محمد مزمل نعیم(ایف ایس سی
سال دوم بیکن کالج جنڈانوالہ ضلع بھکر ، پاکستان)
مؤمن عربی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں ایک معنی ہے
"ایمان والا ، تصدیق کننده" (فیروز الغات ، نور الغات)
اور ایمان کے معنی ہیں " محکم یقین اور عقیدہ۔
اس طرح مردِ مؤمن سے مراد ہوا اللہ پاک اور اس کے رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر محکم یقین رکھنے والا۔
مردِ مؤمن صفات کا مجمع ہوتا ہے۔ وہ محض احکامِ الہی سن کر
خاموشی اختیار نہیں کرتا بلکہ دل و جان سے ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ
حکیم میں مردِ مؤمن کی بہت ساری صفات کا ذکر کیا ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر
یہاں ضروری سمجھتا ہوں ۔
(1)سب سے زیادہ اللہ سے محبت: ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165) اللہ پاک نے فرمایا کہ مردِ مؤمن کو اللہ کے ساتھ سب سے
زیادہ محبت ہوتی ہے ۔ یعنی عزیز وا قارب، مال و اولاد جان و عزت سے محبت تو ہوتی
ہے مگر محبوب حقیقی کی محبت سب محبتوں پر غالب ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی محبتیں اللہ کے
احکام کی اطاعت میں رکاوٹ ہوں تو مردِ مؤمن ان محبتوں اور رکا وٹوں کو پاش پاش کر
دیتا ہے اور محبوب حقیقی جو اس کے دل میں بسا ہے جس کا جمال اسے چہار سو نظر آتا
ہے، اس کی بات مانتا ہے ۔یہی محبت کا تقاضہ ہے۔( تغیر ضیاء القراٰن ص :113)
(2)
رضائے الہی کے لیے جان بھی قربان: ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے اللہ کی مرضی چاہنے میں اور اللہ بندوں پر مہربان
ہے۔ (پ2،البقرۃ: 207)
در اصل مؤمن اپنے محبوب حقیقی یعنی اللہ سے عشق کرتا ہے
اور عاشق تو محبوب کے لیے بلا خوف و خطر جان قربان کر دیتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں
عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام
ابھی
(3) باطل سے شکست نہیں کھانا : ترجمۂ کنزالایمان: اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہیں غالب آؤ گے
اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ4،اٰلِ عمرٰن:139)
غزوہ احد میں جو کچھ ہوا ممکن تھا کہ مسلمان ہمت ہار جاتے۔
اس لیے اللہ پاک نے فرمایا گھبراؤ نہیں تم ہی غالب ہوگئے اگر تم سچے مؤمن ہو۔
تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد صحابہ کرام کو بھی باطل سے شکست نہیں ہوئی ۔ (ضیاء
القراٰن، اٰل عمرٰن:139)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ سچے مؤمن کی یہ صفت ہے کہ وہ باطل
سے کبھی شکست نہیں کھاتا۔ آج اگر مسلمان دنیا میں کمزور ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ
مؤمنین کی کمی ہے اگر ہم آج بھی اپنے اند مردِ مؤمن کی صفات پیدا کر لیں تو
ہمارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا میں یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری
نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار
اندرا قطار اب بھی
(4) اللہ پاک کا
ارشاد ہے : ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے
تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے
ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)
اس آیت میں بھی مردِ مؤمن کی تین صفات بیان کی گئی ہیں۔
ہمارا مضمون پڑھنا
صرف پڑھنے لکھنے کی حد تک نہیں۔ ہونا چاہیے بلکہ دل و جان سے اس پر عمل کی کوشش
بھی کیجیے۔ کیوں کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو مردِ مؤمن کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسلام
ساری دنیا پر غالب آجائے۔