
جھوٹ ایک مذموم فعل ہے یعنی کسی ایسی بات کو بیان
کرنا جس کی کوئی حقیقت نہ ہو خود سے گھڑی ہو اور کسی ایسی بات کی گواہی دینا جو کہ
نہ تو سنی ہو اور نہ ہی دیکھی ہو جھوٹی گواہی کہلاتی ہے اور یہ جہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔ جھوٹی گواہی دینا ایک کبیرہ گناہ ہے۔ جھوٹی گواہی دینے سے حقوق
العباد تلف ہونے کا خطرہ بھی ہے کہ جھوٹی گواہی دینے سے نجانے کسی کا مال یا جان
چلی جائے تو یہ بھی گناہ ہے۔ جھوٹی گواہی کی اللہ اور رسول ﷺ نے بھی ممانعت فرمائی
ہے، چنانچہ الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ
الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز
الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل
ان سب سے سوال ہونا ہے۔ جھوٹی گواہی کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں۔
فرامینِ رسول:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حديث: 2373)
2۔ جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر
الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے
کے مطابق عذاب پا لے۔ (ابو داود، 4/354، حديث: 4883)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: سن لو!
تمہیں تین بڑے گناہوں کے بارے میں بتاتا ہوں (1)شرک (2) والدین کی نافرمانی (3)
جھوٹی گواہی۔ (بخاری، 4/ 95، حدیث: 5976)
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر
لیا۔ ( معجم كبير، 11 / 172، حدیث: 11541)
جیساکہ ہم نے جھوٹی گواہی کی مذمت پر احادیث مبارکہ
پڑھیں جس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی گواہی دینا بھی جھوٹ ہے۔ اور جھوٹی گواہی دینے
سے انسان طرح طرح کے نقصانات کو مول لیتا ہے۔ اور اللہ پاک کی نافرمانی میں پڑ
جاتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کی توفیق دے اور
ہمارا خاتمہ ایمان بالخیر ہو۔ آمین

جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام
لگانا انتہائی مذموم فعل ہے جھوٹی گواہی دینے والے کی دنیا و آخرت برباد ہو جاتی ہے
نیز جھوٹی گواہی دینے والا اپنے مسلمان بھائی کا حق مارتا ہے جبکہ حقوق العباد کا
معاملہ بہت سخت ہے، قرآن و حدیث میں جھوٹی گواہی کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، لہٰذا
ہر مسلمان کو اس سے ڈر جانا چاہیے۔
جھوٹی گواہی کی تعریف: کوئی شخص جان
بوجھ کر ایسی چیز کی گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا ہے یا جس چیز کی گواہی دیتا ہے وہ
حقیقت کے برخلاف ہو۔
جھوٹی گواہی کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ الله
تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: الله کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ الله تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب
کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث: 11541)
5۔ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں خبر
نہ دوں؟ الله کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ سنو! جھوٹی بات
اور جھوٹی گواہی دینا (بھی بڑا گناہ) ہے۔ آپ اس کلمہ کی تکرار فرماتے رہے حتیٰ کہ
ہم نے (شفقت کے باعث دل میں) کہا: کاش! آپ سکوت فرمائیں۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (
الله تعالیٰ نے ہمارے خالصتاً دنیوی معاملات میں
بھی کتنے واضح حکم ارشاد فرمائے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین کامل ہے اس میں
عقائد و عبادات کے ساتھ معاملات تک کا بھی بیان ہے اور حقوق العباد نہایت اہم ہے
کہ الله پاک نے نہایت وضاحت سے ان کا بیان فرمایا نیز شریعت کے احکام میں بے پناہ
حکمتیں ہیں اور ان میں ہماری بہت زیادہ بھلائی ہے۔
الله کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی
توفیق عطا فرمائے دوسروں کے معاملے میں سچا فیصلہ کرنے اور حق بات کی گواہی دینے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

جن امور سے شریعت مطہرہ اور قرآن و احادیث مبارکہ
میں منع فرمایا گیا ہے ان میں سے ایک جھوٹی گواہی بھی ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے نیز
لوگوں میں بھی اس کو برا کام سمجھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ
اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ- (پ 3، البقرۃ: 283) ترجمہ کنز الایمان: اور گواہی
نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جھو ٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ
اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/ 123، حديث: 2373)
2۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال
ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا
نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ، 6/ 136، حدیث: 14441)
4۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی
چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم
اوسط، 3/156، حديث:4167)
5۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث:
6871)
اللہ پاک
سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے امور سے بچائے جن امور کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث
مبارکہ میں وعیدیں بیان کی گئی ہیں اور ہمارے رشتے دار اہل و عیال سب کو ان امور
سے بچائے۔ آمین

جھوٹی گواہی کا مطلب ہے غلط گواہی دینا یعنی کہ حق
کے خلاف گواہی دینا اور یہی جھوٹی گواہی کا عام مطلب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ
الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ
کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ
اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔
تفسیر: جس
بات کا علم نہیں اس بات کے پیچھے پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اس کے
بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ
نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔
یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی
مذموم فعل ہے۔ یہاں اس سے متعلق چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
2۔ جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر
الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہے ہوئے
کہ مطابق سزا پالے۔ (ابو داود، 4/354، حدیث: 4883)
3۔ جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے
بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے جیسے ردغۃ الخبال (جہنمیوں کے
خون اور پیپ جمع ہونے کا مقام ) میں اس وقت تک رکھے گا جب تک اپنے الزام کے مطابق
عذاب نہ پائے۔ (مصنف عبدالرزاق، 11/ 425، حدیث: 20905)
افسوس فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام
سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں جس کا جو
دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگاتا ہے اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں
تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب
یہی تھا! اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتا چلا؟ اس کے
پاس کیا قابل قبول ثبوت ہے؟ اس بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی
معلوم نہیں۔ مذکورہ آیت اور احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز
عمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔

جھوٹی گواہی ایک بہت برا فعل ہے جس کو معاشرے میں
بھی برا سمجھا جاتا ہے کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دینا حرام اور جہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَاجْتَنِبُوا
الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ
17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات
سے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے تو وہ اللہ کریم کی ناخوشی میں ہے جب تک اس
سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136،
حدیث: 11444)
2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
3۔ نہ خیانت کرنے والے مرد اور نہ خیانت کرنے والی
عورت کی گواہی جائز ہے نہ ایسے مرد کی جس پر حد لگائی گئی ہو اور نہ ایسی عورت کی،
اور نہ اس کی جس کو اس سے عداوت ہو اور نہ اس کی جس کی گواہی کا تجربہ ہوچکا ہو اور
نہ اس کے موافق جس کا تابع ہے یعنی اس کا کھانا پینا اس کے ساتھ ہو اور نہ اس کی
جو ولا یا قرابت میں متہم ہو۔ (ترمذی، 4/84، حدیث: 2305 )
4۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136،
حدیث: 11444)
5۔ سب سے بہتر میرے زمانے والے ہیں پھر جو ان کے
بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت لے جائے گی اور قسم گواہی
پر یعنی لوگ گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(بخاری، 2/193، حديث:2652)
اللہ کریم ہمیں ہمیشہ سچ بولنے والا بنائے اور کسی
کے خلاف جھوٹ بات کرنے سے بچائے۔ آمین

ارشادِ ربانی ہے: وَ
الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا
كِرَامًا(۷۲) (پ 19، الفرقان: 72) ترجمہ کنز
الایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت
سنبھالے گزر جاتے ہیں۔
جھوٹی گواہی کی مذمت پر احادیث مبارکہ:
1۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
2۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ ( ابن ماجہ، 3/123، حدیث:
2373)
3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر ) جہنم (کا عذاب)
واجب کر لیا۔ (معجم كبير، 11/172، حدیث:
11541)
4۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہو جائے۔ (سنن كبرىٰ، 6/136، حدیث: 11444)
5۔ کیا میں تمہیں اكبر الكبائر
یعنی سب سے بڑے کبيره گناہ کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: ضرور، اے اللہ کے رسول!
آپ ﷺ نے تین دفعہ دریافت فرمایا، پھر یوں وضاحت فرمائی: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک
ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، پہلے آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر سیدھے ہو کر
بیٹھ گئے اور فرمایا: غور سے سنو! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ آپ یہی کہتے رہے حتیٰ
کہ میں نے کہا: شاید آپ چپ ہی نہ ہوں۔ (بخاری، 4/95، حدیث:5977 (
جھوٹی گواہی نفاق کی علامت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے
جھوٹی گواہی کی شدید مذمت فرمائی، کیونکہ جھوٹی گواہی سے کسی کی جان جاسکتی ہے، مال
ضائع ہوسکتا ہے، عزت پامال ہو سکتی ہے۔
اللہ پاک سب مسلمانوں کو اس گناہ کبیرہ سے محفوظ
رکھے۔ آمین

جھوٹی گواہی ایک بُرا فعل ہے۔ جھوٹی گواہی دینے
والے کی دنیا و آخرت برباد ہو جاتی ہے یہ ایک ایسی معاشرتی بیماری ہے جو سماج اور
عدالتی نظام کو تباہ کر دیتی ہے۔
تعریف:حق
کو ثابت کرنے کے لیے مجلسِ قاضی میں لفظ شہادت کے ساتھ سچی خبر دینے کو شہادت یا
گواہی کہتے ہیں۔ (تنویر الابصار، 8/194)
احادیث مبارکہ کی روشنی میں جھوٹی گواہی کی مذمت:
1۔ رسول الله ﷺ صبح کی نماز پڑھ کرکھڑے ہوئے
اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ (ابو داود،
3/427،حدیث: 3599)
2۔ جس نے جھوٹی قسم پر حلف اٹھایا تا کہ اس کے
ذریعے اپنے مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا
کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوگا۔ (بخاری، 4/290،الحدیث: 6659)
3۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے (اپنے اوپر ) جہنم کو واجب
کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/172،حدیث: 11541)
4۔ جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر
الزام عائد کرے تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے
کے مطابق عذاب پالے۔ (ابو داود، 4/354،حدیث: 4883)
5۔ جو کسی مسلمان ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے
بارے میں وہ خود بھی نہ جانتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)
ردغۃالخبال میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔ (مصنف
عبد الرزاق، 11/ 425، حدیث: 20905)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہی جیسے گناہ
سے محفوظ فرمائے۔ آمین
جھوٹی گواہی
کی مذمت از بنت خلیل احمد عطاری، فیضان عائشہ صدیقہ مظفرپورہ سیالکوٹ

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا
بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)
(پ 19، الفرقان: 72) ترجمہ کنز الایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب
بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔ جھوٹی گواہی کبیرہ گناہ ہے۔
گواہی نہ چھپاؤ کہ اس کو چھپانا حرام ہے اور دل کے گنہگار ہونے کی علامت ہے، کیونکہ
اس میں صاحب حق کے حق کو ضائع کرنا پایا جاتا ہے اور جھوٹی گواہی دینے والا جس کے
خلاف گواہی دیتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے تو اس کی جھوٹی گواہی دینے کی وجہ سے اس کا
مال، عزت،جان سب کچھ چلا جاتا ہے۔
جھوٹی گواہی کے متعلق احادیث مبارکہ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
پاک اس کے لیے جہنم واجب فرما دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
2۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اس نے اپنے اوپر جہنم کو واجب کر
لیا۔(معجم کبیر، 11/ 172، حدیث: 11541)
3۔ بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا،
والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
4۔ جھوٹی گواہی اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنے کے برابر
ہے۔ (ابو داود، 3/427،حدیث: 3599)
5۔ مومن کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کے سوا ہر خصلت
ہو سکتی ہے۔ ( مسند امام احمد، 8/276، حدیث:22232) لہذا معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی
بہت بڑا گناہ ہے اس سے ہر مسلمان کا بچنا ضروری ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جھوٹی گواہی دینا ایک بہت برا عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: مَنْ شَهِدَ لِغَیْرِهِ بِغَیْرِ مَا یَعْلَمُ فَإِنَّمَا یَلْعَنُهُ
اللّٰهُ وَ الْمَلائِکَةُ وَ النَّاسُ اَجْمَعُونَ یعنی جو شخص
کسی کے بارے میں اس کے علم کے بغیر گواہی دے تو اللہ، فرشتے اور لوگ اس کو لعنت
کرتے ہیں۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹی گواہی دینا اللہ پاک کی لعنت کا
سبب ہے۔ ہمیں ہمیشہ سچی گواہی دینی چاہئے اور کسی کے بارے میں صرف اتنی گواہی دینی
چاہئے جو ہمارے علم اور حقیقت کے مطابق ہو۔ اسلام میں صداقت اور امانتداری بہت اہم
اخلاقی اقدار ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ
لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ
الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز
الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل
ان سب سے سوال ہونا ہے۔
تفسیر: جس
بات کا عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو
اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنا نہ ہو اس کے
بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی
گواہی نہ دو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے
کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623)
یاد رہے! جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر
غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ اس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، 3/123، حدیث: 2373)
2۔ جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر
الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے
کے مطابق عذاب پا لے۔ (ابو داود، 4/354، حدیث: 4883)
اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے
محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو اس کی اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی اِطاعت و رضا
والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جھوٹی گواہی کی مذمت از بنت محمد صابر،
جامعہ نورِ طیبہ اسلامک انسٹیٹیوٹ کراچی

جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا
وصف ہے۔ جبکہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی
مذموم فعل ہے کثیر احادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے چند
احادیث ملاحظہ ہوں۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
پاک اس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ،3/123، حدیث:2373)
2۔ جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر
الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے
مطابق عذاب پالے۔ (ابوداود، 4/ 354، حدیث: 4883)
3۔ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ جھوٹی گواہی دینا
بھی ہے۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)
4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا
مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب
کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/ 172، حدیث: 11541)
5۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ
بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ پاک کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا
نہ ہو جائے۔ (سنن کبری، 6/136، حدیث: 11444)
الله پاک ہمیں جھوٹ بولنے، جھوٹی گواہی دینے اور
جھوٹ کی آفت سے محفوظ فرمائے۔ آمین

قرآنِ پاک میں اللہ کریم نے مومنات کے بہت سارے
اوصاف بیان فرمائے ہیں جن میں سے دس اوصاف درج ذیل ہیں: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ
وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ
الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ
الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ
فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ
الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵) (پ
22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: بےشک مسلمان مرد
اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اور فرمانبردار مرد
اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں صبر کرنے والے اور صبر کرنے
والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات
کرنے والیاں اور روزے رکھنے والے اور روزے رکھنے والیاں اور اپنی پارسائی کی حفاظت
کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور بہت یاد کرنے
والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑاثواب تیار کررکھا ہے۔
اوصافِ مؤمنہ:
1۔ سب سے پہلے یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ عورتیں
جو کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئیں اور اللہ پاک کے احکام کی اطاعت کی اور ان کے
سامنے سر تسلیم خم کر دیا، یہ شان ہے مومنہ عورت کی۔
2۔ اور وہ عورتیں جنہوں نے اللہ پاک کی وحدانیت اور
خاتم النبیین ﷺ کی رسالت کی تصدیق کی اور تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کیا۔
3۔ وہ عورتیں جنہوں نے عبادات پر ہمیشگی اختیار کی
اور ان عبادات کو ان کی حدود و شرائط کے مطابق ادا کیا، یہ ہیں ایمان والی عورتیں۔
4۔ وہ عورتیں ایمان والی ہیں جو اپنی نیت، قول اور
فعل میں سچی ہوتی ہیں۔
5۔ وہ عورتیں جنہوں نے نفس پر انتہائی دشوار ہونے
کے باوجود اللہ پاک کی رضا کے لیے جن کاموں کا حکم دیا گیا ان پر پابندی کی اور جن
کاموں سے منع کیاگیا ان سے بچتی رہیں اور مصائب و آلام میں بے قراری اور شکایت کا
مظاہرہ نہ کیا۔
6۔ وہ عورتیں جنہوں نے اطاعتوں اور عبادتوں میں
اپنے دل اور اعضاء کے ساتھ عاجزی و انکساری کی۔
7۔ وہ عورتیں جنہوں نے اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال
میں سے اس کی راہ میں فرض و نفلی صدقات دیئے۔
8۔ وہ عورتیں جنہوں نے فرض کے ساتھ نفلی روزے بھی
رکھے فرض عبادات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کو بھی بجالائیں۔
9۔ وہ عورتیں جنہوں نے اپنی عفت اور پارسائی کی
حفاظت کی اور ہر اس کام سے بچیں جو ان کے لیے جائز نہ تھا حلال نہ تھا۔
10۔ وہ عورتیں جو اپنے دل اور زبان کے ساتھ کثرت سے
اللہ پاک کا ذکر کرتی ہیں (کثرت سے ذکر کرنے والوں میں بندہ تب شمار ہوتا ہے جب
چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں ذکر اللہ کرے)۔
مذکورہ گفتگو سے پتا چلتا ہے یہ جو ان اوصاف سے
متصف بناتِ حوا ہیں ان کے لیے رب تعالیٰ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
ذکر میں تسبیح کرنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، کلمہ
طیبہ کا ورد کرنا، اللہ اکبر کہنا، قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا، علمِ دین حاصل کرنا،
نماز پڑھنا، میلادشریف منانا، نعت شریف پڑھنا وغیرہ ( 313 بار تسبیح کرنا کثرت میں
شمار ہوتا ہے)۔ (صراط الجنان، 8/30تا32)

مؤمنات کے اوصاف درج ذیل ہیں:
1۔ اپنے عیوب کو دیکھنے والی ہو، اپنے عیوب پر غور
و حوض کرنے والی ہو اپنے رب کے حضور رجوع کرنے والی ہو۔
2۔ اس کی آواز پست ہو، زیادہ خاموش رہنے والی ہو
اور نرم خو ہو پاکیزہ زبان والی ہو۔
3۔ حیا کا اظہار کرنے والی ہو اور بے ہودہ کلامی سے
بچنے والی ہو۔
4۔ کشادہ دل رکھنے والی ہو، بہت زیادہ صابرہ ہو،
مکر کرنے والی نہ ہو، بہت زیادہ شکر ادا کرنے والی ہو۔
5۔ کسی سے اپنے دل میں کینہ رکھنے والی نہ ہو، عیوب
سے پاک ہو، مہربان ہو، رحم دل ہو۔
6۔ اللہ پاک سے راضی رہنے والی ہو، پاکباز اور باوقار
ہو۔
7۔ اچھی عادات والی ہو۔
8۔ اچھے اخلاق سے متصف ہو۔
9۔ نرم طبیعت والی ہو، جھوٹ سے پاک ہو اور تکبر سے
بری ہو۔
10۔ اپنے نفس کی حفاظت کرنے والی ہو، پردہ کرنے
والی ہو، خاوند کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والی ہو، گھر والوں کے لیےمہربان ہو۔
مومنات نہ مائل ہونے والی ہوتی ہیں اور نہ ہی مائل
کرنے والی ہوتی ہیں۔ ان کا اندازِ گفتگو، ان کی چال ڈھال، ان کا لباس، ان کی نظریں
اور ان کے معاملات سب حیا کے دائرے میں ہوتے ہیں، وہ نہ ہی ہر غیر محرم کے دل میں
بسنے والی ہوتی ہیں اور نہ ہی ہر ایک کو اپنے دل میں بسانے والی ہوتی ہیں۔