
وقت بے وقت کسی کو ٹوکتے رہنا، ڈانٹ پلادینا
یاجھاڑنے کی عادت سے ممکن ہے کہ وہ ایسے وقت میں ہماری مدد سے انکار کر دے جب ہم
شدید پریشانی میں مدد کے طلبگار ہوں۔ لہذا اپنے خدمت گزاروں سے اچھا سلوک کیجیے،
ان کی طاقت سے زیا دہ ان سے کام نہ لیجیئے۔
ملازمین اورخادمین کو تکلیف نہ دیجیئے: بعض
لوگ اپنے ملازمین اور گھریلو خادمین سے جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں، بات بات پر
ان کی بےعزتی کرتے ہیں، ان سے زیادہ کام لیتے ہیں، انکار پر نوکری سے فارغ کر دینے
کی دھمکی دیتے ہیں، ایسے افراد یاد رکھیں کہ ان ملازمین و خادمین کی بھی حق تلفی
کرنا اور ان کو بلا وجہ شرعی تکلیف پہچانا جائز نہیں۔ ہمارے اکابرین تو اپنے خدام
سے مثالی سلوک رکھا کرتے تھے۔(تکلیف نہ دیجیئے، ص157 )
غلام کو تکلیف نہ دی: منقول ہے کہ
ایک رات امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے ہاں کوئی مہمان آیا،
اس وقت آپ لکھ رہے تھے، چراغ بجھنے لگا تو مہمان نے عرض کی میں اٹھ کر ٹھیک کر
دیتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ بات مہمان کی خاطر داری کے خلاف ہے کہ اس سے خدمت لی
جائے، اس نے کہا: غلام کو جگا دیتا ہوں وہ کام کر لے گا۔ فرمایا: وہ ابھی ابھی
سویا ہے یہ فرما کر خود اٹھے اور تیل کی کپی لے کر چراغ میں تیل بھرا۔ مہمان نے
کہا: اے امیرالمومنین! آپ یہ کام خودانجام دے رہے ہیں؟ فرمایا: میں جب اس کام کے
لیے گیا تب بھی عمر تھا اور جب واپس لوٹا تب بھی عمر ہی ہوں، میرے اس کام سے میرے
مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑا اور لوگوں میں سے بہترین وہ ہےجواللہ کے ہاں
عاجزی والا ہو۔ (احیاء العلوم، 3/435)
خادمہ کی تکلیف کا خیال: فی زمانہ شرعاً
کوئی غلام موجود نہیں لیکن اپنے پاس کام کرنے والے ملازمین اور خادمین کا خیال
رکھنا بھی شیوہ مسلمانی ہے، چنانچہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی
رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میں جب مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا
مصطفیٰ رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بریلی شریف حاضر ہوا تو آپ نے دار الافتاء
کی خدمت میرے سپرد فرما دی۔ میں دن میں مسائل کا جواب لکھتا اور عشاء کے بعد آپ کو
سنایا کرتا اور جہاں مناسب معلوم ہوتا آپ اصلاح فرمایا کرتے تھے، یہ مجلس عموما دو
تین گھنٹے کی ہوتی جبکہ بسا اوقات چار گھنٹے کی بھی ہو جاتی تھی۔ انہی ایام میں
ایک دفعہ جبکہ سخت سردیوں کے د ن تھے، کمرے میں حضرت کےلیے انگیٹھی تھی جو کچھ دیر
کے بعد ٹھنڈی ہونے لگی اور حقے کی آگ بھی ختم ہونے پر آئی، اچانک آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے فرمایا: اگر کوئلہ اور ہوتا تو انگیٹھی ہی گرم ہو جاتی اور تمباکو ابھی
پورا نہیں جلا وہ بھی کام آجاتا، میں نے عرض کی اندر خادمہ کو آواز دے کر کوئلہ
مانگ لوں؟ فرمایا: دن بھر کی تھکی ہاری بے چاری سو گئی ہوگی، جا نے دیجیئے۔ (جہانِ
مفتی اعظم ہند، ص328)
خادم سے کپڑے پر سیاہی گر گئی: منقول ہے کہ
ایک مرتبہ حضرت اسماعیل بن بلبل شیبانی کے خادم نے قلم سیاہی میں ڈبو کر آپ کو پیش
کیا تو بے خیالی میں سیاہی کے چند قطرے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قیمتی جبے پر گر گئے،
خادم خوف سے کانپنے لگا کہ نہ جانے اب کیا سزا ملے گی! لیکن آپ نے درگز کرتے ہوئے
فرمایا: گھبراؤ نہیں! پھر یہ اشعار پڑھے:
ترجمہ: جب کستوری قوم کی خوشبو کو عمدہ کرے مجھے
یہی سیاہی کی خوشبو کافی ہوگی ان کپڑوں سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں جن کے کناروں
پر کوئلہ کی سیاہی ہو۔ (سیر اعلام النبلاء، 10/ 566)
حدیث پاک میں ہے: جو آقا اپنے غلام کو نہ حق مارے
گا قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مصنف عبد
الرزاق، 9/ 317، حدیث:18275)
اللہ پاک ہمیں اپنے ملازمین کے حقوق ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو آقا اپنے غلام کو ناحق مارے گا قیامت کے دن اس
سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مصنف عبد الرزاق، 9/ 317، حدیث:18275)
ملازم کے حقوق:
1۔ طاقت و اہلیت کے
مطابق کا م لینا: کمپنی مالک کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا
چاہیے کہ ملازم سے اس کی استطاعت، قابلیت اور لیاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے، کہیں
ایسا نہ ہو کہ ملازم پر ظلم کے زمرے میں آجائے۔
2۔ عزت و تکریم کا
معاملہ کرنا: کمپنی
اور ادارے کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ
کریں، کسی بھی قسم کی بے عزتی اور ہتکِ عزت سے گریز کریں۔ عزت نفس کو مجروح نہ
کریں کیونکہ انسان ایک قابلِ احترام ذات ہے۔
3۔ کام کے دورانیے
کی وضاحت: ملازم
کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ کرتے وقت اوقات کار کی وضاحت کردینا بھی ملازم کا حق ہے۔
اس کے کئی فوائد ہیں، ا ن میں سے ایک یہ ہے کہ ملازم سوچ سمجھ کر معاہدہ کو قبول
کرے گا تو دلجمعی اور اطمینان سے کام کرے گا، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ متعلقہ وقت میں
کام کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن بعض مرتبہ اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
اوقات کی حد بندی میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے اور ملازمین کو دیر تک بیٹھنے
پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بات کرنے پر ملازمت سے چھٹی کروانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یہ
اچھا رویہ نہیں۔ ہاں اگر کبھی کبھار کچھ تاخیر ہوتی ہے تو ملازم کو بھی اس میں
تعاون کرنا چاہیے۔
4۔کام کے لیے مطلوب
ماحول فراہم کرنا: ملازم کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیاجائے جو
اس کے کام کی نوعیت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متاثرنہ ہو، مثلاً: کمروں
کا ہوادار ہونا، روشنی کا معقول انتظام ہونا، تحقیق و ریسرچ کا کام ہوتو خاموشی کا
ماحول وغیرہ وغیرہ، اس سے کارکردگی کافی حدتک بڑھ جائے گی۔
5۔ تنخواہ کا معیار:
کمپنی
/ ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا اس میں کام کرنے والے ملازمین کایہ حق ہے کہ اسٹاف ممبران
کی تنخواہیں قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر مقرر کی جائیں اور ہرسال اس میں اضافے
کی گنجائش بھی رکھنی چاہیے تاکہ ملازمین کی سالانہ حوصلہ افزائی ہو اور وہ لگن کے
ساتھ کام کرسکیں۔
6۔ عمدہ کام کرنے پر
تحسین: ملازمین
کے عمدہ کام کرنے یا غیر معمولی کام کرنے پر ان کی تحسین بھی کی جانی چاہیے تاکہ
اس کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور دیگر ملازمین کو بڑھ چڑھ کر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو
جو یقینا ادارے کے لیے نفع مندعمل ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ معمولی کوتاہیوں کو
نظرانداز کرنے کا طرز اپنانا بھی Productivity بڑھانے کے لیے کافی حدتک مفید ثابت
ہوسکتاہے۔

شریعت مطاہرہ نے ہر کسی کے حقوق بیان کیے ہیں جن
میں کوتاہی کرنے سے انسان گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے، جیسےعورت کے مرد پر حقوق یا
مرد کے عورت پر حقوق کو بیان فرمایا ہے اسی طرح مالک پر غلام کے حقوق کو بھی بیان
فرمایا ہے کہ غلام مالک کے زیر نگرانی ہوتا ہے، اسے چاہیے کہ اس کے حقوق کے
پاسداری کرے۔
ملازم کے چند حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غلام کے لیے اس کا کھانا
کپڑا ہے اور اسے اس قدر کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ یعنی آقا پر
لونڈی غلام کا بقدر ضرورت درمیانی کھانا کپڑا واجب ہے، اس کھانے کپڑے میں عرف کا
لحاظ ہے شریعت نے حد مقرر نہیں فرمائی۔یعنی ہمیشہ کےلیے مشکل کام کا حکم نہ دو
ضرورتاً ایک دو دن مشکل کام کرالیا جائے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی کا خادم
اس کے لیے کھانا تیار کرےپھر وہ کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کرچکا
ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے کہ وہ بھی کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں
سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دے۔ یہاں خادم میں لونڈی غلام سب شامل ہیں
یعنی اگر کھانا کافی ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا کر
کھلائے اسے ساتھ بٹھانے میں ذلت نہ سمجھے۔ اگر کھانا کم ہو تو غلام کے ہاتھ میں دو
لقمے رکھ دے کہ مالک کو کھانا اچھے سے ہضم ہو جائے۔(مراۃ المناجیح، 5/162)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اپنے غلام
کو وہ حد مارے جو جرم اس نے کیا نہیں یا طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے
آزاد کر دے۔ یعنی بے قصور مارے پیٹے، حد سے مراد حد شرعی نہیں بلکہ ہر سخت مار پیٹ
ہے، اس طمانچہ سے مراد ظلماً مارنا ہے ادب سکھانے پڑھانے پر طمانچہ مارنا درست ہے
یہی حکم شاگرد مرید بچے یا رعایا کو مارنے کا ہے۔(مراۃ المناجیح، 5/164)
4۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضور اپنے مرض میں
فرماتے تھے: نماز اور غلاموں کی نگرانی کرو۔یعنی نماز کی پابندی وحفاظت کرو مرتے
دم تک نہ چھوڑو۔معلوم ہواکہ نماز بڑا ہی اہم فریضہ ہےکہ حضور نے خصوصیت سے اس کی
وصیت فرمائی۔ غلاموں کی نگرانی سے مراد ان سے اچھا برتاؤ کرو ان کے حقوق ادا کرو۔ (مراۃ
المناجیح، 5/166)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے
کوئی اپنے خادم کو مارے تو وہ اللہ کا ذکر کر دے تو اپنے ہاتھ اٹھا لو۔ یعنی اگر
تم اپنی نافرمانی یا تعلیم و تر بیت کے لیے اپنے غلام نوکرشاگرد بیٹے بیوی کو مارو
اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ کو ضامن کرتا ہوں اب یہ قصور نہ کروں گا اور اب خدا کے
لیے مجھے چھوڑ دو تو تم اللہ کے نام کا ادب کرتے ہوئے چھوڑ دو شرعی حدود اس حکم سے
خارج ہیں وہ تو مجرم کو پوری پوری دی جائے گی۔(مراۃ المناجیح، 5/167)

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ نے مختلف حقوق بتائے
ہیں، جیسے ماں باپ، بہن بھائی، پڑوسیوں کے، رشتہ داروں کے، اپنے بچوں کے، اسی طرح
غلام اور سیٹھ کے بھی حقوق بتائے ہیں اور ان حقوق کو پورا کرنا ہم پر لازم ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: میں نے
آقا ﷺ کی خدمت میں دس سال گزارے آپ نے مجھے کبھی یہ نہ فرمایا کہ ایسا کیوں کیا
اور ایسا کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
2۔ روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے
کہ آقا ﷺ نے فرمایا: جو اپنے مولیٰ کی خیرخواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھی طرح
کرے تو اسے دگنا ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/ 162 )
3۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ حضور اپنے مرضِ
وفات میں فرماتے تھے: نماز اور غلاموں کی نگرانی کرو۔(مراۃ المناجیح، 5/166)
3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس میں تین خصلتیں ہوں
اللہ اس کی موت آسان کر دے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل کردے گا: کمزور پر نرمی،
ماں باپ پر شفقت اور غلام سے اچھا سلوک۔ (مراۃ المناجیح، 5/169)
4۔ غلام کے لیے اس کا کھانا، کپڑا ہے اور اسے اس
قدر کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
5۔ جس کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ
کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھائے کہ
وہ بھی کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے
رکھ دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)
درس: اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے رشتہ
دار اہل و عیال سب کو حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

جس طرح والدین کے حقوق ہوتے ہیں، ہمسایوں کے حقوق
ہوتے ہیں، مہمانوں کے حقوق ہوتے ہیں، اسی طرح ملازموں اور نوکروں کے بھی حقوق ہوتے
ہیں۔ یہاں نوکر اور ملازموں کے حقوق درج ذیل ہیں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی
اپنے خادم کو مار رہا ہو اور وہ اللہ کا واسطہ دے تو اس سے اپنے ہاتھ اٹھالو۔ (مراۃ
المناجیح، 5/167)
2۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
وہ اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ غلام نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں آپ
نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ پھر غلام نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کی پناہ مانگتا
ہوں تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم
پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ پھر میں
نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905، حديث: 1659)
3۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے
تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو
کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح
کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ
تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)اس حدیث مبارکہ
سے معلوم ہو اکہ اپنے غلاموں کو بلاوجہ کاموں میں روکنا ٹوکنا نہیں چاہیئے۔ غلام
یا نوکر سے بلاوجہ غیر ضروری کام نہیں کروانا چاہیے، غلام کو بلاوجہ پریشانی اور
تکلیف نہیں دینی چاہئے، ہمیں چاہئے کہ جیسے ہم اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں اسی
طرح اپنے غلاموں کا بھی خیال رکھیں، ان کے ساتھ برا سلوک نہ کریں، ان کے کھانے
پینے کا بھی خیال رکھیں اور یہ بھی نہ ہو کہ ان سے کام کرواتے جائیں اور ان کو
کھانے کے لیےکچھ نہ دیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نوکروں کے ساتھ اچھا سلوک
کرنےکی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حدیث مبارکہ پر عمل پیرا رہنے کی بھی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین

جس طرح دیگر انسان مثلاً والدین ہمسایوں کے حقوق
ہوتے ہیں اسی طرح نوکر اور غلام کے بھی حقوق ہوتے ہیں، ہمیں والدین، ہمسایوں، رشتہ
داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ نوکر اور ملازم کے حقوق کا بھی خیال رکھنا
چاہیے۔ موضوع کی مناسبت سے یہاں نوکر اور ملازم کے حقوق درج ذیل ہیں۔
1۔ ہمیں نوکر یا ملازم پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ
نہیں ڈالنا چاہیے ان کی طاقت کے مطابق انہیں کام دینے چاہئیں۔
2۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
وہ اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ غلام نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں آپ
نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ پھر غلام نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کی پناہ مانگتا
ہوں تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم
پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ پھر میں
نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905، حديث: 1659)
3۔ اگر نوکر یا غلام سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جائے
جو ہمیں ناپسند ہو تو ہمیں انہیں مارنا یا ڈانٹنا نہیں چاہیے بلکہ اللہ کی رضا کی
خاطر معاف کر دینا چاہیے اور اپنا رویہ ان کے ساتھ اچھا ہی رکھنا چاہیے۔
4۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مار رہا ہو اور وہ اللہ
کا واسطہ دے تو اس سے اپنے ہاتھ اٹھالو۔ (مراۃ المناجیح، 5/167)
5۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے
تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو
کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح
کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ
تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
اللہ پاک ہمیں سب کے حقوق کو صحیح معنوں میں ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

معاشرے میں ہر انسان پر حقوق عائد ہوتے ہیں، جیسے
والدین کا اولاد پر اور استاد کا شاگرد پر حق وغیرہ اسی طرح ملازم کے سیٹھ پر بھی حقوق
ہوتے ہیں، ہر نگران اپنے ماتحت کے حق میں جواب دہ ہوگا۔ ماتحتوں کے حقوق حدیثِ
مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس ایک
خزانچی آیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا؟ بولا:
نہیں۔ فرمایا: جاؤ انہیں دے دو، کیونکہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: انسان کے لیے
یہی گناہ بہت ہے کہ مملوک سے اس کا کھانا روکے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ انسان
کے لیے کافی گناہ یہ ہے کہ اسے ہلاک کر دے جس کو روزی دیتا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/161)
2۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی کا خادم اس کے
لیے کھانا تیار کرے پھر وہ کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو
تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم
کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دے۔یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل
ہیں یعنی اگر کھانا کافی ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا
کر کھلائے اسے ساتھ بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے، جب
مسجد اور قبرستان میں امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا
ہوں تو کیا حرج ہے۔(مراۃ المناجیح، 5/162)
3۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو
القاسم ﷺ کو فرماتے سنا: جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے اور وہ اس سے بری ہو
تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے، مگر یہ کہ واقعی وہ وہی ہو جو اس نے کہا۔
(مراۃ المناجیح، 5/163)
4۔ جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے کیا ہی
نہیں یا اسے طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ المناجیح،
5/164)
5۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود!
سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اس پر ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر
دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے، میں نے عرض کیا: یا رسول الله یہ آزاد ہے الله کی
راہ میں۔ تب رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ
پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)
الله پاک ہمیں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے اور ہمارا سینہ پیارے آقا ﷺ کی محبت میں میٹھا میٹھا مدینہ بنائے۔ آمین
یا رب العالمین

جیسے ہر انسان والدین بھائی بہن اور بیوی اور شوہر
کے حقوق ہیں اس طرح نوکر اورغلام کے حقوق ہوتے ہیں، ہمیں ہمسایوں رشتہ داروں اور
پڑوسیوں کے ساتھ غلام اور نوکر کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے، ذیل میں نوکر اور
ملازم کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں:
1۔ ہمیں نوکر و ملازم پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ
نہیں ڈالنا چاہیئے۔
2۔ حدیث پاک میں ہے: جب تم میں سے کوئی اپنے خادم
کو مار رہا ہو وہ اللہ پاک کا واسطہ دے تو اس سے اپنا ہاتھ اٹھالو۔ (مراۃ المناجیح،
5/167)
3۔ حضرت
ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ غلام نے کہا:
میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں آپ نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ پھر غلام نے
کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کی پناہ مانگتا ہوں تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی اکرم ﷺ
نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر
ہو۔ حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905،
حديث: 1659)
4۔ نوکر یا
غلام سے کوئی ایسا کام ہوجائے جو آپ کو ناپسند ہوا نہیں مارنا اور ڈانٹنا نہیں
چاہیئے، اللہ پاک کی رضا کے لیے معاف کردینا چاہیے۔
5۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے
تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو
کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح
کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ
تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
اللہ پاک ہمیں سب کے حقوق پورے کرنے کی توفیق
عطافرمائے۔ آمین

جیسے والدین کے حقوق ہوتے ہیں شوہر کے ہمسایوں کے
حقوق ہوتے ہیں ایسے ہی نوکر اور ملازم کے حقوق بھی ہوتے ہیں۔ نوکر اور ملازم کے
حقوق درج ذیل ہیں۔
1۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
وہ اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ غلام نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں آپ
نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ پھر غلام نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کی پناہ مانگتا
ہوں تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم
پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ پھر میں
نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905، حديث: 1659)
2️۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مار رہا ہو وہ اللہ پاک
کا واسطہ دے تو اس سے اپنا ہاتھ اٹھالو۔(مراۃ المناجیح، 5/167)
3️۔ ان کی غلطی کو معاف کر دیا جائے، جیسا کہ اُن
سے کوئی ایسا کام ہو جائے جو آپ کو نا پسند ہو تو ان کو اللہ کی خاطر معاف کر دیں۔
4️۔ اس کی طاقت کے حساب سے اُن سے کام لیا جائے، یعنی
وہ بیمار ہے اور بیماری میں کوئی کام نہیں کر سکتا تو ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ
رکھا جائے۔
5۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے
تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو
کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح
کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ
تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)
الله پاک ہمیں سب کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین

جیسے ہر انسان کے حقوق ہیں۔ ہمسایوں کے حقوق ہوتے ہیں، بیوی اور شوہر
کے حقوق ہوتے ہیں مہمانوں کے حقوق ہوتے ہیں، یوں ہی نوکروں اور غلاموں کے بھی حقوق
ہوتے ہیں۔
احادیث مبارکہ:
1️۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
وہ اپنے غلام کو ماررہے تھے۔ غلام نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں آپ
نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ پھر غلام نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کی پناہ مانگتا
ہوں تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ تم
پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود فرماتے ہیں کہ پھر میں
نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، ص 905، حديث: 1659)
2️۔ اگر نوکر بیمار ہو تو اس سے اتنا زیادہ کام نہ
کروایا جائے نہ ہی اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے۔ 3۔ اگر اس کی کوئی
بات ایسی ہو جو ناگوار گزری ہو یا بری لگی ہو تو اسے اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف
کر دے۔
4۔ نبی کریم ﷺ اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے
تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور پرنور ﷺ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو
کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح
کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ
تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (ابو داود، 4/324، حدیث: 4774)

جس طرح الله پاک نے سب کے حقوق فرض کیے ہیں اسی طرح
الله پاک نے نوکر و ملازم کے حقوق بھی فرض فرمائے ہیں، مالک پر اپنے نوکر و
ملازموں کے بنیادی طور پر تین حق ہیں: کھانا، کپڑا اور طاقت سے زیادہ کام نہ کرانا۔
کام ان سے ان کی طاقت کے مطابق لیا جائے، زیادہ مشکل کام کا حکم نہ دیا جائے اگر
ضرورتاً ایک دو دن مشکل کام کرا لیا جائے تو جائز ہے اور سب سے اعلیٰ اور اچھا
اخلاق اور رحم دلی کی یہ بات ہے کہ وہ مشکل کام جو غلام یا ملازموں کو دیا ہے خود
بھی ان کے ساتھ مل کر کرے۔
نوکر و ملازم کے حقوق سے متعلق احادیث مبارکہ میں
بھی کثرت سے ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول الله ﷺ نے فرمایا: غلام کے لیے اس کا کھانا کپڑا ہے اور اسے اس قدر کام کی
تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہ رکھے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
2۔ جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ
کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے
کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے
رکھ دے۔ یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل ہیں یعنی اگر کھانا کافی
ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھلائے اسے ساتھ
بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے جب مسجد اور قبرستان میں
امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا ہوں تو کیا حرج ہے۔ (مراۃ
المناجیح، 5/162)
3۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس ایک خزانچی آیا تو
آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا، بولا نہیں۔ فرمایا:
جاؤ انہیں دے دو، کیونکہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے یہی گناہ بہت
ہے کہ مملوک سے اس کا کھانا روکے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ انسان کے لیے کافی
گناہ یہ ہے کہ اسے ہلاک کر دے جس کو روزی دیتا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/161)
4۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو
القاسم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے وہ اس سے بری ہو تو
قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے مگر یہ واقعی وہی ہے جو اس نے کہا۔ (مراۃ
المناجیح، 5/163)
الله پاک ہمیں اپنے منصب کے مطابق اپنے فرائض اور
دوسروں کے حقوق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی معنوں میں حضور جانِ
جاناں ﷺ کا عشق عطا فرمائے۔

ہمارے پیارے اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے
والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ کسی
کا ماتحت یا نگران ہونا وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں ہمارے معاشرے
میں ملازمین پر سختی کرنے، انہیں مارنے یہاں تک کہ جلا دینے تک کے واقعات سامنے
آرہے ہیں، ملازم کی ذرا سی بات پر لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، چاہیے کہ ملازمین
سے بھی حسنِ سلوک کرے اس کی غلطیوں کو نظر انداز کرے اور اچھے کام پر تعریف کرے۔
احادیث مبارکہ میں ملازم و نوکر کے حقوق بیان کیے
گئے ہیں، چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابو مسعود!
سوچو کہ الله تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اس پر ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر
دیکھا تو وہ رسول الله ﷺ تھے، میں نے عرض کیا: یا رسول الله یہ آزاد ہے الله کی
راہ میں۔ تب رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی یا آگ
پہنچتی۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/616، حدیث: 3353)
2۔ حضرت ابنِ عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول
الله ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص کو میں قیامت کے دن مشک کے ٹیلوں پر گمان کرتا ہوں:
ایک وہ بندہ جس نے الله کا حق ادا کیا اور اپنے مالک کا۔ دوسرا وہ شخص جس نے اپنی
قوم کی امامت کی اور وہ راضی ہیں۔ تیسرا وہ شخص جو دن اور رات پانچ نمازوں کی اذان
دیتا ہے۔ (ترمذی، 3/397،حدیث: 1993)
3۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو
القاسم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو مولیٰ اپنے مملوک کو تہمت لگائے اور وہ اس سے بری ہو
تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے، مگر یہ کہ واقعی وہ وہی ہو جو اس نے کہا۔
(مراۃ المناجیح، 5/163)
4۔ جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ
کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے
کہ وہ کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے
رکھ دے۔یہاں خادم میں لونڈی غلام بلکہ نوکر چاکر سب شامل ہیں یعنی اگر کھانا کافی
ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا کر کھلائے اسے ساتھ
بٹھانے میں اپنی ذلت نہ سمجھے جیسا کہ متکبرین کا حال ہے، جب مسجد اور قبرستان میں
امیر و غریب آقا و غلام یکجا ہو جاتے ہیں تو یہاں بھی یکجا ہوں تو کیا حرج ہے۔(مراۃ
المناجیح، 5/162)
رب تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں حقوق العباد
بالخصوص ملازم و نوکر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارا سینہ پیارے آقا
ﷺ کی محبت میں میٹھا میٹھا مدینہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین