سیدمحمدمبین رضا عطّاری ( جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور،
پاکستان)
دینِ اسلام نے
جہاں مہمان کے حقوق کا ذہن دیا وہیں میزبان کو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کیسے کرنی
ہے کن کن باتوں کا خیال رکھنا ہے خاطر تواضع کیسی کرنی ہے مہمان کا اعزاز و اکرام
کیسے کرنا ہے جب مہمان آتا ہے استقبال کیسے کرناہےہمارا اسلام تنگ دلی ، بے رخی،
سرد مہری اور کڑھن کا مظاہرہ نہیں سیکھاتا۔
میزبان اپنے
مہمان کی طبیعت کے مطابق اپنی میزبانی کا حق ادا کرے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا مدینے
والے مصطفےٰ علیه الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہِ عالیہ کاشانۂ اقدس میں مہمان حاضر ہوتے
تو پیارے آقا صلی اللہ علیه وآلہ وسلم خود بنفس نفیس میزبانی فرماتے ان کی خاطر
داری فرمایا کرتے۔ جیسا کہ
(1)…حضرت ابو
رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک شخص حضور
پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان بنا ،
اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس
کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے اس کی مہمان نوازی فرماتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک یہودی شخص کے پاس بھیجا (اور
مجھ سے فرمایا کہ اس سے کہو:) محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم سے کہتے ہیں کہ (میرے پاس مہمان آیا
ہے اس لئے) مجھے رجب کا چاند نظر آنے تک آٹا قرض دے دو۔ یہودی نے کہا: اس وقت تک
آٹا نہیں ملے جب تک کوئی چیز رہن نہ رکھو گے ۔میں حضورِ اقدس صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا
اور انہیں یہودی کی بات بتائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں
آسمان میں بھی امین ہوں زمین پر بھی امین ہوں،اگر مجھے آٹا قرض دے دیتا
یا بیچ دیتا تو میں ضرور اسے ادا کر دیتا، اب تم میری زرہ لے جاؤ (اور
اسے رہن رکھ دو) چنانچہ میں وہ زرہ لے گیا (اور اسے رہن رکھ کر
آٹا لے آیا)(معجم الکبیر، یزید بن عبد اللہ بن قسیط عن ابی رافع ج1 / ص331، الحدیث:
989، معرفۃ الصحابہ، باب الالف، اسلم ابو رافع،ج1/ص 241 الحدیث: 865، ملتقطاً)
(2)مصنف ابن
ابی شیبہ میں ہے ایک دیہاتی رسول کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرہوااور بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلّم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کےگھروں میں تشریف لے گئے ،پھر
باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا ’’مجھے آلِ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے گھروں میں تیرے لئے کوئی چیز نہیں
ملی، اسی دوران (کسی کی طرف سے)آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھنی ہوئی بکری پیش ہوئی تو اسےدیہاتی
کےسامنے رکھ دیا گیا۔
تاجدارِرسالت صَلَّی
اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےاس سے فرمایا :تم کھاؤاس نے کھایا، پھر
عرض کی یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک کی
تکلیف پہنچی تو اللہ پاک نےآپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
دستِ اقدس سے مجھے رزق دےدیااگرپھر کبھی ایسا ہو اورمیں آپ کی بارگاہ میں
حاضر نہ ہوں تو کیا کروں ؟ ارشاد فرمایا تم کہو :’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ
مِنْ فَضْلِکَ وَرَحمَتِکَ فَاِنَّہٗ لَا یَمْلِکُہُمَا اِلَّا اَنْتَ‘‘ اے اللّٰہ!میں تجھ سے تیرےفضل
اورتیری رحمت کا سوال کرتاہوں کیونکہ فضل و رحمت کاصرف تو ہی مالک ہے۔‘‘تو
بےشک اللہ پاک تجھے رزق دینے والا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء،
الرّجل یصیبہ الجوع او یضیق علیہ الرزق ما یدعو بہ، ۷ / ۹۴، الحدیث: ۱)
بعدِ وصالِ ظاہری
میں بھی میزبانی فرمانا۔شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حُسن و جمال، دافعِ رنج و ملال بی
بی آمنہ کےلال صلی اللہ علیه وآلہ وسلم کا اپنی حیاتِ ظاہری میں تو میزبانی
فرماتے ہی تھے مگر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مزارِ اقدس میں
تشریف لے جانے کے بعد بھی اپنے درِ اقدس پہ حاضر ہونے والے بہت سے لوگوں کی مہمان
نوازی فرماتے ہیں ۔
چنانچہ حضرت
ابو الخیر حماد بن عبداللہ اقطع رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے
ہیں ’’میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کےشہر (مدینہ منورہ) میں داخل ہوا اور (اس
وقت) میں فاقے کی حالت میں تھا، میں نے پانچ دن قیام کیا
اور اتنے دن میں کھانے پینےکی کوئی چیز تک نہ چکھ سکا(بالآخر)میں قبرِ انور
کے پاس حاضر ہوا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اورمُسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور مسلمانوں کے
دوسرے خلیفہ حضرتِ سیدنا عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کی بارگاہ میں سلام پیش
کیا اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، میں آج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان ہوں پھر میں
اپنی جگہ سےہٹ کر منبرِاقدس کے پیچھے سو گیا تو میں نے خواب میں نبئ
پاک صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی مسلمانوں کے پہلےخلیفہ
جنابِ حضرت سیدنا ابوبکر آپ کے دائیں طرف، اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیه وآلہ وسلم کے بائیں طرف اور مسلمانوں کے
چوتھےخلیفہ جنابِ حضرتِ سیدنا علیّ المرتضیٰ شیرِخداکَرَّمَ اللہ وَجہَہُ الکَرِیم
آپ علیه الصلٰوۃ والسلام کے سامنے تھے، مُسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی
کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ
الْکَرِیم نے مجھے حرکت دی اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، رسولُ
اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے
ہیں میں کھڑے ہوکر بارگاہِ عالی میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےمجھےایک روٹی عطا فرمائی تو میں نےآدھی روٹی کھا
لی،پھر میں خواب سے بیدار ہوا توبقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔(تاریخ
دمشق،ابوالخیرالاقطع التیتانی، ۶۶ / ۱۶۱)
یہ واقعہ
علامہ ابن عساکر علیه الرحمہ کے علاوہ علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی رَحمَۃُاللہ
عَلَیہِ نے اپنی کتاب ’’صِفَۃُ الصَّفْوَہ‘‘جلد2 صفحہ 236 جزء 4 پر، علامہ
عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ نے طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 154 جزء1 پر،
علامہ عمر بن علی شافعی علیه الرحمہ نے طبقاتِ اولیا،ص192/191پر
اورعلامہ ابوعبدالرحمٰن محمد بن حسین علیه الرحمہ نےطبقاتِ صوفیہ ص 281پر بھی ذکر
فرمایاہے۔
اللہ پاک نے
قرآن پاک میں فرمایا یعنی مہمانوں
کے معاملے میں تم اللّٰہ تعالیٰ (کے عذاب) سے ڈرو اور میرے
مہمانوں کے ساتھ بُرا ارادہ کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ:
ج3ص69 / 106، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ:69، ص 585 ملتقطاً)
مہمان
کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا سبب ہے:اس سے معلوم ہوا کہ جیسے مہمان کےاحترام میں میزبان کی عزت ہوتی ہے
ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے اس لئے اگر کسی مسلمان
پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں کوئی مہمان آیاہوتو دوسرے مسلمان کو چاہئے کہ وہ
بھی اُس کے مہمان کا احترام کرے تاکہ اس کی عزت و وقارقائم رہےاورمہمان کی بےعزتی
کرنےیاکوئی ایساکام کرنےسے بچے جس سےمہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے تاکہ یہ چیزمیزبان
کےلئے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہ بنے۔
دعا ہے کہ
اللہ کریم اپنے محبوبِ کریم ﷺ کی پیاری پیاری میزبانی کے صدقے ہمیں بھی شریعت و
سُنّت کے مطابق میزبانی کا شرف پانے کی سعادت نصیب فرمائے رکھے آمین ۔
فاقہ کشی بھی ہو پر اتنا تَو دے مجھے
شرمندگی نہ ہو کسی مہماں کے سامنے
اس ہفتے کا رسالہ ” امیر
اہل سنت سے محبتِ رسول کے بارے میں 14 سوال جواب“
میلاد
شریف کا مبارک مہینہ ماہِ ربیع الاوّل ہمارے درمیان اپنی برکتیں لٹا رہا ہے۔ اسی
مناسبت سے خلیفۂ امیر اہل سنت حضرت مولانا حاجی عبید رضا عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے عاشقانِ رسول کو اس ہفتے 14 صفحات
کا رسالہ ”امیر
اہل سنت سے محبتِ رسول کے بارے میں 14 سوال جواب“پڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے اور
پڑھنے/ سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازاہے۔
دعائے
خلیفۂ عطار
یاربَّ
المصطفٰے! جو کوئی 14 صفحات کا رسالہ ”امیر اہل سنت سے محبتِ رسول کے بارے
میں 14 سوال جواب“پڑھ
یا سُن لے اُسے محبتِ رسول میں تڑپنے والا دل اور عشق نبی میں آنسو بہانے
والی آنکھیں عطا فرما اور اس کی ماں باپ
سمیت بے حساب مغفرت فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
یہ
رسالہ آڈیو میں سننے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:
دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام17ستمبر2024ء بروز
منگل فیصل آباد میں جلوس میلاد کا اہتمام
ہوا جس میں مفتیان کرام ، اساتذہ کرام ،نگران پاکستان مشاورت اور دعوت اسلامی کے دیگر ذمہ دارسمیت کثیر عاشقان
رسول نے شرکت کی ۔
جلوس میلاد کاآغاز ضلع کونسل فیصل آبادسے شروع ہو
ا اور فیضان مدینہ سوسا ں روڈمدینہ ٹاون میں اختتام ہوا جلوس میلاد النبی کے اس پرکیف موقع پر نگران پاکستان مشاورت نے شرکا
جلوس میں نیکی کی دعوت دیتے ہوئے حاضرین کو مدنی پھولوں سے نوازا ۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار
نگرانِ پاکستان مشاورت، کانٹینٹ:شعیب عطاری)
دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 16 ستمبر 2023ء
بمطابق 12 ربیع الاول 1446ھ کی شب فیصل
آباد کے علاقے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں اجتماع میلاد منعقد
ہوا ۔
اجتماع کا آغاز بعد نماز عشاء اللہ پاک کے پاک کلام قرآن مجید سے کیا گیا اس کے بعد بارگاہ رسالت مآب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہدیۂ نعت پیش کیا
گیا نعت شریف کے بعد نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے بیان فرمایا ۔
یہ اجتماع میلاد سحری کے پُر رونق محفل صبح بہارا ں تک
جاری رہا عاشقانِ رسول نے اس گھڑی کا
استقبال کیا جس میں وجہ تخلیق کائنات
آقائے نامدار، خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دنیا میں جلوہ گری
ہوئی۔ صلوۃ و سلام اور نگران پاکستان مشاورت کی خصوصی دعا پر اجتماع میلاد کا اختتام ہوا ۔ (رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار
نگرانِ پاکستان مشاورت، کانٹینٹ:شعیب عطاری)
محمد مبین رمضان (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی
ہیں اسی طرح میزبان کے بھی بہت سارے حقوق بیان کیے ہیں دورِ اولین میں مہمان کے لیے
پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن
نہ رہے۔(حدیث )
( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں
ٹھہرنا چاہیے ۔)آپ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں
ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا تو مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے
بھائی کے ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ
کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے
سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں؟آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمان اتنی دیرٹھہر ا رہے ہیں کہ اس کے پاس مہمان کے لیے
خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے
پیارے اسلامی
بھائیو! پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا
تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا۔ اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مہمان پر چار چیزیں
واجب ہیں :
مہمان کو جہاں
میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے ۔میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے ۔اس پر
خوش ہو میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے ۔اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔( فتاوی عالمگیری)
اسی طرح میزبان
کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ
عرض کرتے ہیں ۔
(1)جب انسان
کو اس کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول
کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش
رکھتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے
لیے انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جزِ دین ہے۔
(2) اسی طرح
مہمان کو چاہیے کہ زیادہ چیزوں کا اصرار نہ کرے جو میزبان کے لیےآزمائش ہو جو میزبان
پیش کرے اس پر راضی ہو ۔
(3) مہمان کو
چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات
کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض
لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش
کریں ۔
(4)نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا جائے گا،
تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے گناہ میں
ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے گناہ میں
ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں ڈالنے کا سبب
بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر کچھ بھی باقی
نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔
(5) یاد رکھیں
کہ گھر میں عموما مختلف عمر اور مختلف مزاج کے میزبان ہوتے تو ان کے مزاج کا خیال
رکھیں اور اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو
کرنے سے پرہیز کریں کوشش کرکے اس کی باتوں سے کسی کی دلا زاری نہ ہو۔
ان کے علاوہ
بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن
اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے
اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گے۔
اور اگر ان پر
عمل نہ کیا جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں ۔
(اللہ پاک ہمیں
مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ مہمان
نوازی کرنے یو عطا فرمائے۔)
(امین)
محمد عیسیٰ (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ
عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی
ہیں اسی طرح میزبان کے بھی بہت سارے حقوق بیان کیے ہیں دورِ اولین میں مہمان کے لیے
پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن
نہ رہے۔(حدیث )
( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں
ٹھہرنا چاہیے ۔)آپ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں
ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا تو مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے
بھائی کے کہ ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے
صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر
رہنے سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمان اتنی دیرٹھہر ا رہے ہیں کہ اس کے پاس
مہمان کے لیے خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے
پیارے اسلامی
بھائیو! پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا
تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا ۔ اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مہمان پر چار چیزیں
واجب ہیں :مہمان کو جہاں میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے ۔میزبان جو کھانے کے لیے پیش
کرے اس کو قبول کرے ۔اس پر خوش ہو میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے ۔اور مہمان کے
رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔( فتاوی
عالمگیری)
اسی طرح میزبان
کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں ۔
(1) مہمان کو
چاہیے کہ ہمیشہ خیر سگالی اور اظہار محبت کے لیے اپنی حیثیت استطاعت کے مطابق
چھوٹا موٹا تحفہ میزبان کے لیے ضرور لے کر جائیں تاکہ میزبان خوش ہو۔
(2) اسی طرح
مہمان کو چاہیے کہ زیادہ چیزوں کا اصرار نہ کرے جو میزبان کے لیےآزمائش ہو جو میزبان
پیش کرے اس پر راضی ہو
(3) مہمان کو
چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات
کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھنے کےاور بعض
لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش
کریں ۔
(4) اسی طرح یاد
رہے کہ آپ مہمان ہیں مالک نہیں ،کھانے کا انتظار کریں جب میزبان کہے تب شروع کریں
خود شروع نہ ہوں کھانے کی تعریف کریں الحمدللہ ماشاءاللہ کہہ کر حوصلہ افزائی کریں
اگر کھانا نہ بھی پسند ائے پھر بھی ہلکا پھلکا ضرور لیں ۔
(5) یاد رکھیں
کہ گھر میں عموما مختلف عمر اور مختلف مزاج کے میزبان ہوتے تو ان کے مزاج کا خیال
رکھیں اور اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو
کرنے سے پرہیز کریں کوشش کرکے اس کی باتوں سے کسی کی دلا زاری نہ ہو۔
ان کے علاوہ
بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن
اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے
اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گے۔اور اگر ان پر عمل نہ کیا
جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں ۔
اللہ پاک ہمیں
مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(امین)
رضائے مصطفی
ٰ (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
الحمدللہ ہم
مسلمان ہیں اور اسلام ہماری ہر معاملے میں رہنمائی فرماتا ہے زندگی کیسے اور کس
طرح گزارنی ہے اس حوالے سے بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے جس طرح اسلام نے ہماری دیگر
معاملات میں رہنمائی کی ہے وہیں پر میزبان کے حقوق کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی
کی ہے آئیں اس بارے میں کچھ احادیث مبارکہ سنتے ہیں
(1)
میزبان کو گنہگار نہ کرنا: حضور
پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ
اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گناہ گار کر دے ۔ (شعب الایمان مترجم ص
601 نوریہ رضویہ پبلی کیشنز) (المسلم)
(2)
نخرے یا شکوے نہ کرنا: محترم مہمان
کو بلاوجہ نخرے یا شکوے نہیں کرنے چاہیے اور نہ ہی کھانے پینے والی چیز میں کیڑے
نکالنے چاہیے ۔(شعب الایمان مترجم ص 601 نوریہ رضویہ پبلی کیشنز)
(3)
فرمائش اور جستجو نہ کرنا: حضور
پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس
مہمان بن کر جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کها پی لے اور اس کے متعلق نہ
تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے۔(شعب الایمان مترجم ص 600 نوریہ رضویہ
پبلی کیشنز)
(4)
میزبان کا دل تنگ نہ کرنا:حضور پاک
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا مہمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ کسی کے ہاں
اتنا ٹھہرے کہ میزبان کو تنگ دل کر دے ۔(شعب الایمان مترجم ص 600 نوریہ رضویہ پبلی
کیشنز) (المسلم)
(5)
بن بلائے مہمان نہ بننا: حدیث شریف
میں ہے کہ جو شخص بن بلائے کسی کے پاس کھانے کی نیت سے جائے گا وہ گنہگار ہوگا اور
جو کھائے گا وہ حرام کھائے گا اگر اتفاقا کھانے کے وقت جا پہنچے تو کہے بغیر نہ
کھائے ۔(کیمیائے سعادت ص 181 باب معاملات مکتبہ رحمانیہ)
(6)
میزبان کے کھانے سے دریغ نہ کرنا: حضرت
سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی کہ تکلف سے بچو اور جو حاضر ہوا اس سے دریغ نہ کرو ۔(کیمیائے
سعادت ص 182 باب معاملات مکتبہ رحمانیہ)
محمد وسیم عطّاری ( درجہ اولیٰ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
جہاں معاشرے میں
مہمان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے وہاں میزبان کے ساتھ کم برتاؤ کیا جاتا ہے۔ آئیے
ایک حکایت سنتے ہیں: کہ ایک بزرگ کو دعوت میں بلانے کے لیے قاصد بھیجا گیا لیکن
بزرگ سے قاصد کی ملاقات نہ ہوسکی جب انہیں علم ہوا تو تشریف لے آئے تب لوگ کھانا
کھاکر جا چکے تھے۔ میزبان نے کہا: لوگ تو جا چکے ہیں، پوچھا: کچھ بچا ہے ؟عرض کی:
نہیں ،پوچھا :روٹی کا ٹکڑا؟ عرض کی: نہیں !فرمایا:
ہنڈیا چاٹ لوں گا، میزبان نے عرض کی: اسے ہم دھو چکے ہیں۔ چنانچہ وہ بزرگ اللہ کی
حمد کرتے ہوئے لوٹ آئے۔ ان سے اس بارے میں عرض کی گئی تو فرمایا اس شخص نے ہمیں
اچھی نیت سے بلایا اور اچھی نیت سے لوٹا دیا یہ عاجزی اور حسن اخلاق کے خلاف نہیں ہے ۔
آئیے چند احادیث
ملاحظہ کیجئے-
1 ; مل کر کھانا :مہمان کو چاہئے کہ میزبان کو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا
کھائے چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندے سے اس کھانے کا حساب نہ لیا جائے گا جو وہ اپنے
بھائیوں کے ساتھ کھائے.(قوت القلوب لا بی طالب المکی 2/ 306 )
2 ؛ دعوت قبول کرنا :مہمان کو چاہئے کہ میز بان کی دعوت قبول کریں اس کی دعوت
کا انکار نہ کریں چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا :لَوْ دُعِيْتُ إِلى
كُرَاعِ لَا جَبْتُ وَلَوْ اھدی إِلَى ذِرَاعٍ لَقبلتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے تو میں
قبول کرونگا اور اگر مجھے بکری کا بازو بھی تحفہ دیا جائے تو میں قبول کرو گا ۔ (
صحیح البخاری کتاب النکاح باب من اجاب الی کراع 455/3, الحدیث:5178 )
3 ; کھانے میں عیب نہ نکالنا :مہمان کو چاہئے کہ میزبان کے کھانے میں سے عیب
نہ نکالے اس کی غیبت نہ نکالے حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ رحمہ اللہ اکرم کہیں
کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہیں آیا
۔ ایک شخص بولا : وہ موٹا بڑا سست ہے اس پر حضرت ابرہیم بن آدہم علیہ رحمۃ اللہ
اکرم اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے لگے ۔ افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ
آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی مجلس یعنی (بیٹھک
) میں پہنچ گیا. جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی تھی یہ کہہ کر واپس تشریف لے گئے
اور (اس صدمے سے) تین دن تک اور بعض روایت
میں ہے کہ سات دن کھانا نہ کھایا۔(غیبت کی تباہ کاریاں ، ص 205) (تنبيہ العافلين
ص،89 )
4 ؛ میزبان کے لیے دعا :مہمان کو چاہئے کہ میز بان کے لیے دعائے مغفرت و دعائے
برکت کرے -چنانچہ حضرت سیدنا ابو ہر براہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب
تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو
تو ( میزبان کے لیے) دعا کرے اور اگر روزہ
دار نہ ہو تو کھانا کھا لے.
5 ؛ دستر خوان پر آخر تک بیٹھنا :مہمان کو چاہیے کہ جب دسترخوان لگ جائے تو اس پر
آخر تک بیٹھا رہے تاکہ میزبان کی دل آزاری نہ ہو۔ روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے
ہیں فرمایا : رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہ جب دستر خوان رکھا جائے تو
کوئی شخص نہ اُٹھے تاانکہ دستر خوان اُٹھا لیا جائے اور نہ اپناہاتھ اُٹھائے اگر
چہ سیر ہو جائے۔ ( کتاب مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد
6، حدیث نمبر:
4254 )
دانش علی (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
معاشرے میں
لوگ مہمان بن کر دوسروں کے گھر جاتے ہیں۔ لیکن انہیں وہاں کے اصول کا پتا نہیں
ہوتا۔ جو مہمان میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتا اگر چہ گھر والے نے کتنی ہی
تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو کوئی بھی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھانا
کھانے نہ جائے۔ جہاں اس کو بٹھایا جائے . وہیں بیٹھے زیادہ دیر نہ بیٹھے جس کے لیے
اسے کوئی حرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو رخصت کے وقت اپنے اعزا ز وا کرام کی بنا پر میزبان
کا شکریہ ادا کرے۔ ہمیں میزبان کے حقوق پر بھی عمل کرنا چاہیے:
آئیے چند احادیث
ملاحظہ کیجئے ۔
1
؛ میزبان کو تکلیف نہ دینا :روایت
ہے حضرت ابو شریح سے کہ رسول الله صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو الله اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو۔ وہ اپنے
مہمان کا احترام کرے ۔اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے بعد وہ
صدقہ ہے۔ مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کردے- (مراۃ
المناجیح . ج ، 6 ، باب : دعوت کا بیان ، ص،66 )
2
; آخر تک بیٹھنا :روایت ہے حضرت
ابن عمر سے فرماتے ہیں۔ فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص نہ اٹھے تا
آنکہ دستر خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو جائے۔(مراۃ
المناجیح ، ج 6، باب : دعوت کا بیان ، ص، 75 )
3 ؛ میزبان کی دل آزاری نہ کرنا : میزبان کی دل آزادی سے بچنے کیلئے چاہیے کہ میزبان کے لئے دعائے خیر کرے وہاں کچھ
دیر نماز پڑھ لے اس سے میزبان بھی خوش ہو جائے گا اور روزہ بھی نہ توڑنا پڑے گا ۔
(فیضان ریاض الصالحین ،ج 6، ص 186 ، مكتبة المدينة )
4
؛ دعوت قبول کرنا :عن ابی هریرة رضی اللہ عنہ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا دُعِی أَحَدُكُمْ، فلیجب فَإِنْ كَانَ صَائِمًا
فَلْيُصل ،وان کان مغطر فلیطعم ۔ترجمہ:حضرت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ تَعَالٰی علیہ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی. جائے تو اسے چاہیے
کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو (میزبان) کے لئے دعا کرے اور اگر روزہ دار
نہ ہو تو کھانا کھا لے۔( مسلم . كتاب النکاح ، باب الامر باجابة الداعى الى دعوة ص
, 576 . حدیث : 3520 )
5
؛ غیبت نہ کرنا :مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے کھانا کی غیبت نہ کرنا۔ چنا نچہ حضرت سیدنا ابراہیم
بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ کہیں کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے لوگوں نے آپس میں کہا
کہ فلاں شخص ابھی تک نہیں آیا۔ ایک شخص بولا : وہ موٹا تو بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت
سیدنا ابراہیم بن ادھم علیہ رحمة الله الاکرم اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے
لگے: افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی مجلس (یعنی
بیٹھک) میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف لے گئے اور (اس صدمے سے) تین
(اوربر وایت دیگر سات دن تک کھانا نہ کھایا۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں، ص : 204 مکتبۃ
المدینہ) (تنبیه الغافلین ، ص: 89 )
محمد وسیم عطاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو جیسے مہمان کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے اسی طرح میزبان
کے بھی حقوق ہیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے
گھر جائے تو زیادہ دن اس کے پاس نہ ٹھہرے اور جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر
جائے اس ضمن میں کچھ حدیث مبارکہ ہیں عرض کرتا ہیں
(1)
متقین کی دعوت کرنا ۔متقی اور پا
سا لوگوں کی دعوت کرنا اور ان کی خدمت کرنا باعث برکت اور حصول کا ذریعہ ہے۔جیسا
کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔مومن کے علاوہ کسی اور کو
اپنا دوست نہ بناؤ اور تمہارا کھانا صرف متقی آدمی کو کھلانا چاہیے۔
(2)
مہمان کو جس جا ٹھہرایا جائے وہیں ٹھہرنا ۔ابو اللیث سمر قندی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں۔مہمان چار چیزوں کا خیال
رکھے۔ جہاں اسے بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔میزبان سے اجازت لے کر اٹھے۔جب نکلے تو میزبان
کے لیے دعا کریں۔
(3) گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینا ۔مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے گھر میں داخل ہوتے
وقت اس سے اجازت لے۔
(4)مہمان
کا اور لوگوں کو ساتھ لے جانے سے گریز کرنا۔مہمان اپنے ساتھ کسی بن بلائے شخص کو دعوت میں لے کر چلا
جائے تو اسے چاہیے کہ میزبان سے اس شخص کی اجازت لے اگر اجازت مل جائے تو فبہا
ورنہ اس شخص سے معذرت کر لے۔اس کی تعلیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل
حدیث بھی ملتی ہے۔
ایک انصاری
صحابی کے ہاں جن کی کنیت ابو شعیب تھی ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا ایک دن
ان انصاری صحابی یعنی ابو شعیب نے اپنے اس غلام سے کہا کہ میری ہدایت کے مطابق
اتنا کھانا تیار کرو جو پانچ آدمیوں کے لیے کافی ہو کیونکہ میں رسول کریم صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم کی دعوت کروں گا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پانچ آدمیوں میں
سے ایک ہوں گے۔ (یعنی ایک حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہوں گے اور چارآدمی اپ صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے) چنانچہ اس غلام نے ان کی ہدایت کے مطابق
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کر لیا پھر وہ ابو شعیب حضور
علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو
اورآپ کے چار صحابہ کو اس کھانے پر مدعو کیا
جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے تو ایک شخص آپ صلی اللہ
تعال علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر پہنچ کر فرمایا
اے ابو شعیب ایک اور شخص ہمارے ساتھ ہو لیا ہے اگر تم چاہو تو اس کو بھی کھانے پرآنے
کی اجازت دے دو ورنہ اس کو دروازے ہی پر چھوڑ دو اور دسترخوان پر بیٹھنے کی اجازت
نہ دو۔ ابو شعیب نے کہا کہ نہیں اس کو دسترخوان پر بیٹھنے کی اجازت نہ دینا میں
مناسب نہیں سمجھتا بلکہ میں اس کو بھی اجازت دیتا ہوں۔
حدیث اس بات کی
دلیل ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کی دعوت میں بن بلائے پہنچ
جائے اور اسی طرح کسی مہمان کے کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی بن بلائے شخص کو
اپنے ساتھ دعوت میں لے جائے ہاں اگر میزبان نے اس بات کی صریح اجازت دی ہو یا کوئی
ایسی دعوت ہو جہاں اذن عام ہے مہمان یہ جانتا ہو کہ اگر میں کسی بن بلائے مہمان
شخص کو اپنے ساتھ دعوت میں لے گیا تو میزبان کی مرضی کے خلاف نہیں ہوگا تو ان
صورتوں میں مدعو کسی غیر مدعو کو اپنے ساتھ دعوت میں لے جا سکتا ہے۔
(6)مہمان
کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا۔مہمان
کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے۔حضرت سیدنا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو
صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔
اللہ تبارک و
تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے میزبان
کے گھر جا کر اور اس کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عرفان ساجد (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے میٹھے
اور پیارے اسلامی بھائیو! مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں جو
مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان
نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی
شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان
کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد
یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا
اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان
سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ میرے
پیارے اسلامی بھائیوں اس دور میں رشتوں کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کے ہم ایک
دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم آپس میں ملتے نہیں پھر یونہی
ہمارے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں میرے محترم اسلامی بھائیوں ہمیں اس کا ہل تلاش
کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی کریں جس کے ہمیں د
نیوی و اُخروی فوائد ہوں۔(آئیں کچھ میزبان کے حقوق کے متعلق سنتے ہیں۔)
(1)مومن
کی دعوت قبول کرنا۔جب انسان کو اس
کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش رکھتا
ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے لیے
انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جائز دین ہے
(2)تکلفات
سے پرہیز۔مہمان نوازی کی ایک آفت
اسراف کا شکار ہوجانا ہے اس آفت کا شکار فقط آج کا ہی انسان نہیں بلکہ زمانہ قدیم
سے ہی ہر مہمان نواز اس آفت کا شکار رہا ہے، البتہ آج کل کے دور میں ریاکاری،
خودنمائی اور نمود و نمائش کی بیماری ماضی کی نسبت بڑھ گئی ہے. اسلام نے حکم دیا
ہے کہ مہمان کو نا صرف تکلفات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اسے بحیثیتِ مہمان
حکم دیا گیا ہے کہ وہ میزبان سے تقاضا کرے کہ وہ تکلفات میں نہ پڑے. امام رضا نقل
کرتے ہیں: ایک شخص نے حضرت علی کو دعوت دی تو امام نے اسے فرمایا: میں تمہاری دعوت
قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ میری تین باتیں قبول کرنا ہوں گی، اس شخص نے
کہا کہ وہ تین باتیں کون سی ہیں یا امیرالمومنین؟ امام نے فرمایا: ہمارے لیے باہر
سے کوئی چیز نہیں لاؤگے، جو بھی گھر میں موجود ہو اسے لانے میں نہیں کتراؤ گے اور
تیسرا یہ کہ اپنے گھر والوں کو کسی زحمت میں نہیں ڈالو گے. یہ سن کر اس شخص نے کہا
مجھے آپ کی تینوں باتیں قبول ہیں پس امام نے بھی اس کی دعوت قبول کر لی۔
(3)کھانے
میں شرم نہ کریں۔بعض افراد ایسے بھی
ہوتے ہیں کہ ان کو جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی
تو اپنی ضرورت سے کم کھاتے ہیں جبکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ میزبان کو اصرار
کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے کھانا کھا لیں۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب
تمہارا مومن بھائی تم سے کھانا کھانے کا
تقاضا کرے تو کھا لو میزبان کو مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کو قسم دے. کیونکہ کھانا
کھانے کی دعوت دے کر وہ آپ کا احترام بجا لانا چاہ رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر امام
ارشاد فرماتے ہیں: «ایک شخص کی اپنے مومن بھائی سے محبت اس کے بھائی کی دعوت پر اس
کے مناسب مقدار میں کھانا کھانے سے پتہ چلتی ہے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ شخصِ مہمان
میری دعوت پر کھانا کھاۓ اور
اچھا مناسب مقدار میں کھاۓ، اس کام سے مجھے وہ خوشحال کرتا ہے۔
(4)میزبان
کے پاس ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرنا۔نبی
اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا
جائے گا، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے
گناہ میں ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے
گناہ میں ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں
ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر
کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔
(5)جہاں
میزبان بٹھا دے، بیٹھ جائیں۔
امام باقر کا
فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی اپنے برادرِ دینی کے گھر داخل ہو تو اسے چاہیے کہ
جہاں پر اسے میزبان بٹھا دے وہیں پر بیٹھ جاۓ، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی جگہوں کو مہمان
سے بہتر جانتا ہے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)
اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد
فرماتا ہے -وَ
لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ
فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ ۔ (ھود،پ 12،آیة،69)ترجمہ
کنزالعرفان :”اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے
’’سلام‘‘ کہا تو ابراہیم نے ’’سلام‘‘ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا
بچھڑا لے آئے“۔
اس آیت کریمہ
کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ۔"وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ
اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى"
:(اور بے شک ہمارے فرشتے ابراھیم کے پاس خوشخبری لے کر ائے )اس آیت کا خلاصہ
یہ ہے کہ سادہ رو نوجوان کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ
والسلام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیھما الصلاۃ والسلام کی پیدائش کی
خوشخبری لے کر آئے- فرشتوں نے "سلام" کہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا- پھر تھوڑی دیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام
بھنا ہوا بچھڑا لے آئے- مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی
مہمان نواز تھے کہ بغیر مہمان کے کھانا تناول نہ فرماتے- اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ
15 روز سے کوئی مہمان نہ آیا- آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اس کا بہت غم تھا- اور جب
ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے لیے کھانا لانے میں جلدی
فرمائی- چونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے یہاں گائے بکثرت تھیں- اس لیے
بچھڑے کا گوشت سامنے لایا ۰
اس آیت کریمہ
سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام بہت مہمان نواز تھے- جس کا
ذکر اللہ تبارک و تعالی نے قران کریم میں فرمایا
میزبان کے آداب ۔
(1)میزبان
مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سوالات نہ کرے مثلا کہنا کہ ہمارا گھر کیسا
لگا؟
(2)میزبان اس
طرح کا سوال بھی نہ کرے ”آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟ “کہ یہاں بھی جوابا جھوٹ
کا اندیشہ ہے کہ کم کھانے کی عادت یا پرہیزی یا کسی بھی وجہ سے کم کھانے کے باوجود
اصرار و تکرار سے بچنے کے لیے مہمان کو جھوٹ موٹ کہنا پڑ جائے کہ ”میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے“-
(3)میزبان کو
چاہیے کہ مہمان سے وقتا فوقتا کہے کہ ”اور کھاؤ “مگر اس پر اصرار نہ کرے ،کہ کہیں
اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ اس کے لیے نقصان دہ ہو-
(4)میزبان کو
بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہو جائے
بلکہ وہاں حاضر رہے
(5)بعض اوقات
کھانے کے موقع پر مہمان پر ایک شخص مقرر کر دیا جاتا ہے جو اپنے ہاتھ سے مہمان کی
پلیٹ میں کھانا یا سالن،بوٹی وغیرہ ڈالتا رہتا ہے،مہمان کو اس سے پریشانی ہو سکتی
ہے،مثلا وہ بوٹی کھانے سے بچنا چاہتا ہے اور میزبان کاآدمی بوٹیاں ڈالے جا رہا ہے-
(6)میزبان کو
چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمے اس کو نہ چھوڑے کہ یہ
(یعنی مہمان کی آؤ بھگت)حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے ،جو
شخص اپنے(مسلمان) بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اس سے قیامت میں اس کھانے کا حساب نہ
ہوگا-
(7)اگر بھوک
سے کچھ زیادہ اس لیے کھا لیا کہ مہمان کے ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ یہ ہاتھ
روک دے گا تو مہمان شرما جائے گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس صورت میں بھی
کچھ زیادہ کھا لینے کی اجازت ہے جبکہ اتنی ہی زیادہ ہو جس سے معدہ خراب ہونے کا
خطرہ نہ ہو-
(8)میزبان کو
چاہیے کہ مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو۔