جھوٹی گواہی یعنی کوئی شخص جان بوجھ کر ایسی چیز کی گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا ہے یا جس چیز کی گواہی دیتا ہے وہ حقیقت کے برخلاف ہو۔ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔ جھوٹی گواہی گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ ہے جس کے معنی حقیقت کے برخلاف گواہی دینا ہے۔ فقہا نے آیات اورروایات سے استدلال کرتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶) (پ 15، بنی اسرائیل: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔ جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت عبد الله بن عباس ضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (تفسیر مدارک، ص623) تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی ممانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، 5 / 187) آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں جھوٹی گواہی کی مذمت سنتےہیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/ 123، حدیث: 2373)

2۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ ( بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)

3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن كبرىٰ، 6/136، حدیث: 11444)

4۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کامال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر ) جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔ (معجم كبير، 11/172، حدیث: 11541)

5۔ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی چھپائی یعنی گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم اوسط، 3/156، حديث:4167)اس فرمانِ عالی کے کئی مطالب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ کسی کے پاس مدعی کے حق کی گواہی ہو اور مدعی کو اس کا علم نہ ہو اور یہ گواہی نہ دے اور مدعی ناحق مارا جائے تب اس پر لازم ہےکہ خود مدعی کو خبر دے کہ میں خود تیرے حق کا عینی گواہ ہوں تاکہ اس کا حق نہ مارا جائے۔ دوسرا یہ کہ حقوق شرعیہ کی گواہی دینا واجب ہے اگرچہ اس کا دعویٰ نہ ہو جیسے طلاق۔ ( مراۃ المناجیح، 5/397)

اللہ کریم ہمیں ہمیشہ ہر حال میں سچ کا دامن تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جھوٹ کے سہارا لینے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اور اپنے سچے محبوب ﷺ کی رضا و خوشنودی والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین