جھوٹی گواہی
کی مذمت از بنت جہانگیر، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ
الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز
الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل
ان سب سے سوال ہونا ہے۔
تفسیر: جس
بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اس
کے بارے میں یہ نہ کہو میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ
نہ کہو میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق یہاں اس سے مراد ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔
یاد رہے! جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم فعل ہے، بلکہ ایک روایت میں ہے کہ جھوٹی
گواہی دینا شرک کے برابر ہے۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)
1۔ حدیث پاک میں ہے: قیامت کے دن جھوٹی گواہی دینے
والے کے قدم اپنی جگہ سے ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اس کے لیے جہنم واجب ہو جائے گی۔
(ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
2۔ حضور سیدِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں
تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین
کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات، نیز جھوٹی گواہی دینا بھی بڑا گناہ ہے۔ آپ اس
کلمہ کی تکرار فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے (دل میں کہا ) کاش آپ سکوت فرمائيں۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (
جھوٹی گواہی کے سبب 4 گناہوں کا ارتکاب: جھوٹی
گواہی دینے والا کئی بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے جن میں سے چار درج ذیل ہیں۔
پہلا گناہ: جھوٹ
اور بہتان جس کی مذمت میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ(۲۸) (پ:
24، المؤمن: 28) ترجمہ کنز الایمان: بےشک الله راہ نہیں دیتا اسے جو حد سے بڑھنے
والا بڑا جھوٹا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: مومن کی فطرت میں جھوٹ اور خیانت کے سوا ہر
خصلت ہو سکتی ہے۔ ( مسند امام احمد، 8/276، حدیث:22232)
دوسرا گناہ: جھوٹی
گواہی دینے والا جس کے خلاف گواہی دیتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے حتیٰ کہ اس کی جھوٹی
گواہی کی وجہ سے اس کا مال عزت اور جان سب کچھ چلا جاتا ہے۔
تیسرا گناہ: جس
کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے اس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اس گواہی کے ذریعے اس تک
مال حرام پہنچتا ہے اور وہ گواہی کے ذریعے اسے لے لیتا ہے تو اس کے لیے جہنم واجب
ہو جاتا ہے۔ مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لئے میں اس کے بھائی کے
مال میں سے کچھ فیصلہ کردوں حالانکہ وہ حق پر نہ ہو تو اس کو چاہیے اس کو نہ لے
کیونکہ اس کے لئے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹا گیا ہے۔ (سنن کبریٰ،10/427، حدیث: 21201)
چوتھا گناہ: جھوٹے
گواہ نے اس مال، خون اور عزت کو جائز ٹھہرا لیا جسے الله پاک نے حرمت و عصمت عطا
کی تھی۔ حضور جانِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال، خون
اور عزت حرام ہے۔ (مسلم، ص 1386، حدیث: 2564)
الله کریم ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے اور اپنی رضا و
خوشنودی والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جھوٹی گواہی
کی مذمت از بنت سید حسنین شاہ، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اللہ کے بندوں کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے
کہ وہ جھوٹ کی مجلس میں، جھوٹ کی محفل میں، جھوٹی گواہی میں شریک نہیں ہوتے، آج ہم
اپنا جائزہ لیں تو یقینا ہم میں ہر شخص عبد الرحمٰن بننے کا شوق رکھتا ہے اور یہ
شوق ہونا بھی چاہیے، لیکن یہ اس وقت پورا ہوگا جب ہم عباد الرحمٰن کے دو اوصاف کو
اپنے آپ میں جمع کرنے کی کوشش کریں گے اور ان اوصاف کے ساتھ متصف ہوں گے جو عبد الرحمٰن
کی پہچان کراتے ہیں۔ رحمٰن کے بندوں کی بڑی شان یہ ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے
اور جھوٹی مجلسوں میں نہیں جاتے۔
جھوٹی گواہی سے متعلق فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
اس پر جہنم واجب کر دے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123، حدیث:
3373)
2۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان کا مال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہہ جائے تو اس نے (اپنے اوپر) جہنم کو واجب کر لیا۔ (
معجم کبیر، 11/172، حدیث: 11542)
3۔ جو کوئی مسلمان کسی کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس
پر الزام عائد کرے تو اللہ اسے جہنم کے پل پر روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے
مطابق عذاب پالے۔(ابو داود، 4/354، حدیث: 4883)
4۔ کبیرہ گناہ یہ ہے: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، 4/ 358،
حدیث: 6871)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہیوں کی محفل
میں جانے سے اور جھوٹی گواہی دینے سے بچائے۔
جھوٹی گواہی دینا کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام
لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ لیکن افسوس آج کل جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام
سمجھا جاتا ہے۔ الله پارہ 17 سورۂ حج کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ
الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔
جھوٹی گواہی کے بارے میں چند احادیث مبارکہ بھی
ملاحظہ فرمائیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ کبیرہ گناہ یہ ہے: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، 4/ 358،
حدیث: 6871)
2۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اس
پر الله جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر
لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث: 11541)
4۔ جو شخص لوگوں کو یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ
بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں تو وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے۔ (سنن کبری،
6/136، حدیث: 11444)
احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹی گواہی
دینا کبیرہ گناہوں سے ایک گناہ ہے، جبکہ الله کے بندوں کی خصوصیات میں سے جھوٹی
گواہی سے اجتناب کرنا ہے۔
اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے محفوظ فرمائے
اور ہمیں اپنے اعضا کو الله اور رسول کی رضا، اطاعت اور خوشنودی والے کاموں میں
استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
یوں تو ہر جھوٹی بات حرام و گناہ ہے، مگر جھوٹی
گواہی خاص طور سے بہت ہی سخت گناہ کبیرہ اور جہنم میں گرا دینے والا جرم عظیم ہے، کیونکہ
قرآن و حدیث میں خصوصیت کے ساتھ جھوٹی گواہی پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ دوسری قسموں کے جھوٹ سے تو صرف جھوٹ بولنے والے ہی کی دنیا آخرت خراب
ہوتی ہے مگر جھوٹی گواہی سے تو گواہی دینے والے کی دنیا و آخرت خراب ہونے کے علاوہ
کسی دوسرے مسلمان کا حق مارا جاتا ہے یا بلا قصور کوئی مسلمان سزا پاتا ہے اور
ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں شرعاً بڑے گناہ کے کام ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ پاک نے اپنے خاص بندوں کی فہرست
بیان فرماتے ہوے ارشاد فرمایا: (پ 19، الفرقان: 72) ترجمہ کنز الایمان: اور
جوجھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بے ہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے
ہیں۔ لہذا بہت ضروری ہے کہ مسلمان جھوٹی گواہی کو جہنم کی آگ سمجھ کر ہمیشہ اس سے
دور بھاگیں۔ اب احادیث کی روشنی میں جھوٹی گواہی کی مذمت ملا حظہ فرمائیں۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ حضور ﷺ نے بڑے بڑے گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی بھی گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا جرم ہے۔ (بخاری،
4/ 358، حدیث: 6871)
2۔ حضور اکرم ﷺ سے کسی نے عرض کی کہ کیا مومن بزدل
ہوتا ہے؟ تو حضور نے فرمایا: ہاں۔ پھر کسی نے عرض کی کہ کیا مومن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا:
ہاں۔ پھر کسی نے پوچھا مومن جھوٹا ہوتا ہے؟ تو فرمایا: نہیں۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/196،
حدیث: 4862)
3۔ تم لوگ جھوٹ بولنے سے بچتے رہو، کیونکہ جھوٹ
بدکاری کا راستہ بتاتا ہے اور بدکاری جہنم کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور آدمی ہمیشہ
جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم، ص
1405، حدیث: 2607)
اللہ پاک ہم سب کو جھوٹی گواہی دینے سے بچائے۔ اور
ہمارا شمار صدیقین میں سے ہو نہ کہ کذابین میں۔
شریعت مطہرہ نے ہمیں جن امور سے منع کیا ہے ان میں
سے ایک جھوٹی گواہی دینابھی ہے جھوٹی گواہی سے معاشرے میں برائی کی فضا پھیلتی ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر ان کے بعد،
پھر وہ جو ان کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی
اور قسم گواہی پر، یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔ (بخاری، 2/193،
حدیث: 2652)
2۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم
اوسط، 3/156، حدیث: 4167)
3۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
پاک اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
4۔ جو لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ
بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے۔ (سنن کبریٰ، 6/
136، حدیث: 11444)
5۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال
ہلاک ہوجائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا
جاتا ہے جس کا جو دل کرے وہ دوسروں پر الزام لگاتا اور بدلے میں جھوٹی گواہی کا
سہارا لیتا ہے، ایسا کرنا سخت مذموم عمل ہے، چاہیے کہ رب تعالیٰ کا خوف کرتے ہوئے
ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا جائے، کیونکہ جھوٹی گواہی فتنے فساد اور بہت سی
معاشرتی برائیوں کا سبب بنتی ہے۔ الله رب العزت قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (پ15،
بنی اسرائیل:36) ترجمہ: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں کان اور
آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مراد یہ
ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس
بات کو نہ سنا ہو اس کے بارے یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے
مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت عباس رضی الله عنہ نے فرمایا: اس سے مراد
یہ ہے کہ کسی پر وہ عیب نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623) جھوٹی گواہی کی مذمت پر
احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: الله پاک کے ساتھ شریک کرنا،
ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/358،
حدیث: 4871)
2۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ الله
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر
لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث:11541)
4۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے وہ الله تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136،
حدیث: 11444)
5۔ رسول الله ﷺ نے نمازِ صبح پڑھ کے قیام کیا اور
فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے برابر کر دی گئی۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)
ان احادیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی
نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے اور
ایسا کرنے والا جہنم کا حقدار ہے۔
الله پاک
ہمیں جھوٹی گواہی سے محفوظ فرمائے اور ہمیشہ سچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے کی
توفیق عطا فرمائے۔
جھوٹی گواہی نہایت برا فعل ہے اس کی بیماری ہمارے
معاشرے میں بہت عام ہے گویا جھوٹ بولنا گناہ ہی نہ ہو، حالانکہ قرآن مجید و احادیث
مبارکہ میں اس کی بے شمار وعیدیں موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ
الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم
اوسط، 3/156، حديث:4167)
2۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو
جائے۔ (سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)
3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کر لی۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
4۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
5۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کریم کے ساتھ شریک کرنا،
ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
اللہ کریم ہمیں جھوٹ جیسی بری بیماری سے محفوظ فرمائے
اور سچ بولنے والا بنائے۔ آمین
جھوٹی گواہی ایک بہت بڑا گناہ ہے اس سے ہر کسی کو
بچنا چاہیے کہ قرآن و احادیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ
الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ دو شخصوں
نے میراث کے متعلق حضور ﷺ کی خدمت میں دعویٰ کیا اور گواہ کسی کے پاس نہ تھے ارشاد
فرمایا: اگر کسی کے موافق اس کے بھائی کی چیز کا فیصلہ کردیا جائے تو وہ آگ کا
ٹکڑا ہے، یہ سن کر دونوں نے عرض کی: یا رسول الله! میں اپنا حق اپنے فریق کو دیتا
ہوں۔ فرمایا: یوں نہیں بلکہ تم دونوں جاکر اسے تقسیم کرو پھر قرعہ اندازی کرکے
اپنا اپنا حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے سے معافی کرالے۔ (سنن کبریٰ،10/427، حدیث: 21201)
2۔ مروی ہے کہ دو شخصوں نے ایک جانور کے متعلق دعویٰ
کیا ہر ایک نے اس بات پر گواہ کئے کہ میرے گھر کا بچہ ہے، رسول الله ﷺ نے اس کے موافق
فیصلہ کیا جس کے قبضہ میں تھا۔ (شرح السنۃ، 5/343، حدیث: 2498)
3۔ حضور ﷺ کے زمانہ اقدس میں دو شخصوں نے ایک اونٹ
کے متعلق دعویٰ کیااور ہر ایک نے گواہ پیش کیے حضور نے دونوں کے مابین نصف نصف
تقسیم فرمادیا۔ (ابو داود، 3/434، حدیث: 3615)
4۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر ان کے بعد،
پھر وہ جو ان کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی
اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہونگے۔ (بخاری، 2/193،
حدیث: 2652)
5۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے، یہ حرام اور بہت برا کام
ہے، جھوٹ بولنا اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور اس سے
کسی کی دل آزاری بھی ہوسکتی ہے، کسی کا مال ضائع ہوسکتا ہے، کسی کی حق تلفی ہوسکتی
ہے۔ اللہ پاک نے جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی سے منع فرمایا ہے، چنانچہ قرآن پاک
میں ارشاد ہوتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ
الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ
غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز
الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس
کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ جھوٹی گواہی کے متعلق احادیث مبارکہ میں مذمت آئی
ہے۔ چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ پھر جو ان کے بعد
ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ انکی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی
گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔ (بخاری، 2/193، حديث:2652)
2۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلمان کا
مال ہلاک ہوجائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ پاک کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہوجائے۔ (سنن کبری، 6/136،
حدیث: 11444)
4۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا،
ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ سے بچائے۔ آمین۔
جھوٹ بولنا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام
ہے، اللہ پاک نے زندگی گزارنے کے طریقے قرآن کریم میں واضح کر دیئے ہیں۔ جھوٹ
بولنا گناہ ہے تو جھوٹی گواہی دینا کس قدر سخت جرم ہوگا جس کے ساتھ مزید گناہ بھی
جنم لیتے ہیں، جیسا کہ جھوٹی گواہی دینے سے جھوٹ، حسد، کینہ،بہتان، تہمت، دل آزاری،
عزتِ نفس کا مجروح کرنا وغیرہ گناہوں کا دروازہ کھلتا ہے، اس ایک گناہ کو نہ کرنے
سے انسان دوسرے کئی گناہوں سے بھی بچ سکتا ہے۔ آئیے اس کبیرہ گناہ سے بچنے کے
متعلق ہمارا رب کیا فرماتا ہے جانتی ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ
اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ- (پ 3، البقرۃ: 283) ترجمہ کنز الایمان: اور گواہی
نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے۔ احادیث مبارکہ
میں بھی اس کی وعید آئی ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ ظاہر کرتے ہوئے چلا کر یہ
بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا
نہ ہو جائے۔ (سنن كبرىٰ، 6/ 136، حديث: 14441)
2۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم
اوسط، 3/156، حديث:4167)
3۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/ 123، حديث: 2373 )
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
5۔ سن لو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا بڑے
گناہ ہیں۔ (بخاری، 4/ 358،
حدیث: 6871) احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹی گواہی کی
مذمت آپ نے ملاحظہ کی تو نیت کر لیجئے کی نہ ہی جھوٹ بولنا ہے اور نہ ہی جھوٹی
گواہی دیں گے۔ ہمیشہ سچ بولیں گے اور سچ کا ساتھ دیں گے۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ہر کبیرہ و صغیرہ
گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جھوٹی گواہی یعنی کوئی شخص جان بوجھ کر ایسی چیز کی
گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا ہے یا جس چیز کی گواہی دیتا ہے وہ حقیقت کے برخلاف ہو۔
جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں
کاوصف ہے۔ جھوٹی گواہی گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ ہے جس کے معنی حقیقت کے
برخلاف گواہی دینا ہے۔ فقہا نے آیات اورروایات سے استدلال کرتے ہوئے جھوٹی گواہی
دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ
لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ
الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز
الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل
ان سب سے سوال ہونا ہے۔ جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ
جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات
کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے
مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت عبد الله بن عباس ضی اللہ عنہما نے فرمایا:
اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623) تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے
کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے
اقوال کی ممانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، 5 / 187) آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی
میں جھوٹی گواہی کی مذمت سنتےہیں:
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/ 123،
حدیث: 2373)
2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ ( بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہو جائے۔ (سنن كبرىٰ، 6/136، حدیث: 11444)
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کامال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر ) جہنم کا عذاب واجب کر
لیا۔ (معجم كبير، 11/172، حدیث: 11541)
5۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی
چھپائی یعنی گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم اوسط،
3/156، حديث:4167)اس فرمانِ عالی کے کئی مطالب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ کسی کے پاس
مدعی کے حق کی گواہی ہو اور مدعی کو اس کا علم نہ ہو اور یہ گواہی نہ دے اور مدعی ناحق
مارا جائے تب اس پر لازم ہےکہ خود مدعی کو خبر دے کہ میں خود تیرے حق کا عینی گواہ
ہوں تاکہ اس کا حق نہ مارا جائے۔ دوسرا یہ کہ حقوق شرعیہ کی گواہی دینا واجب ہے اگرچہ
اس کا دعویٰ نہ ہو جیسے طلاق۔ ( مراۃ المناجیح، 5/397)
اللہ کریم ہمیں ہمیشہ ہر حال میں سچ کا دامن تھامے
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جھوٹ کے سہارا لینے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اور
اپنے سچے محبوب ﷺ کی رضا و خوشنودی والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر کئی گناہ بے باکی کے
ساتھ ہور ہے ہیں جھوٹی گواہی بھی اسی طرح عام ہے لوگ بے دھڑک اس کبیرہ گناہ کا
ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا
یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲) (پ
19، الفرقان: 72) ترجمہ کنز الایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ
پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔ جھوٹی گواہی دینے والا کئی کبیرہ
گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ پہلا گناہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ دوسرا گناہ یہ کہ جھوٹی
گواہی دینے والا جس کے خلاف گواہی دیتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے حتیٰ کہ اس کی جھوٹی
گواہی کی وجہ سے اُس کا مال، عزت اور جان سب کچھ چلا جاتا ہے۔ تیسرا گناہ کہ جس کے
حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے اس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اس کے ذریعے اس تک مال حرام
پہنچتا ہے اور وہ اس گواہی کے ذریعے اسے لیتا ہے تو اس کے لیے جہنم واجب ہو جاتا
ہے۔ چوتھا گناہ یہ کہ جھوٹے گواہ نے اس مال، خون اور عزت کو جائز ٹھہرایا جسے اللہ
نے حرام قرار دیا تھا۔ احادیث میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے
بڑے گناہوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی
نافرمانی کرنا۔ سنو! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی دینا بھی بڑا گناہ ہے۔ آپ اس کلمہ
کی تکرار فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے (دل میں کہا) کاش آپ سکوت فرمائیں۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (
2۔ حضور ﷺ کے پاس دو شخص حاضر ہوئے ایک حضرموت سے
اور ایک قبیلہ کندہ سے، حضر موت والے نے کہا: یارسول الله! اس نے میری زمین
زبردستی لے لی، کندی نے کہا: وہ زمین میری ہے اور میرے قبضہ میں ہے اُس میں اس شخص
کا کوئی حق نہیں۔ حضور نے حضرموت والے سے فرمایا: کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ عرض کی:
نہیں۔ فرمایا: تو اب اس پر حلف دے سکتے ہو؟ عرض کی: یا رسول الله! یہ شخص فاجر ہے
اس کی پر وا بھی نہ کرے گا کہ کس چیز پر قسم کھاتا ہے ایسی باتوں سے پر ہیز نہیں
کرتا، ارشاد فرمایا اس کے سوا دوسری بات نہیں، جب وہ شخص قسم کے لئے آمادہ ہوا، ارشاد
فرمایا: اگریہ دوسرے کے مال پر قسم کھائے گا کہ بطور ظلم اس کا مال کھا جائے تو خدا
سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس سے اعراض فرمانے والا ہے (یعنی اس کی طرف نظر رحمت
نہیں فرمائے گا)۔ (مسلم، 84، حدیث: 223)
3۔ جس کے لیے میں اس کے بھائی کے مال میں سے کچھ
فیصلہ کر دوں حالا نکہ وہ حق پر نہ ہو تواس کو چاہیے کہ اس کو نہ لے کیونکہ اس کے
لئے ایک آگ ٹکرا کاٹاگیا ہے۔ (سنن کبریٰ،10/427، حدیث: 21201)
4۔ قیامت کے دن جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی
جگہ سے ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اس کے لئے جہنم واجب ہو جائے گی۔ (ابنِ ماجہ، 3/123،
حدیث: 2373)
5۔ جھوٹی
گواہی دینا شرک کے برابر ہے۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)
الله پاک ہمیں اس کبیرہ گناہ سے امان عطا فرمائے۔
آمین
Dawateislami