اللہ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ خادم، آقا، ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ ملازمین کے معاملے میں ہمیں عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ دنیا میں ملازم کی دو اقسام رائج ہیں: خصوصی ملازم اور مشترکہ ملازم۔

1۔ خصوصی ملازم: ایسے ملازم کو کہتے ہیں جو کسی شخص یا ادارے کا مخصوص اوقات کے لیے ملازم ہو۔ جیسے کمپنی میں کوئی شخص صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کام کرے۔ یہ شخص اس مخصوص وقت میں کسی اور کا ملازم نہیں ہوسکتا۔ خواہ وہ مستقل ملازم ہو یا عارضی بنیاد پر کام کر رہا ہو۔

2۔ مشترکہ ملازم: وہ ملازم جس کا معاملہ اوقات کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ عمل کی بنیاد پر ہوتاہے۔ وہ کسی شخص کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ مختلف لوگوں یا اداروں کا کام کرتا ہے اور اپنے کام کے بقدر اجرت وصول کرتاہے، جیسے دھوبی، درزی لیگل فرمز جو مختلف اداروں کو قانونی مشاورت فراہم کرتی ہیں۔

حقوق:

1۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر ہفتے کے روز مدینے کے آس پاس گاؤں میں جایا کرتے تھے اور جب کسی غلام کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھتے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا، تو اسے کم کردیتے۔

2۔ انسان كو چاہيے كہ معاشرتى امور ميں اپنى ذات اور خادم كےمابين عدل و مساوات كا رويہ اختيار كرے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا تیار کرے پھر وہ اس کے پاس لے کر آئے جبکہ اس نے اس کے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہو تو مالک کو چاہئے کہ اس خادم کو بھی کھانے میں اپنے ساتھ بٹھائے اور وہ بھی کھائے۔ اگر وہ کھانا تھوڑا ہو (جو دونوں کے لئے کافی نہ ہوسکے) تو مالک کو چاہئے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے دے۔ (مراۃ المناجیح، 5/162)حضور پاك ﷺ چاہتے تھے كہ صرف كھانے پینے ہى ميں نہيں، بلكہ يہ مساوات ملنے جلنے اور آداب ِ معاشرت ميں بھى رہے، اس لئے انہوں نے اس طرح کے دعوتِ وليمہ كو نا پسند فرمايا جہاں صرف اور صرف اميروں كو مدعو كيا جائے اور كھلايا پلايا جائے۔


اللہ پاک نے اس دنیا کا نظام ہی اس طرح بنایا ہے کہ ایک شخص متبوع head ہوتا ہے اور دوسرا اس کے تابع، ایک شخص مالدار ہوتا ہے اور دوسرا فقیر، ہر شخص ایک دوسرے کا محتاج ہوتا ہے اگر دنیا میں صرف صاحبِ ثروت ہوتے تو ان کی خدمت کون کرتا اگر دنیا میں صرف غریب ہوتے تو ان کی معاشی ضرویات کیسے پوری ہوتیں، اس لیے مالکان اور دوسرے ملازم کہلاتے ہیں مالک اور ملازم کا ایک ایسا رشتہ ہے جس کی تاریخ قدیم ہوتی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نےبھی حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس آٹھ یا دس سال تک ملازمت کی، جب یہ رشتہ اس قدر اہم ہے اور جانبین کے ہاں اس کی حقیقت مسلم ہے تو ضروری ہے کہ یہ تعلق جتنا خوشگوار ہوگا اتنا ہی فریقین کی حاجات کی تکمیل ہوگی۔

حقوق:

1۔ عزت وتکریم کا معاملہ کرنا: کمپنی اور ادارے کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کرے کسی بھی قسم کی بے عزتی سے گریز کرے، عزت نفس کو مجروح نہ کرے کیونکہ انسان ایک قابل احترام ذات ہے۔

2۔ کام کے لیے مطلوب ماحول فراہم کرنا: ملازم کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اس کے کام کی نوعیت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متاثر نہ ہو، مثلاً کمروں کا ماحول ہوا دار ہو، روشنی کا معقول انتظام ہو، تحقیق و سرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول ہو وغیرہ۔ اس سے کارگردگی کافی حد تک بڑھ جائے گی۔

اللہ کریم ہمیں احسن انداز میں ہر ایک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین


ہر انسان کے ایک دوسرے پر کچھ نہ کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے ساتھ زندگی گزارنے والے ہمارے نوکر و ملازم کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں۔

حقوق:

1۔ طاقت و اہلیت کے مطابق کام لینا: مالک کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ملازم سے اس کی طاقت و اہلیت اور لیاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ملازم پر ظلم کے زمرے میں آجائے، حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ نے غلام کے بارے میں فرمایا: تم ان کو ایسے کام کرنے کا حکم نہ دو جو ان کی طاقت سے باہر ہوں۔ (مراۃ المناجیح، 5/160)آزاد آدمی تو اس بات کا بطریق اولیٰ مستحق ہے۔

2۔ عزت وتکریم کا معاملہ کرنا: اپنے ملازم کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کریں اس کی عزت کو مجروح نہ کریں، کیونکہ انسان ایک قابل احترام ذات ہے۔

3۔ کام کے دورانیہ کی وضاحت: ملازم کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اوقات کار کی وضاحت کردینا بھی ملازم کا حق ہے اور اس کے کئی فوائد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملازم سوچ سمجھ کر یہ معاہدہ قبول کرے گا اور دلجمعی اور اطمینان سے کام کرے گا۔

4۔ کام کے لیے مطلوب فراہم کرنا: ملازم کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اس کے کام کی نوعیت کے مطابق ہو۔

5۔ عمدہ کام پر تحسین کرنا: ملازمین کے عمدہ کام کرنے یا غیر معمولی کام کرنے پر ان کی تحسین کی جانی چاہئے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور دیگر ملازمین کے اندر کام کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہو۔


عاشقانِ رسول کی عالمگیر تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت ہرہفتے مدنی مذاکرے  کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مختلف شعبے سے تعلق رکھنے والے اسلامی بھائی اپنے دینی و دنیاوی معاملات کے حوالے سے سوالات کرتے اور امیرِ اہلِ سنت اُن سوالات کے جوابات ارشاد فرماتے ہیں۔

اسی سلسلے میں 16 دسمبر 2023ء بمطابق 3جماد ی الاخریٰ1445ھ کی شب عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کراچی کے عاشقان رسول براہِ راست جبکہ ملک و بیرونِ ملک کے کثیر اسلامی بھائی بذریعہ مدنی چینل شریک ہوئے۔

مدنی مذاکرے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:

سوال: راز کی باتیں کسی کو بتانا کیسا؟

جواب: جیسی راز کی بات ہوگی اسی طرح اس کا حکم ہوگا۔فرمانِ مصطفیٰ: (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) :اپنے مقاصدمیں کامیابی کے لیے انہیں رازمیں رکھنے سے مددحاصل کروکہ ہر نعمت والے سے حسدکیا جاتاہے ۔ہمیں چاہئے کہ اپنے مقاصد کو رازمیں رکھیں ۔کیونکہ بعض اوقات راز کی بات بتانے سے لوگ اس سے حسدکرسکتے ہیں ،نظربھی لگ سکتی ہے ۔اسی طرح دوسروں کی رازکی بات بغیراس کی اجازت سے کسی کونہ بتائیں کہ یہ بھی ہمارے پاس اس کی امانت ہے۔

سوال:مسجدمیں نمازِ باجماعت کا وقت طے ہوتاہے کیا اس کی پابندی کرنی چاہئے ؟

جواب:جی ہاں ! مسجدمیں نمازکی جماعت کاجو وقت طے ہوتاہے اس کی پابندی کرنی چاہئے ،ورنہ نمازیوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے اوریہ اچھی بات نہیں ۔

سوال : کم روزی پر قناعت سے کیا مرادہے ؟

جواب : اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک جتنادے بندہ اس پر راضی رہے اوراگرروزی کم ہوتو بندے کو اس پر قناعت نصیب ہو جائے ۔ یوں دعاکرنی چاہئے کہ یااللہ پاک اتنادے کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں ۔

سوال: کیا مالدارہونا فضیلت کی بات ہے ؟

جواب: دنیا میں مالدارہونےمیں کوئی فضیلت نہیں،اگرسارے کا سارامال حلال کا ہوتویہ مباح کے درجے میں ہے ۔ہاں اچھی نیتوں مثلاً اللہ پاک کی راہ میں خرچ کروں گا،جن کا نفقہ(یعنی بال بچوں کا خرچ/بیوی کے روٹی کپڑے کا خرچ وغیرہ) میرے ذمے ہے مثلاً اولادیا ماں باپ وغیرہ ان کی خبرگیری کروں گا،وغیرہ ۔ایسی اچھی نیّتوں سے حلال مال کماناثواب بن جائے گا۔حدیث پاک میں بکفایت رزق کی دعافرمائی گئی ہے۔یعنی پوراہوجائے ،کسی کی محتاجی نہ ہو۔

سوال: بیعت کیا ہے ؟

جواب: بیعت کا لفظی معنیٰ"بِک جانا" ہے ،تصوف میں اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کو پیر بنا لے یعنی بندہ کسی پیرِکامل سے بیعت کرے ، اس طرح کہ گناہوں سے توبہ اورشریعت پرعمل کی نیت کرے ۔جوکسی پیرسے بیعت نہیں کرتاتو گویاکہ وہ اندھاہے ۔مرشدِکامل کی بیعت مفیدہوتی ہے ۔قرآن وسنت سے اس کا ثبوت ہے ۔علماء فرماتے ہیں کہ کائنات میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسا پیر نہیں اورحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جیساکوئی مریدنہیں ۔

سوال:"دعوتِ اسلامی زندہ باد"لکھنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟

جواب:دعوتِ اسلامی سے محبت کا اظہارہوناچاہئے، اپنی ذاتی گاڑیوں وغیرہ پر دعوتِ اسلامی زندہ باد لکھ لیں ۔

سوال : دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟۔

جواب : مرکزی مجلسِ شوریٰ میراسرمایہ ہے ۔یہ میرے کماؤ پُتر(یعنی کما کر دینے والے بیٹے )ہیں ،ساری دنیا میں کام کررہے ہیں ۔اللہ پاک ان کے ہاتھ مضبوط کرے ،اللہ پاک ان کوبخشے ۔

سوال: کیا اپنے اوردوسروں کے بارے میں دعاکرتے رہناچاہئے ؟

جواب: جی ہاں !اپنے لیے،اپنی اولاداور جن جن کے ساتھ واسطہ ہے مثلاًاستاذاپنے شاگردوں ،پیراپنے مریدوں ،تاجراپنے گاہوں وغیرہ کے لیے دعاکرتارہے۔ دعاکرنا کارِثواب ہے ۔

سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” ماں کا پچھتاوا “ پڑھنے یاسُننے والوں کوامیراہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے کیا دُعا دی ؟

جواب: یاربَّ المصطفٰے! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”ماں کا پچھتاوا“پڑھ یا سُن لے ،اُس کے ماں باپ اس سے راضی ہوں اور اُس کی ماں باپ سمیت بے حساب مغفرت فرمادے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


آج صبح ہم کراچی کے علاقے جمشید روڈ پر واقع "پردہ پارک" کے پاس ارشاد بھائی کے ٹھیلے پر ناشتہ کر رہے تھے  کہ کیا دیکھا ایک بائیک پر سوار تین باپ بیٹے یک دم اپنی موٹرسائیکل روکتے ہیں ، باپ بڑے بیٹے کو کچھ کہتا ہے ، بیٹا بائیک سے اترکر چند قدم پیچھے جاتا ہے اوربیچ روڈ میں پڑا مذہبی تحریر والا ایک اشتہار اٹھا کر پاس ہی موجود کمبے پر لگے مقدس اوراق والے باکس میں ڈال دیتا ہے اور پھر تینوں روانہ ہوجاتے ہیں۔

یہ سارا منظر دیکھ کرہم دل ہی دل میں خوش ہوئے، اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ یہ قوم اگرچہ نافرمانیوں کی حدیں پار کرچکی ہے لیکن ادب واحترام اب بھی بڑی حد تک باقی ہے ۔ حالانکہ باپ کلین شیو پینٹ شرٹ میں ملبوس اور بیٹے بھی اسی لباس میں تھے مگر انہوں نے مقدس اشتہار کا ادب کیا، اُس شخص نے نہ صرف ادب کیا بلکہ اپنے دونوں بچوں کو بھی ادب سکھایا۔ یہ عمل دیکھ کر مجھے حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ بھی یاد آگئے جو توبہ سے قبل ایک شرابی تھے، شراب کے نشے میں کہیں جارہے تھے کہ راستے میں آپ نے ایک کاغذ کا ٹکڑا دیکھا جس پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “ لکھا ہوا تھا،آپ نے اُسے اٹھا لیا اور عطر خرید کر اُسے لگایا اور ایک بلند جگہ پر رکھ دیا تو اللہ پاک کے نام کے ادب کی برکت سے انہیں بلندرتبہ عطا کیا گیا۔ یقینا اللہ کریم کبھی ایسے ادب کی وجہ سے بندے کو بڑا مقام ومرتبہ عطاکردیتا ہے، حتی کہ بندہ ادب کے سبب رب العالمین تک پہنچ جاتا ہے اور اُسے قرب خاص سے نوازدیا جاتا ہے۔ بے شک وہ بڑا کریم ہے، کرم کردے تو رند یعنی شرابی کو محبوب بنالیتا ہے ، اس لیے گناہ سے نفرت کی جائے، گناہ گار سے نہیں، بقول شاعر،

زاہد نگاہ ِتنگ سے کسی رند کو نہ دیکھ

شاید کہ اُس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند

یاد رہے کہ نفرت نہ کرنا ایک الگ بات ہے اور کسی فاسق وفاجر کو تعظیم دینا یہ الگ مسئلہ ہے ، اس کی شریعت میں اجازت نہیں۔

مذکورہ واقعہ مذہبی اشتہار وفلیکس اوربینربنوانے والوں کو بھی متوجہ کرتا ہے کہ جب مقصد پورا ہوجائے تو اشتہارات وغیرہ اتارلیں اور انہیں یکجا کرکے مقدس اوراق والی تنظیمات کے حوالے کردیں یا خود انہیں کسی جگہ دفنا دیں یا دریا وسمندر میں ٹھنڈ ا کردیا کریں نیز اشتہار بنواتے وقت بھی خیال رکھیں کہ میٹر میں مقدس الفاظ وجملے نہ ہوں یا ضرورتا کم از کم ہوں اور بعد میں اس کی حفاظت کا پورا انتظام کیا جائے ورنہ دیکھا جاتا ہے کہ اللہ تعالی اور رسول پاک ﷺ کے اسمائے مبارکہ اورقرآنی آیات والے اوراق واشتہارات راستوں پر بلکہ معاذ اللہ گندی نالیوں اور کچرا کنڈیوں تک میں پڑے دکھائی دیتے ہیں۔کہیں یہ بے ادبی کسی بڑے خسارے کا سبب نہ بن جائے۔

آخر میں یہ بھی بتادوں کہ وہاں موجود مقدس اوراق والا باکس ادب سکھانے والی تحریک دعوتِ اسلامی کی ایک پیاری مجلس ”مجلس تحفظِ اوراقِ مقدسہ“ کی طرف سے لگایا گیا تھا۔یہ مجلس مقدس اوراق وغیرہ کو بےحرمتی سے بچانے اور شرعی اصولوں کے مطابق دفن، ٹھنڈا یا محفوظ کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ اس مجلس کے زیر اہتمام مقدس اوراق جمع کرنے کے لیے پاکستان میں مختلف مقامات پر ایک لاکھ سے زیادہ باکس لگائے جاچکے ہیں اور اس کام کے لیے 19ہزار سے زائد ذیلی ذمّہ داران کا تقرر بھی ہوچکا ہے۔ فالحمد للہ علی ذالک۔

اوراق مقدسہ کو محفوظ بنانے اور مزید معلومات کے لئے اس نمبر پر رابطہ کریں

021-111-252692

Call or W.app: +92-317-5022226


کسی حق کو ثابت کرنے کیلئے مجلسِ قاضی میں لفظ شہادت کے ساتھ سچی خبر دینے کو گواہی کہتے ہیں اور اگر یہ خبر جھوٹی ہو تو جھوٹی گواہی کہلائے گی، جھوٹی گواہی دینے والے کی قرآن واحادیث میں شدید مذمت کی گئی ہے، اس کی مذمت میں چند احادیث پیش خدمت ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے برابر کی گئی ہے پھر یہ آیت تلاوت کی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ یعنی قرآن پاک میں جھوٹی گواہی کو شرک کے ساتھ بیان فرمایا، کیونکہ شرک بھی جھوٹ کی ہی تو قسم ہے کہ مشرک رب تعالیٰ کے خلاف بول کر اس کا حق مارتا ہے اور جھوٹا بندے کے خلاف بول کر بندے کا حق مارتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/405)

2۔ جو شخص جھوٹی قسم کھائے گا تاکہ کسی کا مال ہضم کر جائے تو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ (بخاری، 4/290، حدیث: 6659) یعنی ان لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، رب تعالیٰ نہ ان پر رحمت کی نظر ڈالے گا نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔

3۔ جھوٹے گواہ کے قدم قیامت کے روز ہل نہ سکیں گے حتیٰ کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

4۔ جو شخص کسی کا مال جھوٹی قسم سے مارے گا وہ اللہ سے کوڑھی ہو کر ملے گا۔ (الاحسان، 7/272، حدیث: 5065) مراۃ المناجیح میں ہے: یہ فرمان ظاہری معنی پر ہے، بعض اعمال کا اثر چہرے بلکہ تمام جسم پر قیامت میں نمودار ہوگا۔(مراۃ المناجیح، 5/403)

5۔ جس نے ایسی گواہی دی کہ جس سے مسلمان کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا (ناجائز) خون بہایا جائے تو اس نے جہنم واجب کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/172، حدیث: 11541)

آج کے دور میں جھو ٹی گواہی کی وبا بہت پھیلی ہوئی ہے۔ رشتہ داروں کی طرف داری، تعلق والوں کی رعایت، چند روپیوں کا لالچ، کسی کی امیری کیوجہ سے اسکی حمایت یا کسی کی غریبی پر ترس کھا کر دوسرے فریق پر زیادتی کر دینا، یہ چیزیں انصاف کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور جھوٹی گواہی دینے پر ابھارتی ہیں، ایسے لوگوں کو چاہیے ان اسباب کی وجہ سے عدل و انصاف نہ چھوڑیں اور اپنی آخرت برباد ہونے سے بچائیں۔ ان شاء اللہ عدل کا یہ اہتمام جب معاشرے میں ہوگا تو امن و سکون اور رحمتوں کا نزول ہوگا۔ اللہ کریم ہمیں جھوٹی گواہی سے کوسوں دور رکھے۔ آمین


یوں تو ہر جھوٹی بات حرام و گناہ ہے۔ مگر جھوٹی گواہی خاص طور سے بہت ہی سخت گناہ کبیرہ اور جہنم میں گرا دینے والا جرمِ عظیم ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں خصوصیت کے ساتھ جھوٹی گواہی پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری قسموں کے جھوٹ سے تو صرف جھوٹ بولنے والے ہی کی دنیا و آخرت خراب ہوتی ہے۔ مگر جھوٹی گوا ہی سے تو گوا ہی دینے والے کی دنیا و آخرت خرا ب ہونے کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کا حق مارا جاتا ہے یا بلا قصور کوئی مسلمان سزا پا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں شرعاً کتنے بڑے گناہ کے کام ہیں۔لہٰذا بہت ہی ضروری ہےکہ مسلمان جھوٹی گوا ہی کو جہنم کی آگ سمجھ کر ہمیشہ اس سے دور بھاگیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم تمام ایسے کاموں سے بچیں جن میں نہ صرف لوگوں کی حق تلفی ہے بلکہ اللہ و رسول کی ناراضی بھی ہے۔

گناہ کبیرہ کسے کہتے ہیں: گناہ کبیرہ اس گناہ کو کہتے ہیں جس سے بچنے پر خداوند قدوس نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (کتاب الکبائر،ص 7) ویسے تو گناہ کبیرہ بہت سے ہیں جن کی تعداد کے بارے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ جھوٹی گواہی دینا بھی ایک کبیرہ گناہ ہے، آئیے اس کے متعلق مفید معلومات حاصل کرتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ کنز الايمان: اے ايمان والو! آپس ميں ايک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔ اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، 1/304)

ایک مرتبہ سرورِ عالم ﷺ نے صبح کی نماز پڑھنے کے بعد تین مرتبہ فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے،پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ (ابو داود، 3/427، حدیث: 3599) ایک حدیث پاک میں تین مرتبہ ارشاد فرمایا: سن لو! تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔ (1)شرک(2)والدین کی نافرمانی اور (3)جھوٹی گواہی۔ (بخاری،4/95، حدیث: 5976)

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔

جھوٹی گواہی کا حکم: جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

احادیث ِ مبارکہ میں جھوٹی گواہی کی مذمت:

1۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم اوسط، 3/156،، حدیث:4167)

2۔ نبی پاک ﷺ نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (

جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

جو کسی مسلمان پر جھوٹی گواہی دیتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ (موسوعہ ابن ابی الدنیا، 4/398، حدیث: 123)

جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب کر لیا۔ ( معجم کبیر، 11/172، حدیث:11541)


دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے آپس کے حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب اور معاشرتی آداب کے خلاف ہے اس سے دین اسلام نے منع فرمایا اور بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا چونکہ جھوٹی گواہی دینے سے بھی ایک شخص ایک گروہ کا حق ضائع ہوتا ہے اسی لئے جھوٹی گواہی دینے سے منع کیا گیا ہے آئیے اسی سلسلے میں احادیث مبارکہ عرض کرتی ہوں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو اسلام کے سوا کسی دین پر جھوٹی قسم کھائے تو وہ ایسا ہے جیسا کہے اور جو جھوٹا دعوی کرے تاکہ اس سے مال بڑھائے تو اللہ نہ بڑھائے مگر کمی۔ اس حدیث پاک کی شرح میں ہے: جو اپنا مال بڑھانے کے ليے لوگوں کے مال پر جھوٹے دعوی کرے اس کا مال ان شاء اللہ گھٹے گا برھے گا نہیں، کیونکہ حقیر عرض کے ليے اتنا بڑا گناہ کرتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/ 211)

2۔ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے، پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا جھو ٹی گواہی دینا ہے۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (

3۔ حضرت خریم بن فا تک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار نامدار ﷺ نے نماز فجر ادا فرمائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر تین مرتبہ ارشاد فرمایا: حھوٹی گواہی دینا اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی سمیت دیگر تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے: والذین لا یشہدون الزور ترجمہ اور جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں ان کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔ (تفسیر مدراک، ص 811) اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے، یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر احادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ یہاں ان میں سے کچھ احادیث ملاحظہ ہوں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ کبیرہ گناہ یہ ہے: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)اس حدیث مبارکہ میں بتایا جا رہا ہے کہ جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔

2۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے (اپنے اوپر )جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث:11531) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ گواہی جھوٹی دینے والا گناہ گار ہے ایسے شخص پر جہنم کا عذاب واجب ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہی، جھوٹی قسموں، جھوٹی باتوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین


جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور آج کل ہمارے معاشرے میں جھوٹے گواہ خریدے جاتے ہیں اور اس ایک کبیرہ گناہ یعنی جھوٹی گواہی کی وجہ سے لوگ کئی گناہوں جیسے بہتان، دل آزاری، الزام تراشی وغیرہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جھوٹی گواہی کی مذمت پر کئی احادیث وارد ہیں چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ سن لو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا بڑے گناہ ہیں۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (

2۔ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں پھر جو ان کے بعد ہیں پھر وہ جو ان کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔ (بخاری، 2/193، حديث:2652)

آہ! دیکھا جائے تو ہمارے زمانے میں بھی جھوٹی گواہی بہت سے لوگ دیتے ہیں کچھ مال کمانے کے لیے، دنیاوی نفع حاصل کرنے کے لیے یا پھر کسی کو ذلیل کرنے کے لیے جھوٹی گواہی دی جاتی ہے۔ آج دنیا میں ہمیں دنیاوی نفع تو حاصل ہو جائے گا مگر قیامت کا عذاب سب سے سخت تر ہوگا کہ

3۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

جو جھوٹی گواہی دے یا گواہی کو چھپائے یا پھر جھوٹے گواہوں کے ساتھ چلے یہ سب جھوٹے گواہوں میں شامل ہیں کہ حدیث مبارکہ میں ہے

4۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم اوسط، 3/156، حديث:4167)

5۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)

اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو ہدایت دے اور جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔


آج کل جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی سا فعل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ مذموم امر ہے اور قرآن وحدیث میں بھی اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔

تفسیر: یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623) ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔ (تفسیرقرطبی، 5 / 187)

آئیے کچھ احادیث ملاحظہ کیجئے اور اس مذموم صفت سے خود کو بچائیے:

احادیث مبارکہ:

1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)

3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث: 11541)

4۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ، 6/ 136، حدیث: 11444)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے اور احکاماتِ اسلامیہ کے مطابق شب و روز بسر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں۔ آئیے احادیث مبارکہ اور اس سے پہلے ایک آیت مبارکہ کی روشنی میں جھوٹی گواہی کی مذمت ملاحظہ فرمائیے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔

اب جھوٹی گواہی دینے کی مذمت پر احادیث ملاحظہ ہوں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)

2۔ جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داود، 4/354، حدیث: 4883)

3۔ جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام) رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔ (مصنف عبد الرزاق، 11/ 425، حدیث: 20905)

4۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالٰی کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ احادیث مبارکہ کی برکت سے ہمیں اس مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔