بندہ مؤمن کی شخصیت ایسی ہے کہ اس کی جتنی تعریف بیان کی جائے کم پڑے گی کیونکہ بندہ مؤمن کی صفات تو خود اللہ پاک نے اپنی لاریب کتاب قراٰنِ مجید فرقان حمید میں بیان کی ہیں: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے مؤمن کی 10 صفات بیان فرمائی ہیں۔(1)عبادت کرنے والا (2)توبہ کرنے والا (3)حمد کرنے والا (4)روزے رکھنے والا (5)رکوع کرنے والا (6)سجدہ کرنے والا (7)نیکی کی دعوت دینے والا (8) برائی سے منع کرنے والا (9)اللہ پاک کے حدود کی حفاظت کرنے والا (10)جنت کی خوشخبری کے مستحق۔

﴿الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ آیت کے اس حصے کی وضاحت تفسیر صراط الجنان میں تفسیرکبیر اور قرطبی کے حوالے سے کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ اللہ پاک نے بندوں کو جن اَحکام کا پابند کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں، یہ تمام احکام دو قسموں میں منحصر ہیں (1) عبادات ،جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ (2) معاملات، جیسے خریدو فروخت ،نکاح اور طلاق وغیرہ۔ ان دونوں قسموں میں سے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لانا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جانا اللہ پاک کی حدوں کی حفاظت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: 112 ، 6 / 155، قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: 112 ، 4 / 155، الجزء الثامن، ملتقطاً)

اسی بات کو آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوقُ اللہ اور حقوقُ العباد دونوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں کہ حقوقُ اللہ میں مگن ہو کر حقوقُ العباد چھوڑ دیں اور حقوقُ العباد میں مصروف ہوکر حقوقُ اللہ سے غافل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں یہ اِفراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے اور یہ دین سے جہالت کی وجہ سے ہے۔

مزید ایک مقام پر اللہ ربُّ العزت مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے سورةُ الفرقان کی آیت 63 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19،الفرقان:63)تفسیر مدارک میں اس آیت کریمہ کے تحت فرمایا کہ کامل ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔ مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں چلتے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 63، ص809، ملخصاً)

اور اسی آیت کے دوسرے حصہ کے تحت ابوداؤد میں لکھا ہے کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘ اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا اس کے یہ معنی ہیں کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔( ابو سعود، الفرقان، تحت الآیۃ: 63 ، 4 / 148)

اللہ پاک ان کی خلوت بیان کرنے ہوئے قراٰنِ مجید کی سورة الفرقان آیت 64 میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ۔(پ19،الفرقان:64)، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کامل ایمان والوں کی خلوت و تنہائی کا حال یہ ہے کہ ان کی رات اللہ پاک کے لئے اپنے چہروں کے بل سجدہ کرتے اور اپنے قدموں پر قیام کرتے ہوئے گزرتی ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: 64 ، 3/ 378)

سورةُ السجدة کی آیت 16 میں ارشاد فرمایا کہ ﴿تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔(پ21، السجدۃ:16)یعنی وہ اپنے رب کے حضور اس شوق و لگن سے عبادت کرتے ہیں کہ اپنی ساری رات عبادت میں گزار دیتے ہیں۔ اللہ پاک سے ڈرتے اور پختہ امید رکھتے ہوئے اللہ پاک کو پکارتے ہیں۔ اور اللہ کے دیے ہوئے مال سے راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔

اور سورةُالذاریات کی آیت 15 تا 17 میں ارشاد فرماتا ہے کہ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک پرہیزگار لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اپنے رب کی عطائیں لیتے ہوئے، بیشک وہ اس سے پہلے نیکیاں کرنے والے تھے۔ وہ رات میں کم سویا کرتے تھے۔ اور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔ تفسیر صراط الجنان میں ابوسعود اور خازن کے حوالے سے اس آیت کے تحت بیان کیا گیا ہے کہ بے شک پرہیز گار لوگ ان باغوں میں ہوں گے جن میں لطیف چشمے جاری ہیں اور اللہ پاک انہیں جو کچھ عطا فرمائے گا اسے راضی خوشی قبول کرتے ہوں گے ۔ بیشک وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے دنیا میں نیک کام کرتے تھے اسی لئے انہیں یہ عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔( ابو سعود، الذّاریات، تحت الآیۃ: 15-16 ، 5 / 628، خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: 15-16 ، 4/ 181، ملتقطاً)

قراٰنِ پاک کی درج بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ مؤمن کیسی پیاری پیاری صفات کا گلدستہ ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہر معامَلے میں عَدْل و انصاف اور سچّائی پر قائم رہتے زندگی بسر کریں۔ نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں اور برائی سے منع کرتے ہوئے اپنی زندگی کے لمحات گزاریں تاکہ جنت ہمارا مقدر بنے۔ اللہ پاک ہمیں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انسان و مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا تعلق اپنے ربِّ کریم سے ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق ومالک ہے۔ قراٰنِ پاک اور احادیثِ کریمہ میں کئی مقامات پر اللہ کریم پر ایمان رکھنے والے مؤمن کے اَوْصاف کا بیان ہے۔ آئیے! قراٰن پاک کی جن آیات میں اہلِ ایمان کو بحیثیتِ مؤمن جو احکام دئیے گئے اور جن آیات میں مؤمنین کے اوصاف بیان کئے گئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔

مؤمن کے سامنے اللہ کریم کا نام لیا جائے تو ربِّ عظیم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے اور جب اس کے سامنے قراٰنِ کریم کی آیات پڑھی جائیں تو اس کا اپنے ربّ پر بھروسہ اور ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

مؤمن اللہ کریم کی بارگاہ میں بہت توبہ و استغفار کرنے والا اور ہر نعمت و امتحان پر اللہ کریم کی حمد کرنے والا ہوتا ہے۔ فرمانِ خُداوندی ہے: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ترجَمۂ کنزُالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

مؤمن اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی کرتے ہوئے جب کسی جائز کام کا ارادہ و عزم کرتا ہے تو اللہ کریم پر بھروسا کرتا اور اس پر مستقیم رہتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔(پ4، آلِ عمرٰن:159)

مؤمن کو جب اللہ کریم اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم سنایا جاتا ہے اور اللہ و رسول کے فیصلے و حکم کی طرف بُلایا جاتا ہے تو وہ فوراً مانتا اور سرِتسلیم خَم کرتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔ (پ 18،النور: 51)

٭مؤمن دو جہاں کے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آواز بلند نہ کرنے والا اور نہایت ادب و تعظیم سے کام لینے والا اور اپنے اعمال و ایمان کے اَکارَت جانے سے خوف رکھنے والا ہوتا ہے۔ اللہ کریم کا فرمان ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّاکر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

مؤمن ہمیشہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اُن سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی تعظیم و توقیر کرتا ہے، بلکہ جس لفظ سے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کے خلاف ذرا سا شُبہ بھی ہوتا ہو اس سے بھی محتاط رہتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (پ1،البقرۃ : 104)

نماز تو مؤمن کیلئے معراج ہے، قراٰنِ کریم میں کثیر مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا ہے، مؤمن وقت پر پابندی اور خشوع و خضوع(عاجزی )سے نماز پڑھنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربِّ کریم ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

حقیقی مؤمن اللہ کریم کے حکم پر سجدہ ریز ہونے والا، اللہ پاک کی پاکی و تسبیح بیان کرنے والا ہوتا ہے، جس طرح شیطان میں تکبّر آیا تو اللہ کے حکم سے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ مؤمن ایسا نہیں کرتا بلکہ جب سجدہ کا حکم ہوتا ہے تو تکبر سے دور رہتا اور بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوتا ہے﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۩(۱۵) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں کہ جب وہ اُنہیں یاد دلائی جاتی ہیں سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔(پ21، السجدۃ:15)(یہ آیت آیات سجدہ میں سے ہے، اسے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہے۔)

مؤمن فرض روزوں کی پابندی کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔(پ2،البقرۃ:183)

مؤمن فرض ہونے کی صورت میں زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے۔﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

مؤمن کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کریم کے دئیے ہوئے مال و رزق سے اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔ (پ1،البقرۃ:3)

مؤمن جیسے ہی استطاعت پاتا ہے اور اس پر حج فرض ہوتا ہے تو اللہ کے گھر کا حج کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: ا ور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:97)

مؤمن کے اعلیٰ اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسرے مؤمن کی بھی فکر کرتا ہے اسی لئے وہ ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئے انہیں نیکی کی دعوت دیتا اور بُرائی سے منع کرتا ہے۔ اللہ کریم کا فرمان ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔ (پ 10،التوبۃ: 71)

پرسنل لائف کو خوبصورت اور اپنے مولائے کریم ربُّ العزّت کی پسندیدہ بنانے کے لئے بھی ایمانِ کامل کی بہت اہمیت ہے۔ مؤمنِ کامل کے اوصاف کو عمَلی جامہ پہنانا حُسنِ معاشرت کا بہترین ذریعہ ہے۔


مؤمن لفظ کا اِطلاق ایمان والے پر ہوتا ہے ۔ ”ایمان‘‘ اسے کہتے ہیں کہ بندہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین میں داخل ہیں ۔ (بہارِ شریعت، 1 / 172)

دورِ حاضر میں انسان کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش میں ہے اپنے اندر وہ کچھ ایسی صفات کا حامل ہونا پسند کرتا ہے جس سے اس کی ذات نکھری ہوئی ، خوبصورت معلوم ہو ۔ ہر کوئی معاشرے کا ایک باوقار ، اچھا ، خوبصورت انسان بننے کا خواہشمند ہوتا ہے اور وہ سوشل میڈیا کے اس جدت پسندی کے معاشرے میں کچھ نہ کچھ انٹرنیٹ سے سیکھنے کے لئے اپنا قیمتی وقت ، مال الغرض بہت کچھ صَرف کر رہا ہے ۔ کوئی سرچ انجن میں لیڈر بننے کی خوبیاں ، تو کوئی وقت کی پابندی کا ، مستقل مزاجی کا دیگر بہت سے اوصاف ، خوبیوں کو سرچ کرنے میں مصروف ہے، جو کہ دنیاوی اعتبار سے ہے ۔ بہر کیف ان سب سے بہتر اوصافِ حمیدہ جو ایک مردِ مؤمن میں ہونے چاہیے ان تمام تر کو اُس کا خالق و مالک اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ فرمانے والا اللہ پاک قراٰنِ پاک میں واضح بیان فرماتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کتنا قراٰنِ مجید کا مطالعہ غور وفکر سے ، درست کرتے ہیں اور رب تعالیٰ نے جو مؤمنین کی صفات بیان فرمائی ہیں وہ مجھ میں ہے بھی کہ نہیں ؟ ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ۔ دعوتِ غور و فکر بھی ہے اور آئیے عاشورہ کی نسبت سے بیان کردہ دس مؤمن مرد کی صفات کو ملاحظہ کرتے ہیں جس کا بیان قراٰنِ مجید میں موجود ہے ۔

ایک دوسرے کے رفیق: ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ﴾ ترجمہ کنزالایمان: ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔(پ10،التوبۃ:71) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس سے مراد وہ آپس میں دینی محبت واُلفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔

بھلائی کا حکم اور برائی سے روکتے ہیں: -﴿یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ترجَمۂ کنزُالایمان: بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔ (پ 10،التوبۃ: 71) اس سے مراد ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔

نماز قائم کرتے ہیں : ﴿وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور نماز قائم رکھیں ۔(پ10،التوبۃ:71) فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔

زکوٰۃ دیتے ہیں: ﴿وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ ترجمہ کنزالایمان: اور زکوٰۃ دیں ۔(پ10،التوبۃ:71) اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔

اللہ اور اس کے آخری رسول کی اطاعت کرتے ہیں: ﴿وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان : اللہ و رسول کا حکم مانیں ۔(پ10،التوبۃ :71) اور ہر معاملے میں اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم مانتے ہیں۔

گناہوں سے بچتے ہیں : ﴿اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے ۔ ( پ 27 ، النجم : 32 )

جب اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں: ﴿ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں۔ (پ9،الانفال:2)

جب تلاوتِ قراٰنِ پاک کی جائے تو ایمان ان کا ترقی پاتا ہے : ﴿وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔(پ9،الانفال:2)

اللہ پاک پر ہی یقین رکھتے ہیں: ﴿وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

کوئی اندازہ کر سکتا کیا ہے اس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اِن تمام صفات کا مظہر مردِ مؤمن رب تعالیٰ کا فرمانبردار بندہ کہلاتا ہے ۔ قراٰنِ مجید میں اِس کے علاوہ بھی مؤمنین کی دیگر صفات کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ قراٰنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ خوب غور و فکر سے مطالعہ بھی کریں اور ان صفات کو اپنانے کی ، ان صفات کا مظہر بننے کی حقیقت میں سعی کریں ۔ جس سے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوں گئیں۔ عجیب قِسم کے حیرت انگیز اِنقلاب ظہور پذیر ہوں گے۔ لیڈر شپ کی خصوصیات، وقت کی پابندی ، مستقل مزاجی اور بہت سے اوصاف ، معاشرے کا ایک بہترین انسان بن کر ابھرے گا ان اوصافِ حمیدہ کو اپنانے والا۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں مؤمنین کے جملہ اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰنِ کریم اللہ پاک کا بے مثل اور عظیم کلام ہے اور تمام انسانوں کے لئے رشد ہدایت کا سر چشمہ ہے اس میں جس طرح احکام اور گزشتہ امتوں کے واقعات کا بیان ہے اسی طرح اس میں مؤمن کامل کی صفات اور دنیا و اخرت میں سرخرو کامیابی حاصل کرنے کے اعمال بھی مذکور ہیں چنانچہ آپ بھی قراٰنِ پاک سے بندہ مؤمن کی 10 صفات ملاحظہ فرمائیے:

(1)خشوع خضوع اپنانا:﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2) فضول باتوں سے بچنا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3)

(3) زکوٰۃ ادا کرنا : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(5،4) امانت ادا کرنا اور وعدہ پورا کرنا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(6) نمازوں کی حفاظت: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(7) شرمگاہ کی حفاظت کرنا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(8) عاجزی سے چلنا: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔(پ19،الفرقان:63)

(9) رات عبادت میں گزارنا: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:64)

(10)ناحق قتل نہ کرنا: ﴿وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے ۔ (پ19،الفرقان :68)


اللہ پاک نے مختلف قسم کی مخلوقات کو پیدا فرمایا لیکن ان سب مخلوقات میں سے افضل و اشرف مخلوق انسان کو پیدا کر کے اس کو اشرف المخلوقات کے ٹائٹل سے نوازا اس لئے کہ انسانوں کے اندر عقل کا مادہ رکھا اور علم سکھایا جس کے سبب سے انہوں نے اپنے رب کی معرفت کو حاصل کیا اور اللہ کے بندوں میں سے ہی وہ بندے ہیں جنہوں نے اللہ کریم کا قرب حاصل کیا اور مقامِ تقرّب تک پہنچے انبیائے کرام علیہم السّلام کے بعد اولیاء اللہ( صحابہ تابعین و تبع تابعین غوث قطب ابدال و غیرھم) ہی اللہ پاک کے نیک اور صالح بندے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی رضائے مولیٰ کی خاطر وقف کردیں اور مجاہدے اور ریاضتیں کرکے فلاح و کامرانی کے زینے طے کرتے ہوئے ابدی راحتوں، چین و سکون والی جنت کے حقدار ٹھہرے ۔

(1) اللہ کریم نے کامیاب مؤمنین کے بارے میں قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1)

( 2) اللہ پاک نے مؤمنین کا دوسرا وصف بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ مؤمنین کہ جو اپنی نمازوں میں گڑگڑاتے ہیں : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)

(3) اللہ کریم نے مؤمنین کے تیسرے وصف کو بیان فرمایا کہ وہ مؤمنین جو لغویات و بیہودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(4) اللہ پاک نے یہ بیان فرمایا کہ وہ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(5، 6) اللہ پاک نے اس آیت میں مؤمنین کے دو اوصاف کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، اپنی ازواج اور لونڈیوں کے علاوہ کسی اور عورت کی طرف التفات نہیں کرتے ۔﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)

(7، 8) اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے مؤمنین کے دو اوصاف ذکر فرمائے ایک تو اپنی امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وعدہ بھی پورا کرتے ہیں ۔﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(9) اس آیتِ مبارکہ میں مؤمنین کا بہت ہی پیارا وصف بیان فرمایا کہ وہ مؤمنین جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(10) اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک مؤمنین کے اس وصف کے سبب محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں صفیں باندھ کر لڑتے ہیں ۔﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(۴)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔(پ 28 ، الصف : 4)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! مذکورہ بالا تمام اوصاف مؤمنین کے بیان ہوئے اور یہ ایسے اوصاف ہیں کہ جس مسلمان میں یہ اوصاف پائے جائیں تو اس کی بدولت انسان کا شمار صالحین میں سے ہوتا ہے ۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو یہ پاکیزہ اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے سب لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور کچھ انبیائے کرام و رسولوں کے ساتھ کتاب بھی نازل کی تاکہ لوگوں کو اس میں سے رب تعالٰی کے احکامات سکھائیں وہ کتابیں درج ذیل ہیں۔ (1) توریت (2) زبور (3) انجیل (4) قراٰنِ مجید ۔ آخری کتاب ہمارے پیارے آخری نبی محمد عربی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پر نازل کی گئی۔ اس کتاب میں احکامات کے ساتھ ساتھ انبیائے کرام وغیرہ کی صفات و اسماء بیان کیے ہیں۔ انھیں صفات میں سے اللہ پاک نے مؤمنین کی صفات بھی ذکر فرمائی ہیں جن سے ثواب اور جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ الله پاک نے مؤمنین کی دس (10) صفات ذکر فرمائی ہیں۔ آئیے ملاحظہ کرتے ہیں:

(1) جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ آج ہم غور کریں کہ ہم نماز تو پڑھتے ہیں کیا ہماری نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ہوتی ہے؟

جو (لغو)فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔ لغو سے مراد علامہ احمد صادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اس سے مراد ہر وہ قول فصل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو دینی و دنیاوی فائدہ نہ ہو مزاق، مسخری، بے ہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا۔ (صاوى ، مؤمنون)

اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں: اس آیت میں کامیابی پانے والوں کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں۔ (صراة الجنان)

﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)سوائے اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی ملک ہے پس بے شک ان پر کوئی ملامت نہیں یعنی ایمان والے زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، البتہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقہ کے ساتھ صحبت کریں تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (صراط الجنان)

تو جو ان کے سوا کچھ اور چاہیں تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں یعنی جو بیویوں اور شرعی باندیوں کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے شہوت پوری کرنا چاہیں تو وہی بڑھنے والے ہیں کہ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرتے ہیں۔(روح البیان ، مؤمنون)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

آج ہم غور کریں کیا ہمارے اندر ان میں سے کامل طور پر کوئی خاصیت پائی جاتی ہے یا نہیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو کامل مؤمنوں میں شامل فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں جہاں احکام شرع اور نصیحتیں بیان فرمائی ہیں، وہاں مردِ مؤمن کے اوصاف بھی بیان فرمائے۔ ہم ان میں سے چند اوصاف پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے تاکہ ہم بحیثیتِ مسلمان ان پر عمل کرکے دنیا اور آخرت میں فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوسکیں۔

(1) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ بے دیکھے محض رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان اقدس پر اعتماد کرتے ہوئے ایمان لائے اور نماز و زکوٰۃ کی ادائیگی بجالائے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔(پ1،البقرۃ:3)

(2) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ عقیدہ آخرت پر یقین رکھتا ہو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں۔(پ1، البقرة:4)

(3) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کی راہ میں جان و مال کو قربان کرنے سے کبھی نہیں گریز کرتا۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ- ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم سے چھٹی نہ مانگیں گے اس سے کہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں ۔ (پ10، التوبۃ: 44)

(4)مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کو پیش نظر رکھتا ہے اور جو حکم خدا و رسول ہوتا ہے اسے دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے اس کے حضور سر تسلیم خم کردیتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۶۵) ترجمۂ کنزالایمان: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔ (پ5، النسآء: 65)

(5) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ زمین پر ہیبت و وقار کے ساتھ چلتا ہے اور جاہلوں کے ساتھ بحث کرنے سے اعراض کرتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19،الفرقان:63)

(6)مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خدا کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہوئے، عبادت و بندگی میں راتیں گزارتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ۔(پ19،الفرقان:64)

(7) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ عبادات اور پابندی شرع کے باوجود اپنے دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے اور اس کے حضور نار جہنم سے بچنے کی دعائیں کرتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:﴿ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہم سے پھیر دے جہنم کا عذاب ۔ (پ19،الفرقان :65)

(8) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ فضول خرچی اور بخل سے بچتے ہوئے میانہ روی کرنے والا ہوتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)

(9)مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ غیر اللہ کی عبادت ہرگز نہیں کرتا اور قتل ناحق اور زنا سے بچنے والا ہوتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے۔ (پارہ19،الفرقان :68)

(10) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ جھوٹی گواہی دینے سے بچتا ہے اور کسی فضول ولایعنی چیز پر اس کا گزر ہو تو اس سے اپنی عزت سنبھالتے ہوئے اور اس پر توجہ نہ دیتے ہوئے گزرتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔(پ19،الفرقان :72 )

اللہ پاک ہمیں اپنے کلام مجید پر عمل کرتے ہوئے صحیح معنوں میں سچا پکا مسلمان مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰنِ مجید وہ لاریب کتاب ہے جس میں ماکان ومایکون کا بیان ہے۔ احکام و مواعظ، قصص و واقعات ،ترغیبات وتہدیدات الغرض تمام خلق کے لئے ان کے تقاضوں کے مطابق ہر طرح کی رہنمائی اس بلند رتبہ کتاب میں موجود ہے۔ نیز قراٰنِ مجید نے صادق الایمان مؤمن ومسلمان کے اوصاف بھی بیان فرمائے تاکہ مسلمانان عالم ان کو اپناکر سچے پکے ایمان والے بنیں۔ اپنے اس مضمون میں ہم چند اوصاف بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

(1) دشمنانِ خدا ومصطفی سے دوستی ومحبت نہ رکھنا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ اللہ و رسول کے دشمنوں سے ہرگز ہرگز محبت و دوستی نہیں رکھتے۔ ارشاد باری ہے:﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ- ترجمۂ کنزالایمان: تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں ۔ (پ28، المجادلۃ:22)

(2) حکم خدا ورسول کے حضور سرتسلیم خم کردینا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ جب بارگاہ رسالت میں کسی کام کے لئے بلائے جائیں تو فورا سمعنا واطعنا کہہ کر سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔ (پ 18،النور: 51)

یہی وصف پارہ03، سورۃ البقرہ، آیت: 285 میں ارشاد فرمایا گیا۔

(3) روزِ جزا کو سچ جاننا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ روزِ آخرت کی تصدیق کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِﭪ(۲۶)ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو انصاف کا دن سچ جانتے ہیں۔(پ29، المعارج: 26)

یہی وصف پارہ01، سورۃُ البقرہ، آیت: 04 میں ارشاد فرمایا گیا۔

(4) ظاہر وباطن سے خدا کے حضور سربسجود ہونا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ نماز خشوع وخضوع یعنی ظاہر وباطن کی مکمل توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)

یہی وصف پارہ01، سورۃُ البقرہ، آیت: 45 میں ارشاد فرمایا گیا۔

(5) لہو وفضول سے کنارہ کش ہونا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ ہر لہو وفضول اور لایعنی کاموں سے اجتناب اور پرہیز کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

یہی وصف پارہ19، سورۃ الفرقان، آیت:72 میں ارشاد فرمایا گیا۔

(6) زکوٰۃ کی ادائیگی کرنا : سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ زکوٰۃ کی ادائیگی پابندی سے کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

یہی وصف پارہ29، سورۃُ المعارج، آیت: 24، 25 میں ارشاد فرمایا گیا۔

(7) عذابِ الہی سے لرزاں ترساں رہنا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اعمال صالحہ کے باوجود عذاب الہی سے بے خوف نہیں ہوتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۚ(۲۷)ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈر رہے ہیں ۔(پ29، المعارج: 27)

یہی وصف پارہ19، سورۃ الفرقان، آیت: 65 میں ارشاد فرمایا گیا۔

(8) اپنی شرمگاہ کی ناجائز سے حفاظت کرنا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ حلال ذرائع کے علاوہ اپنی شہوت پوری نہیں کرتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)

(9) امانت و معاہدہ کو پورا کرنا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں اور عہدوں کو پورا کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(10) گواہی پر قائم رہنا: سچے ایمان والوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ محض اللہ کی رضا کے لئے گواہی پر قائم ہوتے ہیں، نہ اس میں رشتے داروں کی پاسداری کرتے ہیں نہ دوستوں کا پاس۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِشَهٰدٰتِهِمْ قَآىٕمُوْنَﭪ(۳۳) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم ہیں ۔ (پارہ29، المعارج: 33)

یہی وصف پارہ05، سورۃُ النساء، آیت: 135 میں ارشاد فرمایا گیا۔

خالق کائنات جل جلالہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں کامل مؤمن ومسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


(1) خٰشِعُوْنَ : (خشوع و خضوع کرنے والے۔)یہاں سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)

(2) عَنِ اللَّغْوِ : (فضول بات سے۔)فلاح پانے والے مؤمنوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ:3 ، 3/ 320)علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری، بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: 3 ، )

(3) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5) اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگروہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 5-6، 3/ 320-321، ملخصًا)۔

(4) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ: (تو جو اِن دو کے سوا کچھ اور چاہے۔) یعنی جو بیویوں اور شرعی باندیوں کے علاوہ کسی اور ذریعے سے شہوت پوری کرنا چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں کہ حلال سے حرام کی طرف تَجاوُز کرتے ہیں ۔( روح ا لبیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 7 ، 6/ 68، ملخصاً)۔

(5)﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔

(6) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 9)یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۳۲۱، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ص۷۵۲، ملتقطاً۔ ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا اور آخری وصف نمازوں کی حفاظت کرنا ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز بڑی عظیم الشان عبادت ہے اور دین میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’پانچ نمازیں اللہ پاک نے بندوں پر فرض کیں ، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں سب نمازیں پڑھیں اور رکوع و خشوع کو پورا کیا تو اس کے لئے اللہ پاک نے اپنے ذمۂ کرم پر عہد کر لیا ہے کہ اسے بخش دے، اور جس نے نہ کیا اس کے لیے عہد نہیں ، چاہے بخش دے، چاہے عذاب کرے۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المحافظۃ علی وقت الصلوات، 1 / 186، حدیث: 425)


تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا خالق ہے جس نے تمام جہانوں کو پیدا فرمایا پھر اس نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے اپنے خاص بندوں یعنی انبیا اور مرسلین کو مبعوث فرمایا جنہوں نے لوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو جن بدبخت لوگوں نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی دعوت کو جھٹلایا وہ کافر ہوئے اور ان کی اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مذمت بیان کی اور جن خوش نصیب لوگوں نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی دعوتِ حق کو قبول کیا اور اللہ پاک اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آئے وہ مؤمن کہلائے اور ان کے اوصاف کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بیان کیا۔ اللہ پاک نے سورۃُ المؤمنون میں مؤمنین کے جو اوصاف ذکر کیے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(1) ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) یہاں پر ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔

نماز میں ظاہری و باطنی خشوع: نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(صاوی، المؤمنون)

(2) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) یہاں پر ایمان والوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ ایمان والے فضول باتوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔

لَغْو سے کیا مراد ہے؟: علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری، بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون)

(3) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت میں کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( مدارک )

(5،4) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔(صراط الجنان)

اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مؤمنین کی صفات ذکر فرمانے کے بعد ان کے لیے انعامات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( پ18، المؤمنون:11،10)خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں میں ما قبل آیات میں مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں یہی لوگ کافروں کے جنتی مقامات کے وارث ہوں گے۔ یہ فردوس کی میراث پائیں گے اور وہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں انہیں موت آئے گی۔(صراط الجنان)

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں۔ بھی اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی ایمان پر استقامت عطا فرمائے اور دنیا سے ایمان سلامت لے کر جانا نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ رب العزت نے جب انسان کو عالَمِ ارواح سے عالَمِ دنیا میں لانے کا ارادہ فرمایا تو اپنی نوری مخلوق (فرشتوں) کے سامنے خطاب فرمایا: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ اس پر ان فرمانبرداروں نے عرض کی "کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے" تو خالقِ کائنات جو کہ عالِم الغیب و الشھادہ ہے اس نے فرمایا: "مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔" کیونکہ خلیفہ بنانے میں خالقِ کائنات کی بہت سی حکمتیں ہیں انہیں میں سے انبیا و رسل ہوں گے انہیں میں سے علما ہوں گے صلحا ہوں گے اور نیک نمازی پرہیزگار عبادت گزار مؤمنین ہوں گے کہ جب وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد کے سجدیں کرینگے تو ربُّ العالمین جل و علا فرشتوں کے سامنے فخر فرمائے گا۔

قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ کے نیک متقی مؤمنین کی پروردگار عالم نے بہت سی صفات بیان فرمائی ہیں ہم ان میں سے کچھ رقم کرتے ہیں۔

حقیقی کامیابی: انسان کامیابی کے لئے دن رات جدوجہد کرتا ہے محنت مزدوری کرتا ہے مشقت اٹھاتا ہے مگر حقیقی کامیابی کیا ہے؟ اور کون کامیاب ہیں؟ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس سے پتہ چلا کہ کافر بظاہر دنیاوی زندگی میں کامیاب نظر بھی آئیں، لیکن حقیقتاً کامیاب مؤمن ہے، کیونکہ اس کے پاس ایمان جیسی انمول دولت ہے۔

مؤمن نمازوں کی حفاظت کرنے والا، زکوٰۃ ادا کرنے والا، امانت دار، عہد پورا کرنے والا، فضولیات سے بچنے والا، شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون:2تا5)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 8، 9)

عظیم الشّان عبادت: ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا اور آخری وصف نمازوں کی حفاظت کرنا ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز بڑی عظیم الشان عبادت ہے اور دین میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ (تفسیر صراط الجنان سورۃالمؤمنون ،تحت الآیۃ9)

جنتُ الفردوس کے وارث: جنتوں میں سب سے اعلی جنت "جنت الفردوس" ہے اور اس کے وارث مؤمنین ہیں۔ چنانچہ اللہ کریم نے مؤمنین کی دس حسین صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون: 11)

نیکی کا حکم دینے والے برائی سے روکنے والے نیکیوں میں جلدی کرنے والے: ربُّ العالمین ارشاد فرماتا ہے: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۱۴)ترجمۂ کنزالایمان: اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں اور یہ لوگ لائق ہیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:114)

معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیکیوں میں جلدی کرنے والے ہوتے ہیں، بلکہ یہ تو اتنا خوبصورت پیارا اور عمدہ کام ہے کہ اللہ کریم نے جب اس امت کی افضلیت کی وجہ کو بیان فرمایا تو ارشاد فرمایا: ﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔(پ4، ،آلِ عمرٰن : 110﴾

مؤمن اور کامل مؤمن میں فرق: یاد رہے! اللہ پاک نے جس طرح عام مؤمنین کی صفات کو بیان فرمایا ہے اسی طرح کامل مؤمنین کی صفات کو بھی بیان فرمایا ہے اور یہ دونوں ایک نہیں، کیونکہ ہر کامل مؤمن، مؤمن ہے لیکن ہر مؤمن کامل ہو! یہ ضروری نہیں۔

کامل مؤمن ترجیح اللہ و رسول اور دین کو دیتا ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور وہ انہیں اُن باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ (پ28، المجادلۃ:22)

اعلی حضرت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت، الشاہ الحافظ الحاج امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے: جس کے دل میں اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تعلق تمام تعلقات پر غالب ہو اللہ و رسول کے مُحِبُّوں سے محبت رکھے اگرچہ اپنے دشمن ہوں اور اللہ و رسول کے دشمنوں سے دشمنی رکھے اگرچہ اپنے جگر پارے ہوں جو کچھ دے اللہ کے لیے دے جو کچھ روکے اللہ کے لیے روکے تو اس کا ایمان کامل ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے عداوت رکھی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روکا تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا۔(فتاویٰ رضویہ،29/254)

پیارے اسلامی بھائیو! کافروں سے محبت کرنا، ان سے دوستی کرنا، انہیں اپنا دوست و خیر خواہ سمجھنا مسلمان کی ہلاکت و شامت ہے قراٰنِ مجید میں جگہ جگہ کافروں سے دوستی کرنے کی مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔(پ3، آل عمرٰن:28)

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ،تم انہیں دوستی کی وجہ سے خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ یقیناً وہ اس حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا۔ (پ8،الممتحنہ:1)

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (پ6،المائدۃ:51)

اور یاد رہے کہ سورہ کافرون میں جن کافروں کو مخاطب کیا گیا: ﴿قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ(۱) لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ! اے کافرو!۔میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہو ۔(پ30،الکافرون:2،1)اس سے مراد تمام کافر ہیں چاہے وہ ہندوستان کا کافر ہو یا یورپ کا یا پاکستان کا، کیونکہ " المسلم ملۃ واحدۃ و الکفر ملۃ واحدۃ" مسلمان جس زمین پر بھی رہے وہ ایک ملت ہے، اور کافر جس دھرتی پر رہے ایک ملت ہے۔

صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا انداز کیسا تھا؟؟ خالقِ کائنات نے بیان فرمایا: ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں۔(پ26،الفتح:29 )

پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافروں سے دوستی تو در کنار ان پر سخت تھے، اور صحابہ کرام تو ایمان کا مدار ہیں۔

اللہ پاک ہمیں مؤمنین کی تمام صفات کو اپنانے بالخصوص اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے امانت دار، وعدے کو پورا کرنے، مسلمانوں سے دوستی کرنے، کفار کی دوستی و محبت جیسی شنیع برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دنیا میں تقریباً اٹھارہ ہزار مخلوقات ہیں ۔جس میں جن و انس بھی شامل ہیں اللہ پاک نے سب کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور  اللہ پاک نے زمین میں اپنا خلیفہ آدم علیہ السّلام کو بنایا اور آپ سے ہی نسل انسان کا آغاز کیا اور اسی طرح سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کو نبوت سے نوازا اور آپ کے بعد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور اللہ کا پیغام لوگوں تک عام کیا اسی طرح سب سے آخر میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث فرمایا ۔ پس جو شخص اللہ پاک کو خالق اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی تسلیم کرتا اور اسلام کے بنیادی عقائد کو تسلیم کرتا ہے وہ مؤمن ہے۔ آپ کو مؤمن کا علم ہو گیا ہے مگر ہمارا موضوع ہے مؤمن کی صفات چلیے! ہم مؤمن کے اوصاف قراٰنِ کریم سے معلوم کرتے ہیں ۔

قراٰن سے مؤمنوں کے چند اوصاف ملاحظہ کیجئے:

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)

مفسرین نے اس آیت کے تحت مؤمنوں کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔ پہلا وصف یہ ہے کہ جب اللہ کو یاد کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔اللہ پاک کا خوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ پاک کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیائے کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ پاک سے جتنا زیادہ قرب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 2 ، 5 / 450 ملتقطاً)

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا خوف خدا : حضرت حسن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے ایک مرتبہ درخت پر پرندے کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے پرندے! تیرے لئے کتنی بھلائی ہے کہ تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے کاش! میں بھی ایک پھل ہوتا جسے پرندے کھا لیتے۔ (کتاب الزہد لابن مبارک، باب تعظیم ذکر اللہ ، ص81، حدیث: 240)

دوسرا وصف: اللہ پاک کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔

تیسرا وصف : وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 2 ، 2/ 176)

اسی طرح قراٰن میں اللہ پاک مؤمنوں کے مزید اوصاف بیان فرماتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، یعنی جب وہ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) اس آیت کے تحت اللہ مؤمنوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مؤمن فضول باتیں یعنی جن کا کوئی فائدہ نہیں ان سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت کے تحت اللہ پاک فرماتا ہے کہ مؤمنوں کا وصف یہ بھی ہے کہ وہ لوگ اللہ کی راہ میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ یعنی زکوٰۃ والوں کا وصف اللہ قراٰن میں بیان فرما رہا ہے۔ مگر افسوس! آج کا مسلمان اس وصف سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مال کی محبت نے اسے اندھا کر دیا ہے لہٰذا اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو زکوٰۃ ادا کرنے کی سعادت بخشے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔

افسوس آج ہم نہ امانت میں ایمانداری کرتے ہیں اور نہ ہی وعدوں کو پورا کرتے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 9)جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9 ، 3 / 321، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9، ص752، ملتقطاً)

ذرا سوچیے! اور اپنا جائزہ کریں کہ کیا اللہ نے مؤمنوں کے جو اوصاف قراٰنِ کریم میں ارشاد فرمائے ہیں ہمارے اندر وہ اوصاف ہیں کیا؟ کیا ہمارے اندر خوف خدا ہے کیا؟ کیا ہم نمازیں پڑھتے ہیں کیا؟ کیا ہم لوگ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ؟ وغیرہ ۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو قراٰنِ کریم کے مطابق زندگی ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں مؤمنوں میں شامل فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم