یوں تو ہر جھوٹی بات حرام و گناہ ہے، مگر جھوٹی
گواہی خاص طور سے بہت ہی سخت گناہ کبیرہ اور جہنم میں گرا دینے والا جرم عظیم ہے، کیونکہ
قرآن و حدیث میں خصوصیت کے ساتھ جھوٹی گواہی پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ دوسری قسموں کے جھوٹ سے تو صرف جھوٹ بولنے والے ہی کی دنیا آخرت خراب
ہوتی ہے مگر جھوٹی گواہی سے تو گواہی دینے والے کی دنیا و آخرت خراب ہونے کے علاوہ
کسی دوسرے مسلمان کا حق مارا جاتا ہے یا بلا قصور کوئی مسلمان سزا پاتا ہے اور
ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں شرعاً بڑے گناہ کے کام ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ پاک نے اپنے خاص بندوں کی فہرست
بیان فرماتے ہوے ارشاد فرمایا: (پ 19، الفرقان: 72) ترجمہ کنز الایمان: اور
جوجھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بے ہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے
ہیں۔ لہذا بہت ضروری ہے کہ مسلمان جھوٹی گواہی کو جہنم کی آگ سمجھ کر ہمیشہ اس سے
دور بھاگیں۔ اب احادیث کی روشنی میں جھوٹی گواہی کی مذمت ملا حظہ فرمائیں۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ حضور ﷺ نے بڑے بڑے گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی بھی گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا جرم ہے۔ (بخاری،
4/ 358، حدیث: 6871)
2۔ حضور اکرم ﷺ سے کسی نے عرض کی کہ کیا مومن بزدل
ہوتا ہے؟ تو حضور نے فرمایا: ہاں۔ پھر کسی نے عرض کی کہ کیا مومن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا:
ہاں۔ پھر کسی نے پوچھا مومن جھوٹا ہوتا ہے؟ تو فرمایا: نہیں۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/196،
حدیث: 4862)
3۔ تم لوگ جھوٹ بولنے سے بچتے رہو، کیونکہ جھوٹ
بدکاری کا راستہ بتاتا ہے اور بدکاری جہنم کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور آدمی ہمیشہ
جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم، ص
1405، حدیث: 2607)
اللہ پاک ہم سب کو جھوٹی گواہی دینے سے بچائے۔ اور
ہمارا شمار صدیقین میں سے ہو نہ کہ کذابین میں۔