دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے اللہ پاک کی وحدانیت اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اللہ پاک نے مؤمنوں کو جگہ بہ جگہ قراٰنِ پاک میں جنت کی بشارتیں عطا فرمائی ہیں ۔ اور مؤمنین کی کئی صفات بھی ذکر کسی ہیں ۔ ان صفات میں سے مؤمن مرد کی 10 صفات درج ذیل ہیں۔

(1)نماز میں خشوع و خضوع کی جائے :اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا کہ آسمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں خوف خدا ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہو جاتے ہیں ۔ (تفسیر صراط الجنان ، 6/496)

(2) فضول باتوں سے منہ پھیرنا : ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) اس کی تفسیر یہ ہے کہ مؤمن ہر لہو و باطل سے بچے رہتے ہیں۔ (صراط الجنان، 6/499)

(3) زکوٰۃ ادا کرنا : اللہ پاک کا فرمان ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) بعض مفسرین نے زکاۃ کا ایک معنی تزکیہ نفس بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ (صراط الجنان، 6/ 501)

(4) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا : ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(5-6) امانت اور وعدے کی رعایت کرنا : اللہ پاک فرماتا ہے : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں اہل ایمان کے 2 وصف بیان ہوئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔ (صراط الجنان، 6/ 506)

(7) نمازوں کی حفاظت کرنا : قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(8) جھوٹی گواہی نہ دینا : ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔(پ19،الفرقان :72 )

(9) اللہ پاک کا فرمان ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔ (پ19، الفرقان:74)

اس سے مراد یہ ہے کہ کامل ایمان والے رب کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے ہیں کہ ہمیں بیویاں اور اولاد نیک صالح متقی عطا فرما تاکہ ان کے اچھے عمل اور ان کی اللہ اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ۔( صراط الجنان )

(10) ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا(۷۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرتے۔ (پ19، الفرقان :73)

اس کی تفسیر یہ ہے کہ یعنی جب کامل ایمان والوں کو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر غفلت کے ساتھ بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرتے کہ نہ سوچیں نہ سمجھیں بلکہ ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنتے ہیں اورچشمِ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اس نصیحت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ،نفع اٹھاتے ہیں اور ان آیتوں میں دئیے گئے احکام پر عمل کرتے ہیں ۔ (صراط الجنان، 7/ 65)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مذکورہ صفات پر عمل کرنے اور کامل مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج کے دور میں ہر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے لیکن اصل کامیاب وہی ہے جس کا ایمان پر خاتمہ ہو اور وہ جنت میں داخل ہوجائے اور یہ کامیابی صرف اسی کو ملے گی جو سچا مؤمن ہوگا۔

اللہ پاک نے قراٰنِ مجید کے بعض مقامات پر مردِ مؤمن کی صفات بیان کی ہیں۔

(پہلی صفت) وہ کامیاب لوگ ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کچھ یوں لکھی ہے کہ اس آیت میں  ایمان والوں  کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ  اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں  کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں  داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں  گے۔

(دوسری صفت)نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور گڑ گڑاتے ہیں : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)

(تیسری صفت) وہ لوگ فضول باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور بیہودہ الفاظ اپنے منہ سے نہیں نکلتے۔﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(چوتھی صفت) جو انکے مال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے پاک کر کے نفس کی زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(پانچویں صفت) مردِ مؤمن زنا وغیرہ اور حرام کاموں سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(چھٹی صفت) یہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر صرف جائز طریقوں سے اپنی بیویوں اور باندیوں کے ساتھ خلوت اختیار کرتے ہیں۔ ﴿ اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)

(ساتویں صفت) امانتوں میں خیانت نہیں کرتے خواہ وہ امانت خالق کی ہوں يا مخلوق کی اور اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔ ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(آٹھویں صفت) نماز میں کوتاہی نہیں کرتے اور انہیں انکے وقت پر ادا کرتے ہیں۔ ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(نویں صفت)اُنہیں کسی بھی دنیاوی چیز کا غم نہیں ہوتا اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔﴿ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲)﴾ترجمۂ کنزالایمان: سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ (پ11،یونس:62)

(دسویں صفت) انہیں اللہ کی طرف سے خوش خبری دنیا میں۔﴿لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُؕ(۶۴)ترجمۂ کنزالایمان: انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،یونس:64)

مذکورہ آیتوں میں موجود باتوں کو اپنا کر بندہ مردِ مؤمن بن سکتا ہے اور فلاح پا سکتا ہے۔


قراٰنِ مجید میں ربُّ العالمین نے نیک مرد و عورت کی صفات کو بیان فرمایا ہے یہ قراٰنِ مجید کا حُسن ہے کہ اس میں ایمان والوں کی بہت سے صفات ، فضائل و کمالات موجود ہیں۔ انہیں صفات میں سے ہم اپنے مضمون میں مرد مؤمن ( یعنی ایمان والوں ) کی چند صفات بیان کریں گے۔

(1) ربُّ العالمین نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا۔ اور جن لوگوں نے جہاد کیا ربُّ العالمین نے انکو ممتاز کردیا۔ یہی وجہ ہے مؤمنین کو کفار سے بہتر کردیا گیا کہ انہوں ( مؤمنین) نے اللہ پاک کا حکم مانا۔ ربُّ العالمین قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْكٰفِرِیْنَ(۱۴۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس لئے کہ اللہ مسلمانوں کو نکھار دے اور کافروں کو مٹا دے۔ ( پ4،آلِ عمرٰن ، 141) تفسیرِ صراط الجنان: کافروں سے جہاد کی ایک اور حکمت بیان کی جارہی ہے کہ کافروں سے جو مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ تو مسلمانوں کے لئے شہادت اور پاکیزگی کا ذریعہ بنتی ہیں جبکہ مسلمان جن کفار کو قتل کرتے ہیں تو یہ کفار کی بربادی کا ذریعہ بنتا ہے۔

(2) مؤمنین کی ایک صفت قراٰن میں یوں بھی بیان کی گئی ہے کہ مرد مؤمن اللہ پاک پر بہت توکل کرنے والا ہوتا ہے۔ اور یہ توکل کبھی رزق کے معاملے میں ہوتا ہے تو کبھی مشکل پڑنے پر ہوتا ہے۔ اور ان آزمائش والے امور میں توکل کرنا بھی فقط مؤمن کی ہی شان ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹) ترجمۂ کنز العرفان: بیشک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔(پ4، آلِ عمرٰن : 159 )

(3) مؤمن کی ایک صفت صابر بھی ہے جس کو قراٰنِ مجید نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ جو ربُّ العالمین کا نیک بندا ہوگا وہی رب کی طرف سے ملنے والی آزمائش پر صبر کرنے والا ہوگا۔ اب یہ آزمائش اولاد کی صورت میں ہو یا مال کی یا پھر رزق کی صورت میں ہو یا زمین و چوپایوں کی صورت میں الغرض کسی بھی قسم کی آزمائش پریشانی، مصیبت آ پڑے تو اللہ پاک پر ایمان رکھنے والا بندا ہمیشہ ان مصائب پر صبر کرنے والا ہوگا۔ قراٰنِ مجید میں ارشاد باری ہے : ﴿وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)ترجمۂ کنزالایمان: اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو۔(پ2، البقرۃ: 155 )

(4) مردِ مؤمن کی ایک صفت قراٰنِ مجید میں یوں بھی ذکر ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا اور نیک کام کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر چاہے کسی لغزش سے سبب ہو یا ویسے ، محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے رب کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والے تھے اور جب آپ اپنے رب کی بارگاہ دعا کے لیے ہاتھوں کو بلند کرتے تو اپنی مبارک آنکھوں سے آنسو جھلک کر رخسار مبارک پر تشریف لے آتے یہی وجہ سے ایمان والوں پر محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خاص عنایت کہ وہ اپنے رب کی طرف کثرت سے رجوع کرتے ہیں اور ہمیشہ نیک کام کرتے اور اسی کا حکم دیتے ہیں۔ قراٰنِ مجید میں ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْۙ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۳)ترجمۂ کنزالایمان: بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اپنے رب کی طرف رجوع لائے وہ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ12، ھود: 23)

(5) مؤمن مرد کی ایک صفت قراٰنِ مجید میں یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور کثرت سے سجدہ کرنے والا، رکوع کرنے والا ہوتا ہے۔ یعنی نمازوں کا پابند ہوتا ہے اور ہر نیک کام کو ترجیح دیتا ہے۔ نمازوں میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثرت کرکے قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے رب کے حضور مقبولین میں شامل ہو جاتا ہے۔ قراٰنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷) ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے کام کرو اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو۔(پ17، الحج : 77)

مذکورہ آیت، آیتِ سجدہ ہے۔یہ چند مختصر صفاتِ مرد مؤمن بیان کی گئی۔

ان صفات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم ہر لمحہ اپنے رب کے حضور صبر کرنے والے ہوں ، اسکی اطاعت کرنے والے ہوں ، صوم و صلوٰۃ کے پابندی کریں ، کثرت سے بارگاہ الٰہی میں رجوع کریں۔

یہ وہ چند چیزیں جن سے ربُّ العالمین کا قرب خاص نصیب ہوگا اور پھر یہ قرب اپنی ایسی لازوال برکتیں دکھائے گا کہ جس کا ہم گمان بھی نہیں کر سکتے۔ اور پھر ان امور پر عمل کرنے سے ربُّ العالمین ہمیں اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل کرلے گا اور انعام و اکرام سے نوازے گا۔

ربُّ العالمین ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے اور احکامات الٰہیہ پر عمل کرنے والا دین کو صحیح معنوں میں سیکھنے اور سیکھانے والا بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے کئی مقامات پر مؤمنوں کی صفات بیان کی ہیں۔ پہلے تو یہ جان لیں کہ صفات کسے کہتے ہیں ؟ صفات صفت کی جمع ہے۔ صفت دو طرح کی ہوتی ہے اچھی اور بری۔ خوبی کو اچھی صفت اور خامی کو بری صفت کہتے ہیں۔ قراٰنِ پاک میں مؤمنوں کی کئی صفات بیان کی گئ ہیں۔ یہاں مؤمنوں کی صفات سے مراد مؤمنوں کی خوبیاں ہیں ان میں سے دس درج ذیل ہیں:

(1) اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے (2) فضول بات سے منہ پھیرنے والے (3)زکوۃ دینے والے(4) اپنی شرمگا ہوں کی حفاظت کرنے (5)امانت میں خیانت نہ کرنے والے (6)وعدہ پورا کرنے والے (7) اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے(پ 18،المؤمنون 9-1 ملخصاً)

(8)زمین پر آہستہ چلنے والے (9)اپنی کروٹوں کو اپنی خوابگاہوں سے جدا رکھنے والے (10)الله پاک کے عطا کیے ہوئے مال میں سے بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے والے۔(تفسیر صراط الجنان، پ 19،الفرقان 63 ملخصاً)

مؤمنوں کا پہلا وصف یہ بیاں کیا گیا کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے ہیں۔ فضول بات سے فلاح پانے والے مؤمنوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ ہر لہو و باطل سے بچے رہتے ہیں اہلِ ایمان کا تیسرا وصف یہ بیان کیا گیا کر وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوۃ دیتے ہیں۔ ایمان والوں کا چوتھا وصف یہ ہے کہ وہ زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ا اہل ایمان کے دو وصف یہ بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے والے مؤمنوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کر تے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔ جن ایمان والوں میں یہ اوصاف ہیں وہ فردوس کی میراث پائیں گے اور وہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں انہیں موت آئے گی۔(تفسیر صراط الجنان، پ 18،المؤمنون 9-1ملخصاً)

قراٰنِ پاک میں مؤمنوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔(پ19،الفرقان:63)ایک اور جگہ فرمایا: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین میں اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ جائے گا۔(پ 15، الاسرا : 13) حدیثِ پاک میں بھی مسلمانوں کو آہستہ، سکون و اطمینان سے چلنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تمہارے لئے سکون (سے چلنا) ضروری ہے کیونکہ دوڑنے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔(بخاری شریف ،کتاب الحج، باب امر النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بالسكينۃ عند الافاضة... الخ ، 1/558، حدیث: 1671 مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت)

ایمان والوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی کروٹوں کو اپنی خوابگاہوں سے جدا رکھتے ہیں یعنی وہ رات کے نوافل پڑھنے کے لئے نرم و ملائم بستروں کی راحت کو چھوڑ کر اٹھتے ہیں اور ذکر و عبادتِ الہٰی میں مشغول ہو جاتے ہیں نیز اس کی رحمت کی امید کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔(صراط الجنان تحت الآیۃ پ 19 ،الفرقان: 64)

اہلِ ایمان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ جو مال الله پاک نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔(صراط الجنان، پ 1البقرہ ،تحت الآیۃ 3 ملخصاً ) حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنا زائد مال راہ خدا میں خرچ کیا تو اس کے لئے سات سو گنا اجر ہے، اور جس نے اپنی جان اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا ،یا کسی مریض کی عبادت کی یا اذیت دینے والی چیز کو ہٹایا تو اس کے لیے دس گنا اجر ہے۔ (مسند امام احمد ، حدیث ابی عبیدہ بن الجراح واسمہ عامر بن عبد الله رضی اللہ عنہ، 1/414، حدیث 1690، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ان صفات کو اختیار کرنے اور کامل مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


"مؤمن" وہ ہے جو ایمان کی صفت سے متصف ہو اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ قراٰنِ کریم میں مؤمنین کی کئی صفات بیان ہوئی ہیں جن میں سے 12 صفات درج ذیل ہیں:

( 1 تا 3) امر بالمعروف و نھی عن المنکر اور نیکیوں میں جلدی: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۱۴)ترجمۂ کنزالایمان: اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں اور یہ لوگ لائق ہیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:114) یعنی مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتا ہے ، برائی سے منع کرتا ہے اور نیکیوں میں جلدی کرتا ہے ۔

( 4 ، 5) امانتوں اور وعدے کا پابند: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت مبارکہ میں مؤمنین کے دو وصف بیان کئے گئے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔

( 6 تا 8) نماز و زکوٰۃ کی ادائیگی اور آخرت پر یقین: ﴿الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور آخرت پر یقین لائیں ۔ (پ21، لقمٰن: 4) اس آیتِ مبارکہ میں بھی مؤمنین کے تین اوصاف بیان ہوئے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔

( 9 تا 11) راتوں کو قیام ، خوفِ خدا اور انفاق فی سبیل اللہ: ﴿تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اُن کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور اُمید کرتے اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ خیرات کرتے ہیں ۔(پ21، السجدۃ:16) اس آیت میں ایمان والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ رات کے وقت نوافل پڑھنے کے لئے نرم و گُداز بستروں کی راحت کو چھوڑ کر اُٹھتے ہیں اور ذکرو عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوجاتے ہیں نیز اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو مال عطا کیا ہے اس میں سے وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔

(12) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تصدیق: ﴿وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔(پ24،الزمر: 33)

اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ۔

ایک قول کے مطابق سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مؤمنین مراد ہیں(تفسیر مدارک ، الزمر ، تحت الاٰیۃ 33)

یعنی ایمان والوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اور جو کچھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لے کر آئے ان تمام چیزوں کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔

محترم قارئین! یہ وہ صفات ہیں کہ جس مسلمان میں یہ پائی جائیں تو دنیا و آخرت میں وہ کامیاب ہے ۔ بے شک یہ کامل ایمان والوں کی نشانیاں ہیں اللہ پاک ہمیں بھی ان صفات سے متصف فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان بالخیر فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


     ہمارا یہ کالم مؤمن مرد کی صفات پر مشتمل ہے اس کالم میں پہلے کچھ آیات مبارکہ پیش کی جائیں گی اور اس کے بعد اسی آیت کے تحت ایک حدیثِ مبارکہ بھی ملحوظ خاطر رکھی جائے گی ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس آیت میں  ایمان والوں  کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ  اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں  کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں  داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں  گے۔(صراط الجنان)

﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) یہاں  سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں  میں   اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)

حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان شخص پر فرض نماز کا وقت آ جائے اور وہ ا س نماز کا وضو اچھی طرح کرے پھر نماز میں  اچھی طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے سابقہ گناہوں  کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضو ء والصلاۃ عقبہ، ص142، حدیث: 228)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)فلاح پانے والے مؤمنوں  کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کودینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو،کھیل کود،فضول کاموں  میں  وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں  ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے  اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں  مصروف رہنا چاہئے۔(صراط الجنان ، المؤمنون :1)

اَحادیث میں  بھی لا یعنی اور بیکار کاموں  سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:آدمی کے اسلام کی اچھائی میں  سے یہ ہے کہ وہ لایعنی چیز چھوڑ دے۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، 11باب، 4 / 142، حدیث: 2324)

یعنی جو چیز کار آمد نہ ہو اس میں  نہ پڑے، زبان، دل اور دیگر اَعضاء کو بے کار باتوں  کی طرف متوجہ نہ کرے کیونکہ اس میں اُس کے لیے ہی خسارہ ہے۔

﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت میں  کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں  پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اسی ضمن میں ایک حدیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، تو بیشک ا س کے مال کا شر اُس سے چلا گیا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/ 431، حدیث: 1579)

﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں  سے اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرتے ہیں  البتہ اگر وہ اپنی بیویوں  اور شرعی باندیوں  کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں  تو اس میں  ان پر کوئی ملامت نہیں۔(صراط الجنان)

حدیثِ پاک میں  زبان اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں  سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں  حضرت سہل بن سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں  کے درمیان میں  ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں  پاؤں  کے درمیان میں  ہے یعنی شرمگاہ کا، میں  اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، 4/ 240، حدیث: 6474)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں  فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں  خیانت نہیں  کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں  اسے پورا کرتے ہیں ۔(صراط الجنان، المؤمنون : 8)

اس وصف کے تحت ایک حدیث پاک پیش کرنے کی سعادت عطا کی جاتی ہے، چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں  کے ضامن ہو جاؤ، میں  تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں  کو روکو۔( مستدرک، کتاب الحدود، ستّ یدخل بہا الرجل الجنّۃ، 5 / 513، حدیث: 8130)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں  جو اپنی نمازوں  کی حفاظت کرتے ہیں  اور انہیں  اُن کے وقتوں  میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں  اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔(صراط الجنان، المؤمنون : 9)

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) ترجمۂ کنز الایمان :یہی لوگ وارث ہیں۔(پ18، المؤمنون:10)

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں  میں  ما قبل آیات میں  مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں  یہی لوگ کافروں  کے جنتی مقامات کے وارث ہوں  گے۔ یہ فردوس کی میراث پائیں  گے اور وہ جنتُ الفردوس میں  ہمیشہ رہیں  گے، نہ انہیں  اس میں  سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں  انہیں  موت آئے گی۔(صراط الجنان، المؤمنون : 10 )

اے  اللہ ! ہمیں  فردوس کی میراث پانے والوں  اور اس کی عظیمُ الشان نعمتوں  سے لطف اندوز ہونے والوں  میں  سے بنا دے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام اَسباب سے ہماری حفاظت فرما، اور ہمیں مؤمنین کی ان تمام کی تمام صفات سے موصوف فرما، قراٰنِ مجید میں دیئے گئے احکامات کی پابندی و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ ‏پاک نے قراٰنِ کریم میں بہت سے مقامات پر مؤمنین ، نیک صالحین ، متقی (پرہیزگاروں) اور اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والوں کی صفات بیان کی ہیں جن میں سے بعض میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:

"مردِ مؤمن" کے سات حروف کی نسبت سے مردِ مؤ من کی سات قرآنی صفات:

(1) ایمان کی کامیابی: اللہ پاک نے مسلمانوں کو ان کے ایمان لانے کی وجہ سے کامیاب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم کے پارہ 18 سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1)

(2) نماز میں خشوع و خضوع: اللہ پاک نے مسلمانوں کو ان کے خشوع و خضوع ، اطمینان و خوشی سے نماز پڑھنے کے سبب کامیابی کی بشارت عطا فرمائی ہے جیسا کہ رب تعالی نے قرآنِ کریم کے پارہ 18 سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 2 میں ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(3)فضول گوئی سے اجتناب:اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کو ان کے فضول گوئی سے اجتناب کرنے ، صرف کام کی بات کرنے اور ہر وقت ذکر اللہ میں مشغول رہنے کے سبب فلاح عطا فرمائی جیسا کہ خالقِ کائنات نے قرآنِ کریم کے پارہ 18 سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(4)زکوٰۃ ادا کرنا: اللہ پاک نے مؤمنین کو اس سبب سے فلاح و کامرانی عطا فرمائی کہ وہ اللہ پاک کی خوشنودی اور اس کی رضا کی خاطر اپنے مال میں سے زکوٰۃ دیتے ہیں اور اپنے مال میں سے غرباء میں تقسیم کرتے ہیں اور ان پر صدقہ کرتے ہیں جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم کے پارہ 18 سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(5)شرمگاہ کی حفاظت: اللہ پاک نے مسلمانوں کا اپنی شرم گاہوں کو صرف جائز طریقہ سے استعمال کرنے اور ناجائز و حرام طریقہ سے بچانے کے سبب بشارتِ فلاح عطا فرمائی جیسا کہ ربِ کریم نے قراٰنِ مجید کے پارہ 18 سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 5 میں ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(6)امانت اور وعدہ کی پاسداری: اللہ پاک نے اپنے محبوب بندوں کو امانت میں خیانت نہ کرنے اور وعدے پر ثابت قدم رہنے کے سبب دونوں جہانوں میں کامیاب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے جیسا کہ ربِ ذوالجلال نے پارہ 18 سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(7)نمازوں کی حفاظت: اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں ، پرہیزگاروں اور باعمل لوگوں کو اس سبب سے کامیابی و کامرانی کی دولت سے نوازہ کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ، انہیں وقت پر ادا کرتے ہیں اور اپنی نمازوں سے محبت کرتے ہیں جیسا کہ خدائے رحمٰن نے قراٰن عظیم کے پارہ 18 سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

اس کے علاوہ بھی اللہ پاک نے اپنے محبوب بندوں ، نیک صالح مؤمنین اور باعمل لوگوں کے بارے میں بہت سی آیات اتاریں جس میں ان کی بہت سی صفات بیان ہوئی ہیں کہیں ان کا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری کی وجہ سے ، کہیں ان کا اللہ پاک کی راہ میں اپنی جان پیش کرنے کی وجہ سے ، تو کہیں ان کا اپنا مال صدقہ کرنے کی وجہ سے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ بیان ہوا اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کامل مؤمن کی خصوصیات :نفس ایمان کی قوت و ضعف میں کیفیت کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں نہایت محبوب یہ ہے کہ بندے کا ایمان، ایمان کامل ہے ۔ اس کے بارے میں اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یاد ر کھیے ایک مؤمن کے لیے نماز پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک مؤمن مرد پر لازم ہے کہ وہ اللہ پاک کی اطاعت کرے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بہت جگہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا اور اس آیت میں نماز اور اس میں خشوع و خضوع کو مؤمن کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا ۔ اور مؤمن کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے اللہ پاک اس آیت میں ارشاد فرمایا : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لغو سے مراد وہ قول وعمل اور ناپسندیدہ عمل یا کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دنیوی کوئی فائدہ نہ ہو۔ لایعنی اور بیکار کام کے بارے میں رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم نے فرمایا : ایک مسلمان کے اسلام کی اچھائی میں سے یہ ہے کہ وہ لایعنی چیز چھوڑ دے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! لغو یہ ایک ایسا امر ہے کہ نہ اس سے کوئی دنیوی فائدہ ہے اور نہ ہی اخروی فائدہ بلکہ آخرت میں تو تباہی ہیں۔ آج جتنی فضول و لغو باتیں کی جائیں گے روزِ قیامت اس ہولناک منظر میں ان کا حساب دینا پڑے گا۔ اور دنیوی نقصان یہ کہ ہر شخص اس فضول اور لغو باتیں کرنے والے سے بھاگتا ہے معاشرہ اس کی عزت نہیں کرتا اس کی ہر بات کو فضول سمجھا جاتا ہے اس کی کسی بات کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ اللہ پاک اس سے اگلی آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ یہاں مؤمن کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت کو بیان کیا کہ وہ پابندی سے اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ " زکوٰۃ" کا ایک معنی تزکیۃ النفس بھی کیا یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیے کہ جو ہم میں سے صاحب استطاعت ہیں وہ زکوٰۃ ادا کریں اور یاد رہے زکوٰۃ نہ ادا کرنے کے بارے میں سخت وعیدیں بھی وارد ہوتی ہیں جیسا کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو شخص اپنے مال سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ بروزِ قیامت اس کے گلے کی توپ بن کر نمودار ہو گا ۔ اللہ پاک ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس سے اگلی آیات میں مؤمن کی صفات کو ذکر کیا گیا ہے آئیے انہیں پڑھتے ہیں:

الله تعالی قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ تو جو اِن کے سوا کچھ اور چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:5تا11)

پیارے اسلامی بھائیو ! جیسا کہ آپ نے مردِ مؤمن کی ان صفات کو پڑھا جو کہ قراٰن میں ذکر کی گئی اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں یاد رہے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس شخص کو جنت کی بشارت دی ہے جو اپنی شرمگاہ اور زبان کی حفاظت کی ضمانت دی، زبان کے متعلق کچھ معلومات عرض کر دی گئی تو شرمگاہ کی حفاظت کے متعلق یہ ہے کہ اس کے نقصان اتنا ہوا ہے کہ معاشرے میں جتنی بھی بے حیائی اور دیگر معاملات ہوتے ہیں وہ اس کے فساد کی وجہ سے ہوتے ہیں اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے ۔ مؤمن مرد کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی امانت اور عہد کو پورا کرتا ہے ۔ ایک مسلمان کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا احادیث میں وعدہ خلافی اور امانتوں میں خیانت کرنے کو منافقین کی علامتوں میں سے شمار کیا گیا۔ اللہ پاک مؤمنین کی ان صفات کو ذکر کرنے کے بعد ارشا فرمایا : یہی لوگ فردوس کے وارث ہوں گے اور ہمیشہ اُس میں رہیں گے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فر مائے۔


مؤمن ایمان سے بنا ہے ایمان لغت میں تصدیق کرنے ( یعنی سچا ماننے ) کو کہتے ہیں اور اصطلاح شرح میں ایمان کے معنی ہیں " سچے دل سے ان باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین سے ہیں " ۔( بہار شریعت، 1/ 172 ) ضروریاتِ دین کی تمام باتوں کی تصدیق کرنے والے کو مؤمن کہتے ہیں ۔ ضروریات دین اسلام کے وہ احکام ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں جیسے اللہ پاک کی وحدانیت، انبیائے کرام کی نبوت، نماز، روزہ، حج، جنت، دوزخ، قیامِ قیامت وغیرہ ۔ قراٰنِ کریم میں کئی مقامات میں مؤمنوں کی صفات بیان کی گئی جن میں سے چند ذکر ہیں ۔

نماز میں خشوع کرنے والے : اللہ پاک نے پارہ 18 کی ابتدا میں مؤمنوں کی صفات بیان فرمائی اس سے پہلے ارشاد فرمایا کہ تحقیق مؤمنین فلاح پا گئے اس کے بعد اللہ پاک نے ان کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18، المؤمنون : 2 )

لغو سے بچنے والے : علامہ صاوی فرماتے ہیں لغو سے مراد ہر وہ قول و فعل و ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمانوں کو دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق وغیرہ ( صاوی 18 مؤمنون 3 ) اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3)

زکوٰۃ دینے والے : اسلام کے دوسرے بڑے رکن کو ادا کرنے کو اللہ پاک نے مؤمنین کی صفات میں بیان کیا ہے کہ ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں۔ ( پ 18 ،المؤمنون: 4 )

امانت دار : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) مؤمن امانت دار ہوتا ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جائے تو وہ خیانت نہیں کرتا بلکہ اس امانت کی حفاظت کرتا ہے۔

وعدوں کو پورا کرنے والے : وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)ترجمہ اور وہ اپنے وعدوں کی رعایت کرنے والے ہیں مؤمن مؤمنوں کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ وعدوں کو پورا کرتے ہیں جب بھی وہ کسی کام میں عہد لیتے ہیں تو وہ اس عہد کو پورا کرنے والے ہیں۔

نمازوں کی حفاظت کرنے والے : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)تفسیرِ خزائن العرفان میں اس ایت اس کے تحت کچھ یوں ذکر ہے کہ اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کی شرائط و اداب کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات و سنن نوافل سب کی نگہبانی کرتے ہیں۔

شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے : اس کی حفاظت کی ترغیبات وغیرہ احادیث میں وارد ہیں۔ چنانچہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے کہ جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور اس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہے یعنی شرمگاہ میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ قراٰنِ پاک میں سورہ مؤمنون کی آیت میں مؤمنوں کی صفات بیان فرمائی ہے۔ ترجمہ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ یعنی زنا اور اس سے متعلق جتنے حرام کام ہیں ان سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

فردوس کے وارث : فر دوس سب سے اعلی اور درمیانی جنت ہے اور اس سے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں اللہ پاک نے مؤمنین کی صفات بیان فرمائی پھر جن میں یہ صفات پائی جائیں ان کے لیے ارشاد فرمایا: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( پ18، المؤمنون:11،10)

اے اللہ پاک ہمیں مؤمنوں کی صفات پر عمل کرنے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ہر ایک نے موت کا کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر اس دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیا گیا اور بے مثل نعمتوں کی جگہ جنت میں داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیابی ہے اللہ پاک نے قراٰن میں پارہ 18 سورۂ مؤمنون آیت نمبر 1 میں ارشاد فرمایا : ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) ان میں کامیاب ہونے کی بشارت مؤمنوں کو دی گئی آئیے مؤمنوں کے کچھ اوصاف جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن اوصاف کو کرنے سے کامیابی کی طرف بڑھا جاتا ہے۔

(1) اپنے وعدے اور امانتوں کی رعایت کرنے والے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

اس آیت میں اللہ پاک نے کامیاب ہونے والے اہل ایمان کے دو اوصاف ذکر کیے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: (1) بات کرو تو سچ بات کرو (2) وعدہ کرو تو پورا کرو (3) تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو (4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو 5(5)اپنی نگاہوں کو پست کرو (6) اپنے ہاتھوں کو روکو۔ (مستدرک،کتاب الحدود)

(2)مسکینوں کو کھانا کھلانا: اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(۹)﴾ ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تمہیں خاص اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔(پ29،الدھر:9،8)

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسکین لوگ جنت میں مالداروں سے 40 برس پہلے جائیں گے اے عائشہ رضی اللہ عنہا مسکین کو خالی نہ پھیرو اگرچہ کھجور کی کاش ہی ہو اسے دے دو ،اے عائشہ رضی اللہ عنہ مسکینوں سے محبت کرو انہیں قریب رکھو تاکہ اللہ پاک قیامت میں تمہیں قریب کر دے ۔(صراط الجنان پارہ29 سورۃ الدھر آیت 8 ،9)

(3) اپنی منتیں پوری کرتے ہیں: اللہ پاک نے اپنے نیک اور مؤمن بندوں کا ایک بہت ہی پیارا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿ یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں۔ (پ29،الدھر:7)

اللہ پاک کے نیک بندے طاعت و عبادت اور شریعت کے واجبات پر عمل کرتے ہیں حتی کہ وہ عبادات جو واجب نہیں لیکن منت مان کر انہیں اپنے اوپر واجب کر لیا تو انہیں بھی ادا کرتے ہیں۔ (صراط الجنان، پارہ29 سورۃ ُالدھر:17)

(4)عرش اٹھانے والے فرشتے بخشش کی دعا کرتے ہیں: ﴿اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد موجود (فرشتے) اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بخشش مانگتے ہیں ۔(پ24،المؤمن:7)

عرش اٹھانے والے فرشتے جو بارگاہِ الہی میں خاص قرب اور شرف رکھتے ہیں نیز عرش کے ارد گرد موجود وہ فرشتے جو طواف کر رہے ہیں یہ اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں اور مؤمنوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں اور اللہ پاک کی بارگاہ میں اس طرح عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! تیری رحمت اور علم ہر شے سے وسیع ہے تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! اور انہیں اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں ان کو ہمیشہ رہنے کے ان باغوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے ،بیشک تو ہی عزت والا، حکمت والا ہے۔

اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں بھی ان مؤمنین کے گروہ میں شامل فرمائے اور ان کے مبارک اوصاف کو اپنی زندگی میں شامل کر کے سچا پکا مؤمن مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔


مؤمن تو اصل وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے۔ قراٰن اور حدیث کی ساری تعلیمات الله اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سب احکام مل کر مؤمن کی تصویر کا خاکہ بناتے ہیں یہ خاکہ مؤمن کا معیار مطلوب ہی نہیں اس کی شناخت و پہچان کا ذریعہ بھی ہے یہ خاکہ اصحاب رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگیوں سے بہت واضح ہے۔

مؤمن مرد کی صفات :مؤمن مرد کی صفات درج ذیل ہیں۔

(1)اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔(2)اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(3)بدکار اور بے حیا نہیں ہوتے۔ (4)اپنی امانتوں اور دوسروں کی نگہبانی کرتے ہیں۔

قراٰنِ پاک میں الله پاک نے ایمان والوں کی صفات متعدد مقامات پر ارشاد فرمائی ہے۔ چنانچہ قراٰنِ پاک میں الله پاک کا ارشاد ہے : ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب اُن پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں ۔(پ9، الانفال:2)اس آیت مبارکہ میں سچے مؤمنوں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ جب الله پاک کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔

مؤمنین کے لیے انعامات الٰہی : ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انھیں راہ دے گا ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی نعمت کے باغوں میں ۔ (پ 10 ، یونس:9)

( ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا ) حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مؤمن جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل خوبصورت شکل میں اس کے سامنے آئے گا یہ شخص کہے گا تو کون ہے ؟ وہ کہے گا میں تیرا عمل ہوں اور اس کے لیے نور ہو گا جنت تک پہنچانے کا اور کافر کا معاملہ برعکس ہوگا اس کا عمل بری شکل میں نمودار ہو کر اسے جہنم میں پہنچائے گا۔(خازن، یونس )

مؤمنین کے 3 اوصاف : ایک وصف یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ ہیں۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مؤمن نیکی کرنے کے باوجود اپنے رب سے ڈرتا ہے جبکہ منافق گناہ کرنے کے باوجود بے خوف رہتا ہے۔

دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تمام کتابوں کو مانتے ہیں۔

تیسر ا وصف یہ ہے کہ وہ عرب کے مشرکوں کی طرح اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتے ۔( خازن، المؤمنون )

الله پاک ہمیں سچا پکا عاشقِ رسول بنائے اور جو مؤمن مردوں کی صفات ذکر کی گئی ہمیں ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)


مؤمن اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ پر، اس کے رسولوں پر اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لائے۔ مردِ مؤمن کی یہ شان ہے کہ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں مؤمن کی صفات ذکر فرمائیں ہیں۔ کامیاب مردِ مؤمن میں ایک وصف یہ ہے کہ وہ اپنی نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے جیسا کہ رب تعالی پار 18 سورۃُ المؤمنوں کی آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے، جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2،1)

کامیاب مؤمن سے کیا مراد ہے ؟: کامیاب مردِ مؤمن سے مراد یہ ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہو کر ہر نا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔ (تفسیر صراط الجنان)

اسی طرح مردِ مؤمن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ بیہودہ باتوں کی طرف التفات نہیں کرتا جیسا کہ اللہ پاک سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3) پتا چلا کہ مردِ مؤمن کے لیے بیکار کاموں سے بچنا بھی ضروری ہے۔ حدیث پاک میں بھی لایعنی اور بے کار کاموں سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے ہے کہ وہ لا یعنی چیز چھوڑ دے۔ (تفسیر صراط الجنان)

اسی طرح مردِ مؤمن کی ایک صفت یہ ہے کہ اگر انکے پاس کوئی امانت رکھوائی جائے تو وہ اسکی حفاظت کرتے ہیں اور جب وہ کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو اس کو پورا کرتے ہیں ۔ مردِ مؤمن کی ان صفات کو سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر 8 میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کامل مردِ مؤمن کبھی بھی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا اور جھوٹے وعدے نہیں کر سکتا۔

سورة المؤمنون کی ابتدائی آیتوں میں مردِ مؤمن کی جو صفات ذکر کی گئی ہیں ان میں سب سے آخری صفت مردِ مؤمن کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں جیسا کہ رب تعالیٰ سورةُ المؤمنون کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں۔ (صراط الجنان)

آب غور کیجئے کہ اللہ پاک نے سورہ مؤمنون میں مردِ مؤمن کی پہلی اور آخری صفات ہی یہ بیان فرمائیں ہیں کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کامل مردِ مؤمن کبھی بھی بے نمازی نہیں ہو سکتا الله پاک ہمیں بھی اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا کرنے اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم