تجمل حسین (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اسلام دین
فطرت ہے.اس نے ہماری ہر معاملے میں رہنمائی کی ہے. اسلام نے ہمیں لوگوں کے حقوق
ادا کرنے کا حکم دیا ہے. اسلام نے ہر مسلمان کے حقوق بیان کیے ہیں خواہ وہ شوہر ہو
یا باپ،حاکم ہو یا محکوم الغرض اسلام نے سب کے حقوق مقرر کیے ہیں. اسی طرح دین
اسلام نے میزبان کے بھی کچھ حقوق مقرر کیے ہیں جو کہ مہمان پر لازم ہیں. آئیے میزبان
کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں:
(1)
مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرنا ۔ مہمان
کو چاہیے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان
پر دشوار ہوتا ہے. (احیاء العلوم،جلد 2،ص 37)
(2) اگر میزبان
دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار کرے جس کا پیش کرنا میزبان پر
آسان ہو کہ یہی سنت ہے. (احیاء العلوم،جلد 2،ص 38)
(3) نبی پاک
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے مہمان کا استقبال دروازے سے باہر نکل
کر کرے اور رخصت کے وقت گھر کے دروازے تک پہنچائے. (ایمان کی شاخیں،ص 495)
(4) نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے اور
کھائیے اور کھائیے اور جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کرتا تو تب آپ اصرار
سے رک جاتے.(ایمان کی شاخیں،ص 496)
(5) نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس (مہمان
بن کر) جائے تو اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال
کرے،نہ فرمائش کرے اور نہ کوئی جستجو کرے.(ایمان کی شاخیں،ص 496)
اللہ عزوجل ہمیں
ان حقوق کو بجالانے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
وسلم
دعوتِ اسلامی عالمِ دنیا میں اسلامی پرچم بلند
کرنے، علمِ دین کا فیضان لوگوں میں عام کرنے اور اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے
میں پہنچانے والی عاشقانِ رسول کی دینی
تحریک ہےجس کے تحت وقتاً فوقتاً علمِ دین
کی مجالس منعقد ہوتی رہتی ہے۔
اسی سلسلے میں 19 ستمبر 2024ء بروز جمعرات دعوتِ اسلامی کے
زیرِ اہتمام پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف مقامات پر ہفتہ وار سنتوں بھرے
اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گاجن میں تلاوت و نعت اور مبلغینِ دعوتِ اسلامی کے
سنتوں بھرے بیانات ہوں گے۔
معلومات کے مطابق آج مدنی چینل پر دعوتِ اسلامی
کے تحت ہونے والا ہفتہ وار سنتوں بھرا اجتماع مرکزی عید گاہ مظفر آباد (کشمیر ) سے براہِ راست(Live) دکھایا جائے گا جس کا آغاز رات تقریباً 8:00 بجے تلاوتِ
قراٰنِ پاک و نعتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے کیا جائے گا جبکہ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد اظہر عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
صفی الرحمٰن عطّاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
جس طرح مہمان
کے میزبان کے ذمے حقوق ہیں اسی طرح میزبان
کے مہمان کے اوپر بھی حقوق ہیں۔ زندگی میں تقریبا ہر انسان کو کسی نہ کسی کا مہمان بننے کا موقع ملتا ہے۔ مگر جب بھی کسی کے ہاں مہمان بن کر جانا ہو۔ تو
ایسا انداز اختیار کیا جاۓ کہ میزبان دوبارہ مہمان بنانے کی خواہش کرے۔ نہ
کہ یہ میزبان کے لئے ضرر کا سبب بنے اور وہ اس کی وجہ تکلیف میں مبتلا ہو۔ اور ایسے
ہی مہمان کو چاہئے کہ اس کے عیوب کو
دوسروں پر ظاہر نہ کرے۔ کیونکہ مہمان نوازی سے خوش نہ ہوکر میزبان کے عیبوں کا
اظہار کرنے اور اس کی برائی بیان کرنے والوں کے بارے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
لَا یُحِبُّ
اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
سَمِیْعًا عَلِیْمًا۔ (سورۃ النساء,آیت: 148) ترجمۂ کنز العرفان:- بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر
مظلوم سے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق تفسیرِ صراط
الجنان میں ہے:۔ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا تھا اور انہوں نے
اچھی طرح اس کی میزبانی نہ کی، جب وہ وہاں سے نکلا تو اُن کی شکایت کرتا ہوانکلا۔
تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مفتی
صاحب آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: اس سے
ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے
اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں
اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا
بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں
بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ
فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے
باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع
ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے
حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں
مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ
!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا
کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس
کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(تفسیرِ صراط
الجنان سورۃ النساء تحت آیۃ: 148)
یہاں مہمان کے
لئے میزبان کے حقوق سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صحابۂ و
تابعین اور یگر بزرگانِ دین کے انداز اور فرامین کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں:۔
(1)۔۔میزبان
کی دعوت قبول کرنا:- جب بھی کوئی
دعوت پر بلاۓ تو ممکن ہو تو اس کی دعوت کو رد نہ کیا جائے ۔کیونکہ
جس طرح دعوت دینے والے کے فقر اور کم مرتبہ ہونے کی وجہ سے انکار کرنا منع ہے ایسے
ہی سفر زیادہ ہونے کی وجہ سے دعوت قبول کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اگر
عادتاً یہ سفر ممکن ہو تو انکارکرنا مناسب نہیں۔
بعض آسمانی کتابوں میں مذکور ہےکہ’’ایک میل چل
کر مریض کی عیادت کرو،دومیل چل کر جنازہ میں شرکت کرو،تین میل چل کردعوت میں جاؤ
اور چار میل چل کر(رضائے الٰہی کے لئے) اپنے مسلمان بھائی کی زیارت(اور اس سے
ملاقات) کرو۔‘‘
دعوت قبول کرنے اور ملاقات کرنے کومریض کی عیادت
کرنے اور جنازے میں حاضر ہونے پر فضیلت دی گئی ہے کیونکہ اس میں زندہ کے حق کو
پورا کرنا ہے جو کہ میّت سے اولیٰ ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 138)چنانچہ،
محسن کائنات،فخرموجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے:’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعِ الْغَمِیْمِ
لَاَجَبْتُ یعنی اگر مجھے مقامِ غَمِیْم میں بھی بکری کے پائے کی دعوت دی جائے تو میں
قبول کروں گا۔(صحيح البخاری ، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۳ / ۴۵۵، الحديث : ۵۱۷۸)
غَمِیْم ‘‘مدینہ سے کئی میل دور ایک جگہ کا نام
ہے۔(صحيح البخاری ، کتاب المغازی ، باب مقام النبی بمکة زمن … الخ ، ۳ / ۱۰۶، الحديث : ۴۲۹۸، ۴۲۹۷)
دعوت قبول کرنے کا حکم:- (عام طور
پر)دعوت قبول کرنا سنّتِ مؤَ کدہ ہے۔ البتہ، بعض مواقع پر واجب بھی کہا گیا
ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 136)
چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ وَلَوْ
اُھْدِیَ اِلَیَّ ذِرَاعٌ لَقَبِلْتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی
جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے بکری کا بازو بھی تحفۃً دیا جائے تو میں
قبول کروں گا۔‘‘(صحيح البخاری ، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۳ / ۴۵۵، الحديث : ۵۱۷۸)
دعوت قبول کرنے کے آداب:- دعوت قبول کرنے میں امیر وغریب کا فرق ملحوظِ
خاطر نہ ہو کہ یہ تکبر ہے جو کہ ممنوع ہے۔اسی وجہ سے بعض لوگوں نے سرے سے ہی دعوت
قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا:’’ شوربے کا انتظار ذلت ہے۔‘‘ بعض نے کہا
کہ’’اگر میں اپنا ہاتھ دوسرے کے پیالے میں ڈالوں تو گویامیں نے اس کے سامنے اپنی
گردن جھکا دی۔‘‘بعض متکبرین صرف اغنیا کی دعوت قبول کرتے ہیں فقرا کی نہیں یہ
خلافِ سنت ہے کہ پیارے مصطفٰے صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غلام و مسکین سب کی دعوت قبول فرماتے۔(سنن الترمذی ، کتاب الجنائز ، باب رقم :
۳۲، ۲ / ۳۱۱، الحديث : ۱۰۱۹ قوت القلوب لابی طالب المکی ، ۲ / ۳۱۲)(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ:138,137)
دعوت قبول نہ کرنے کی صورتیں: اگر کھانا شبہ والا ہویادعوت مغصوبہ(غصب کی گئی)
زمین میں ہویا بچھائی جانے والی چٹائی حلال نہ ہویا اُس جگہ کوئی ناجائز کام
ہو۔مثلاً :چٹائی کی جگہ ریشم کا کپڑا بچھایا گیا ہو یا برتن چاندی کے ہوں یا چھت یا
دیوار میں جاندار کی تصویر لگی ہو یاموسیقی کی محفل سجی ہویا ناجائز کھیل تماشا ہو
یا جھوٹ، غیبت، چغلی اور بہتان وغیرہ میں پڑنے کا اندیشہ ہویا اس کے علاوہ کوئی بھی
ناجائز کام ہو تو ان سب صورتوں میں دعوت قبول نہیں کرنی چاہئے۔یہ تمام کام دعوت کو
مستحب ہونے سے نکال کر حرام ومکروہ کی طرف لے جاتے ہیں۔یونہی اگر دعوت دینے والا
ظالم، بدعتی، فاسق یا شریر ہو یا فخرو مباہات کے طور پر دعوت کرتا ہوتو بھی دعوت
قبول نہیں کرنی چاہئے۔(احیاء العلوم جلد, 2 صفحہ: 140)
(2)....
میزبان کے پاس ٹھہرنے کی مدت:- مہمان
کو چاہئے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر واپس نہ لوٹے اور وہاں رکنے میں بھی اس کے دل
کی رعایت رکھے(کہ اگر وہ دلی طور پر خوش ہو اور مکان وسیع ہوتو ٹھہرے ورنہ لوٹ
جائے)۔نیز جب بھی کسی کے ہاں بطورِمہمان جائے تو تین دن سے زیادہ نہ ٹھہرے کہ بعض
اوقات زیادہ رکنے میں میزبان کو پریشانی ہوتی ہے اور وہ اسے نکالنے پر مجبور
ہوجاتا ہے(یعنی کوئی ایساحیلہ اختیارکرتا ہے کہ مہمان چلاجائے)۔نیز مہمان نوازی تین
دن تک ہی سنت ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 155,156)چنانچہ
سرکار عالی
مقام ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام
کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت
تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی
کہ اسے تنگ کردے۔
مرآۃ المناجیح
میں ہے:اگر صاحب خانہ خود ہی بخوشی روکے تو رک جانے میں حرج نہیں (کتاب:مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث
نمبر:4244)
اسی سے متعلق ایک اور مقام پر فرمایا:- مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے مسلمان
بھائی کے یہاں اِتنا عرصہ ٹھہرے کہ اُسے
گُناہ میں مبتلا کر دے۔صحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: یارسولَ
اللّٰہ! وہ اُس کو کیسے گُناہ میں مبتلا کرے گا؟اِرشاد فرمایا:وہ اُس شخص کے یہاں اِتنے وقت تک ٹھہرے کہ اُس کے پاس
مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
میزبان کی گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت:- اِمَام اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف
نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی
فرماتے ہیں:مہمان کے لیے کسی شخص کے پاس تین دن سے زِیادہ ٹھہرکر اُسے گُناہ میں
مبتَلاکردیناجائزنہیں ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اُس کے زِیادہ قِیام کی وجہ
سے میزبان اُس کی غیبت کرنے لگتا ہے یا ایسے کام کرتا ہے جس سے مہمان کو اَذِیَّت
پہنچتی ہےیا میزبان،مہمان کےمُتعلِّق بدگمانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کااِرشادہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ( پ۲۶ ، الحجرات :۱۲) ترجمۂ
کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔
لیکن یہ اُس
وَقت ہے جب خود میزبان مہمان سے زیادہ قِیام کے لیے نہ کہے اور جب میزبان خودمہمان
سے زِیادہ قِیام کی خواہش کرےیامہمان کو( کسی قَوِی قرینے سے) اِس کا عِلم یا
گُمان ہوکہ اس کا ٹھہرنامیزبان کو برا نہیں لگے گا تو تین دن سے زیادہ میں کوئی
حرج نہیں کیونکہ مُمانَعت اِس وجہ سے تھی کہ اُس کے زِیادہ قیام کی وجہ سے میزبان
گناہ میں مبتلا ہو جائے گا اوریہ وجہ خَتْم ہوچکی ہےاور اگر مہمان کو شک ہو کہ پتا
نہیں میزبان اِس کے زِیادہ قِیام پر خوش ہے یا نہیں؟تو اِس حدیث کے ظاہِر کی وجہ
سے میزبان کی اِجازت کے بِغیراِس کا زِیادہ قِیام کرنا جائز نہیں ہے۔(کتاب:فیضان ریاض
الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
(3)۔
میزبان سے فرمائش کرنا:- مہمان: کو
چاہئے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے۔ اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار
کرے جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہوکہ یہی سنت ہے۔ (احیاء العلوم جلد, 2 صفحہ:
128)
چنانچہ، مروی
ہے کہ جب بھی مصطفٰے جان رحمت صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔(صحيح مسلم ، کتاب الفضائل ، باب مباعدته صلی الله عليه وسلم للاثام … الخ ، الحديث : ۲۳۲۷، ص۱۲۷۱، ۱۲۷۰)
البتہ مخصوص
کھانے کی فرمائش اس صورت میں منع ہے جب میزبان پرمطلوبہ چیز پیش کرنا دشوار ہو یا
اسے نا گوارگزرے۔ البتہ، اگر یقین ہو کہ میزبان فرمائش سے خوش ہوگا اور مطلوبہ چیز
پیش کرنا اس کے لئے آسان ہے تو پھر فرمائش کرنے میں حرج نہیں۔ (احیاء العلوم جلد,2 صفحہ : 129)
(4)۔۔۔
مہمان کو بچا ہوا کھانا لے کر جانا :- مہمانوں
کو بچا ہوا کھانا لے جانے کی اجازت نہیں۔ صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام
(دین میں)اسے لغزش شمار کرتے ہیں۔البتہ، اگر صاحبِ خانہ بخوشی اجازت دے دے یا ایسا
قرینہ پایا جائے جس سے اجازت سمجھی جارہی ہو تو لے جا سکتے ہیں اور اگرگمان ہو کہ
اسے ناپسند ہوگا تو لے جانا مناسب نہیں اگرچہ اس نے اجازت دے دی ہو۔ اگر میزبان کی
رضا مندی معلوم ہو تو بھی اپنے رفقا کے ساتھ عدل و انصاف ضروری ہے کہ جب تک دوسرا
رفیق اپنا حصہ نہ نکال لے اس وقت تک نہ لے، اگر وہ خوش دلی سے اجازت دے تولےسکتا
ہے اور اگر شرم و حیا کی وجہ سے اجازت دےتو لینے میں پہل نہ کرے۔ (احیاء العلوم
جلد,2 صفحہ: 153)
(5)۔۔۔
مہمان کے لیے آداب" صَدْرُالشَّرِیْعَہ
بَدرُالطَّرِیْقَہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مہمان کو چار باتیں
ضَروری ہیں:(1)جہاں بِٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(2) جو کچھ اُس کے سامنے پیش کیا جائے
اُس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اِس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اِسی قِسْم کے دُوسرے اَلفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپَس میں
کہا کرتے ہیں۔(3) بِغیر اِجازتِ صاحِبِ خانہ وہاں سے نہ اُٹھے۔(4)اور جب وہاں سے
جائے تو اُس کے لیے دُعا کرے۔
(بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً)(5)...
کھانے میں کسی قسم کا عیب نہ لگاۓ اگر پسند آئے تو کھا لے ورنہ چھوڑ دے۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
” رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
کبھی کسی کھانے کو عیب نہ لگایا، پسند آیا تو تناول فرمالیا پسند نہ آیاتوچھوڑ دیا۔(کتاب:فیضان
ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:736)
مہمان کے لئےاچھی نیتیں! …
کسی کے ہاں مہمان بننے سے مقصود صرف پیٹ کی خواہش پوری کرنا نہ ہو کہ اس طرح یہ دنیاوی
کام ہو گا بلکہ چاہئے کہ کوئی اچھی نیت کرلے تاکہ یہ بھی دینی کام ہو جائے۔مثلاً :
.…سنّت پر عمل کی نیت سے دعوت قبول کرے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے
تو میں قبول کروں گا۔(صحيح البخاری
، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۴۵۵ / ۳، الحديث : ۵۱۷۸)
..…اپنے
مسلمان بھائی کی بات مان کر اس کے اِکرام کی نیت کرے کہ مصطفٰے جان رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ مَنْ اَکْرَمَ اَخَاہُ الْمُؤْمِنَ فَکَاَنَّمَا اَکْرَمَ
اللہ یعنی جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی گویا
اس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا اکرام کیا۔‘‘ ( المعجم الاوسط ، ۲۴۲ / ۶، الحديث : ۸۶۴۵ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی ، ۲۳۰ / ۲، الرقم : ۲۸۷، بحر بن کنيز السقاء )
..…اس کے ساتھ
ساتھ اپنے بھائی کی زیارت کی نیت کرے تاکہ رضائے الٰہی کی خاطر محبت کرنے والوں میں
ہو جائے کیونکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
اس(یعنی کسی سے ملاقات کے معاملے) میں دو چیزوں کوشرط قرار دیا ہے:(۱)…رضائے الٰہی کی خاطر ہو اور(۲)…مال وغیرہ خرچ کرنا پایا جائے۔(الموطا امام مالک ، کتاب الشعر ، باب ماجاء فی المتحابين فی الله ، ۴۳۹ / ۲، الحديث : ۱۸۲۸)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اچھا
مہمان بننے اور میزبان کے تمام حقوق کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد محسن محسنی (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
دین اسلام
کامل و اکمل اور مکمل ضابطہ حیات ہے دین اسلام نے جس طرح والدین اساتذہ اور اولاد
کے حقوق بیان فرمائے اسی طرح میزبان کے
حقوق بیان کیے چنا نچہ آپ بھی میزبان کے 5
حقوق پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجیے ۔
(1)
اپنی بیٹھائی گئی جگہ پر بیٹھنا : مہمان کو چاہیے کہ اس کو جہاں بٹھایا جائے وہاں
بیٹھے۔ميزبان کے دل کو مایوس نہ کیجئے ۔ (
بہار شریعت جلد : 3 ،حصہ 16 ،صفحہ نمبر : 397 )
(2)
کھا نے میں عیب نہ نکالنا : جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس پر خوش ہو یا
نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے
دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔ ( بہار شریعت
جلد :3 ، حصہ : 16 ، صفحہ نمبر :397 )
(3) بغیر اجازت نہ اٹھتا : بغیر اجازتِ صاحب خانہ وہاں سے نہ اٹھے۔ اگرچہ
کھانا کھا چکا ہو۔ جس کی وجہ سے اس کی دل آزاری نہ ہو۔ نہ اس کے گھر سے بغیر اجازت
جائے۔ ( بہار شریعت جلد 3 ،حصہ : 16 ، صفحہ نمبر: 397 )
(4)
میزبان کے لیے دعا کرنا : جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔
میزبان کو چاہیے
کہ مہمان کی خاطر داری میں مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ
حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی سنت
ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے
مروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے
میں مشغول ہو۔ مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو۔(
بہار شریعت جلد نمبر: 3 ،حصہ نمبر: 16 ،صفحہ نمبر: 397 )
(5)
دعوت میں شرکت کے آداب : (1) اگر
مہمان رات گزارنے کے لیے آئے تو میزبان اسے قبلہ ، قضائے حاجت اور وضو کی جگہ بتا
دے کہ حضرت سیدنا امام مالک رحمتہ الله تعالٰی علیہ نے حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ
تعالیٰ علیہ کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا ۔
(2) اگرمیزبان
عزت کرتے ہوئے اسے بلند جگہ بیٹھنے کا اشارہ کریں تو عاجزی کرے کیونکہ حدیث مبارکہ
میں ہے کہ مجلس میں ادنی جگہ پر بیٹھنا بھی اللہ کے لیے عاجزی کرنا ہے۔
( 3) اہل خانہ کو نہ تو زیادہ انتظار کرائے اور
نہ ہی تیاری سے قبل حاضر ہو۔
( 4)جس طرف سے
کھانا لایا جا رہا ہو اس جانب بار بار نہ دیکھے کہ یہ حرص کی علامت ہے۔
(5) گھر میں
داخل ہو کر کسی نمایاں جگہ پر نہ بیٹھے بلکہ عاجزی اپنائے۔
(احیاء العلوم
جلد نمبر : 2 ،صفحہ نمبر : 52 )
اختتامیہ :
مہمان کو چاہیے
کہ میزبان کا ادب کرے ۔اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئے۔اس کے بغیر بلانے پر نہ
آئے کہ جس کی وجہ سے اس کی دل آزاری نہ ہو۔ اللہ ہم سب کو میزبان کے ساتھ بھلائی کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔آمین
سید علی شاہ (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
دعوت قبول
کرنے میں امیر و غریب کا فرق ملحوظ خاطر نہ ہو کہ یہ تکبر ہے جو کہ ممنوع ہے۔ اس
وجہ سے بعض لوگوں نے سرے سے ہی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: "
شوربے کا انتظار ذلت ہے۔ بعض نے کہا کہ ”اگر میں اپنا ہاتھ دوسرے کے پیالے میں
ڈالوں تو گویا میں نے اس کے سامنے اپنی گردن جھکا دی۔ بعض متکبرین صرف اغنیا ءکی
دعوت قبول کرتے ہیں فقرا کی نہیں یہ خلاف سنت ہے کہ پیارے مصطفى صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسلم غلام و مسکین سب کی دعوت قبول فرماتے۔
مہمان کو بچا ہوا کھانا لے جانا کیسا (1) مہمانوں کو بچا ہوا کھانا لے جانے کی اجازت نہیں۔ صوفیائے
کرام منظم الله السلام (دین میں ) اسے لغزش کرتے ہیں۔ البتہ اگر صاحب خانہ کو ئی
اجازت دے دے یا ایسا قرینہ پایا جائے جس سے اجازت سمجھی جارہی ہو تو لے جاسکتے ہیں
اور اگر گمان ہو کہ اسے نا پسند ہو گا تو لے جانا مناسب نہیں اگر چہ اس نے اجازت
دے دی ہو۔ اگر میزبان کی رضا مندی معلوم ہو تو بھی اپنے رفقا کے ساتھ عدل و انصاف
ضروری ہے کہ جب تک دو سرا رفیق اپنا حصہ نہ نکال لے اس وقت تک نہ لے ، اگر وہ خوش
دلی سے اجازت دے تو لے سکتا ہے اور اگر
شرم و حیا کی وجہ سے اجازت دے تو لینے میں پہل نہ کرے۔ احیاءالعلوم جلد 2 صفحہ
نمبر 62
(2)
میزبان اگر اشارہ کرے۔اگر میزبان
کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کرے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسا اوقات اس نے اپنے ذہن میں
ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس کی بات نہ ماننے سے اسے تشویش ہو گی۔ احیاءالعلوم
جلد نمبر 2 صفحہ نمبر52
(3)
کھانے کی طرف نہ دیکھنا۔جس طرف سے
کھانالا یا جارہا ہو اس جانب بار بار نہ دیکھے کیونکہ یہ حرص کی علامت ہے۔ احیاءالعلوم
جلد نمبر 2 صفحہ نمبر ۵۲
عبدالمنان
عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
جو میزبان کی
مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام
کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی
پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے
تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟
میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی
اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی
طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی
مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ
اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا
رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں
کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو
گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم،
کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوہا، ص951، الحدیث: 15(1826)
(1)مخصوص
کھانے کی فرمائش نہ کرنا:مہمان کو
چاہیے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان کسے اختیار کرے
جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہو کہ یہی سمجھ آتا ہے چنانچہ مروی ہے کہ جب بھی
مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو
آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔ (صحیح مسلم
کتاب الفضائل باب صلی اللہ علیہ والہ وسلم للاثام۔۔الخ،الحدیث،2327،ص1271,1270)
(2)اذیت نہ دینا۔نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان
نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت
ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا
رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحوۂ کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔ زوال کے بعد
ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے اور
اس میں بھی عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد
عصر نہیں ۔(الدرالمختار ‘‘ و ’’ ردالمحتار ‘‘ ، کتاب الصوم، فصل في العوارض،
ج 3 ، ص 575 ۔ 477۔ و ’’ الفتاوی الھندیۃ ‘‘ ، کتاب
الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج 1، ص 208)
(3)بوجھ
نہ بننا۔مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے
میزبان پر بوجھ نہ بن جائیں نیز ایسی فرمائش بھی نہ کریں جس کو میزبان پورا نہ کر
سکے ہاں اگر یہ معلوم ہے کہ فرمائش کرنا میزبان پر بوجھ نہیں ہوگا بلکہ اس سے میزبان
خوش ہوگا تو اب اپنی پسند کا کھانا وغیرہ مانگنے میں حرج نہیں۔ جیسا کہ کیميائے سعادت میں ہے کہ حضرت سیدنا
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بغداد معلّی میں حضرت سیدنا زعفرانی رحمۃ اللہ
تعالی علیہ کے دولت خانے پر بطور مہمان ٹھہرے ہوئے تھے زعفرانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
روزانہ مختلف قسم کے کھانوں کی فہرست باورچی کے حوالے کر دیتے ایک دن سیدنا امام
شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس فہرست میں ایک قسم کا کھانا بڑھا دیا اور اس پر
دستخط فرمادیا جب زعفرانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ایک کنیز کے ہاتھ میں وہ تحریر
دیکھی تو بہت خوش ہوئے اور شکرانے میں اس کنیز کو آزاد کر دیا۔(فیضان
سنت،ص823،مکتبۃ المدینہ)
عیب
نہ لگانا ۔اعلی حضرت امام اہل سنت
مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کھانے میں عیب نکالنے کے متعلق
فرماتے ہیں کھانے میں عیب لگانا اپنے گھر پر بھی نہ چاہیے مکروہ ہے سرکار دو عالم
صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی عادت کریمہ یہ تھی کہ پسند آیا تو تناول فرما لیا
ورنہ نہیں اور پرائے گھر عیب لگانا تو اس میں مسلمان کی دل شکنی ہے اور اس کمال
حرص بے مروتی پر دلیل ہے
(ریاض الصالحین
ج، 6،ص181، مکتبۃالمدینہ)
محمد احمد رضا عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ
شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیو الله تعالٰی نے انسانوں کو رشدو ہدایت کی راہ دکھانے کے لئے انبیاء کرام علیھم
السلام کو مبعوث فرمایا ہے۔ تاکہ وہ انسانوں کی راہنمائی کریں، اور انسان ان باتوں
پر عمل کر کے فلاح حاصل کریں ۔ انہیں انبیاء کرام علیھم السلام میں سے اللہ پاک کے
آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ہر ہر موضوع پر مسلمانوں کی تربیت فرمائی ہے۔ آئیے ایسی احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں جن میں حضور ﷺ نے تین چیزوں کے متعلق تربیت فرمائی ہے۔
(1) حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں تین خصلتیں
ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا ۔ (1) الله و رسول تمام ماسواء سے زیادہ پیارے
ہوں۔
(2)جو بندے سے صرف الله کے لیے محبت کرے ۔
(3) جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا
ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج 1 حدیث
نمبر 8)
(2)حضرت سیدنا
عُقْبَہ بن عامِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور
عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَجات کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا :(1) اپنی زبان پر قابو رکھو۔ (2)
تمھارا گھر تمھارے لیے گُنجائش رکھے( یعنی بے کار اِدھر اُدھر نہ جاؤ)۔ (3) اور
اپنی خَطا پر آنسو بہاؤ۔ (ترمذی، ج 4،ص182، حدیث نمبر2414)
(4)
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا منافِق کی تین نشانیاں ہیں: (1).. جب بات کرے جھوٹ کہے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاۓ خیانت کرے۔ (بخاری
کتاب بدءالایمان، باب علامتہ المنافق، ص 79، حدیث نمبر 33)
(5) اللہ کے
رسول ﷺ نے فرمایا تین شخص جنت میں نہیں جائیں گے : (1) ماں باپ کو ستانے والا ۔ (2)
دیُّوث( یعنی وہ شخص جو اپنی بیوی یا کسی مَحرَم مثلاً ماں، بہن، بیٹی پر غیرت نہ
کھاۓ وہ دیُّوث کہلاتا ہے۔ (در مختار، کتاب الحدود، باب التعزیز، ص 318) (3) مردانی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، ج 2، ص 43، حدیث نمبر2443)
پیارے اسلامی
بھائیو ہمیں چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے جو ہماری تربیت فرمائی ہے اُن پر عمل کرنے والے بن جائیں، جن کو کرنے
کا حکم ارشاد فرمایا ہے اُن کاموں کو کریں
اور جن سے رُکنے کا فرمایا اُن سے رُک جائیں۔
اللہ پاک کی
بارگاہِ عالی میں دعا ہے ہمیں اپنا اور اپنے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا مطیع و فرمانبردار بنائے ۔ آمین بجاہ
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
مبشر حسین
عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ایک دانا کا
قول ہے کہ تین چیزوں میں غور و فکر نہ کرو (1) تنگدستی میں غور و فکر نہ کرو کیونکہ
اس سے غم و تکلیف میں اضافہ ہوگا اور مرض بڑھے گا (2) اپنے اوپر ظلم کرنے والے کے
بارے میں نہ سوچو اس طرح تیرا دل سخت ہو جائے گا بغض دشمنی میں اضافہ ہوگا اور تیرا
غصہ بھی بڑھے گا (3) دنیا میں طویل مدت رہنے کی نہ سوچ ورنہ مال جمع کرنے میں اپنی
عمر ضائع کر دے گا اور عمل میں سستی کرے گا نیز کہتے ہیں کہ حقیقی تقوی یہ ہے کہ آدمی
اپنے دل سے عہد کرے کہ وہ نہ ہونے والی باتوں کے بارے میں غور و فکر نہیں کرے گا
اگر دل ادھر لگے تو وہاں سے فوری طور پر ہٹا لینا چاہیے اور صحیح باتوں میں لگائے
اور یہ سخت ترین جہاد ہے اور دل کو مصروف رکھنے کا افضل ترین طریقہ یہ ہے کہ اسے
نماز میں لگا دیں اور جو شخص نماز میں دل کو قابو نہیں رکھ سکتا وہ اس کے علاوہ بھی
نہیں کر سکے گا۔ (تنبیہ الغافلین،جلد2, صفحہ 335،نوریہ رضویہ پبلی کیشنز)
(1)
جنت کی ضمانت : حضرت سیدنا ابو
امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: جو حق پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑا نہ کرے میں اسے جنت کے ایک
گوشہ میں مکان کی ضمانت دیتا ہوں اور جو مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اسے وسط جنت میں
گھر کی ضمانت دیتا ہوں اور حسن اخلاق والے
کو جنت کے اعلی درجے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں (فیضان ریاض الصالحین جلد 5 صفحہ
نمبر 527)
(2)
تین بدقسمت لوگ : حضرت سیدنا ابوہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روز قیامت اللہ عزوجل تین قسم کے
لوگوں سے نہ کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا اور
ان کے لیے دردناک عذاب ہوگابوڑھا (1)زانی، (2)جھوٹا بادشاہ ،(3)متکبر فقیر (
مکتبتہ المدینہ فیضان ریاض الصالحین جلد 5 ،صفحہ 490)
(3)
عمل ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتا ہے : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت
ہے نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور دو جہاں کے تاجور سلطان بحر و بر صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں دو واپس ہو جاتی
ہیں اور ایک باقی رہ جاتی ہے اس کے اہل ،مال اور عمل ساتھ جاتے ہیں تو اس کا اہل
اور مال واپس لوٹ جاتےہیں اور عمل باقی رہتا ہے
( کتاب صحیح
مسلم کتاب الزہد حدیث 7424)
(4)
انسان کا بہترین ترکہ :حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
نبی پاک صلی اللہ تعالی وسلم نے ارشاد فرمایا انسان کا بہترین ترکہ تین چیزیں ہیں ایک نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرے (2) صدقہ جاریہ
جس کا ثواب اس تک پہنچے(3) وہ علم جس پر اس کے بعد عمل رہے (سنن ابن ماجہ کتاب السنہ،باب ثواب معلم الناس،رقم241,جلد1،صفہ
157
(5)
لعنتی چیزیں : حضرت معاذ رضی اللہ
تعالی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تین لعنتی چیزوں
سے بچو (1) گھاٹوں (2) درمیانی راستہ (3)سایہ میں پاخانہ کرنے سے ۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشكوة المصابیح جلد :
1, حدیث نمبر :355 )
زندگی کو اللہ
تعالیٰ کے احکامات پر گزارنے اور صحیح راستے کے تعین کے لیئے احادیث مبارکہ کا
پڑھنا اس کو سمجھنا اور پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ احادیث مبارکہ میں
ہر اس معاملے کا ذکر ہے جو ہمیں زندگی میں پیش آتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ
ان احادیث مبارکہ کا تعلق براہ راست ہمارے پیارے پیارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ
علیہ وآلیہ وسلم سے ہے یہاں آگے کی سطور میں وہ احادیث مبارکہ تحریر کی جارہی ہیں
جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی تین افراد، اشیاء یا تین احکام کے متعلق بیان
کی تھیں۔ ان تمام احادیث میں تین کا ہندسہ مشترک ہے۔
سفر کے متعلق : سفر تو ہم کرتے ہی ہیں لیکن اگر کوئی ثواب کی نیت سے
کرنا ہو تو کس طرح کریں اس حدیث میں اس کا
بیان ہے ۔ 1: سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " ثواب کی نیت
سے صرف تین مقامات کا سفر کرنا جائز ہے مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ مسجد نبوی صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور مسجد اقصی " ( صحیح البخاری 1188)
منافق کی نشانی : اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے منافقوں کی
نشانی بتائی ہے 2: ’تین صفات جس شخص میں
ہوں تو وہ منافق ہے اگرچہ نمازی اور روزہ دار ہی کیوں نہ ہو اور اپنے آپ کو مسلمان
ہی کیوں نہ کہتا اور کہلواتا ہو: (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2)وعدہ کرے تو
وعدہ خلافی کرے۔ (3)امانت میں خیانت کرے‘‘۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
دعا کی قبولیت : کن لوگوں کی دعائیں قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں ان کا ذکر
اس حدیث میں آیا ۔ 3: ’تین افراد کی دُعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے۔ ایک :روزہ دار۔
دوسرا: مظلوم۔ تیسرا: عادل حکمران ( ترمذی شریف 3598)
مستقبل کی پیشن گوئی: اس
حدیث میں سرکارصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
آنے والے دور میں اپنی امت کا حال بتایا 4:
تین غلط کام میری اُمت میں موجود رہیں گے؛ ایک: حسب و نسب پر فخر کرنا۔ دوسرا:
نوحہ خوانی کرنا۔ اور تیسرا ستاروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا۔ صحیح المسلم 2160
اللہ کا نظر عنایت نہ کرنا : اس حدیث میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کی طرف قیامت
میں اللہ دیکھے گا بھی نہیں 5: ’’تین قسم
کے لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں۔ اور ان سے کلام بھی
نہیں کرے گا۔ اور ان کے لئے عذاب الیم ہے: (1) تکبر کی وجہ سے ازار کو لٹکانے
والا۔ (2)احسان جتلانے والا۔ (3)جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والا‘‘۔ مسلم ، کتاب
الایمان ، باب بیان غلظ ، صفحہ : 58 ،
حدیث : 106 ۔
ایمان کی مٹھاس: اس حدیث میں ایمان کی مٹھاس کے حوالے سے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے۔تین قسم کی
صفات جس شخص میں ہوں گی اس کو ایمان کی مٹھاس حاصل ہو گی: (1)اللہ تعالیٰ اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت سب سے بڑھ کر ہو۔ (2)کسی مومن سے محبت صرف اللہ
تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔ (3)ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفرمیں جانا شدید ناپسندیدہ
ہوـ
صحیح البخاری حدیث نمبر 16 کتاب الایمان جلد
اول
محمد اسجد نوید (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
نفرت
کا بیج بونے والے:روایت میں ہے کہ
تین قسم کے لوگ اپنے لئے لوگوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بوتے ہیں اور ان کی ناراضگی
مول لیتے ہیں اور اپنی عمارت کو خود ہی گرا دیتے ہیں :1 وہ آدمی جو لوگوں کے عیب بیان
کرتا ہے۔2 خود پسند آدمی۔3ریا کار جو دکھاوے کے اعمال کرتا ہے۔
محبت کا بیج بونے والے : اسی طرح تین قسم کے لوگ اپنے لئے لوگوں کے دلوں
میں محبت پیدا کرتے ہیں اور عافیت ورثہ میں پاتے ہیں اور آسمان والوں کے لئے ان کا
مقام ارفع و اعلیٰ ہے۔
1- حسن اخلاق
والے
2 - خلوص دل
سے اعمال صالح کرنے والے۔
3عاجزی و
انکساری سے پیش آنے والے لوگ۔(تنبیہ الغافلین)
1:عاجزی اور انکساری کے بارے میں تربیت فرمانا حدیث
:
حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے: عاجزی و انکساری بندے کے
مرتبے میں اضافہ کرتی ہے پس تواضع اختیار کرو اللہ عزو حل تمہیں رفعت عطا
فرمائے گا، درگزر کرنا بندے کی عزت کو بڑھاتا ہے پس معاف کیا کرو الله تمہیں عزت
عطافرمائے گا اور صدقہ مال کو بڑھاتا ہے پس صدقہ کرو الله تم پر رحم فرمائے گا۔
(كنز العمال، حدیث 223)
2:حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نیتوں کے حوالے سے تربیت فرمانا حدىث
:حضرت
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے فرمایا کہ تمام اعمال کا ثواب نیتوں سے ہے اور ہر
آدمی کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی ۔ جس شخص کی ہجرت اللّٰہ اور اس
کے رسول کی طرف ہوتو اس کی ہجرت اللّٰہ اور اس کے رسول کے لئے ہے اور
جس شخص کی ہجر ت دنیا حاصل کرنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کے واسطے ہوتو اس کی
ہجرت اسی کے لئے ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔ (مرآةالمناجیح جلد 1 حدیث 1)
3:اىمان کى مٹھاس پانے والا حدیث :حضرت
اَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں وہ ایمان کی مٹھاس پائے
گا { ۱ } جس
کو اللہ و
رسول ان دونوں کے ماسوا (سارے جہان ) سے زیادہ
مَحبوب ہوں ۔ {2 } اور جو کسی آدمی سے
خاص اللہ ہی
کے لئے محبت رکھتا ہو { 3 } اور جو اسلام
قبول کرنے کے بعد پھر کفر میں جانے کو
اتنا ہی بُرا جانے جتنا آگ میں جھونک دئیے
جانے کو بُرا جانتا ہے۔(بخاری شریف کتاب الایمان،باب حلاوۃ الایمان، الحدیث:1۶،1817۱۷)
4:مسلمان کون ہے اس بارے مىں تربیت فرمانا حدیث :روایت ہے انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ
فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوہماری سی نمازپڑھے،ہمارے قبلہ کو منہ
کرے،ہمارا ذبیحہ کھالے تو یہ وہ مسلمان ہے جس پر الله رسول کی ذمہ داری ہے لہذا
تم الله کا ذمہ نہ توڑو ۔(مرآةالمناجیح جلد 1حدىث3)
5:کس مسلمان شخص کا خون حلال ہے : حدىث:ترجمہ:حضرت سیِّدُنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے یہ کہ
تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: (1)…شادی شدہ زانی، (2)… جان کے بدلے جان
(قصاص) اور (3)… اپنے دین کوچھوڑ کرجماعت سے الگ ہونے والا۔‘‘ (بخاری، كتاب
الديات، باب قول اللہ تعالٰى: ..الخ، 4/ 362)
محمد یاسر (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ کنزالایمان رائیونڈ لاہور ، پاکستان)
(1) قَالَ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ثَلاثَةٌ لاَ تَرَى
أَعْيُنُهُمُ النَّارَ يَوْمَ الْقِياَمَة :عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ الله،
وَعَيْنٌ حَرَسَتْ فِي سَبِيلِ اںلله، وَعَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ الله .آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی ایسے
ہیں جن كی آنكھیں قیامت كے دن آگ نہیں دیكھیں گی، وہ آنكھ جو اللہ كے ڈر سے روئی،
وہ آنكھ جس نے اللہ كے راستے میں پہرہ دیا، اور وہ آنكھ جس نے اللہ كی حرام كردہ چیزوں
كو نہیں دیكھا۔(صحیح البخاری)(1668)(المستدرک علی الصحیحین للحاکم)(257)
(2)وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ
انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أوعلم ينْتَفع
بِهِ أوولد صَالح يَدْعُو لَهُ)رَوَاهُ
مُسلم حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب انسان فوت ہو
جاتا ہے تو تین کاموں ، صدقہ جاریہ ، وہ علم جس سے استفادہ کیا جائے اور نیک اولاد
جو اس کے لیے دعا کرے ، کے سوا اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے ۔‘‘ رواہ
مسلم ۔(4567)
(4)وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( «آيَةُ
الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ» . زَادَ مُسْلِمٌ: «وَإِنْ
صَامَ وَصَلَّى وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ» . ثُمَّ اتَّفَقَا: «إِذَا
حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤتمن خَان»حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا :’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے ،
خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔‘‘ متفق علیہ ،
رواہ البخاری (۳۳) و مسلم ۔
(5)عن
سَلْمَان رضی اللہ عنہ قال: قال رَسُول
الله صلی اللہ علیہ وسلم : ثلاثةٌ لَايدخلونَ
الجنَّةَ: الشّيخُ الزّانِي، والإِمامُ الكذّابُ، والعائلُ المَزْهُوُّسلمان رضی اللہ عنہ كہتےہیں كہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔بوڑھا زانی،جھوٹاحكمران
اورمتکبرفقیر۔ (الحدیث نمبر 1756)
(7)عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ رضی
اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: (ثَلَاثٌ کُلُّہُمْ حَقٌّ عَلَی اللّٰہِ
عَوْنُہٗ: الْمُجَاہِدُفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَالنَّاکِحُ الْمُسْتَعِفُّ،
وَالْمُکَاتَبُ یُرِیْدُ الْاَدَائَ۔) (مسند احمد: ۷۴۱۰) ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں کی مدد
کرنا اللہ پر حق ہے:(۱)اللہ کی راہ میں جہاد کرنے
والا، (۲) پاکدامنی کے مقصد سے نکاح کرنے والا اور (۳) وہ مکاتَب غلام جو اپنی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو۔(کتاب
مسند احمد)( حدیث 7210)
(8)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ
النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ:«ثَلَاثَةٌ لَا تَقْرَبُهُمْ
الْمَلَائِكَةُ الجُنُبُ وَالسُّكْرَان وَالْمُتَضَمِّخُ بِالْخَلُوقِ.
عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:تین شخص ایسے ہیں
جن کے نزدیک فرشتے نہیں آتے۔ جنبی ،نشہ کرنے والا، اور خلوق، (ایک بوٹی کانام)سے
رنگنے والا(کتاب صحیح بخاری )(1804)(المعجم الکبیر للطبرانی)(5563)
(9)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قال:
ثَلَاثَةٌ كُلُّهُمْ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ: عِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَشُهُودُ
الْجنَازَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ إِذَا حَمِدَ اللهَ -عَزَّ وَجَلّ ابو
ہریرہرضی اللہ عنہ ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان كرتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ہر مسلمان پر لازم ہیں۔مریض كی عیادت كرنا، جنازے میں
حاضر ہونا، چھینكنے والا جب الحمدللہ كہے تو اسے جواب میں ‘‘یَرْحَمُکَ اللہُ
کہنا۔(کتاب مسند احمد۔حدیث نمبر8321)
(10) عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی
اللہ عنہ ، ثَلاثَةٌ لا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُمْ صَرْفٌ، وَلا عَدْلٌ: عَاقٌّ،
وَمَنَّانٌ، وَمُكَذِّبٌ بِقَدْرٍ. ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے : تین آدمی ایسے ہیں جن کے فرض و نفل اللہ
تعالیٰ قبول نہیں كرے گا:(والدین كا) نافرمان، احسان جتلانے والا، تقدیر كو جھٹلانے والا۔(صحیح
البخاری)(1785)(المعجم الکبیر للطبرانی)(7425)
ذیشان علی عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
مروی ہے کہ ایک طالب علم نے علماء
کرام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی :مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جس کے باعث میں
ہمیشہ نیکیاں حاصل کرتا رہوں کیونکہ مجھے یہ بات محبوب نہیں کہ رات اور دن میں مجھ
پر کوئی ایسا لمحہ آئے کہ میں اس میں نیک عمل نہ کر رہا ہوں ، اسے جواب دیا گیا کہ جس قدر ممکن ہو نیکی کرو جب تھک جاؤ تو نیک اعمال کی نیت کرو کیونکہ نیت کرنے
والا بھی نیک عمل کرنے والے کی مثل ہے ۔( احیا العلوم کتاب نیت اخلاص و صدق الباب
الاول فى نیت ج5 ص 89
تربیت
کی تعریف: وهي تبليغ الشيء الى كماله شيئا فشيئا( تفسیر بىضاوى)
تین اعمال پر جنت کی ضمانت :1: حدىث : حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے
مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو حق پر
ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑا نہ کرے میں اسے جنت کے ایک گوشے میں مکان کی ضمانت دیتا
ہوں اور جو مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اسے وسط جنت میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں اور
حسن اخلاق والے کو جنت کے اعلی درجے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں۔ ( ابو داؤد کتاب
الادب باب فی حسن خلق حدیث4800)
تین چیزوں
کا خوف: 3حدیث :حضرت سیدنا عمرو بن
عوف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میں نے اللہ کے پیارے حبیب کو ارشاد فرماتے
سنا کہ مجھے اپنے بعد امت پر تین چیزوں کا خوف ہے. صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول
اللہ وہ تین چیزیں کون سی ہیں ؟ارشاد فرمایا: عالم کی لغزش، حاکم کا فیصلہ ،اور
خواہش کی پیروی.(حلیۃ الاولیاء مترجم ج2 ص 21 مکتبۃ المدینہ)
: عرش کے سائے میں جگہ :
4حدیث :حضرت
جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالی اس
کو اپنے عرش کے نیچے اس دن سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا
1:تکلیفوں کے باوجود وضو کرنا اور 2:اندھیروں میں پیدل مسجد تک جانا اور3: بھوکے
کو کھانا کھلانا۔( بہشت کی کنجیاں مکتبۃ المدینہ ص90)
: تین قسم کے لوگ جنتی ہیں: سرکار والا اعتبار ہم بے کسوں کے مددگار صلی
اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگ جنتی ہیں وہ حاکم1 جو
عدل کرنے والا صدقہ کرنے والا2 اور کامل یقین ہو وہ شخص جو ہر مسلمان پر رحم دل
اور نرم دل ہو خواہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں3 اور وہ پاک دامن فقیر جو سوال کرنے سے
بچتا ہو۔( صحیح مسلم کتاب الجنۃ باب الصفات حدیث2865)
اللہ تعالی کی
پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تربیت
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین