جھوٹی گواہی ایک بہت بڑا گناہ ہے اس سے ہر کسی کو بچنا چاہیے کہ قرآن و احادیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) (پ 17، الحج: 30) ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے میراث کے متعلق حضور ﷺ کی خدمت میں دعویٰ کیا اور گواہ کسی کے پاس نہ تھے ارشاد فرمایا: اگر کسی کے موافق اس کے بھائی کی چیز کا فیصلہ کردیا جائے تو وہ آگ کا ٹکڑا ہے، یہ سن کر دونوں نے عرض کی: یا رسول الله! میں اپنا حق اپنے فریق کو دیتا ہوں۔ فرمایا: یوں نہیں بلکہ تم دونوں جاکر اسے تقسیم کرو پھر قرعہ اندازی کرکے اپنا اپنا حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے سے معافی کرالے۔ (سنن کبریٰ،10/427، حدیث: 21201)

2۔ مروی ہے کہ دو شخصوں نے ایک جانور کے متعلق دعویٰ کیا ہر ایک نے اس بات پر گواہ کئے کہ میرے گھر کا بچہ ہے، رسول الله ﷺ نے اس کے موافق فیصلہ کیا جس کے قبضہ میں تھا۔ (شرح السنۃ، 5/343، حدیث: 2498)

3۔ حضور ﷺ کے زمانہ اقدس میں دو شخصوں نے ایک اونٹ کے متعلق دعویٰ کیااور ہر ایک نے گواہ پیش کیے حضور نے دونوں کے مابین نصف نصف تقسیم فرمادیا۔ (ابو داود، 3/434، حدیث: 3615)

4۔ سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر ان کے بعد، پھر وہ جو ان کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہونگے۔ (بخاری، 2/193، حدیث: 2652)

5۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)