اللہ پاک نے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں اہلِ ایمان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۷) ترجمۂ کنزالایمان: جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے اور ضرور انہیں ان کا نیگ دیں گے جو ان کے سب سے بہتر کام کے لائق ہو۔ (پ 14 ، النحل: 97 ) اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے دنیا میں حلال رزق اور قناعت عطا فرما کر اور آخرت میں جنت کی نعمتیں دے کر پاکیزہ زندگی دیں گے۔ بعض علما نے فرمایا کہ اچھی زندگی سے عبادت کی لذت مراد ہے ۔

حکمت :مؤمن اگرچہ فقیر بھی ہو اُس کی زندگانی دولت مند کافر کے عیش سے بہتر اور پاکیزہ ہے کیونکہ مؤمن جانتا ہے کہ اس کی روزی اللہ پاک کی طرف سے ہے جو اُس نے مقدر کیا اس پر راضی ہوتا ہے اور مؤمن کا دل حرص کی پریشانیوں سے محفوظ اور آرام میں رہتا ہے اور کافر جو اللہ پاک پر نظر نہیں رکھتا وہ حریص رہتا ہے اور ہمیشہ رنج ، مشقت اور تحصیلِ مال کی فکر میں پریشان رہتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال پر ثواب ملنے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے ، کافر کے تمام نیک اعمال بیکار ہیں ۔(تفسیرِ خازن،سورة النحل، تحت الآیۃ: 97 ، 3 / 141-142، ملخصاً)

انسان و مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا سب سے پہلا تعلّق اپنے ربّ کریم سے ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق و مالک و رازق ہے قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ پاک پر ایمان رکھنے والے مؤمنین کے اوصاف و کمالات بیان کئے گئے ہیں ۔

آیئے! اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰنِ مجید میں مؤمن مرد کے جو اوصاف و کمالات بیان کئے ہیں ان میں سے کچھ کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1) نماز تو مسلمان کے لئے معراج ہے قراٰنِ مجید میں کثیر مقامات پر اللہ پاک نے ایمان والوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور مسلمان ، مؤمن مرد وقت پر پابندی اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والا ہوتا ہے ۔

چنانچہ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔( تفسیرِ مدارک،سورة المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ، ص751)

نماز میں ظاہری و باطنی خشوع: نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیشِ نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(تفسيرِ صاوی، سورة المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ،4 / 1352)

(2) مؤمن مرد فرض ہونے کی صورت میں زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بھی کئی مقامات پر ارشاد فرمایا ہے کہ زکوٰۃ دو ، اور مؤمن مرد اللہ پاک کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ بھی دیتا ہے اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں بھی فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیتِ مبارکہ میں مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ایک وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( البحر المحیط ، سورة المؤمنون ، تحت الآیۃ : 4 ، 6 / 366)

(3) مؤمن مرد کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس کا ذکر بھی اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا کہ: ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔ (پ1،البقرۃ:3)اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اللہ پاک کے دیئے ہوئے رزق میں کچھ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا تذکرہ ہے یا اس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، طلبہ ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیائے کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں۔

(4) مؤمن مرد کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جب مؤمن مرد کے سامنے اللہ پاک کا نام لیا جائے تو ربّ کریم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے ، وہ گناہ کرنے سے باز آ جاتا ہے ، اللہ پاک کی نافرمانیاں کرنے سے رک جاتا ہے اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں۔ (پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ  جب اللہ پاک کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔

  اللہ پاک کا خوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ پاک کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔  پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیاء کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ پاک سے جتنا زیادہ قرب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیرِ کبیر،سورة الانفال، تحت الآیۃ: 2،  5/ 450 ملتقطاً)

(5) مؤمن مرد کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کے سامنے قراٰنِ پاک کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو اس کا اپنے رب پر بھروسہ اور ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا ذکر بھی اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔(پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔

(6) مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ تمام امور اللہ پاک کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کا ذکر اللہ کریم قراٰنِ مجید میں یوں فرماتا ہے کہ: ﴿وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں ہے کہ وہ  اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ ( تفسیرِ خازن، سورة الانفال، تحت الآیۃ: 2،  2 / 176)

توکل کا حقیقی معنی: امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’توکل کا یہ معنی نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو مُہمَل چھوڑ دے جیسا کہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اَسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ پاک کی نصرت ،اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسہ کرے ۔  (تفسیر کبیر،سورة اٰل عمران، تحت الآیۃ: 159 ، 3/ 410) 

(7) مؤمن مرد کی صفات میں سے ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو نماز قائم رکھیں ۔ (پ21، لقمٰن: 4) اس آیتِ کریمہ میں مؤمن مرد کا وصف بیان کیا گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نماز پڑھی جائے۔ نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اور نماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُ اللہ  کے  خیال سے فارغ کرکے ظاہر و باطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہو اور بارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔( تفسیرِ بیضاوی،سورة البقرۃ، تحت الآیۃ: 3 ، 1/ 115-117)

(8) مؤمن مرد کی صفات میں سے ہے کہ وہ زمین پر اطمینان سے چلتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:63)اس آیت میں بیان ہوا کہ کامل ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔ مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں چلتے۔( تفسیرِ مدارک،سورة الفرقان، تحت الآیۃ: 63، ص809، ملخصاً)

(9) مؤمن مرد کی صفات میں سے ہے کہ یہ دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔(پ19،الفرقان:63)اس آیتِ کریمہ میں   یہ بیان ہوا کہ کامل ایمان والے دوسروں  کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں  تو کہتے ہیں  ’’بس سلام‘‘ اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں  کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں  یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ ایسی بات کہتے ہیں  جو درست ہو اور اس میں  ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔(تفسیرِ ابو سعود، سورة الفرقان، تحت الآیۃ: 63 ، 4 / 148)

(10) مؤمن مرد کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ ہی تنگی کرتے ہیں۔ اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)


سب سے پہلے مؤمن کی تعریف ذکر کرتا ہوں: چنانچہ مردِ مؤمن ، امامِ اہلسنت ،اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:محمد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہر بات میں سچا جانے ،حضور کی حقانیت کو صدق دل سے ماننا ایمان ہے جو اس کا مقر ہو(اقرار کرے) اسے مسلمان جانیں گے جبکہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اللہ و رسول (عزوجل و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کا انکار یا تکذیب یا توہین نہ پائی جائے ۔(فتاویٰ رضویہ ،29/ 254)

بنیادی طور پر صرف دو ہی گروہ ہیں: (1) اہلِ حق یعنی مسلمان(2)اہل باطل یعنی کافر

اللہ پاک نے اپنے فضل خاص کے ساتھ مؤمنوں سے جنت کا وعدہ فرمایا جبکہ کافروں کو ذلت و رسوائی کے عذاب کی وعیدیں سنائیں ۔چونکہ قراٰنِ مجید ، برھانِ عظیم میں مسلمانوں کیلئے کامل رہنمائی موجود ہے تو قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے مؤمنین کے کئی اوصاف بیان کئے تاکہ ان اوصاف کو حاصل کر کے مردِ مؤمن کامل مؤمن بن جائے اور دوسرا ان اوصاف کے ذکر کرنے میں ان لوگوں کی مدح سرائی بھی ہے جو ان اوصاف سے متصف ہیں ۔ ان میں سے کچھ اوصاف ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

قراٰنِ مجید پارہ 2 سورہ بقرہ آیت نمبر 165 میں ارشاد ہوتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165)اس آیت سے معلوم ہوا کہ سچے مؤمن کا یہ وصف ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتا وہ ہر چیز میں رب کی رضا کا طالب ہوتا ہے اسکی گفتار اس کا کردار، اس کی ہر چیز رب تعالیٰ کی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہے ۔

شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا

ہر لحظہ ہے مؤمن کی نئی شان، نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اﷲ کی برہان!

قراٰنِ مجید پارہ 10 سورۃُ التوبہ آیت نمبر 71 میں ارشادِ باری ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ10،التوبۃ:71)آیت مذکورہ میں مؤمنوں کے چند اوصاف ذکر کئے گئے : (1)سب مؤمن ایک دوسرے کے دوست ہیں ،ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں ۔(2)کامل مسلمان بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔(3)تیسری نشانی کامل مؤمنوں کی یہ ہے کہ وہ نماز کے پابند ہیں ۔(4)زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔(5)اور ان کا ایک بلند ترین وصف یہ بھی ہے کہ وہ ہر حال میں ہر مسئلے میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی کرتے ہیں ۔

قراٰنِ کریم پارہ 11 سورہ توبہ آیت نمبر 124 میں ارشادِ رب کریم ہے :﴿وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًاۚ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۱۲۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان میں کوئی کہنے لگتا ہے کہ اس نے تم میں کس کے ایمان کو ترقی دی تو وہ جو ایمان والے ہیں ان کے ایمان کو اس نے ترقی دی اور وہ خوشیاں منارہے ہیں۔ (پ11،التوبۃ:124) اس آیت میں مؤمنوں کا یہ وصف ذکر کیا گیا کہ وہ آیتوں کے اترنے سے خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کا ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے اور آخرت میں انکا اجرو ثواب زیادہ ہو جاتا ہے جبکہ منافقین آیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور عذابِ نار کے حقدار بن جاتے ہیں ۔

قراٰنِ کریم کے پارہ 26 سورہ حجرات آیت نمبر 15 میں ارشادِ ربانی ہے:﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں ۔ ( پ 26، الحجرات: 15)اس آیت میں کامل مؤمنوں کے دو اوصاف مذکور ہیں : (1)وہ اللہ و رسول (جل جلالہ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)پر بغیر کسی شک و شبہ کے ایمان لاتے ہیں ۔(2)وہ اللہ کی راہ میں اپنی مالوں اور جانوں کے ذریعے جہاد کرتے ہیں۔

جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے ۔ جہاد کو قراٰنِ مجید پارہ نمبر 4 میں مؤمن اور منافق کے درمیان پہچان کا ذریعہ قرار دیا گیا اور احادیث میں بھی اس کے کثرت سے فضائل ہیں ۔ ہیں ان میں سے ایک حدیث بطور برکت ذکر کرتا ہوں :

تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے :یہ دین قائم رہے گا اس پر مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد کرتی رہے گی حتی کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (مشکاۃ المصابیح ،کتاب الجہاد ، الفصل الاول ، حدیث:3801)

اہم مدنی پھول :قارئینِ کرام اس مضمون میں ذکر کردہ تمام اوصاف ہمارے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ہمیں چاہیے کہ دیکھیں کہ ہم میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں یا نہیں اگر یہ اوصاف موجود ہیں تو اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور اگر نہیں پائے جاتے تو پھر ان اوصاف سے ہمیں خود کو آراستہ کرنا چاہیے تاکہ ہم دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز ہو جائیں

اللہ پاک ہمیں نبی کریم خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاص کی نعمت سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو پیدا فرمایا اور اپنی عبادت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا جن لوگوں نے اس کا حکم مانا وہ کامیاب ہو گئے جنہوں نے نافرمانی کی وہ ہمیشہ کے عذاب کے حقدار ٹھہرے ۔

کامیاب کون لوگ ہیں؟: اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اللہ پاک نے مؤمنین کو کامیاب گروہ فرمایا ساتھ ہی قراٰنِ پاک میں مؤمنین کی کئی صفات کو بھی بیان فرمایا ہے ۔ آئیے ان صفات کو عمل کی نیت سے پڑھتے ہیں:

( 1)اللہ پاک سے محبت کرنے والا : ایک بندۂ مؤمن تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ پاک سے محبت کرتا ہے۔ محبتِ الہٰی میں جینا اور محبتِ الہٰی میں مرنا اس کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم و گداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہِ نیاز میں سر بَسجود ہونا، یادِ الہٰی میں رونا، رضائے الہٰی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے یہ سب وہ اللہ کے لئے کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165)

( 2)خوف خدا : ایک مردِ مؤمن کی یہ نمایاں صفت ہوتی ہے وہ اپنے خالق و مالک عزوجل سے ڈرنے والا ہوتا ہے اس کا دل خوفِ خدا سے لبریز ہوتا ہے اس خوف کہ وجہ سے وہ گناہ کے قریب بھی نہیں جاتا ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں۔ (پ9،الانفال:2)

( 3)قراٰن سن کر مؤمن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے: مؤمن کامل جب قراٰنِ پاک کی تلاوت کو سنتا ہے یا پڑھتا ہے تو اس کے ایمان میں اور اضافہ ہوتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔(پ9،الانفال:2) یاد رہے یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔

( 4)اپنے رب پر بھروسہ کرنے والا : ایک مؤمن کامل اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتا ہے۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتا ہے ، اس کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا اور نہ کسی سے ڈرتا ہے

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

( 5)نماز میں خشوع و خضوع کرنے والا: کامل ایمان والا خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے ، اس وقت اس کے دل میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور اس کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔ وہ اللہ کے خیال کے علاوہ کسی کا خیال دل میں نہیں لاتا۔ چنانچہ ارشاد ربُّ العالمین ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں خشوع وخضوع کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے بیٹے! نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔ (ترمذی، 2/ 102، حدیث: 589)

( 6)فضول گوئی سے بچنے والا : جہاں ایک مؤمن کامل ہر اس بات سے بچتا ہے جس میں گناہ ہوتا ہے ساتھ ہی وہ ایسی باتوں سے بھی بچتا ہے جن میں نہ گناہ اور نہ ثواب ہوتا ہے یعنی فضول باتوں سے اور لغویات سے اجتناب کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

( 7)زکوٰۃ ادا کرنے والا : ایک نیک مسلمان جہاں تمام احکام الہیہ کو بجا لانے والا ہوتا ہے وہیں اسلام کے اہم ترین رکن زکوٰۃ کو بھی ادا کرتا ہے کیونکہ اس کے پیش نظر زکوٰۃ نہ دینے کا انجام اور اس سے بڑھ کر اپنے رب کریم کی رضا ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

( 9)شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا : مردِ مؤمن اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے یعنی زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے وہ اگر اپنی بیوی اور شرعی باندی پر جائز طریقے سے صحبت کرے تو اس میں اس پر کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)

( 11،10) امانت اور وعدے کی رعایت کرنے والا : مؤمن کامل کا نمایاں وصف امین یعنی امانت دار ہونا بھی ہے وہ کبھی امانت میں خیانت نہیں کرتا، چاہے امانتیں اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی، مال کی امانت ہو یا کسی کے راز کی، وہ ہر حال میں اس وصف سے موصوف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ وعدے کو بھی پورا کرنے والا ہوتا ہے وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ، میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں کو روکو۔ ( مستدرک،5 / 513، حدیث: 8130)

اللہ پاک ہمیں ان اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں کامل مؤمن بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مؤمن عربی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں ایک معنی ہے "ایمان والا ، تصدیق کننده" (فیروز الغات ، نور الغات)

اور ایمان کے معنی ہیں " محکم یقین اور عقیدہ۔

اس طرح مردِ مؤمن سے مراد ہوا اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر محکم یقین رکھنے والا۔

مردِ مؤمن صفات کا مجمع ہوتا ہے۔ وہ محض احکامِ الہی سن کر خاموشی اختیار نہیں کرتا بلکہ دل و جان سے ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ حکیم میں مردِ مؤمن کی بہت ساری صفات کا ذکر کیا ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں ۔

(1)سب سے زیادہ اللہ سے محبت: ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165) اللہ پاک نے فرمایا کہ مردِ مؤمن کو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے ۔ یعنی عزیز وا قارب، مال و اولاد جان و عزت سے محبت تو ہوتی ہے مگر محبوب حقیقی کی محبت سب محبتوں پر غالب ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی محبتیں اللہ کے احکام کی اطاعت میں رکاوٹ ہوں تو مردِ مؤمن ان محبتوں اور رکا وٹوں کو پاش پاش کر دیتا ہے اور محبوب حقیقی جو اس کے دل میں بسا ہے جس کا جمال اسے چہار سو نظر آتا ہے، اس کی بات مانتا ہے ۔یہی محبت کا تقاضہ ہے۔( تغیر ضیاء القراٰن ص :113)

(2) رضائے الہی کے لیے جان بھی قربان: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے اللہ کی مرضی چاہنے میں اور اللہ بندوں پر مہربان ہے۔ (پ2،البقرۃ: 207)

در اصل مؤمن اپنے محبوب حقیقی یعنی اللہ سے عشق کرتا ہے اور عاشق تو محبوب کے لیے بلا خوف و خطر جان قربان کر دیتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

(3) باطل سے شکست نہیں کھانا : ترجمۂ کنزالایمان: اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ4،اٰلِ عمرٰن:139)

غزوہ احد میں جو کچھ ہوا ممکن تھا کہ مسلمان ہمت ہار جاتے۔ اس لیے اللہ پاک نے فرمایا گھبراؤ نہیں تم ہی غالب ہوگئے اگر تم سچے مؤمن ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد صحابہ کرام کو بھی باطل سے شکست نہیں ہوئی ۔ (ضیاء القراٰن، اٰل عمرٰن:139)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ سچے مؤمن کی یہ صفت ہے کہ وہ باطل سے کبھی شکست نہیں کھاتا۔ آج اگر مسلمان دنیا میں کمزور ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مؤمنین کی کمی ہے اگر ہم آج بھی اپنے اند مردِ مؤمن کی صفات پیدا کر لیں تو ہمارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا میں یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندرا قطار اب بھی

(4) اللہ پاک کا ارشاد ہے : ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)

اس آیت میں بھی مردِ مؤمن کی تین صفات بیان کی گئی ہیں۔

ہمارا مضمون پڑھنا صرف پڑھنے لکھنے کی حد تک نہیں۔ ہونا چاہیے بلکہ دل و جان سے اس پر عمل کی کوشش بھی کیجیے۔ کیوں کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو مردِ مؤمن کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے۔


الله پاک کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں مؤمن گھرانے میں پیدا کیا۔ اللہ پاک نے قراٰن میں مؤمن کی صفات کو کئی جگہوں پر ذکر کیا ۔ جس میں سے دس صفات آپ ملاحظہ فرمائے۔

مؤمن کی صفات :اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہے جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اور انہیں ان کے وقتوں میں ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنت و نوافل سب کی حفاظت کرتے ہیں۔ (تفسیر خازن) (1) ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا۔ (2) ایمان والوں کو ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ پانچوں نماز کو پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے ۔ (3) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ ہیں ۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مؤمن نیکی کے باوجود اللہ سے ڈرتا ہے جبکہ منافق گناہ کے باوجود بے خوف رہتا ہے۔ (4) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تمام کتابوں کو مانتے ہیں۔(5) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ عرب کے مشرکوں کی طرح اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتے ۔ ( تفسیر خازن) (6) اللہ نے قراٰن میں مؤمن کا ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا کہ مؤمن کامیاب ہو گئے۔ اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گی کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر نا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔ ( تفسیر کبیر) (7)مؤمن کا ایک وصف اور بیان کیا گیا کہ وہ ہر لہو و باطل سے بچے رہتے ہیں۔ (تفسیر خازن) (8) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰة دیتے ہیں۔ (9) مؤمنین کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (10)مؤمنین کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے بعد کی رعایت کرتے ہیں۔ حقیقی مؤمن وہ شخص ہے جس میں یہ اوصاف پائے جائے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان اوصاف پر عمل کرنے اور حقیقی مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


انسان کی پہچان اس کی دولت، شہرت یا حسب و نسب سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی صفات اور عادات سے ہوتی ہے۔ بری صفات انسان کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتی ہے، جبکہ اچھی صفات انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہیں اور اچھی صفات ہی کی بدولت انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔

اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں مؤمن مردوں کی صفات کا ذکر فرمایا ہے اور ان صفات کے حامل مؤمنین کو کامیاب فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک سورۂ مؤمنون میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1)

پھر اللہ پاک نے کامیاب مؤمنین کی صفات بیان کی کہ ان صفات کی وجہ سے مؤمنین کامیاب ہیں۔

(1) مؤمنین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ خشوع اور خضوع سے نماز ادا کرتے ہیں اور اپنی توجہ اپنے رب کی طرف رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2)مؤمنین لغو اور فضول باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3)

(3) مؤمنین اپنے مال سے فرض زکوٰة ادا کرتے ہیں اور اپنے مال کو پاک کرتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(4) مؤمنین اپنی بیویوں کے سوا کسی غیر عورت کی طرف نہیں جاتے اور اپنے آپ کو زنا سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5)

(5) مؤمنین اپنے پاس رکھوائی گئی امانات کی حفاظت کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(6) مؤمنین اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں اور نماز قضا نہیں کرتے۔ نماز کو اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں اور نماز کی شرائط و فرائض کا خیال رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(7) مؤمنین کے سامنے جب اللہ پاک کا ذکر ہوتا ہے تو وہ اللہ کی بے نیازی اور عذاب سے ڈر جاتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اللہ پاک کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور اللہ پاک پر بھروسہ بڑھ جاتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)

(8) مؤمن دوسرے مؤمنین کا بھی خیال دکھتا ہے۔ اپنی آخرت اچھی کرنے کے ساتھ دوسروں کی آخرت اچھی کرنے کے لیے انہیں نیکی کی دعوت دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکاة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ- ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔(پ10،التوبہ:71)

ان صفات کے حامل مؤمنین کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:10تا11)

سورةُ الانفال میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہی سچے مسلمان ہیں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔ (پ9،الانفال: 4)

سورۂ توبہ میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ10،التوبہ:71)

اللہ پاک مؤمنین سے راضی ہو گیا اور ان سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے: ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۷۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اور اللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔(پ10،التوبۃ:72)

مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ان صفات کو اپنانا چاہئے اور اللہ پاک کو راضی کرنا چاہیے تاکہ ہم اللہ پاک کی جنت کے وارث بن سکیں۔

جہاں تمام ہے میراث مردِ مؤمن کی

مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک


الله پاک نے قراٰن میں مؤمنین کی صفات کو جابجا بیان فرمایا ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مؤمن اللہ پاک کے نزدیک کس قدر قابلِ شرف ہے۔ کہ اللہ پاک نے مؤمن کی صفات کو قراٰن میں بھی بیان فرما ہے۔ آپ کے سامنے ان میں سے ہم کچھ بیان کریں گے ۔ ملاحظہ کیجیے:

(١)نماز میں خشوع خضوع پیدا کرنے والے: ایمان والے خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے: مؤمنین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ بے حیائی سے بچا کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(3)بیہودہ باتوں سے بچنے والے: مؤمنین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ بیہودہ باتوں سے بچا کر تے ہیں جیسا کہ رب کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(4)زکوٰۃ دینے والے: مؤمنین کی ایک صفت ت یہ بھی ھیکہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جیسا کہ میرے پیارے رب کا فرمان عظیم ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(5)غیب پر ایمان لانے والے: مردِ مؤمن کی ایک صفت یہ بھی ھیکہ وہ غیب پر ایمان لاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں ۔(پ1، البقرۃ:3)

نوٹ: غیب سے مراد امام نسفی رحمۃُ اللہ علیہ کا قول: تفسیر مدارک میں غیب سے مراد قلب کے ہے آپ فرماتے ہیں مؤمن وہ ہے جو دل سے ایمان لائے۔

الله پاک ہمیں بھی ان صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انسان و مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا تعلق اپنے رب کریم سے ہے کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر اللہ کریم پر ایمان رکھنے والے مؤمن کے اوصاف کا بیان ہے آئیے قراٰنِ پاک کی جن ایات میں مردِ مؤمن کی شان بیان کی گئی، ان کا مطالعہ کرتے ہیں :

(1) مسلمان کے سامنے اللہ کریم کا نام لیا جائے تو رب عظیم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے اور جب اس کے سامنے اپنے رب پر بھروسا اور ایمان مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

(2) مؤمن اللہ کریم کی بارگاہ میں بہت توبہ و استغفار کرنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمان خدا وندی ہے: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ترجمۂ کنزالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے ۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

(3 ) مؤمن کو جب اللہ کریم اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم سنایا جاتا ہے تو فوراً مانتا ہے۔ ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔ (پ 18،النور: 51)

(4) نماز مؤمن کی معراج ہے مؤمن وقت پر اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والا ہوتا ہے اللہ پاک کا ارشاد : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(5)مؤمن فرض روزوں کی پابندی کرنے والا ہوتا ہے اللہ پاک کا فرمان ہے : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔(پ2،البقرۃ:183)

(6) مؤمن وہ اللہ کریم کے دیئے ہوئے مال و رزق سے اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ (پ1، البقرۃ: 3)

(7) مؤمن فضولیات اور بیہودہ باتوں اور کاموں سے دور رہنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمان خدا وندی ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(8) مؤمن بھلائی اور نیکی کے کاموں کی طرف جلدی بڑھنے والا ہوتا ہے ۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(۶۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:61)

(9) مؤمن اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی نہیں کرتا ۔ قراٰنِ مجید میں ہے:﴿ وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ ترجَمۂ کنزالایمان: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ ( پ26،الحجرات: 12 )

(10) مؤمن زکوة فرض ہونے کی صورت میں ادا کرتا ہے ۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:4)

اللہ پاک ہمیں بھی مؤمن کی صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مؤمن کسے کہتے ہیں؟: مؤمن وہ ہے جو ضروریاتِ دین پر ایمان رکھے اور زندگی اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کے مطابق گزارے۔ قراٰنِ پاک میں مختلف مقامات پر اللہ پاک نے بندۂ مؤمن کی مختلف صفات بیان کی ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165)

مؤمن تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ پاک سے محبت کرتا ہے ۔ محبت الہی میں جینا اور اسی میں مرنا اس کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا ، نرم بستر کو چھوڑ کر اللہ کی بارگاہ میں قیام و سجدے کرنا، اس کی یاد میں آنسو بہانا، رضائے الہی کیلئے تڑپنا ، اللہ پاک کیلئے محبت کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور کسی سے کچھ روک لینا ، نعمت پر شکر، مُصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، احکام الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دل و جان سے محبوب رکھنا اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔

سورۃُ الانفال میں اللہ پاک مؤمنین کی صفات یوں بیان فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2تا3)

ان دو آیات میں مؤمنین کے پانچ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن میں سے تین اوصاف کا تعلق قلبی اعمال سے ہیں اور دو اوصاف کا تعلق ظاہری اعضاء کے اعمال سے ہیں: (1)جب اللہ پاک کو یاد کرتے ہیں تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ (2) اللہ پاک کی آیات سن کر ان کے ایمان کی نورانیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ (3)وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ (4)نماز قائم کرتے ہیں۔ (5)اس کے دیے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

پھر اس سے اگلی آیت میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہی سچے مسلمان ہیں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔ (پ9،الانفال: 4)

اللہ کریم ایک اور مقام پر مؤمنین کی چند صفات بیان فرماتا ہے: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

سورۃُ المؤمنون کے آغاز میں ہی اللہ پاک نے مؤمنین کی کچھ صفات بیان فرمائیں: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون:1تا5)

پھر دو آیات کے بعد اللہ پاک نے مؤمنین کی مزید صفات بیان فرمائیں اور اس کے بعد مؤمنین کے انعام و مقام کا ذکر فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:8تا11)

آئیں ہم سب اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ کیا ہم میں یہ مذکورہ صفات پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ کیا ہم حقیقی مؤمنین ہیں کہ نہیں ؟ گلاب کے پھول میں اگر خوشبو نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صرف نام کا گلاب ہے اس میں گلاب والی خوشبو تو ہے نہیں ۔ اسی طرح اگر شہد ہو اور اس میں مٹھاس نہ ہو تو کہا جائے گا کہ یہ صرف نام کا شہد ہے اس میں شہد والی مٹھاس تو ہے نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی مؤمن ہو لیکن اس میں مؤمنین والی صفات نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صرف نام کا مؤمن ہے اس میں مؤمنین والی صفات تو ہیں نہیں ۔

گفتار کے غازی بن تو گئے

کردار کے غازی بن نہ سکے

اللہ پاک ہم سب کو حقیقی مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ 


اللہ پاک، اس کے فرشتوں اس کی کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن، اس کی طرف سے اچھی و بری تقدیر، اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لانے والے کو مؤمن کہتے ہیں۔ مؤمن وہ خوش نصیب انسان ہے جس کی صفات اللہ پاک کے اپنے پیارے و آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کردہ آخری کتاب قراٰنِ مجید میں بیان ہوئی ہیں چنانچہ اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ 11،التوبۃ : 112)اس آیت میں ایمان والوں کے نو اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن میں سے پہلے چھ اوصاف اللہ پاک کے حقوق کے ساتھ متعلق ہیں اور بعد کے دو مخلوق کے حقوق کے ساتھ۔

(1) اَلتَّآىٕبُوْنَ:( توبہ کرنے والے) تائب بنا ہے توبہ سے اس کا معنی ہے "لوٹنا"۔ بندے کی توبہ یہ ہے کہ وہ گناہوں سے نیکیوں کی طرف لوٹے۔ بندے کی توبہ چار چیزوں سے مکمل ہوتی ہے: (1) گناہ کرتے وقت دل کا ملامت کرنا اس گناہ سے راضی نہ ہونا (2) پھر اس حرکت پر شرمندہ ہونا (3) آئندہ جرم نہ کرنے کا ارادہ کرنا (4) یہ سب کچھ رضائے الٰہی کے لئے ہونا۔ اپنے نام نمود اور لوگوں میں عزت حاصل کرنے کی نیت کو دخل نہ ہونا۔ توبہ کفر سے، نفاق اور سارے گناہوں سے ہوتی ہے یہاں آخری معنی مراد ہیں۔ یعنی ہر گناہ سے توبہ کرنے والے خواہ دلی گناہ ہوں جیسے کفر و شرک یا جسمانی گناہ ہوں پھر جیسا گناہ ویسی توبہ۔( تفسیر نعیمی ج11 تحت الآیۃ)

(2) الْعٰبِدُوْنَ: (عبادت کرنے والے) عبادت کا معنی ہے غایت تذلل کا اظہار کرنا جو لوگ اللہ کے سامنے انتہائی عجز اور ذلت کا اظہار کریں وہ عابدین ہیں، جو لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ پاک کے احکام پر عمل کریں اور اس عمل پر حریص ہوں وہ عابدین ہیں۔

(3) الْحٰمِدُوْنَ:( حمد کرنے والے) حمد کے معنی ہیں صفاتِ کمالیہ کا اظہار اور حسن و خوبی کا بیان کرنا اور اگر حمد نعمت کے مقابلے میں کی جائے تو وہ شکر ہے پس الْحٰمِدُوْنَ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی قضا پر راضی رہتے ہیں اور اس کی نعمت کو اس کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کی حمد کرتے ہیں۔

(4) السَّآىٕحُوْنَ: (روزہ رکھنے والے) روزے کی دو قسمیں ہیں: حقیقی اور حکمی۔ حقیقی روزہ یہ ہے کہ طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور عملِ ازدواج کو ترک کر دیا جائے اور حکمی روزہ یہ ہے کہ تمام اعضاء اللہ کی معصیت کو ترک کر دیں اور اس آیت میں سے السَّآىٕحُوْنَ سے یہی مراد ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے فرمایا: یہ لفظ سِیٰحٌ سے بنا ہے بمعنی سفر کرنا اور تیرنا۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قراٰنِ مجید میں جہاں کہیں یہ لفظ آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں روزے رکھنے والے کیونکہ روزے سے آخرت کی روحانی منزلیں طے ہوتی ہیں جیسے سفر سے جسمانی منزلیں۔( تفسیر نعیمی ،ج11 تحت الآیۃ )

(6،5) الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ: (رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے) اس سے مراد نمازی ہیں۔ اگرچہ نماز میں قیام اور بیٹھنا بھی ہوتا ہے مگر رکوع سجدہ اس کے خاص ارکان ہیں کیونکہ کھڑا ہونا، بیٹھنا دوسرے کاموں میں ہوتا ہے رکوع سجدہ صرف نماز میں اس لیے اکثر رکوع سجدے سے مراد نماز ہوتی ہے اگرچہ عابدون میں نمازی بھی داخل تھے مگر چونکہ نماز بہت اعلی درجے کی عبادت ہے کہ ساری عبادات فرش پر بھیجی گئی مگر نماز معراج میں عرش پر بلا کر دی گئی۔ اس لیے خصوصیت سے اس کا ذکر علیحدہ فرمایا۔( تفسیر نعیمی، ج11)

اب تک مؤمنوں کی وہ چھ صفات بیان ہوئیں جو انہیں خود اپنے لیے مفید ہیں اب ان کی وہ صفات بیان ہو رہی ہیں جن کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے۔ چنانچہ۔۔

(8،7) الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ: (نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے) حکم اور ممانعت زبانی، عملی، قلمی ہر طرح کی ہوتی ہے یہاں ساری قسمیں مراد ہیں جیسی تبلیغ ممکن ہو ویسی کرے نیز معروف سے مراد ہر بھلائی ہے اعتقادی ہو یا عملی یوں ہی منکرین میں ہر برائی داخل ہے۔

(9) وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : (اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں) اللہ پاک نے بندوں کو جن احکام کا مکلف کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں، ان کو دو قسموں میں منضبط کیا جا سکتا ہے: عبادات اور معاملات، عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ اور معاملات جیسے خرید و فروخت، نکاح، طلاق وغیرہ اور جن چیزوں سے اللہ پاک نے منع کیا ہے: قتل، زنا، چوری، ڈاکہ، شراب نوشی اور جھوٹ وغیرہ یہ تمام امور اللہ کی حدود ہیں۔ جن چیزوں کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے ان کو مکمل طریقہ سے ادا کرنا اور جن سے منع کیا ہے ان سے باز رہنا یہ اللہ پاک کی حدود کی حفاظت ہے۔

پہلے اللہ پاک نے آٹھ امور کو تفصیلاً بیان فرمایا اور نواں اور آخری امر یعنی حدود اللہ کی حفاظت ان سب امور کو جامع ہے۔

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غرض کہ مؤمن کا سونا جاگنا حرکت و سکون اللہ و رسول کے فرمان کے ماتحت ہو یہ فرمان شریعت و طریقت کی جامع ہے رب تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔( تفسیر نعیمی ج11 تحت الآیۃ )

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان مذکورہ اوصاف کو اپنا کر اپنا مخلص بندہ بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مؤمن کی تعریف: مؤمن وہ شخص ہوتا ہے جو ایمان کی صفت کے ساتھ متصف ہو اور زندگی اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کے مطابق گزارے۔ قراٰنِ پاک میں کئی مقامات ایسے ہیں کہ جن میں اللہ پاک پر ایمان لانے والے کامل مؤمن کی صفات کو بیان کیا گیا ہے ۔ان میں سے 5 درجہ ذیل ہیں :

(1) اللہ پاک ذکر سے لرز جاتا ہے : کامل مؤمن کے ایمان کی پختگی کا عالم یہ ہے کہ جب اس کے سامنے مالک کائنات کا ذکر کیا جائے تو اس کا دل ڈر جاتا ہے اور جب اس کے سامنے قراٰنِ کریم کی آیات پڑھی جائیں تو اس کا اپنے خالق پر بھروسہ اور ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہے ۔ اللہ ربُّ العالمین نے ارشاد فرمایا : ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

(2) نماز قائم کرتا ہے: کامل مؤمن اپنے رب کریم کی بارگاہ میں سر با سجود ہو کر خشوع و خضوع (عاجزی) اور وقت پر پابندی کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے ۔ اللہ ربُّ العالمین نے ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(3) زکوٰۃ ادا کرتا ہے:کامل مؤمن کی تو صفتِ عظیم یہ ہے کہ وہ اپنے رب کریم کے دئیے ہوئے مال کو اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔چنانچہ ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے :﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔ (پ1،البقرۃ:3)

(4) نیکی کا حکم دیتا برائی سے منع کرتا ہے: کامل مؤمن ناصرف اپنی بلکہ دوسرے مؤمن کی بھی فکر کرتا ہے اس کی دنیا و آخرت بہتر بنانے کیلئے شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتا اور شرک و معصیت سے منع کرتا ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔ (پ 10،التوبۃ: 71)

(5) اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری کرتا ہے: کامل مؤمن کی اعلیٰ صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ رب کریم اور اس کے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت پر تادمِ وصال ہمیشگی اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان : اللہ و رسول کا حکم مانیں ۔ (پ10،التوبۃ :71)

پیارے اسلامی بھائیو! مذکورہ بالا آیات میں اپنے ایمان میں سچے اور کامل لوگوں کے اوصافِ حمیدہ کو بیان کیا گیا کہ جب اللہ پاک کو یاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں ۔ اللہ پاک کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں، خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، راہِ خدا میں مال خرچ کرتے ہیں، ایک دوسرے کے رفیق اور معین و مددگار ہیں نیکی کا حکم دیتے برائی سے روکتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم مانتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں بھی ان اوصاف سے مزین فرمائے اور ہمارا شمار بھی کامل مؤمنین (ایمان والوں)میں فرمائے ۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 


ایمان کی کامل اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے صرف مسلمان ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ہمارے اندر وہ تمام صفات بھی ہونی چاہئیں جو اللہ کے پسندیدہ بندوں میں ہوتی ہیں۔

اللہ پاک نے قراٰن میں مؤمنوں کی کئی صفات بیان فرمائی ہیں، جن میں سے چند یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔

(1) اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمنوں سے دوستی نہیں کرتے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں ۔ (پ28، المجادلۃ:22)

اس آیت میں مؤمنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمن سے دوستی نہیں رکھتے خواہ وہ ان کا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو۔(صراط الجنان،پ28،آیت نمبر22)

(2) مؤمنین ایک دوسرے کے دوست ہیں: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ (پ 10،التوبۃ: 71)

(3)کوئی چیز اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی: ﴿رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ﭪ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ مرد جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی۔(پ18،النور37)

(5،4) زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جاہلوں سے کلام نہیں کرتے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔(پ19،الفرقان:63)

(6) رات عبادت میں گزارتے ہیں: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:64)

(8،7) خرچ کرنے میں اسراف اور بخل نہیں کرتے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)

(9)بدکاری نہیں کرتے:﴿وَ لَا یَزْنُوْنَۚترجَمۂ کنز العرفان: اور بدکاری نہیں کرتے۔(پ19،الفرقان:68)

(10) جھوٹی گواہی نہیں دیتے: ﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔(پ19،الفرقان :72 )

ان اوصاف کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں یا نہیں، اگر ہاں تو اللہ پاک کے اس احسان کا شکر ادا کریں اور اگر ان میں کچھ کوتاہی نظر آئے تو اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں کی صفات کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔