جس طرح الله پاک نے سب کے حقوق فرض کیے ہیں اسی طرح
الله پاک نے نوکر و ملازم کے حقوق بھی فرض فرمائے ہیں، مالک پر اپنے نوکر و
ملازموں کے بنیادی طور پر تین حق ہیں: کھانا، کپڑا اور طاقت سے زیادہ کام نہ کرانا۔
کام ان سے ان کی طاقت کے مطابق لیا جائے، زیادہ مشکل کام کا حکم نہ دیا جائے اگر
ضرورتاً ایک دو دن مشکل کام کرا لیا جائے تو جائز ہے اور سب سے اعلیٰ اور اچھا
اخلاق اور رحم دلی کی یہ بات ہے کہ وہ مشکل کام جو غلام یا ملازموں کو دیا ہے خود
بھی ان کے ساتھ مل کر کرے۔
نوکر و ملازم کے حقوق سے متعلق احادیث مبارکہ میں
بھی کثرت سے ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول الله ﷺ نے فرمایا: غلام کے لیے اس کا کھانا کپڑا ہے اور اسے اس قدر کام کی
تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
2۔ جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ
کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے
کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے
رکھ دے۔ یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل ہیں یعنی اگر کھانا کافی
ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھلائے اسے ساتھ
بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے جب مسجد اور قبرستان میں
امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا ہوں تو کیا حرج ہے۔ (مراۃ
المناجیح، 5/162)
3۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس ایک خزانچی آیا تو
آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا، بولا نہیں۔ فرمایا:
جاؤ انہیں دے دو، کیونکہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے یہی گناہ بہت
ہے کہ مملوک سے اس کا کھانا روکے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ انسان کے لیے کافی
گناہ یہ ہے کہ اسے ہلاک کر دے جس کو روزی دیتا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/161)
4۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو
القاسم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے وہ اس سے بری ہو تو
قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر یہ واقعی وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ
المناجیح، 5/163)
الله پاک ہمیں اپنے منصب کے مطابق اپنے فرائض اور
دوسروں کے حقوق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی معنوں میں حضور جانِ
جاناں ﷺ کا عشق عطا فرمائے۔