شریعت مطاہرہ نے ہر کسی کے حقوق بیان کیے ہیں جن
میں کوتاہی کرنے سے انسان گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے، جیسےعورت کے مرد پر حقوق یا
مرد کے عورت پر حقوق کو بیان فرمایا ہے اسی طرح مالک پر غلام کے حقوق کو بھی بیان
فرمایا ہے کہ غلام مالک کے زیر نگرانی ہوتا ہے، اسے چاہیے کہ اس کے حقوق کے
پاسداری کرے۔
ملازم کے چند حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غلام کے لیے اس کا کھانا
کپڑا ہے اور اسے اس قدر کام کی تکلیف نہ دے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ یعنی آقا پر
لونڈی غلام کا بقدر ضرورت درمیانی کھانا کپڑا واجب ہے، اس کھانے کپڑے میں عرف کا
لحاظ ہے شریعت نے حد مقرر نہیں فرمائی۔یعنی ہمیشہ کےلیے مشکل کام کا حکم نہ دو
ضرورتاً ایک دو دن مشکل کام کرالیا جائے۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)
2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی کا خادم
اس کے لیے کھانا تیار کرےپھر وہ کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کرچکا
ہو تو اسے اپنے ساتھ بٹھا لے کہ وہ بھی کھائے لیکن اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں
سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دے۔ یہاں خادم میں لونڈی غلام سب شامل ہیں
یعنی اگر کھانا کافی ہے تو اس پکانے والے خادم کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا کر
کھلائے اسے ساتھ بٹھانے میں ذلت نہ سمجھے۔ اگر کھانا کم ہو تو غلام کے ہاتھ میں دو
لقمے رکھ دے کہ مالک کو کھانا اچھے سے ہضم ہو جائے۔(مراۃ المناجیح، 5/162)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اپنے غلام
کو وہ حد مارے جو جرم اس نے کیا نہیں یا طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے
آزاد کر دے۔ یعنی بے قصور مارے پیٹے، حد سے مراد حد شرعی نہیں بلکہ ہر سخت مار پیٹ
ہے، اس طمانچہ سے مراد ظلماً مارنا ہے ادب سکھانے پڑھانے پر طمانچہ مارنا درست ہے
یہی حکم شاگرد مرید بچے یا رعایا کو مارنے کا ہے۔(مراۃ المناجیح، 5/164)
4۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضور اپنے مرض میں
فرماتے تھے: نماز اور غلاموں کی نگرانی کرو۔یعنی نماز کی پابندی وحفاظت کرو مرتے
دم تک نہ چھوڑو۔معلوم ہواکہ نماز بڑا ہی اہم فریضہ ہےکہ حضور نے خصوصیت سے اس کی
وصیت فرمائی۔ غلاموں کی نگرانی سے مراد ان سے اچھا برتاؤ کرو ان کے حقوق ادا کرو۔ (مراۃ
المناجیح، 5/166)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے
کوئی اپنے خادم کو مارے تو وہ اللہ کا ذکر کر دے تو اپنے ہاتھ اٹھا لو۔ یعنی اگر
تم اپنی نافرمانی یا تعلیم و تر بیت کے لیے اپنے غلام نوکرشاگرد بیٹے بیوی کو مارو
اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ کو ضامن کرتا ہوں اب یہ قصور نہ کروں گا اور اب خدا کے
لیے مجھے چھوڑ دو تو تم اللہ کے نام کا ادب کرتے ہوئے چھوڑ دو شرعی حدود اس حکم سے
خارج ہیں وہ تو مجرم کو پوری پوری دی جائے گی۔(مراۃ المناجیح، 5/167)