جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے، یہ حرام اور بہت برا کام
ہے، جھوٹ بولنا اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور اس سے
کسی کی دل آزاری بھی ہوسکتی ہے، کسی کا مال ضائع ہوسکتا ہے، کسی کی حق تلفی ہوسکتی
ہے۔ اللہ پاک نے جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی سے منع فرمایا ہے، چنانچہ قرآن پاک
میں ارشاد ہوتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ
الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ
غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ 17، الحج: 30-31) ترجمہ کنز
الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس
کا ساجھی(شریک) کسی کو نہ کرو۔ جھوٹی گواہی کے متعلق احادیث مبارکہ میں مذمت آئی
ہے۔ چنانچہ
احادیث مبارکہ:
1۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ پھر جو ان کے بعد
ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ انکی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی
گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔ (بخاری، 2/193، حديث:2652)
2۔ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلمان کا
مال ہلاک ہوجائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے جہنم واجب کرلیا۔ (معجم کبیر، 11/
172، حدیث: 11541)
3۔ جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ
یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر
جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ پاک کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے
جدا نہ ہوجائے۔ (سنن کبری، 6/136،
حدیث: 11444)
4۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا،
ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/
358، حدیث: 6871)
اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ سے بچائے۔ آمین۔