان نوازی اور میزبانی بھی ہے
جہاں اسلامی تعلیمات میں ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے ساتھ میزبان
کے حقوق کے بارے میں بھی رہنمائی ملتی یعنی جس طرح سے مہمان کے حقوق ہیں اسی طرح
سے میزبان کے بھی حقوق ہیں جو کہ مہمان پر لازم ہیں ان میں سے چند ایک میزبان کے
حقوق بیان کیے جاتے ہیں
کھانے کے وقت نا جانا ۔ کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھانا کھانے نہ
جائے یعنی کھانے کے وقت کسی کے پاس مہمان بن نہیں جانا چاہئے جیسا کہ قرآن مجید میں
ہے ۔ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰـكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ
فَادْخُلُوْا ۔ترجمہ کنزالایمان:اے
ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے
بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہوں۔(الاحزاب:آیت
نمبر 53)
میزبان کے گھر بے مقصد نہ رکنا ۔میزبان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جیسے
مہمان کھانا کھا لے تو کوشش کرے کہ گھر میں بیٹھنے اور فضول باتوں میں مشغول ہونے
سے گریز کرے تاکہ اس کے لئے حَرج اور تکلیف
کا سبب نہ ہو۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔فَاِذَا طَعِمْتُمْ
فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕترجمہ کنزالایمان: اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ
کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ ۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)
میزبان کے لیے دعا کرنا ۔مہمان کو چاہئے کہ میزبان کے لیے اس کا بطور شکریہ ادا
کرتے ہوئے اس کےلیے برکت و وسعت کی دعا کرے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن زبیر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے اور افطار کیا اور فرمایا تمھارے پاس روزہ
رکھنے والوں نے افطار کیا،تمھارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا،تمھارے لیے فرشتوں نے
دعا کی۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الاطعمۃ،،جلد نمبر5،صفحہ نمبر 661،حدیث نمبر3854)
گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینا ۔مہمان کو چاہئے کہ جب بھی کسی میزبان کے ہاں
جائے تو اجازت لے کر جائے بے اجازت میزبان کے گھر داخل نہ ہو ۔جیسا کہ قرآن مجید میں
ہے ۔یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُم
ترجمہ کنزالایمان:اے
ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)
آیت کے اس
حصے ’’اِلَّاۤ
اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ‘‘ سے معلوم
ہوا کہ عورتوں پر پردہ لازم ہے اور غیر
مردوں کو کسی گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونا جائز نہیں یاد
رہے کہ یہ آیت اگرچہ خاص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُنَّ کے حق میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کاحکم تمام مسلمان
عورتوں کے لئے عام ہے۔
مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا ۔جیسے مہمان کے لیے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری
ہے کہ جب میزبان کے ہاں جائے تو اجازت لے کر جائے ویسے ہی اس بات کا بھی خاص طور
پر خیال رکھنا چاہئے کہ جب واپس جائے تو میزبان سے اجازت لے کر جائے جیسا کہ حدیث
پاک میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر تو کسی کے
گھر میں جائے تو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔ (الآثار ،لابی یوسف یعقوب
بن ابرہیم الانصاری ،دار الکتب العلمیہ،بیروت،صفحہ
نمبر 83)
اللہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت اور احکام اسلامی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے
میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم
محمد
عبداللہ حسین (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان کنزالایمان رائیونڈ ، پاکستان)
میزبان کے
حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب
سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور
ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے
دعا کرنا وغیرہ اللہ تعالی قرآن پاک میں
فرماتا ہے ۔ سورہ النور آیت نمبر 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا
بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى
اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(27) ترجمہ: کنزالایمان۔ اے ایمان والو اپنے گھروں کے
سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور اُن کے ساکِنوں پر سلام نہ
کرلو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان
والو!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے گھروں میں جانے کے آداب اور احکام بیان
فرمائے ہیں ۔ شانِ نزول: حضرت عدی بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے گھر میں میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے،
چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو
اورمیری اسی حالت میں گھر میں مردوں کا آنا جانا رہتا ہے تو میں کیا
کروں ؟ ا س پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۲۹۷)
دوسروں کے گھر جانے سے متعلق 3شرعی احکام:
یہاں اس آیت کے حوالے سے 3 شرعی احکام ملاحظہ ہوں ،
(1)…اس آیت سے
ثابت ہوا کہ غیر کے گھرمیں کوئی بے اجازت
داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ بلند آواز سے سُبْحَانَ اللہ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یا اللہ اَکْبَرْ کہے، یا کَھنکارے جس سے مکان
والوں کو معلوم ہوجائے کہ کوئی آنا چاہتا
ہے (اور یہ سب کام اجازت لینے کے طور پر ہوں ) یا یہ کہے کہ کیا مجھے اندر آنے کی
اجازت ہے۔ غیر کے گھر سے وہ گھر مراد ہے جس میں غیر رہتا ہو خواہ وہ اس کا مالک ہو یا نہ ہو۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ:
۲۷، ۶ / ۱۳۷،
ملخصاً)
(2) …غیر کے
گھر جانے والے کی اگر صاحبِ مکان سے پہلے ہی ملاقات ہوجائے توپہلے سلام کرے پھر
اجازت چاہے اور اگر وہ مکان کے اندر ہو تو سلام کے ساتھ اجازت لے اور اس طرح کہے:
السلام علیکم، کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ سلام کو کلام پر مُقَدَّم کرو۔( ترمذی،
کتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللّٰہ، باب ما جاء فی السلام قبل الکلام، ۴ / ۳۲۱، الحدیث: ۲۷۰۸)
(3)… اگر دروازے کے سامنے کھڑے ہونے میں بے پردگی کا اندیشہ ہو تو دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب کرے۔ حدیث شریف میں ہے اگرگھرمیں ماں ہوجب بھی اجازت طلب کرے(موطا
امام مالک, کتاب الاستءاذن, باب الاستئذان, 2/446, الحدیث: 1847)
ایک
بُری رسم۔ایک اور رسم جو ہمارے یہاں
بہت زیادہ پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کو مدعو کردیا تو وہ اپنے ساتھ بچوں
کو بھی ساتھ لے چلتا ہے جبکہ میزبان کی جانب سے فقط ایک فرد کو مدعو کیا گیا تھا،
ہم اگرچہ بچے کو چھوٹا سمجھ کر ساتھ لے جانا چاہ رہے ہیں لیکن پھر بھی بچہ ایک
پورا فرد ہے اور یہ آداب کے خلاف ہے کہ بغیر دعوت کے ہم بچے کو بھی ساتھ لے جائیں.
ایک روایت میں وارد ہوا ہے جس میں امام فرماتے ہیں: «جب تم میں سے کسی کو کھانے پر
مدعو کیا جائے تو اپنے بچے کو ساتھ میں مہمانی پہ نہ ملا لے، اگر کوئی ایسا کرے تو
حرام کا مرتکب ہوا اور نافرمانی کرتے ہوئے دعوت میں وارد ہو گا۔[۱۴][۱۵] لیکن اگر کسی محفل میں بچوں کو ساتھ لانے کا
تقاضا میزبان کی جانب سے کیا گیا ہو تو بچوں کو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں،
اس روایت کا مخاطب فقط وہ شخص ہے جسے اکیلے کو دعوت تھی اور وہ بچے کو بھی ساتھ لے
گیا۔
محمدیاسرعلی (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! آپ کو پتاہے کہ مہمان کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہیں
کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے گھر جائے تو تین دن سے زیادہ دن اس کے پاس
نہ ٹھہرے اور جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر جائے اس بارے میں کچھ حدیث مبارکہ بیان کرنے کی سعادت
حاصل کرتا ہوں۔ اللہ پاک مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم امین
(میزبان
کے لیے دعا کرنا ) عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ کے پاس تشریف لاۓ اور افطار کیا اور فرمایا تمہارے پاس روزہ
رکھنے والوں نے افطار کیا اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے
فرشتوں نے دعا کی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے (ترجمہ)
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھلانے والوں سے فرمایا یعنی اے اللہ جو روزی تو
نے انہیں دی ہے اس میں برکتیں عطا فرما انہیں بخش دے اور ان پر رحم فرما ۔ (ترجمہ)
اے اللہ کھلا اس کو جس نے مجھے کھلایا اور پلا اس کو جس نے مجھے پلایا -) (سننن ابی
داودکتاب الاطعمتہ باب فی ادعاء لرب الطعام اذاآکل عندہ جلد5صفحہ661رقم الحدیث3854
۔ 48سنن ابی داود جلد5صفحہ560رقم الحدیث3729 49مسندآحمد جلد39صفحہ228رقم الحدیث23809)
(مہمان
کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا )
(ترجمہ) نمبر
1 مہمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے
(ترجمہ)نمبر2۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اگر تو کسی کے گھر میں جائے
تو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔ 51الفتاوی الھندیتہ 52الآثار. صفحہ83
(میزبان
کا کم سے کم وقت لینا) مہمان کو
چاہیے کہ میزبان کا کام سے کم وقت لے اور اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں اسکے بیٹھنے
سے میزبان کے کام کاج میں حرج نہ ہو اور اہل خانہ کو پریشانی نہ ہو-
نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے
پاس اتنا عرصہ ٹھہرےکہ گناہگار کر دے کہ وہ اسکے پاس ٹھہرا رہےاور اس کے پاس اسے پیش
کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔
اللہ تعالی سے
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم
آمین
محمد معین عبداللہ (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی
ہیں اسی طرح میزبان کے بھی بہت سارے حقوق بیان کیے ہیں دورِ اولین میں مہمان کے لیے
پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن
نہ رہے۔(حدیث )
( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں
ٹھہرنا چاہیے ۔)آپ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں
ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا ۔ مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے
بھائی کے ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ
کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے
سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمان اتنی دیرٹھہر ا رہے ہیں کہ اس کے پاس مہمان کے لیے
خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے
پیارے اسلامی
بھائیو پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا
تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا۔ اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مہمان پر چار چیزیں
واجب ہیں :
مہمان کو جہاں
میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے ۔میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے اس پر
خوش ہو۔ میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔( فتاوی عالمگیری) اسی طرح میزبان
کے اور بھی کیسی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں ۔
(1) مہمان کو
چاہیے کہ ہمیشہ خیر سگالی اور اظہار محبت کے لیے اپنی حیثیت استطاعت کے مطابق
چھوٹا موٹا تحفہ میزبان کے لیے ضرور لے کر جائیں تاکہ میزبان خوش ہو۔
(2) اسی طرح
مہمان کو چاہیے کہ زیادہ چیزوں کا اصرار نہ کرے جو میزبان کے لیے آزمائش ہو جو میزبان
پیش کرے اس پر راضی ہو ۔
(3) مہمان کو
چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات
کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض
لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش
کریں ۔
(4) اسی طرح یاد
رہے کہ آپ مہمان ہیں مالک نہیں کھانے کا انتظار کریں جب میزبان کہے تب شروع کریں
خود شروع نہ ہو کھانے کی تعریف کریں الحمدللہ ماشاءاللہ کہہ کر حوصلہ افزائی کریں
اگر کھانا نہ بھی پسند ائے پھر بھی ہلکا پھلکا ضرور لیں ۔
(5) یاد رکھیں
کہ گھر میں عموما مختلف عمر اور مختلف مزاج کے میزبان ہوتے تو ان کے مزاج کا خیال
رکھیں اور اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو
کرنے سے پرہیز کریے کوشش کے اس کی باتوں سے کسی کی دل آ زاری نہ ہو۔
ان کے علاوہ
بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن
اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے
اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گے۔اور اگر ان پر عمل نہ کیا
جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں ۔
اللہ پاک ہمیں
مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(امین)