فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے جس کا جو دل کرے وہ دوسروں پر الزام لگاتا اور بدلے میں جھوٹی گواہی کا سہارا لیتا ہے، ایسا کرنا سخت مذموم عمل ہے، چاہیے کہ رب تعالیٰ کا خوف کرتے ہوئے ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا جائے، کیونکہ جھوٹی گواہی فتنے فساد اور بہت سی معاشرتی برائیوں کا سبب بنتی ہے۔ الله رب العزت قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (پ15، بنی اسرائیل:36) ترجمہ: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو نہ سنا ہو اس کے بارے یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت عباس رضی الله عنہ نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ عیب نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623) جھوٹی گواہی کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: الله پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 4871)

2۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ الله تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث:11541)

4۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے وہ الله تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)

5۔ رسول الله ﷺ نے نمازِ صبح پڑھ کے قیام کیا اور فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے برابر کر دی گئی۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)

ان احادیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے اور ایسا کرنے والا جہنم کا حقدار ہے۔

الله پاک ہمیں جھوٹی گواہی سے محفوظ فرمائے اور ہمیشہ سچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔