محمد حسان عطاری(درجہ ثالثہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)
دنیا میں تقریباً اٹھارہ ہزار مخلوقات ہیں ۔جس میں جن و انس
بھی شامل ہیں اللہ پاک نے سب کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور اللہ پاک
نے زمین میں اپنا خلیفہ آدم علیہ السّلام کو بنایا اور آپ سے ہی نسل انسان کا آغاز
کیا اور اسی طرح سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کو نبوت سے نوازا اور آپ کے بعد کم و
بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور اللہ کا پیغام لوگوں تک عام کیا اسی طرح
سب سے آخر میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث
فرمایا ۔ پس جو شخص اللہ پاک کو خالق اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
آخری نبی تسلیم کرتا اور اسلام کے بنیادی عقائد کو تسلیم کرتا ہے وہ مؤمن ہے۔ آپ
کو مؤمن کا علم ہو گیا ہے مگر ہمارا موضوع ہے مؤمن کی صفات چلیے! ہم مؤمن کے
اوصاف قراٰنِ کریم سے معلوم کرتے ہیں ۔
قراٰن سے مؤمنوں کے چند اوصاف ملاحظہ کیجئے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ
اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ
زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد
کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو
ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے
ہیں۔(پ9،الانفال:2)
مفسرین نے اس آیت کے تحت مؤمنوں کے تین اوصاف بیان فرمائے
ہیں ۔ پہلا وصف یہ ہے کہ جب اللہ کو یاد کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں
۔اللہ پاک کا خوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔
(2)اللہ پاک کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف عام
مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین،
اولیائے کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ پاک سے جتنا زیادہ
قرب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 2
، 5 / 450 ملتقطاً)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا خوف خدا : حضرت حسن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہُ عنہ نے ایک مرتبہ درخت پر پرندے کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے
پرندے! تیرے لئے کتنی بھلائی ہے کہ تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے کاش! میں
بھی ایک پھل ہوتا جسے پرندے کھا لیتے۔ (کتاب الزہد لابن مبارک، باب تعظیم ذکر اللہ
، ص81، حدیث: 240)
دوسرا وصف: اللہ پاک کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان
میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی
کیفیت میں زیادتی ہے۔
تیسرا وصف : وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد
کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ (خازن،
الانفال، تحت الآیۃ: 2 ، 2/ 176)
اسی طرح قراٰن میں اللہ پاک مؤمنوں کے مزید اوصاف بیان
فرماتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے
والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ،
یعنی جب وہ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور
ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) اس آیت کے تحت اللہ مؤمنوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا
ہے کہ مؤمن فضول باتیں یعنی جن کا کوئی فائدہ نہیں ان سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ
فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت کے تحت اللہ پاک فرماتا ہے کہ مؤمنوں کا وصف یہ بھی
ہے کہ وہ لوگ اللہ کی راہ میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ یعنی زکوٰۃ والوں کا وصف اللہ قراٰن
میں بیان فرما رہا ہے۔ مگر افسوس! آج کا مسلمان اس وصف سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مال
کی محبت نے اسے اندھا کر دیا ہے لہٰذا اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو زکوٰۃ ادا کرنے
کی سعادت بخشے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے
والے ہیں ۔(پ18،
المؤمنون:8) اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو
وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت
نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔
افسوس آج ہم نہ امانت میں ایمانداری کرتے ہیں اور نہ ہی
وعدوں کو پورا کرتے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ
هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے
ہیں۔ (پ18،
المؤمنون: 9)جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی کامیابی حاصل کرنے
والے وہ مؤمن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں ،
ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و
نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9 ، 3 / 321،
مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9، ص752، ملتقطاً)
ذرا سوچیے! اور اپنا جائزہ کریں کہ کیا اللہ نے مؤمنوں کے
جو اوصاف قراٰنِ کریم میں ارشاد فرمائے ہیں ہمارے اندر وہ اوصاف ہیں کیا؟ کیا
ہمارے اندر خوف خدا ہے کیا؟ کیا ہم نمازیں پڑھتے ہیں کیا؟ کیا ہم لوگ زکوٰۃ ادا
کرتے ہیں ؟ وغیرہ ۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو قراٰنِ کریم کے مطابق زندگی
ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں مؤمنوں میں شامل فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم