جیسے ہر انسان کے حقوق ہیں۔ ہمسایوں کے حقوق ہوتے ہیں، بیوی اور شوہر
کے حقوق ہوتے ہیں مہمانوں کے حقوق ہوتے ہیں، یوں ہی نوکروں اور غلاموں کے بھی حقوق
ہوتے ہیں۔
احادیث مبارکہ:
1️۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
وہ اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ غلام نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں آپ
نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ پھر غلام نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کی پناہ مانگتا
ہوں تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم
پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ پھر میں
نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905، حديث: 1659)
2️۔ اگر نوکر بیمار ہو تو اس سے اتنا زیادہ کام نہ
کروایا جائے نہ ہی اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے۔ 3۔ اگر اس کی کوئی
بات ایسی ہو جو ناگوار گزری ہو یا بری لگی ہو تو اسے اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف
کر دے۔
4۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے
تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو
کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح
کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ
تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
جس طرح الله پاک نے سب کے حقوق فرض کیے ہیں اسی طرح
الله پاک نے نوکر و ملازم کے حقوق بھی فرض فرمائے ہیں، مالک پر اپنے نوکر و
ملازموں کے بنیادی طور پر تین حق ہیں: کھانا، کپڑا اور طاقت سے زیادہ کام نہ کرانا۔
کام ان سے ان کی طاقت کے مطابق لیا جائے، زیادہ مشکل کام کا حکم نہ دیا جائے اگر
ضرورتاً ایک دو دن مشکل کام کرا لیا جائے تو جائز ہے اور سب سے اعلیٰ اور اچھا
اخلاق اور رحم دلی کی یہ بات ہے کہ وہ مشکل کام جو غلام یا ملازموں کو دیا ہے خود
بھی ان کے ساتھ مل کر کرے۔
نوکر و ملازم کے حقوق سے متعلق احادیث مبارکہ میں
بھی کثرت سے ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول الله ﷺ نے فرمایا: غلام کے لیے اس کا کھانا کپڑا ہے اور اسے اس قدر کام کی
تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
2۔ جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ
کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے
کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے
رکھ دے۔ یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل ہیں یعنی اگر کھانا کافی
ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھلائے اسے ساتھ
بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے جب مسجد اور قبرستان میں
امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا ہوں تو کیا حرج ہے۔ (مراۃ
المناجیح، 5/162)
3۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس ایک خزانچی آیا تو
آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا، بولا نہیں۔ فرمایا:
جاؤ انہیں دے دو، کیونکہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے یہی گناہ بہت
ہے کہ مملوک سے اس کا کھانا روکے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ انسان کے لیے کافی
گناہ یہ ہے کہ اسے ہلاک کر دے جس کو روزی دیتا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/161)
4۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو
القاسم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے وہ اس سے بری ہو تو
قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر یہ واقعی وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ
المناجیح، 5/163)
الله پاک ہمیں اپنے منصب کے مطابق اپنے فرائض اور
دوسروں کے حقوق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی معنوں میں حضور جانِ
جاناں ﷺ کا عشق عطا فرمائے۔
ہمارے پیارے اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے
والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ کسی
کا ماتحت یا نگران ہونا وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں ہمارے معاشرے
میں ملازمین پر سختی کرنے، انہیں مارنے یہاں تک کہ جلا دینے تک کے واقعات سامنے
آرہے ہیں، ملازم کی ذرا سی بات پر لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، چاہیے کہ ملازمین
سے بھی حسنِ سلوک کرے اس کی غلطیوں کو نظر انداز کرے اور اچھے کام پر تعریف کرے۔
احادیث مبارکہ میں ملازم و نوکر کے حقوق بیان کیے
گئے ہیں، چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود!
سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اس پر ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر
دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے، میں نے عرض کیا: یا رسول الله یہ آزاد ہے الله کی
راہ میں۔ تب رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ
پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)
2۔ حضرت ابنِ عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول
الله ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص کو میں قیامت کے دن مشک کے ٹیلوں پر گمان کرتا ہوں:
ایک وہ بندہ جس نے الله کا حق ادا کیا اور اپنے مالک کا۔ دوسرا وہ شخص جس نے اپنی
قوم کی امامت کی اور وہ راضی ہیں۔ تیسرا وہ شخص جو دن اور رات پانچ نمازوں کی اذان
دیتا ہے۔ (ترمذی، 3/397،حدیث: 1993)
3۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو
القاسم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے اور وہ اس سے بری ہو
تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے، مگر یہ کہ واقعی وہ وہی ہو جو اس نے کہا۔
(مراۃ المناجیح، 5/163)
4۔ جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ
کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے
کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے
رکھ دے۔یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل ہیں یعنی اگر کھانا کافی
ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھلائے اسے ساتھ
بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے، جب مسجد اور قبرستان میں
امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا ہوں تو کیا حرج ہے۔(مراۃ
المناجیح، 5/162)
رب تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں حقوق العباد
بالخصوص ملازم و نوکر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارا سینہ پیارے آقا
ﷺ کی محبت میں میٹھا میٹھا مدینہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین
اسلام ہمیں جہاں بھائی چارے کا درس دیتا ہے وہیں اپنے
سے وابستہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی اہمیت پر بھی بہت زور دیتا ہے، جہاں ماں باپ،
رشتے داروں، پڑوسیوں کے حقوق ہوتے ہیں وہیں نوکر و ملازم کے بھی حقوق ہوتے ہیں جو
ہم پر عائد کیے گیے ہیں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں نوکر و ملازم کے حقوق:
1️۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: غلام کے لیے اس کا
کھانا کپڑا ہے اور اسے اس قدر کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ یعنی
مولیٰ پر غلام و لونڈی کا بقدر ضرورت درمیانی کھانا کپڑا واجب ہے، ہمیشہ کے لیے
مشکل کام کا حکم نہ دے ہاں مگر ضرورتاً ایک دو دن مشکل کام کروا لیا کرو۔(مراۃ
المناجیح، 5/160)
2️۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے بھائی ہیں
جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے قبضے میں دے دیا تو جسے اللہ اس کے بھائی کا مالک بنا
دے تو اسے اس میں سے کھلائے جو خود کھائے اور اس سے پہنائے جو خود پہنے اور اسے اس
کام کی تکلیف نہ دے جو اس پر غالب آجائے اور اگر اسے غالب کام کی تکلیف دے تو اس
پر اس کی مدد کرے۔ (بخاری، 2/158، حدیث: 2545)
3️۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس ایک خزانچی آیا تو
آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا، بولا نہیں۔ فرمایا:
جاؤ انہیں دے دو، کیونکہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے یہی گناہ بہت
ہے کہ مملوک سے اس کا کھانا روکے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ انسان کے لیے کافی
گناہ یہ ہے کہ اسے ہلاک کر دے جس کو روزی دیتا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/161)
4۔ جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے کیا ہی
نہیں یا اسے طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ یعنی بے قصور
مارے پیٹے، حد سے مراد صرف شرعی حد نہیں بلکہ ہر سخت مار پیٹ ہے اور طمانچہ سے
مراد ظلماً مارنا ہے۔(مراۃ المناجیح، 5/164)
5۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود!
سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اس پر ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر
دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے، میں نے عرض کیا: یا رسول الله یہ آزاد ہے الله کی
راہ میں۔ تب رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ
پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)کیونکہ
یہ تمہارا مملوک ہے مگر تم اللہ کریم کے مملوک بھی ہو اور مخلوق بھی اور بندے بھی،
جب وہ تمہارے گناہ دیکھتے ہوئے تمہاری روزی بند نہیں فرماتا ہر طرح تم پر کرم
فرماتا ہے معافی دیتا ہے تو تم بھی اپنے مملوک کو معافی دو۔
اللہ کریم ہمیں دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنے اور
ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مالک کے اپنے غلام ( ملازم ) پر بہت سے حقوق ہیں۔
اسلام ایک ایسا پیارا مذہب ہے جس نے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔ اسی طرح غلام کے بھی
کچھ حقوق مقرر کیے گئے ہیں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ غلام کے لیے اس کا کھانا کپڑا ہے اور اسے اس قدر
کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
2۔ جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور
اللہ کی عبادت اچھی طرح کرے تو اسے دگنا ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/ 162 )
3۔ جو آقا اپنے
غلام کو تہمت لگائے وہ اس سے بری ہو تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر
یہ کہ واقعی وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ المناجیح، 5/163)
الله پاک ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور
ان کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جس طرح شریعت مطہرہ نے ہماری ہر قدم پر راہنمائی
فرمائی ہے اسی طرح نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں۔
ماتحت کا خیال رکھیے:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غلام کیلئے اس کا کھانا، کپڑا
ہے، اسے اس قدر کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
ماتحت کو کھانا
کھلانا: جب
کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں
برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے کہ وہ بھی کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا
ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)
تہمت لگانے سے بچیں:
جو
آقا اپنے غلام کو تہمت لگائے،وہ اس سےبری ہو تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں
گے مگر یہ کہ واقعی وہ وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ المناجیح، 5/163)
ماتحت کو مارنا: جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو
جرم اس نے نہیں کیا یا اسے طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ
المناجیح، 5/164)
غلام کو مارنے سے
ڈرئیے: حضرت
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں
نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود! سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر
ہے جتنے تم اس پر ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے، میں نے عرض
کیا: یا رسول الله یہ آزاد ہے الله کی راہ میں۔ تب رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تم
ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)
اللہ پاک ہمیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی کرنے والا
بنائے۔ آمین
اسلام کا یہ حُسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو
ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ
تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیت انسان
سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام
انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔
نوکروملازم کے حقوق:
1۔ بروقت وظیفہ کی ادائیگی: ماتحتوں کو
وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد
وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی اور کٹوتی بددیانتی، ظلم
اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے۔ حدیث قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے: تین
شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا) ان میں سے
ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت پوری
نہ دے۔ (مسند امام احمد، 3/ 278، حدیث: 8700 ملتقطاً)
2۔ شفقت و مہربانی: ماتحتوں کے
ساتھ شفقت و مہربانی کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے
تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے
بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام
میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح
کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
3۔ نرمی کرنا: ماتحتوں سے بتقاضائے بشریت کوئی
غلطی یا نقصان ہو جائے تو درگزر کیا جائے۔ موقع محل کی مناسبت سے درست طریقے سے
تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے لیکن ان کو ہدفِ تنقید بنالینا،
کھری کھری سنانا، ذلیل کرنا اور معمولی غلطیوں پر بھی گرفت کرنا سخت ناپسندیدہ عمل
ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک نے نبی پاک ﷺ سے عرض کیا: اپنے خادم کی غلطیاں
کس حد تک معاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے
پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ہر روز 70 بار۔ (ابو داود، 4/ 439، حدیث: 5164)
4۔ ہميشہ حسنِ سلوک کرنا: ماتحتوں سے
ہمیشہ نیکی اور بھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ صاحب منصب یا جس سے کام ہو اس سے تو
اچھے انداز میں پیش آیا ہی جاتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اپنے تنخواہ دار ملازم کے
ساتھ بھی ہمیشہ حُسن سلوک کیا جائے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے، اچھے طریقے
سے خیر خیریت دریافت کی جائے اور مشکلات میں حسب استطاعت مدد کی جائے۔ رسولِ خدا ﷺ
نے فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بدخلقی سے پیش آنا بد بختی
ہے۔ (ابوداود، 4/ 439، حدیث: 5163)
5۔ خادم پر مال خرچ کرنا: خادم کی
ضروریات پوری کرنے کے لیے مال خرچ کرنا صدقہ ہے جس کا اجر اللہ تبارک و تعالیٰ کے
ہاں محفوظ ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے خدام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں انفاق کرو۔ تو ایک شخص نے حضور اکرمﷺ
سے کہا میرے پاس ایک دینار ہے میں اس کو کیسے خرچ کروں؟ تو حضور اکرمﷺ نے
فرمایا:اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ فرمایا: اپنی
بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ فرمایا: اپنے خادم
پر خرچ کرو، اس کے بعد اپنی بصیرت سے انفاق کی ترتیب وترجیح طے کرلو۔ (الاحسان،
5/141، حدیث:3326)
اللہ پاک ہمیں ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہماری شریعت مطہرہ نے جہاں ہمیں والدین و ہمسائیوں
وغیرہ کے حقوق کی بجا آوری کا حکم دیا ہے وہیں ہماری ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی
رہنمائی فرمائی ہے۔
احادیث کی روشنی میں ملازمین کے حقوق:
1۔ حسن سلوک سے پیش آیا جائے: آقا ﷺ نے
غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور برے سلوک سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد
فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بد خلقی سے پیش آنا بد بختی
ہے۔ ( ابو داود، 4/ 439، حدیث:5163)
2۔ وقت پر اجرت: مزدور کی مزدوری وقت پر ادا
کرنا اس کے حقوق میں سے ہے، اس کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: مزدور کا پسینہ
خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔ (ابن ماجہ، 3/162، حدیث: 2443)
3۔ طاقت کے مطابق بوجھ ڈالے: مزدور پر اس
کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے مگر اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے اتنا
ہی کام لینا چاہیے جتنا کام کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہو۔
4۔ خطاؤں سے درگزر: مالک کو چاہیے
کہ وہ غلام کی غلطیاں معاف کر دے اور پیار اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے سمجھائے
اور یہ سوچے کہ یہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، نقل کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے آقا
ﷺ سے عرض کیا کہ اپنے غلام کی غلطیاں کس حد تک معاف کر دینی چاہئیں؟ اس نے دوبارہ
پوچھا:حضور خاموش رہے پھر تیسری بار اس نے پوچھا تو ارشاد فرمایا: ہر روز ستر بار۔
(ابو داود، 4/ 439، حدیث: 5164) لہٰذا اگر نوکر سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے معاف
کر دینا چاہیے اور سزا نہیں دینی چاہیے، پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: معاف کرنے
سے عزت بڑھتی ہے اور عاجزی کرنے سے مرتبے بلند ہوتے ہیں۔ (مسلم، ص 1398، حدیث:
6588)
5۔ ضروریات کا خیال: اس کی تمام
ذاتی ضروریات کا لحاظ رکھا جائے اس کی مدد کرنے میں کنجوسی سے کام نہ لیا جائے۔
اللہ پاک ہمیں تمام حقوق احسن طریقے سے ادا کرنے کی
توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
اللہ پاک کی بارگاہ میں حقوق کے اعتبار سے سب انسان
برابر ہیں اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی
ہو۔ خادم،آقا،ملازم،مالک یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔
حقوق:
1۔ اجرت کی بروقت
ادائیگی: ملازم
کی طے شدہ اجرت کی ادائیگی بروقت اداکرنی چاہیئے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی
پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح عموماً لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی
تنخواہ میں کٹوتی کرلیتے ہیں ایسانہیں کرنا چاہیئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے
دے دو۔ (ابن ماجہ، 3/162، حدیث: 2443)
2۔ عفو و درگزر سے کام لینا: دنیا
میں ہر انسان بتقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے، گھریلو ملازم، خادم کا چونکہ دن رات کا
بیشتر حصہ ہماری خدمت گزاری میں وقف ہے اور حتى الامکان آرام پہنچانے میں مصروف
عمل رہتے ہیں ایسے میں اگر ملازم سے کوئی غلطی ہوجائے تو تحمل سے کام لیتے ہوئے درگزر
سے کام لینا چاہیئے اگر اسے کوئی پریشانی ہو تو اسے دور کرنا چاہیئے۔ حضرت ابی
سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی اپنے خادم کو
مارے اور پھر اللہ کو یاد کرے اس کو چاہئے فوراً اپنا ہاتھ اٹھالے۔ (مراۃ المناجیح،
5/167)
3۔ سختی کرنے کی ممانعت: ہمارے
معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر سختی کرنے، زدو کوب کرنے،
یہاں تک کہ جلا دینے تک کے واقعات سامنے آتے ہیں، ان مظلوم ملازمین پر ڈھایا جانے
والا ہر ظلم تشدد، زیادتی اور سختی دائیں اور بائیں کاندھوں پر بیٹھے کراماً کاتبین
لکھ رہے ہوتے ہوتے ہیں۔ بروز قیامت ان سب واقعات پر مشتمل نامہ اعمال اللہ کی
بارگاہ میں پیش ہوگا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آخرت کی جزا اور سزا اعمال سے مربوط
ہے۔ منقول ہے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک
معاف کرنی چاہئے اس نے دوبارہ پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر
ارشاد فرمایا: ہر روز ستر بار۔ ( ابو داود، 4/439، حدیث:5164)
4۔ ہمیشہ حسن سلوک
کرنا: ماتحتوں
سے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے، کسی بڑے منصب یا جس سے کام ہو اس
سے تو اچھے انداز سے پیش آیا جاتا ہے مگر کمال یہ ہے کہ تنخواہ دار ملازم کے ساتھ
بھی ہمیشہ حسن سلوک کیا جائے ان کے ضروریات کا خیال رکھا جائے، آقا ﷺ نے ارشاد
فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی ہے اور بد خلقی سے پیش آنا بدبختی
ہے۔(ابو داود، 4/ 439، حدیث:5163)
اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو ملازمین، خادمین اور
دیگر زیرِ کفالت افراد کے ساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان کے جملہ حقوق کو احسن
طریقے سے پورا کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہمیں رحم کرنے اور درگزر کرنے اور معاف
کرنے کی صفت پیدا فرمائے آمین۔
اسلام کا ہی یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ان
کے ماتحتوں اور مملوکوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤکرنے کی تعلیم دیتا ہے اسلام ہی یہ
درس دیتا ہے کسی کا ماتحت ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ انسان ہونے کی حثیت سے سب
برابر ہیں۔ احادیث مبارکہ کی رو سے نوکر و ملازمین کے حقوق ملاحظہ فرمائیں۔
ملازم کے حقوق:
نیکی اور خیر کے کاموں میں حسن سلوک کی بڑی اہمیت
ہے، حضور ﷺ اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک فرماتے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: میں حضور ﷺ کی سفر و حضر میں خدمت کرتا رہا لیکن آپ نے مجھے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے
فلاں کام کیوں کیا فلاں کیوں نہ کیا! (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
نرمی کرنا: اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی کرنا موقع
محل کے مطابق درست طریقے سے تنبیہ کر نا مالک کا حق ہے۔ منقول ہے ایک شخص نے حضور ﷺ
سے عرض کی کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک معاف کرنی چاہئیں اس نے دوبارہ پوچھا
آپ خاموش رہے، تیسری مرتبہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ہر روز ستر بار۔ (ابو داود، 4/
439، حدیث: 5164)
اجرت کی بروقت ادائیگی: ملازم سے طے شدہ
اجرت بروقت ادا کرنی چاہیے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشرتی پریشانیوں کا باعث بن
سکتا ہے۔ حدیث قدسی ہے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے
دن میں خصم ہوں یعنی ان سے مطالبہ کروں گا ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کسی مزدور کو
اجرت پر رکھے اس سے پورا کام لے اور اجرت نہ دے۔(مسند امام احمد، 3/ 278، حدیث:
8700 ملتقطاً)
غلام کو مارنے سے
بچنا: حضرت
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی اپنے خادم کو
مارے اور پھر اللہ کو یاد کرے اس کو چاہیے فورا ًاپنا ہاتھ اٹھا لے یعنی پھر نہ
مارے۔ (مراۃ المناجیح، 5/167)
اپنے کھانے میں سے
خادم کو دینا: جب
تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے اس نے
پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف برداشت کی تو مالک کو چاہیے کہ اس خادم کو بھی
اپنے ساتھ کھانے میں بٹھا لے اور وہ بھی کھانا کھائے اگر وہ کھانا تھوڑا ہو تو
مالک کو چاہیے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)
اللہ کریم ہمیں اپنے گھریلو ملازمین و خادمین اور
دیگر زیرِ کفالت افراد کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب
العالمین
ہر نگران سے اس کے ماتحت کے بارے میں سوال کیا جائے
گا، جیسا کہ والدین سے اولاد کے بارے میں، استاد سے شاگردوں کے بارے میں اسی طرح
ذمہ دار سے اس کے ماتحت کے بارے میں اور مالکوں سے ان کے ملازموں کے بارے میں سوال
ہوگا۔ اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
احادیث مبارکہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے
ابو القاسم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے وہ اس سے بری ہو
تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر یہ واقعی وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ
المناجیح، 5/163)
جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ
کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے
کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے
رکھ دے۔ یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل ہیں یعنی اگر کھانا کافی
ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھلائے اسے ساتھ
بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے جب مسجد اور قبرستان میں
امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا ہوں تو کیا حرج ہے۔(مراۃ
المناجیح، 5/162)
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ آج کے پاس ایک
خزانچی آیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا بولا
نہیں فرمایا جاؤ انہیں دے دو کیونکہ رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے
یہی گناہ بہت ہے کہ مملوک سے اس کا کھانا روکے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ انسان
کے لیے کافی گناہ یہ ہے کہ اسے ہلاک کر دے جس کو روزی دیتا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/161)
جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے کیا نہیں
یا اسے طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/164)
حضرت ابن مسعود انصاری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ
میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود
سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اس پر ہو میں نے پیچھے مڑ کر
دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے میں نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ یہ آزاد ہے الله کی
راہ میں تب رسول الله ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ
پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)
بدترین لوگوں میں سے ایک اپنے غلام کو کوڑے مارنے
اور اس پر ظلم کرنے والا اور ضرورت سے زیادہ کام ڈالنے والا ہے۔ الله پاک ہمیں
احسن طریقے سے اپنے حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جیسے ہر انسان کے حقوق ہیں والدین کے حقوق،بیوی اور
شوہر کے حقوق ہیں، بھائی کے حقوق،ہمسایوں کے حقوق، اسی طرح نوکر اور ملازم کے بھی حقوق
ہوتے ہیں۔ نوکر اور ملازم کے حقوق درج ذیل ہیں:
1️۔ نوکر کو تنگ نہیں کرنا چاہئے اس پر اس کی طاقت
سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
2️۔ حضور سید عالمﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیا سلوک
فرماتے تھے اس کی مثال ملاحظہ فرمائیے، حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نے
دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو کام
میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں
کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ
کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
3️۔ حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ وہ
اپنے غلام کو مار رہے تھے غلام نے کہا: میں اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں آپ نے
اسے مارنا شروع کر دیا۔ غلام نے کہا: میں اللہ اور اس کے رسول کی پناہ مانگتا ہوں۔
تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم پر اس
سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں
کہ پھر انہوں نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905، حديث: 1659)
4️۔ اگر
نوکر بیمار ہو تو اس سے اتنا کام نہ کروایا جائے اگر اس کی کوئی بات بُری لگی ہو
تو اس کو اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف کر دے۔
Dawateislami